اسرائیل کے لیے امریکی سفیر کی نئی شرارت

خطے کا امن خراب کرنے میں اسرائیل اور امریکا کا کردار سب سے نمایاں ہے مگر الزام دوسروں پر عائد کردیا جاتا ہے


Editorial June 10, 2019
خطے کا امن خراب کرنے میں اسرائیل اور امریکا کا کردار سب سے نمایاں ہے مگر الزام دوسروں پر عائد کردیا جاتا ہے

LOS ANGELES: امریکا کے اسرائیل میں سفیر ڈیوڈ فرائیڈ مین نے کہا ہے کہ اسرائیل کو دریا اردن کے مقبوضہ مغربی کنارے کا پورا علاقہ نہیں تو کم ازکم کچھ مخصوص علاقے کو اپنے ملک میں شامل کرنے کا حق حاصل ہے۔

امریکی سفیر کے اس متنازعہ بیان پر فلسطینی اتھارٹی نے بھرپور احتجاج کیا ہے۔ اس متنازعہ بیان کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے علاقے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل امریکا پے در پے اسرائیل کی حمایت میں ایسے اقدامات کر چکا ہے جنہوں نے فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق سے مزید دور کر دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے امریکا کی طرف سے اسرائیل کی حمایت میں بہت نمایاں اضافہ ہو گیا ہے۔

ٹرمپ نے شام کے مقبوضہ علاقے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کو قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش کی اور اس حوالے سے یہ مؤقف پیش کیا کہ اسرائیل کی سیکیورٹی کے حوالے سے ایسا کرنا ناگزیر تھا کیونکہ گولان کی پہاڑیاں سطح مرتفع کا ایسا علاقہ ہے جو اسرائیل کی نسبت قدرے بلندی پر واقع ہے، لہٰذا وہاں سے اسرائیل کے خلاف راکٹ حملے زیادہ آسانی سے کیے جا سکتے ہیں جنھیں روکنے کے لیے ان پہاڑیوں کو اسرائیل کے قبضے میں دینا ضروری ہے۔

اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا تھا کیونکہ بیت المقدس کئی صدیوں سے تینوں مذاہب کے لیے یکساں طور پر تقدس کا درجہ رکھتا ہے، لہٰذا اسے صرف اسرائیل کے قبضے میں دینے سے عیسائیت اور اسلام دونوں بیت المقدس سے محروم ہوجائیں گے۔

اسرائیل کے لیے امریکی سفیر ڈیوڈ فرائیڈمین نے دریائے اردن کے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان کر کے خطے میں امن کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی کوشش کی ہے کیونکہ اسرائیل اور فلسطین میں قیام امن کی کوششیں پہلے ہی نزع کے عالم میں ہیں جنھیں مصنوعی تنفس سے زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اسرائیل کے لیے امریکی سفیر ڈیوڈ فرائیڈمین نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ مغربی کنارے کے اسرائیل کو دیے جانے کو قانونی حیثیت دے کر اسرائیل کی بہت سی مشکلات کو آسان کیا جا سکتا ہے۔ امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ مغربی کنارے کا تمام علاقہ اسرائیل کو دے دیا جائے بلکہ اس علاقے کے کچھ تزویراتی طور پر اہم حصے اسرائیل کی تحویل میں دے دیے جانے چاہئیں تاکہ امن قائم ہوسکے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ خطے کا امن خراب کرنے میں اسرائیل اور امریکا کا کردار سب سے نمایاں ہے مگر الزام دوسروں پر عائد کر دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکا ایک منصوبے کے تحت اسرائیل کے پھیلاؤ کے کام کررہا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ عمل ماضی کے مقابلے میں خاصا تیز ہوگیا ہے۔امریکی سفیر کے اس بیان سے یہ اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں اسرائیل غرب اردن کے علاقے کو بھی ضم کر نے کا اعلان کردے گا۔غرب اردن کا علاقہ اسرائیل نے اردن سے چھینا تھا اور یہ آج تک متنازعہ چلا آرہا ہے۔

اگر اسرائیل اس متنازعہ علاقے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا تو اس کے مشرق وسطیٰ پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست کی جدوجہد مزید طویل ہوجائے گی۔ مسلم ممالک کو امریکا اور اسرائیل کے ان عزائم کو ناکام بنانے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں