رویت ہلال پر اختلافات
فواد چوہدری جوکہ نہ تو سائنٹسٹ ہیں نہ ہی کوئی عالم و مفتی انھوں نے سائنسی فارمولے اور فتویٰ پیش کرنا شروع کردیے
سال 1974ء میں بھٹو حکومت نے رویت ہلال کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے قومی اسمبلی سے ایک قرارداد کے ذریعے رویت ہلال کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے ممبران کی تعداد9 تھی جب کہ 4 زونل کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
مرکزی رویت ہلال کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ زونل کمیٹیوں کی مشاورت سے رویت ہلال سے متعلق اعلان کرے گی،کیونکہ رویت ہلال کمیٹی کا قیام ایک قرارداد کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا، اس لیے آئین و قانون میں اس کا ذکر نہیں ہے نہ ہی اس کے کوئی رولز اور ریگولیشنز ہیں حالانکہ پارلیمنٹ میں فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی نے اس سلسلے میں قانون سازی کا عندیہ بھی دیا تھا۔ مگر رویت ہلال کا مذہبی و قومی مسئلہ کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے۔
1958 میں پہلی مرتبہ پشاور میں ایک دن پہلے عید منائی گئی۔ 1960کی دہائی میں کراچی میں مرکزی حکومت کے فیصلے کے برخلاف عید منائی۔ 1961 میں ایوب حکومت نے رات گئے اپنا رویت ہلال کا اعلان تبدیل کرکے دو عیدیں کروا دیں جب کہ پشاور میں پہلے ہی سعودی عرب کے چاند کے مطابق عید منائی گئی جس کی وجہ سے اس سال تین عیدیں منائی گئیں۔ 1966 اور 1967 میں بھی اپنے پہلے سے کیے گئے اعلانات کو رات گئے تبدیل کرکے دو عیدیں منادی گئیں مخالفت کرنے پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مفتی محمود، حسین نعیمی اور احتشام الحق تھانوی کو تین ماہ کے لیے نظر بند کردیا گیا۔
بھٹو دور حکومت میں انھی تنازعات کو ختم کرنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا احیا عمل میں لایا گیا تھا جس کے تحت کمیٹی کے چیئرمین اور ممبران کا دورانیہ 3 سال مقررکیا گیا تھا۔ رویت ہلال کمیٹی کی چیئرمین شپ پر 19 سال سے براجمان مفتی منیب الرحمن کے دور میں بھی دو دو نہیں بلکہ تین عیدیں بھی منائی گئی ہیں۔ رویت ہلال کمیٹی کی روز افزوں ناقص کارکردگی خود اس کے وجود کے لیے سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
حسب دستور اس مرتبہ بھی وہی ہوا جو پچھلے ایک عشرے سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ کے پی کے حکومت نے رمضان کا اعلان وفاقی حکومت اور عید کا اعلان علاقائی رویت ہلال کے مطابق کرکے 28 روزے کردیے جس پر نہ صرف علما، سیاستدان اور عوامی حلقوں بلکہ خود حکومتی ارکان میں بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
فواد چوہدری جوکہ نہ تو سائنٹسٹ ہیں نہ ہی کوئی عالم و مفتی انھوں نے سائنسی فارمولے اور فتویٰ پیش کرنا شروع کردیے۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ صوبے وفاقی حکومت کے سیٹ اپ کے مطابق نہیں چلنا چاہتے تو حکومت یہ سیٹ اپ ختم کردے، ہر صوبہ اپنی عید منائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ چاند کی شہادتیں دینے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے حالانکہ ان شہادتوں کو ابھی تک کسی کسوٹی پر پرکھا نہیں گیا انھیں تو کے پی کے حکومت کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ 2006 میں سنی تحریک نے ایک سے زائد عیدیں کروانے کا مقدمہ شریعت کورٹ میں چلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
کے پی کے اسمبلی میں ایک تحریک التوا پیش کی گئی تھی جس میں دو روزوں کا کفارہ حکومت کو ادا کرنے کے علاوہ کمیٹی توڑنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ فواد چوہدری کو مسئلے پر ایک کمیشن بنانے کا مطالبہ کرنا چاہیے جو شہادتوں کی جانچ پڑتال کرکے ان کے صحیح یا جھوٹا ہونے کا تعین کرے۔ شہادتیں جھوٹی ہونے کی صورت میں جھوٹی شہادتیں دینے والوں کے خلاف کارروائی کرے اور صحیح شہادتیں مسترد کرنے کی صورت میں اس کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرے۔
اس سلسلے میں قانون اور شرعا نے اصول وضع کیے ہوئے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے کہ ''انصاف پر قائم رہو، سچی گواہی دو، خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل نہ چھوڑنا، اگر تم پیچ دار شہادت دو گے یا شہادت سے بچنا چاہو گے تو اللہ خوب واقف ہے۔''
2008 میں پشاور میں رویت ہلال کمیٹی کو رویت سے متعلق 7 شہادتیں موصول ہوئی تھیں۔اس عید کے موقعے پر سعودی عرب کی سپریم کورٹ نے شہریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سوموارکی شام عید کا چاند دیکھیں۔ سعودیہ میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر دوربینوں کی مدد یا براہ راست رویت کی ہدایت وترغیب دی جاتی ہے اگرکوئی شہری چاند دیکھتا ہے تو مقامی عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ رویت ہلال کمیٹیوں اور انفرادی طور پر چاند دیکھنا ثواب کار قرار دیا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ رویت ہلال میں مدد کرنا نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔
رویت ہلال کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن اپنے فیصلہ اور منصب کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض حضرات اپنے ذاتی عناد اور عصبیت کی وجہ سے انھیں چیئرمین کی حیثیت سے ہدف تنقید بناتے ہیں، ان کی اہمیت اس وقت تک ہے جب وہ اینکر پرسن بن کر اسٹوڈیو میں یا کالم نگار بن کر کسی بڑے اخبار کے ادارتی صفحے پر رونق افروز ہیں۔ لبرل عناصر کی ایک نفسیاتی بیماری ہے کہ خود کو علم کے میدان میں شیخ الکل اور علما کو علم سے عاری سمجھتے ہیں۔ علمی و فکری خیانت اور ریٹنگ کے مرض کی نشاندہی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک فرد کو قومی ادارے کے مقابل لا کر کھڑا کردیتے ہیں اور بناوٹی انداز میں حب الوطنی کا راگ الاپتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ حکومت بی آر ٹی منصوبہ بھی پوپلزئی کے حوالے کردے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ میڈیا تازہ دم ہوکر سوال کرے گا مفتی صاحب یہ کیا ہوگیا، میں کہتا ہوں کہ وہی ہو گیا جو 1947سے ہو رہا ہے آپ کیسے میڈیا پرسنز ہیں کہ آپ کو پاکستان کی تاریخ معلوم نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اگر کسی نے رمضان کا روزہ نہیں رکھا تو اس کا فدیہ نہیں بلکہ اس کی قضا ہے۔ سالہا سال سے جاری اس بحث میں کبھی یہ سوال زیر بحث نہیں لایا جاتا کہ عید کے دن روزہ رکھنے کے وبال کا کفارہ کیا ہے؟ حالات و واقعات اس احساس کو تقویت دیتے ہیں کہ رویت ہلال کا مسئلہ شرعی یا تکنیکی سے زیادہ ذاتی انا، ہٹ دھرمی، اپنی بات کو اونچا کرنے اور حریف و حلیف کی تقسیم کا شاخسانہ ہے۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتا جائے گا اور حکومت کے پاس اس ادارے کو ختم کردینے کا جواز فراہم کردے گا۔
مرکزی رویت ہلال کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ زونل کمیٹیوں کی مشاورت سے رویت ہلال سے متعلق اعلان کرے گی،کیونکہ رویت ہلال کمیٹی کا قیام ایک قرارداد کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا، اس لیے آئین و قانون میں اس کا ذکر نہیں ہے نہ ہی اس کے کوئی رولز اور ریگولیشنز ہیں حالانکہ پارلیمنٹ میں فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی نے اس سلسلے میں قانون سازی کا عندیہ بھی دیا تھا۔ مگر رویت ہلال کا مذہبی و قومی مسئلہ کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے۔
1958 میں پہلی مرتبہ پشاور میں ایک دن پہلے عید منائی گئی۔ 1960کی دہائی میں کراچی میں مرکزی حکومت کے فیصلے کے برخلاف عید منائی۔ 1961 میں ایوب حکومت نے رات گئے اپنا رویت ہلال کا اعلان تبدیل کرکے دو عیدیں کروا دیں جب کہ پشاور میں پہلے ہی سعودی عرب کے چاند کے مطابق عید منائی گئی جس کی وجہ سے اس سال تین عیدیں منائی گئیں۔ 1966 اور 1967 میں بھی اپنے پہلے سے کیے گئے اعلانات کو رات گئے تبدیل کرکے دو عیدیں منادی گئیں مخالفت کرنے پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مفتی محمود، حسین نعیمی اور احتشام الحق تھانوی کو تین ماہ کے لیے نظر بند کردیا گیا۔
بھٹو دور حکومت میں انھی تنازعات کو ختم کرنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا احیا عمل میں لایا گیا تھا جس کے تحت کمیٹی کے چیئرمین اور ممبران کا دورانیہ 3 سال مقررکیا گیا تھا۔ رویت ہلال کمیٹی کی چیئرمین شپ پر 19 سال سے براجمان مفتی منیب الرحمن کے دور میں بھی دو دو نہیں بلکہ تین عیدیں بھی منائی گئی ہیں۔ رویت ہلال کمیٹی کی روز افزوں ناقص کارکردگی خود اس کے وجود کے لیے سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
حسب دستور اس مرتبہ بھی وہی ہوا جو پچھلے ایک عشرے سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ کے پی کے حکومت نے رمضان کا اعلان وفاقی حکومت اور عید کا اعلان علاقائی رویت ہلال کے مطابق کرکے 28 روزے کردیے جس پر نہ صرف علما، سیاستدان اور عوامی حلقوں بلکہ خود حکومتی ارکان میں بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
فواد چوہدری جوکہ نہ تو سائنٹسٹ ہیں نہ ہی کوئی عالم و مفتی انھوں نے سائنسی فارمولے اور فتویٰ پیش کرنا شروع کردیے۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ صوبے وفاقی حکومت کے سیٹ اپ کے مطابق نہیں چلنا چاہتے تو حکومت یہ سیٹ اپ ختم کردے، ہر صوبہ اپنی عید منائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ چاند کی شہادتیں دینے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے حالانکہ ان شہادتوں کو ابھی تک کسی کسوٹی پر پرکھا نہیں گیا انھیں تو کے پی کے حکومت کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ 2006 میں سنی تحریک نے ایک سے زائد عیدیں کروانے کا مقدمہ شریعت کورٹ میں چلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
کے پی کے اسمبلی میں ایک تحریک التوا پیش کی گئی تھی جس میں دو روزوں کا کفارہ حکومت کو ادا کرنے کے علاوہ کمیٹی توڑنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ فواد چوہدری کو مسئلے پر ایک کمیشن بنانے کا مطالبہ کرنا چاہیے جو شہادتوں کی جانچ پڑتال کرکے ان کے صحیح یا جھوٹا ہونے کا تعین کرے۔ شہادتیں جھوٹی ہونے کی صورت میں جھوٹی شہادتیں دینے والوں کے خلاف کارروائی کرے اور صحیح شہادتیں مسترد کرنے کی صورت میں اس کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرے۔
اس سلسلے میں قانون اور شرعا نے اصول وضع کیے ہوئے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے کہ ''انصاف پر قائم رہو، سچی گواہی دو، خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل نہ چھوڑنا، اگر تم پیچ دار شہادت دو گے یا شہادت سے بچنا چاہو گے تو اللہ خوب واقف ہے۔''
2008 میں پشاور میں رویت ہلال کمیٹی کو رویت سے متعلق 7 شہادتیں موصول ہوئی تھیں۔اس عید کے موقعے پر سعودی عرب کی سپریم کورٹ نے شہریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سوموارکی شام عید کا چاند دیکھیں۔ سعودیہ میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر دوربینوں کی مدد یا براہ راست رویت کی ہدایت وترغیب دی جاتی ہے اگرکوئی شہری چاند دیکھتا ہے تو مقامی عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ رویت ہلال کمیٹیوں اور انفرادی طور پر چاند دیکھنا ثواب کار قرار دیا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ رویت ہلال میں مدد کرنا نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔
رویت ہلال کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن اپنے فیصلہ اور منصب کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض حضرات اپنے ذاتی عناد اور عصبیت کی وجہ سے انھیں چیئرمین کی حیثیت سے ہدف تنقید بناتے ہیں، ان کی اہمیت اس وقت تک ہے جب وہ اینکر پرسن بن کر اسٹوڈیو میں یا کالم نگار بن کر کسی بڑے اخبار کے ادارتی صفحے پر رونق افروز ہیں۔ لبرل عناصر کی ایک نفسیاتی بیماری ہے کہ خود کو علم کے میدان میں شیخ الکل اور علما کو علم سے عاری سمجھتے ہیں۔ علمی و فکری خیانت اور ریٹنگ کے مرض کی نشاندہی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک فرد کو قومی ادارے کے مقابل لا کر کھڑا کردیتے ہیں اور بناوٹی انداز میں حب الوطنی کا راگ الاپتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ حکومت بی آر ٹی منصوبہ بھی پوپلزئی کے حوالے کردے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ میڈیا تازہ دم ہوکر سوال کرے گا مفتی صاحب یہ کیا ہوگیا، میں کہتا ہوں کہ وہی ہو گیا جو 1947سے ہو رہا ہے آپ کیسے میڈیا پرسنز ہیں کہ آپ کو پاکستان کی تاریخ معلوم نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اگر کسی نے رمضان کا روزہ نہیں رکھا تو اس کا فدیہ نہیں بلکہ اس کی قضا ہے۔ سالہا سال سے جاری اس بحث میں کبھی یہ سوال زیر بحث نہیں لایا جاتا کہ عید کے دن روزہ رکھنے کے وبال کا کفارہ کیا ہے؟ حالات و واقعات اس احساس کو تقویت دیتے ہیں کہ رویت ہلال کا مسئلہ شرعی یا تکنیکی سے زیادہ ذاتی انا، ہٹ دھرمی، اپنی بات کو اونچا کرنے اور حریف و حلیف کی تقسیم کا شاخسانہ ہے۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتا جائے گا اور حکومت کے پاس اس ادارے کو ختم کردینے کا جواز فراہم کردے گا۔