ڈاکٹر لٹنر پنجاب اسمبلی میں
مجید شیخ ہمارے جانے مانے محقق ہیں۔ پنجاب اور خاص طور پر لاہور کی تاریخ پر تو سمجھ لیجیے کہ وہ سند ہیں۔ تو....
مجید شیخ ہمارے جانے مانے محقق ہیں۔ پنجاب اور خاص طور پر لاہور کی تاریخ پر تو سمجھ لیجیے کہ وہ سند ہیں۔ تو پنجاب اسمبلی میں ڈاکٹر لٹنر کے ساتھ جو سلوک ہوا اس پر انھیں غصہ آنا ہی تھا۔ وہاں کہیں اسمبلی کے کسی بھلے رکن نے ڈاکٹر لٹنر کی علمی خدمات کے پیش نظر یہ تجویز پیش کی تھی کہ لاہور کی کچہری روڈ کو اس شخصیت سے منسوب کیا جائے اور اس سڑک کا نام لٹنر روڈ رکھا جائے۔
اس پر اسمبلی کے ایک مرد مسلمان کو بہت تائو آیا۔ انھوں نے کہا کہ ''ہماری سڑکیں غیر اسلامی ناموں سے منسوب ہوں، یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے۔''
یہاں ہمارا جی چاہ رہا ہے کہ بتائیں کہ لاہور میں کتنی ایسی سڑکیں اب بھی موجود ہیں اور عمارتیں بھی جو غیر اسلامی ناموں سے منسوب ہیں۔ تو چلو ایک نام اور سہی، اس تنبیہ کے ساتھ کہ آیندہ را احتیاط مگر ہم نے سوچا کہ یہ اسمبلی کے اہل ایمان کو یاد نہ ہی دلایا جائے تو مناسب ہے۔ اور پھر فی الحال تو یہ مقدمہ مجید شیخ اور پنجاب اسمبلی کے بیچ ہے۔ پہلے تو ان کی سنیں کہ کس کا کیا مؤقف ہے۔ مجید شیخ صاحب کچھ تعلیم بالغاں کے موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔ انھوں نے پنجاب اسمبلی کے معزز ممبران کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ڈاکٹر لٹنر کتنا بڑا عالم، ماہر لسانیات اور ماہر تعلیم تھا۔ لاہور کا گورنمنٹ کالج، اورینٹل کالج اور خود پنجاب یونیورسٹی اسی کی مساعی جمیلہ کا ظہورہ ہیں۔
مگر ادھر پنجاب اسمبلی کے معزز ممبران دوسرے ہی حساب سے سوچ رہے تھے۔ مجید شیخ کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا کہ صوبائی وزیر قانون نے اس معترض کی ہاں میں ہاں ملائی اور فوراً ٹکڑا لگایا کہ ''یہ ہنگری والا کہ نام اس کا لٹنر ہے'' یہ بھلا وہ اسلام کے مزاج کو کیا سمجھے۔''
مجید شیخ نے ان پر واضح کیا کہ آپ لوگ کس خیال میں ہیں۔ لٹنر تو وہ شخص ہے کہ جب وہ یہاں سے ریٹائر ہو کر واپس لندن گیا تو وہاں اس نے وہ مسجد تعمیر کی جو ووکنگ مسجد کہلاتی ہے۔ پچاس زبانوں کا ماہر۔ عربی فرفر بولتا تھا۔ حافظ قرآن تھا اور پھر ٹکڑا لگایا کہ ''اس شخص نے تاریخ اسلام لکھی ہے اور میں چاہوں گا کہ رانا ثناء اللہ اس تاریخ کو ضرور پڑھیں''
اب پتہ نہیں ان ممبران میں جماعت اسلامی سے کس کا تعلق ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے یاد دلایا کہ جماعت اسلامی وہی ہے نا جس نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی۔
یہاں کیا مضائقہ ہے کہ ہم تھوڑی دخل درمعقولات کریں۔ مجید شیخ صاحب اب اپنے علمی مقام سے گر کر سیاست پر اتر آئے۔ یہ تیر تو انھیں اس وقت چلانا چاہیے تھا کہ جب کوئی جماعت اسلامی والا نظریہ پاکستان کا حوالہ دیتا۔ اب تو اس حملہ کی حیثیت یہ ہے کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔
ویسے مجید شیخ صاحب نے یہ کام بہت نیکی کا کیا کہ ایک غیر مسلم عالم کا جس نے عربی بھی پڑھ رکھی تھی اور تاریخ اسلام بھی لکھی تھی پنجاب اسمبلی کے معزز اراکین سے تعارف کرا دیا۔ کیا مضائقہ ہے کہ آج کے سیاستدانوں کے سوا ان اراکین اسمبلی کا کچھ ایسے غیر ملکیوں سے بھی تعارف ہو جائے جو بیشک مسلمان نہیں تھے، مگر انھوں نے اس علاقہ میں علمی و ادبی خدمات بہت انجام دی ہیں کیونکہ کل کلاں کو یہاں کسی غلط یا صحیح حوالے سے ڈاکٹر ولنر اور کرنل ہالرائڈ کے نام بھی زیر بحث آ سکتے ہیں اور کیا خبر ہے کس وقت یہاں یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہو کہ گنگا رام اسپتال ابھی تک گنگا رام اسپتال کیوں چلا آ رہا ہے جب کہ پاکستان کو بنے ہوئے کتنے سال گزر چکے ہیں۔
اور جب ایک اہل علم کے سلسلہ میں پنجاب اسمبلی کے ایک مرد مسلمان نے مسلم اور غیر مسلم ہونے کا سوال اٹھا ہی دیا ہے تو چلیے ایک سوال ہم بھی پوچھ لیں۔ یہ جو ہم اٹھتے بیٹھتے ایک حدیث نبوی کو فخر سے پیش کرتے ہیں کہ علم کی تلاش میں چین تک جانا پڑے تو چین تک جائو۔ مگر چین میں اس وقت کوئی جامعۂ اسلامیہ تو قائم نہیں تھی۔ اسلام کی روشنی وہاں ابھی کہاں پہنچی تھی۔ وہاں جو بھی عالم فاضل تھے وہ مسلمان تو نہیں تھے۔ اور اس حدیث میں چین سے مطلب محض چین ہی تو نہیں ہے۔ اس کی وضاحت الگ دوسری حدیث سے ہوتی ہے جسے مولانا حالی نے اپنی مسدس میں بیان کیا ہے۔ یہاں مسلمانوں کی طلب علم کا بیان ہے اور اس ذیل میں ایک حدیث کا حوالہ ؎
ہر ایک میکدے سے بھرا جا کے ساغر
ہر ایک گھاٹ سے آئے سیراب ہو کر
گرے مثل پروانہ ہر روشنی پر
گرہ میں لیا باندھ حکم پیمبر
کہ حکمت کو اک گمشدہ لال سمجھو
جہاں پائو اپنا اسے مال سمجھو
مطلب یہ کہ حصول علم کے معاملہ میں یہ مت سوچو کہ کس سرچشمہ سے آ رہا ہے کیونکہ علم و حکمت کی تاریخ تو انسانیت کی تاریخ کے ساتھ ساتھ چلتی چلی آئی ہے۔ اگر ہمارے اہل علم اسلامی اور غیر اسلامی کے فرق پر زور دیتے تو یونان کے علوم و فنون سے کیسے استفادہ کر پاتے۔
خیر یہ بحث تو دور تک جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ مجید شیخ صاحب کو بھی یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ یہ ہمارے نمایندگان جو اسمبلیوں اور کونسلوں میں بیٹھے ہیں عام لوگوں کے ووٹ لے کر آتے ہیں۔ علمی کتابیں بغل میں داب کر تو ایوان نمایندگان میں نہیں پہنچتے۔ انھوں نے صحیح کہا کہ اے فلاں فلاں رکن اسمبلی تو گورنمنٹ کالج کا پڑھا ہوا ہے۔ تو ڈاکٹر لٹنر کے احسان سے کیسے منکر ہو سکتا ہے۔
صحیح کہا۔ مگر جب گورنمنٹ کالج سے ایک نوجوان نکل آیا اور سیاست کی وادی میں اس نے قدم رکھا تو پھر تو اس کی بصیرت و آگاہی کا سرچشمہ سیاسی رہنمائوں کی تقریریں ہی ہوتی ہیں۔ تقریر خواہ زرداری صاحب کی ہو یا میاں نواز شریف کی ہو یا مولانا فضل الرحمٰن کی ہو۔ حکمت کے گمشدہ لال تو وہاں بھی ہوتے ہیں مگر دوسرے رنگ کے۔ مجید شیخ تو ایوان نمایندگان میں نہیں پہنچ سکتے۔ کیسے پہنچیں گے۔ ہم انھیں اپنے ووٹ کی گارنٹی تو دے سکتے ہیں، ہمارے سوا انھیں کتنے ووٹ ملیں گے۔
سو اس صورت احوال کا ایک ہی علاج ہے کہ وہ اپنے وزیر اعلیٰ کو یہ مشورہ دیں کہ ہماری دنیائے علم و ادب میں جو لعل و گہر ہیں ان میں سے کسی لعل کو چُنیں اور اپنا مشیر بنائیں۔ پچھلے زمانے تک تو ہماری بیورو کریسی سے ایسے لعل و گہر مہیا ہو جاتے تھے۔ آخر ایوب خاں کو ایسے مشیر جیسے قدرت اللہ شہاب یا الطاف گوہر کہاں سے میسر آئے تھے۔ افسر شاہی سے۔ مگر اب تو افسر شاہی کا حال بھی دگرگوں ہے۔ تو مجید شیخ سوچ سمجھ کر اپنے اردگرد کی دنیائے علم و ادب کا جائزہ لے کر ہمارے خادم اعلیٰ کو مفید مشورہ دیں ورنہ پھر انھیں بار بار اپنا علمی کام چھوڑ کر ایسا کالم لکھنا پڑے گا جیسا انھوں نے ڈاکٹر لٹنر کی حمایت میں لکھا ہے۔