نئے صوبوں کی تشکیل کی بحث

وسائل کی منصفانہ تقسیم اور عام آدمی کو بنیاد بنا کر ہم حکمرانی کے نظام کو زیادہ شفاف بناسکتے ہیں


سلمان عابد June 10, 2019
[email protected]

پاکستان میں اس وقت علمی و فکری محاذ پر نئے صوبوں کے قیام کی بحث بڑی شدت سے کی جاتی ہے۔ فریقین مختلف دلائل دے کر اپنا اپنا سیاسی اور قانونی موقف پیش کرتے رہتے ہیں۔

نئے صوبوں کا قیام ایک سیاسی، انتظامی اور قانونی مسئلہ ہے اور جہاں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہو وہاں نئے صوبوں کی بحث اور اس کی تشکیل میں کوئی ہرج نہیں لیکن اس میں سیاست کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے اور اس حساس مسئلہ پر بھی ہم سیاست کا شکار نظر آتے ہیں۔

اس وقت جنوبی پنجاب صوبہ کی بحث موجود ہے۔ حکومت کے بقول وہ صوبہ بنانے میں سنجیدہ ہے ۔ پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبہ کی حمایت میں قراداد بھی پیش ہوگئی ہے ۔ اسی تناظر میں ایک بحث بہاولپور صوبہ کی بھی ہے ۔ حالیہ دنوں میں ایم کیو ایم بھی سندھ میں ایک نئے صوبہ کا مطالبہ کررہی ہے ۔لیکن تحریک انصاف نے فی الحال سندھ میں کسی نئے صوبہ کی تشکیل کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔

اگر جنوبی پنجاب نیا صوبہ بنتا ہے تو اس کے بعد نئے صوبوں کی بحث دیگر صوبوں میں بھی سامنے آسکتی ہے البتہ یہاں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو مبارکباد دینی ہوگی کہ انھوں نے ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں کم ازکم جنوبی پنجاب کے معاملات میں زیادہ سنجیدگی دکھائی ہے ۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے بقول جولائی میں ایک قدم آگے بڑھ کر جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ قائم کردیا جائے گا ۔جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ بننے سے ترقی میں اضافہ سمیت محرومی کی سیاست میں کمی ہوگی ۔ابتدائی طور پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے ماتحت مختلف محکمے جنوبی پنجاب میں کام کریں گے اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے پاس چیف سیکریٹری کے اختیارات ہوںگے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنی ترجیحات میں جنوبی پنجاب میں ترقی کو بنیاد بنایا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ریکارڈ ماضی کے حکمران طبقہ سے بہتر ہے اور خود مقامی نظام میں ڈی جی خا ن کو میٹرو پولیٹن شہر کا درجہ دینا مقامی ترقی کو یقینی بنائے گا ۔

پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کا معاملہ کوئی آسان کا م نہیں ۔ قانون بہت مشکل ہے او راس پر عملدرآمد کیے بغیر نیا صوبہ نہیں بن سکتا ۔ نئے صوبوں کی بحث میں ایک اہم اور بنیادی نکتہ یہ اٹھایا جاتا ہے کہ دنیا اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی، مرکزیت کے خاتمہ کر کے اپنی حکمرانی کے نظام کو منصفانہ اور شفاف بناتی ہے ۔کیونکہ پاکستان میںدو مسائل سنگین ہیں ۔ اول محرومی اور پس ماندگی اور دوئم پنجاب کا دیگر صوبوں کے مقابلے میں طاقت کا مسئلہ نئے صوبوں کی بحث کو آگے بڑھاتا ہے۔

پاکستان میں تین صوبوں بلوچستان ،سندھ اور خیبرپختونخواہ میں یہ احساس موجود ہے کہ پنجاب کی برتری نے ان کو پیچھے چھوڑدیاہے۔جنوبی پنجاب صوبہ پر پاکستان کی بیشتر جماعتوں سمیت بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی ,مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں اتفاق ہے ،البتہ طریقہ کار پر اختلاف موجود ہے کیونکہ پاکستان میں نئے صوبو ں کی تشکیل کا آئینی طریقہ کا ر مشکل ہے اس لیے اس پر زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہے ۔

لیکن پہلے ہمیں نئے صوبوں کی تشکیل میں محرومی اور پس ماندگی کی سیاست کو سمجھنا ہوگا ۔ دو اہم کام پاکستان میں دو دہائیوں میں ہوئے۔ اول جنرل مشرف کے دور میں مقامی حکومت کا خود مختار تصور اور دوئم 18ویں ترمیم کے تحت وفاق نے صوبوں کو زیادہ بااختیار کردیا ۔ اس 18ویں ترمیم کی روح سے اب صوبوں کی محرومی کو ختم کرنا اور ترقی کو ممکن بناناوفاق سے زیادہ صوبوں کی ذمے داری ہوگی۔

جس انداز سے وفاق نے صوبوں کو اختیارات دیے اسی طرح سے صوبو ں کی بھی سیاسی، انتظامی اور قانونی ذمے داری بنتی تھی کہ وہ اب ایک قدم آگے بڑھ کر ضلع کی سطح کے نظام یعنی مقامی حکومت کے نظام کو آئین کی شق140-A کے تحت سیاسی، انتظامی اورمالی خود مختاری دے کر حکمرانی کے نظام کو زیادہ فعا ل کریں۔ پہلے صوبے روتے تھے کہ ہمیں مرکز اختیار نہیں دے رہا اور اب ضلع رو رہے ہیں کہ ہمیں صوبہ خود مختاری دینے کے لیے تیار نہیں۔صوبائی خود مختاری کا عمل اسی صورت میں ممکن ہوگا جب صوبے ضلع کی سطح پر مقامی نظام حکومت کو مضبوط کریں گے،وگرنہ صوبائی خود مختاری مکمل نہیں ہوگی ۔

اگر ہمارے پاس ایک مضبوط مقامی نظام حکومت جو خود مختاری کی بنیاد پر ہو او رلوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہورہے ہوں تو وہاں نئے صوبوں کی بحث کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ لیکن جب لوگوں کے مقامی بنیادی مسائل حل نہیں ہونگے توان کو لگتا ہے کہ ان کے بھی مسئلہ کا حل نیا صوبہ ہے۔ جب کہ نیا صوبہ بھی بنالیں لیکن اگر صوبوں میں مقامی نظام حکومت سے انحراف کرتے ہیںتو پھر نئے صوبوں کی تشکیل بھی ہمیں کچھ نہیں دے سکے گی ۔

اس وقت پنجاب میں لوگ تخت لاہور پر تنقید کرتے ہیں اور پھر بعد میں جہاں نئے صوبے بنیں گے وہاں کے لوگ بھی اپنے اپنے دارالخلافہ پر تنقید کریں گے کہ انھوں نے ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے سابقہ ناکامیوں اورغلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا کہ اگر مقامی نظام مضبوط ہوگا تو نئے صوبو ں کی اتنی بڑی تعداد میں ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن وزیر اعظم یہ تو سوچیں کہ جو نظام مقامی نظام حکومت کے نام پر چل رہے ہیں وہ کس حد تک ہماری ضروریات کو پورا کرتے ہیں، یقینی طو رپر اس کا جواب نفی میں ملے گا۔

ہمیں نئے صوبوں کی تشکیل پر سیاسی اسکورنگ کرنے کی بجائے سنجیدگی سے ان مسائل پر بحث کرکے دنیا میں ہونے والے تجربات سے سبق سیکھ کر کسی نتیجہ پر پہنچنا چاہیے۔ اصل مسئلہ حکمرانی کے نظام میں ہے ۔ آپ جتنے مرضی قانون اورپالیسی تشکیل دے دیں ،نئے صوبہ بنالیں لیکن اگر ہمارا طرز حکمرانی غیر منصفانہ ہوگاتو یہ سب بہتر اقدامات بھی ہمیں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں گے ۔ہمیں اپنا پورا حکمرانی کا نظام کو بدلنا ہے ۔

اصلاحات بھی اسی صورت میں کامیاب ہوتی ہیں جب ہم اپنے رویوں ، طرز عمل اور طرز حکمرانی میں عام آدمی کو بنیاد بنا کر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کام محض قانون سازی سے ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ماضی میں بھی بہت سے قوانین کی موجودگی کے باوجود کچھ نہیں ہو سکا۔

ہمیں اس کے لیے ایک سیاسی تحریک کی ضرورت ہے اور یہ تحریک سیاسی جماعتوں او راہل دانش کی طرف سے اٹھنی چاہیے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنائیں ۔ اس کا ایک نکتہ آغاز مقامی حکومت کے نظام سے جڑا ہے جسے زیادہ خود مختار او ربااختیار بنانا ہوگا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم اور عام آدمی کو بنیاد بنا کر ہم حکمرانی کے نظام کو زیادہ شفاف بناسکتے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں