دوعیدیں کیوں
دوعیدیں ہرگزہرگز نہیں ہونی چاہئیں!
نیل آرم اسٹرانگ اور بزایلڈین، پچھلی صدی میں چاند کو مسخر کرچکے ہیں، 1969ء میں اپالو 11 نام کے خلائی جہاز میں بیٹھ کر یہ دونوں حضرات زمین سے چاند پر گئے تھے اور انھوں نے 31 منٹ تک چاند کی سطح پر چہل قدمی کی۔
نیل آرم اسٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم رکھا تو ایک فقرہ کہا جو پوری دنیا نے سنا۔ جملہ تھا،''آج انسان کا چھوٹا سا قدم، انسانیت کی فلاح کے لیے انقلاب ثابت ہوگا''۔ یہ بات درست نکلی۔ انسان نے پہلی مرتبہ زمین کے مدار سے باہر نکل کر کسی اور سیارے پر قدم رکھا۔ جولائی 1969ء میں ہونے والے واقعہ نے سائنس دانوں کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ چاند سے بھی آگے نکلیں۔ کائنات کے ان رازوں پرتحقیق کریں جوانسانی ذہن کے لیے ہمیشہ سوال رہے ہیں۔
یہی ہوا، ناسا جو امریکا کا خلائی تحقیقی ادارہ ہے اس نے مریخ اوراس سے آگے بھی پہنچنے کا ارادہ کر لیا۔ناساکے سائنسدان چاند سے بہت آگے ، خلاکے ان مقامات تک جانے لگے،جن کاتصورشاید پہلے نہیں تھا۔ ناساکے سائنسدانوں نے چاند کی گردش کو ہرزاویہ سے پرکھنے کے بعداگلی کئی صدیوں کاقمری کیلنڈر بھی بنادیا۔یہ سوفیصد درست ہے اورآج تک اس میں کسی قسم کاکوئی تغیر نہیں ہوا۔ سائنس نے سیاروں کے بارے میں معلومات سب کے لیے کھول کررکھ دی اورہرطرح کاابہام ختم کر دیا۔
مگرانتہائی بدقسمتی سے یہ ابہام ہمارے جیسے ترقی پذیرملک میں مکمل طورپرختم نہ ہوپایا۔آپ حیران ہوں گے کہ1958میں پشاورنے عیدالفطر، ملک کے دوسرے حصوں سے ایک دن پہلے منالی۔1960کی دہائی میں اہل کراچی نے حکومتی فیصلہ ماننے سے انکارکرتے ہوئے عیدالفطر، پاکستان کے دیگرحصوں سے ایک دن پہلے منائی۔ 1961میں ملک میں مختلف مقامات پرتین عیدیں منائی گئیں۔
ویسے اس میں سیاسی محرکات بھی تھے۔بہرحال ابتداء سے لے کراب تک چانددیکھنے کے معاملے میں ہم ہمیشہ کی طرح تقسیم رہے۔خلفشارکوختم کرنے کے لیے،1974 میں پارلیمنٹ نے ایک قانونی ادارہ بنایا جسے ''رویتِ ہلال کمیٹی''کا نام دیا گیا۔ اس کا اہم ترین کام یہی تھاکہ رمضان کے مہینے کے شروع ہونے اورختم ہونے پرایک غیرجانبدارتاریخ کااعلان کرے جس کی بدولت پاکستان کے مسلمان رمضان کے روزے رکھنے شروع کریں اورپھرکمیٹی ہی عیدالفطرکی حتمی تاریخ کا اعلان کرے۔
محترم تھانوی صاحب ، کورویتِ ہلال کمیٹی کاابتدائی چیئرمین مقررکیاگیا۔ اب محترم مفتی منیب الرحمن صاحب،اس کمیٹی کے چیئرمین مقررہوئے۔حکومتی سطح پردراصل کوشش کی گئی کہ کسی طرح بھی کم ازکم رمضان کے روزوں اورعیدالفطر پر موجود اختلاف کوختم کیا جائے۔ یہ قانونی کارروائی بالکل راست تھی مگراس پرعمل نہیں ہو سکا۔ پشاورکی قاسم مسجدکے امام محترم شہاب الدین پوپلزئی نے فکری طورپرمرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا
جس مسئلہ کوحل کرنے کے لیے ملک کی قومی اسمبلی نے قانونی طور پر ایک کمیٹی بنائی تھی اس کی موجودگی میں مسئلہ جوں کاتوں رہا۔بلکہ مزیدپیچیدہ ہوگیا۔ اب ہوتایہ ہے کہ پوپلزئی صاحب،شہادتوں کی بنیاد پر عید کااعلان کرتے ہیںاور رویتِ ہلال کمیٹی اپنے تئیں شہادتوں کی بنیادپر عید کا اعلان کرتی ہے۔
اکثر اوقات بلکہ بیشتراوقات ان اعلانات میں ایک دن کافرق ضرور ہوتاہے۔ حال اب یہ ہوچکاہے کہ کے پی کا وزیراعلیٰ عید منارہاہے اور گورنر روزے سے تھا۔کے پی کے چند ضلعوں میں عیدمنائی جارہی تھی اوربقیہ حصے روزے کی حالت میں تھے۔ایک صوبے کے کچھ علاقوں کے سوا بقیہ پوراملک روزہ رکھ رہاتھا۔ان کی عیداگلے دن ہوئی۔ چنددن پہلے یہ غیرسنجیدہ واقعہ سب نے دیکھا۔ہم سب ان دواعلانات سے متاثرہوئے۔
مشکل اَمریہ بھی ہے کہ مذہب کے جیدترین اماموں میں بھی چاندکے دیکھنے یانہ دیکھنے پرتفریق نظر آتی ہے۔ امام شافعیؒ کے مطابق،الجبراء اورفلکیاتی حساب کے مطابق روزے رکھنے چاہیے اورعیدمنانی چاہیے۔اس کے بالکل برعکس امام حنبل کے مطابق چاندکودیکھناضروری ہے۔ مگر وہ یہ ضرورفرماتے ہیں کہ عالم اسلام میں کسی بھی مقام سے چاندکی شہادت آجائے توروزہ اورعیدکااعلان کیا جا سکتا ہے۔
امام تیمیہ کا فرمان بھی یہی ہے کہ چاندکوآنکھ سے دیکھناضروری ہے۔مگریاقوت بن عبداللہ اَل حماری نے بارھویں صدی میں یہ تمام اختیارمکمل طورپرحکومت کودے دیا تھا۔یعنی حکومت جواعلان کرے،رعایا اس پرعمل کرے گی۔1920 میں جمامعہ الازہر کے مفتی اعظم نے فتویٰ دیاکہ اگرسائنسی تحقیق کے مطابق چاندکا ظہور ہوچکاہے پھراسے نظرسے دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اگرآپ تحقیق کریں تومعلوم ہوگاکہ جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی۔ بالکل اسی طرح ہمارے مذہبی حلقے کے ایک طبقے نے سائنسی طریقوں اورحساب کی اہمیت پر زوردیناشروع کردیا۔یہ ایک مثبت بات ہے واضح سچ ہے کہ آج سے ایک ہزاریاآٹھ سوبرس پہلے،سائنس کی تحقیقی طاقت کاادراک کسی کوبھی نہیں تھا۔
یہ درست ہے کہ علمِ فلکیات میں مسلم سائنسدانوں نے کافی ترقی کی۔ مگرآج کی سائنس اورتجرباتی فضاان سے بہت آگے ہے۔وہ اپنے وقت یعنی ماضی کے حساب سے بہت جدید تھے اورآج انتہائی طاقتوردوربینوں،سیٹلائٹس اوردیگر سائنسی آلات کی وجہ سے جدیددنیااپنے وقت کے حساب سے حددرجہ آگے ہیں۔یہ ایک فطری ارتقاء ہے جس پرتنقیدنہیں کی جانی چاہیے۔
دین کاادنیٰ ساطالبلعم ہوں۔مذہب میری گھٹی میں ہے۔دل سے علماء کرام،دینی اکابرین اورمفتی صاحبان کی عزت کرتا ہوں۔ادب سے عرض کروںگاکہ آج کے جدیددورمیں،یہ مسئلہ سائنس پر چھوڑدیناچاہیے۔اس معاملے میں سائنس اورٹیکنالوجی کے مرکزی وزیرنے جوجہت اختیارکی ہے،اس کی قدرکرنی چاہیے۔ چاند دیکھنے کے لیے ایک جدید ''ایپ''کابنانابہرحال قابلِ تحسین کام ہے۔
فوادچوہدری نے اچھاکام کیا۔مگرانھیں علماء دین کو بھی ساتھ لے کرچلناچاہیے تھا۔ انھیں قابل احترام دینی اکابرین کے ساتھ طویل نشستیں کرنی چاہییں تھیں۔ان کے تحفظات کوحتمی طورپردورکرناچاہیے تھا۔ میری ذاتی رائے میں انھوں نے علماء دین کے ساتھ رابطہ اس سطح کانھیں کیا،جس کی ضرورت تھی۔پاکستان میں پہلی بارکسی مرکزی وزیرنے جرات مندانہ طریقے سے چاندکے متعلق جدیدسائنسی نقطہِ نظرپیش کیا۔یہ ایک احسن قدم ہے۔
اب رویتِ ہلال کمیٹی کی طرف دیکھنا چاہیے۔ کیا ''سائنسی ایپ''آنے کے بعد،اس کمیٹی کوایسے ہی رہنے دیاجائے یاجوہری تبدیلی کرکے ایک ایسافورم بنایاجائے جس سے دوعیدوں کی جگ ہنسائی ختم ہوسکے۔اس معاملے میں،لاہورکے ایک جیدعالم سے تفصیلاًبات ہوئی۔ان کی دینی اورعلمی خدمات کاصرف ملک ہی نہیں،عالم اسلام معترف ہے۔انھوں نے ڈنکے کی چوٹ پرکہاکہ اب چاندنظرآنے یانہ نظرآنے کے مسئلہ کوہرگزہرگزدینی رنگ نہیں دیناچاہیے۔
میں اس بات سے مکمل متفق ہوں۔یہ بھی فرمانے لگے کہ اگر علماء کرام میں کوئی مسئلہ ہے تواسے بھی دیگرعلماء دین کے ذریعے یگانگت اوریکجہتی میں بدلنا چاہیے۔انھیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنی چاہیے۔ان کاایک سوال حددرجہ اہم تھا۔فرمانے لگے کہ اگرمسئلہ کے پی کاہے اوروہاں چاندجلدیابدیرنظرآتاہے تومرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کواپنامرکزی اجلاس پشاورمیں رکھناچاہیے تاکہ جوشہادتیں جناب پوپلزئی کودی جارہی ہیں،وہ مفتی منیب صاحب کوبھی میسرہوں۔
لاہورکے عالم دین نے ایک اچھی تجویزدی کہ اگررویتِ ہلال کمیٹی کے متبادل،فیڈرل شریعت کورٹ سے منسلک ایک چھوٹی سی تنظیم بنادی جائے،جس میں ہرفقہ کے دودوعلماء ہوں، فلکیاتی ماہرین بھی ہوں۔اسپارکو اور دیگر اداروں کے مستند لوگ بھی موجودہوں تویہ اختلاف ختم کرنے کے لیے ایک بہترین فورم بن سکتاہے۔
ویسے ایک چیزسے بہت حوصلہ ہواکہ ان کے بقول جدیدعلوم اورسائنس کاعمل دخل،اس معاملے میں لازمی ہوناچاہیے۔علماء دین کے اندریہ مثبت سوچ حددرجہ محترم ہے۔انھوں نے ایک بات ضرورفرمائی کہ فوادچوہدری نے بہت احسن کام،تھوڑا ساجذباتی طریقے سے کیا۔وہ یہی کام انتہائی بہترطریقے سے بھی کرسکتے تھے۔ویسے ایک بات ایسی تھی جس پرمیں نے کبھی غورنہیں کیاتھا۔وہ یہ کہ ہمارے مرکزی وزیربرائے مذہبی امور،اس پورے معاملے سے اتنے لاتعلق کیوں رہے۔انھیں تو اختلاف ختم کرنے کے لیے انتہائی فعال رول اداکرناچاہیے تھا۔
مجھے کسی ملک سے کوئی غرض نہیں۔ میں صرف اپنے ملک کی بات کررہاہوں۔یہاں پردوعیدیں،جگ ہنسائی کاباعث بنتی ہیں۔ہماراہرجگہ مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ کہا جاتاہے کہ اگرایک قوم،عیدکے دن پربھی اکٹھی نہیں، تو اس میں کیا یگانگت اورنظم وضبط ہوگا۔
یہ طعنہ بالکل درست ہے۔سائنس کوموقع محل کے حساب سے استعمال کرنا ہرگز ہرگزغلط نہیں ہے۔چاند دیکھنے کے لیے ''ایپ'' کا استعمال بھی درست فیصلہ ہے۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس سائنسی قدم کوعلماء کرام کے سامنے دلیل سے رکھاجائے تاکہ ان کے ذہنوں میں اگر کوئی شک یاابہام ہے تو دور ہوجائے۔ ویسے علماء کی اکثریت چاندکودیکھنے کے جدیدطریقوں سے متفق ہے۔اس معاملے پرسیاست کسی صورت میں نہیں ہونی چاہیے!دوعیدیں ہرگزہرگز نہیں ہونی چاہیے!
نیل آرم اسٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم رکھا تو ایک فقرہ کہا جو پوری دنیا نے سنا۔ جملہ تھا،''آج انسان کا چھوٹا سا قدم، انسانیت کی فلاح کے لیے انقلاب ثابت ہوگا''۔ یہ بات درست نکلی۔ انسان نے پہلی مرتبہ زمین کے مدار سے باہر نکل کر کسی اور سیارے پر قدم رکھا۔ جولائی 1969ء میں ہونے والے واقعہ نے سائنس دانوں کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ چاند سے بھی آگے نکلیں۔ کائنات کے ان رازوں پرتحقیق کریں جوانسانی ذہن کے لیے ہمیشہ سوال رہے ہیں۔
یہی ہوا، ناسا جو امریکا کا خلائی تحقیقی ادارہ ہے اس نے مریخ اوراس سے آگے بھی پہنچنے کا ارادہ کر لیا۔ناساکے سائنسدان چاند سے بہت آگے ، خلاکے ان مقامات تک جانے لگے،جن کاتصورشاید پہلے نہیں تھا۔ ناساکے سائنسدانوں نے چاند کی گردش کو ہرزاویہ سے پرکھنے کے بعداگلی کئی صدیوں کاقمری کیلنڈر بھی بنادیا۔یہ سوفیصد درست ہے اورآج تک اس میں کسی قسم کاکوئی تغیر نہیں ہوا۔ سائنس نے سیاروں کے بارے میں معلومات سب کے لیے کھول کررکھ دی اورہرطرح کاابہام ختم کر دیا۔
مگرانتہائی بدقسمتی سے یہ ابہام ہمارے جیسے ترقی پذیرملک میں مکمل طورپرختم نہ ہوپایا۔آپ حیران ہوں گے کہ1958میں پشاورنے عیدالفطر، ملک کے دوسرے حصوں سے ایک دن پہلے منالی۔1960کی دہائی میں اہل کراچی نے حکومتی فیصلہ ماننے سے انکارکرتے ہوئے عیدالفطر، پاکستان کے دیگرحصوں سے ایک دن پہلے منائی۔ 1961میں ملک میں مختلف مقامات پرتین عیدیں منائی گئیں۔
ویسے اس میں سیاسی محرکات بھی تھے۔بہرحال ابتداء سے لے کراب تک چانددیکھنے کے معاملے میں ہم ہمیشہ کی طرح تقسیم رہے۔خلفشارکوختم کرنے کے لیے،1974 میں پارلیمنٹ نے ایک قانونی ادارہ بنایا جسے ''رویتِ ہلال کمیٹی''کا نام دیا گیا۔ اس کا اہم ترین کام یہی تھاکہ رمضان کے مہینے کے شروع ہونے اورختم ہونے پرایک غیرجانبدارتاریخ کااعلان کرے جس کی بدولت پاکستان کے مسلمان رمضان کے روزے رکھنے شروع کریں اورپھرکمیٹی ہی عیدالفطرکی حتمی تاریخ کا اعلان کرے۔
محترم تھانوی صاحب ، کورویتِ ہلال کمیٹی کاابتدائی چیئرمین مقررکیاگیا۔ اب محترم مفتی منیب الرحمن صاحب،اس کمیٹی کے چیئرمین مقررہوئے۔حکومتی سطح پردراصل کوشش کی گئی کہ کسی طرح بھی کم ازکم رمضان کے روزوں اورعیدالفطر پر موجود اختلاف کوختم کیا جائے۔ یہ قانونی کارروائی بالکل راست تھی مگراس پرعمل نہیں ہو سکا۔ پشاورکی قاسم مسجدکے امام محترم شہاب الدین پوپلزئی نے فکری طورپرمرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا
جس مسئلہ کوحل کرنے کے لیے ملک کی قومی اسمبلی نے قانونی طور پر ایک کمیٹی بنائی تھی اس کی موجودگی میں مسئلہ جوں کاتوں رہا۔بلکہ مزیدپیچیدہ ہوگیا۔ اب ہوتایہ ہے کہ پوپلزئی صاحب،شہادتوں کی بنیاد پر عید کااعلان کرتے ہیںاور رویتِ ہلال کمیٹی اپنے تئیں شہادتوں کی بنیادپر عید کا اعلان کرتی ہے۔
اکثر اوقات بلکہ بیشتراوقات ان اعلانات میں ایک دن کافرق ضرور ہوتاہے۔ حال اب یہ ہوچکاہے کہ کے پی کا وزیراعلیٰ عید منارہاہے اور گورنر روزے سے تھا۔کے پی کے چند ضلعوں میں عیدمنائی جارہی تھی اوربقیہ حصے روزے کی حالت میں تھے۔ایک صوبے کے کچھ علاقوں کے سوا بقیہ پوراملک روزہ رکھ رہاتھا۔ان کی عیداگلے دن ہوئی۔ چنددن پہلے یہ غیرسنجیدہ واقعہ سب نے دیکھا۔ہم سب ان دواعلانات سے متاثرہوئے۔
مشکل اَمریہ بھی ہے کہ مذہب کے جیدترین اماموں میں بھی چاندکے دیکھنے یانہ دیکھنے پرتفریق نظر آتی ہے۔ امام شافعیؒ کے مطابق،الجبراء اورفلکیاتی حساب کے مطابق روزے رکھنے چاہیے اورعیدمنانی چاہیے۔اس کے بالکل برعکس امام حنبل کے مطابق چاندکودیکھناضروری ہے۔ مگر وہ یہ ضرورفرماتے ہیں کہ عالم اسلام میں کسی بھی مقام سے چاندکی شہادت آجائے توروزہ اورعیدکااعلان کیا جا سکتا ہے۔
امام تیمیہ کا فرمان بھی یہی ہے کہ چاندکوآنکھ سے دیکھناضروری ہے۔مگریاقوت بن عبداللہ اَل حماری نے بارھویں صدی میں یہ تمام اختیارمکمل طورپرحکومت کودے دیا تھا۔یعنی حکومت جواعلان کرے،رعایا اس پرعمل کرے گی۔1920 میں جمامعہ الازہر کے مفتی اعظم نے فتویٰ دیاکہ اگرسائنسی تحقیق کے مطابق چاندکا ظہور ہوچکاہے پھراسے نظرسے دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اگرآپ تحقیق کریں تومعلوم ہوگاکہ جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی۔ بالکل اسی طرح ہمارے مذہبی حلقے کے ایک طبقے نے سائنسی طریقوں اورحساب کی اہمیت پر زوردیناشروع کردیا۔یہ ایک مثبت بات ہے واضح سچ ہے کہ آج سے ایک ہزاریاآٹھ سوبرس پہلے،سائنس کی تحقیقی طاقت کاادراک کسی کوبھی نہیں تھا۔
یہ درست ہے کہ علمِ فلکیات میں مسلم سائنسدانوں نے کافی ترقی کی۔ مگرآج کی سائنس اورتجرباتی فضاان سے بہت آگے ہے۔وہ اپنے وقت یعنی ماضی کے حساب سے بہت جدید تھے اورآج انتہائی طاقتوردوربینوں،سیٹلائٹس اوردیگر سائنسی آلات کی وجہ سے جدیددنیااپنے وقت کے حساب سے حددرجہ آگے ہیں۔یہ ایک فطری ارتقاء ہے جس پرتنقیدنہیں کی جانی چاہیے۔
دین کاادنیٰ ساطالبلعم ہوں۔مذہب میری گھٹی میں ہے۔دل سے علماء کرام،دینی اکابرین اورمفتی صاحبان کی عزت کرتا ہوں۔ادب سے عرض کروںگاکہ آج کے جدیددورمیں،یہ مسئلہ سائنس پر چھوڑدیناچاہیے۔اس معاملے میں سائنس اورٹیکنالوجی کے مرکزی وزیرنے جوجہت اختیارکی ہے،اس کی قدرکرنی چاہیے۔ چاند دیکھنے کے لیے ایک جدید ''ایپ''کابنانابہرحال قابلِ تحسین کام ہے۔
فوادچوہدری نے اچھاکام کیا۔مگرانھیں علماء دین کو بھی ساتھ لے کرچلناچاہیے تھا۔ انھیں قابل احترام دینی اکابرین کے ساتھ طویل نشستیں کرنی چاہییں تھیں۔ان کے تحفظات کوحتمی طورپردورکرناچاہیے تھا۔ میری ذاتی رائے میں انھوں نے علماء دین کے ساتھ رابطہ اس سطح کانھیں کیا،جس کی ضرورت تھی۔پاکستان میں پہلی بارکسی مرکزی وزیرنے جرات مندانہ طریقے سے چاندکے متعلق جدیدسائنسی نقطہِ نظرپیش کیا۔یہ ایک احسن قدم ہے۔
اب رویتِ ہلال کمیٹی کی طرف دیکھنا چاہیے۔ کیا ''سائنسی ایپ''آنے کے بعد،اس کمیٹی کوایسے ہی رہنے دیاجائے یاجوہری تبدیلی کرکے ایک ایسافورم بنایاجائے جس سے دوعیدوں کی جگ ہنسائی ختم ہوسکے۔اس معاملے میں،لاہورکے ایک جیدعالم سے تفصیلاًبات ہوئی۔ان کی دینی اورعلمی خدمات کاصرف ملک ہی نہیں،عالم اسلام معترف ہے۔انھوں نے ڈنکے کی چوٹ پرکہاکہ اب چاندنظرآنے یانہ نظرآنے کے مسئلہ کوہرگزہرگزدینی رنگ نہیں دیناچاہیے۔
میں اس بات سے مکمل متفق ہوں۔یہ بھی فرمانے لگے کہ اگر علماء کرام میں کوئی مسئلہ ہے تواسے بھی دیگرعلماء دین کے ذریعے یگانگت اوریکجہتی میں بدلنا چاہیے۔انھیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنی چاہیے۔ان کاایک سوال حددرجہ اہم تھا۔فرمانے لگے کہ اگرمسئلہ کے پی کاہے اوروہاں چاندجلدیابدیرنظرآتاہے تومرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کواپنامرکزی اجلاس پشاورمیں رکھناچاہیے تاکہ جوشہادتیں جناب پوپلزئی کودی جارہی ہیں،وہ مفتی منیب صاحب کوبھی میسرہوں۔
لاہورکے عالم دین نے ایک اچھی تجویزدی کہ اگررویتِ ہلال کمیٹی کے متبادل،فیڈرل شریعت کورٹ سے منسلک ایک چھوٹی سی تنظیم بنادی جائے،جس میں ہرفقہ کے دودوعلماء ہوں، فلکیاتی ماہرین بھی ہوں۔اسپارکو اور دیگر اداروں کے مستند لوگ بھی موجودہوں تویہ اختلاف ختم کرنے کے لیے ایک بہترین فورم بن سکتاہے۔
ویسے ایک چیزسے بہت حوصلہ ہواکہ ان کے بقول جدیدعلوم اورسائنس کاعمل دخل،اس معاملے میں لازمی ہوناچاہیے۔علماء دین کے اندریہ مثبت سوچ حددرجہ محترم ہے۔انھوں نے ایک بات ضرورفرمائی کہ فوادچوہدری نے بہت احسن کام،تھوڑا ساجذباتی طریقے سے کیا۔وہ یہی کام انتہائی بہترطریقے سے بھی کرسکتے تھے۔ویسے ایک بات ایسی تھی جس پرمیں نے کبھی غورنہیں کیاتھا۔وہ یہ کہ ہمارے مرکزی وزیربرائے مذہبی امور،اس پورے معاملے سے اتنے لاتعلق کیوں رہے۔انھیں تو اختلاف ختم کرنے کے لیے انتہائی فعال رول اداکرناچاہیے تھا۔
مجھے کسی ملک سے کوئی غرض نہیں۔ میں صرف اپنے ملک کی بات کررہاہوں۔یہاں پردوعیدیں،جگ ہنسائی کاباعث بنتی ہیں۔ہماراہرجگہ مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ کہا جاتاہے کہ اگرایک قوم،عیدکے دن پربھی اکٹھی نہیں، تو اس میں کیا یگانگت اورنظم وضبط ہوگا۔
یہ طعنہ بالکل درست ہے۔سائنس کوموقع محل کے حساب سے استعمال کرنا ہرگز ہرگزغلط نہیں ہے۔چاند دیکھنے کے لیے ''ایپ'' کا استعمال بھی درست فیصلہ ہے۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس سائنسی قدم کوعلماء کرام کے سامنے دلیل سے رکھاجائے تاکہ ان کے ذہنوں میں اگر کوئی شک یاابہام ہے تو دور ہوجائے۔ ویسے علماء کی اکثریت چاندکودیکھنے کے جدیدطریقوں سے متفق ہے۔اس معاملے پرسیاست کسی صورت میں نہیں ہونی چاہیے!دوعیدیں ہرگزہرگز نہیں ہونی چاہیے!