کراچی لہو لہو مگر حل کیا
کراچی سونے کا انڈا دینے والی وہ مرغی ہے، جس کے انڈے سب کھارہے ہیں، مگر مرغی کی زندگی کی کسی کو پروا نہیں ہے۔
کراچی سونے کا انڈا دینے والی وہ مرغی ہے، جس کے انڈے سب کھارہے ہیں، مگر مرغی کی زندگی کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ اگر ہاتھ میں پھانس چبھ جائے تو اس وقت تک مرہم پٹی بیکار ہوتی ہے، جب تک کہ وہ پھانس نکل نہیں جاتی۔لیکن کراچی کے معاملے میں صورتحال یہ ہے کہ سیاستدانوں سے افسر شاہی تک اور تجزیہ نگاروں سے عامل صحافیوں تک سب جانتے ہیں کہ پھانس کہاں چبھی ہے۔
کراچی دو کروڑ سے تجاوز کرتی آبادی کا یہ شہرہے۔ یہ اعداد وشمار مختلف ذرایع سے حاصل کردہ ہیں۔ کیونکہ ملک میں 15برس سے مردم شماری نہیں ہوئی اس لیے صحیح اعداد وشمار دستیاب نہیںہیں۔مردم شماری نہ ہونے کا بنیادی سبب بھی سیاسی مقاصد ہیں۔بہرحال شہر پر آبادی کا یہ بڑھتاہوا دبائو صرف پیدائش کی شرح میں اضافے کی وجہ سے نہیں ہے،بلکہ اس میںملک کے مختلف حصوں کے علاوہ بیرون ملک سے آنے والے غیرقانونی تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد بھی شامل ہے۔کراچی کہلانے کو تو ایک میگا سٹی کہلاتا ہے،مگراسے میگاسٹی کی سہولیات سے دانستہ محروم رکھا گیاہے۔ اس شہر میں جہاںایک طرف روزانہ اربوں روپوں کا جائز کاروبار ہوتا ہے، وہیںاس سے کئی گنا زیادہ رقوم ناجائزکاروبار میںگردش کررہی ہیں۔
ناجائزمعاشی سرگرمیوں میں صرف جرائم پیشہ عناصر ہی ملوث نہیں ہیں، بلکہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان، انتظامی اداروں کے ہر سطح کے اہلکاراور مختلف کالعدم تنظیمیںبھی شامل ہیں۔ان سرگرمیوں میںسرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر قبضے، منشیات اور جدیدآتشیں اسلحے کاکھلے عام کاروبار، بھتہ، اغواء برائے تاوان،بینک ڈکیتیاں اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم شامل ہیں۔جب کہ شہر کے مختلف حصوں پرسیاسی قبضہ کے لیے مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا اغواء اور قتل اس کے سوا ہے۔
کراچی میں تیزی کے ساتھ بڑھتی بدامنی اور مختلف نوعیت کے سنگین جرائم کی شرح میں اضافے کا مطالعہ کیا جائے توکئی اسبا ب سامنے آتے ہیں۔ اول، حکومت اورمختلف سیاسی جماعتیں اپنے مخصوصMindsetکی وجہ سے میگاسٹی کے تصور کو سمجھنے کے ویژن سے عاری ہیں،جس کی وجہ سے ان میں ایسے شہروں کے لیے ایک علیحدہ انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینے کے سیاسی عزم اور اہلیت کا فقدان ہے۔ دوئم، پولیس سمیت دیگر ضلعی انتظامی شعبے فرسودہ نوآبادیاتی نظام کا تسلسل ہونے کے سبب کراچی جیسے مختلف جہتیں رکھنے والے شہر کا انتظام وانصرام چلانے میں قطعی ناکام ہیں،مگر اس کے باوجود انھیں زبردستی مسلط کیا ہوا ہے۔
سوئم،پولیس سمیت دیگر اداروں میں میرٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے مسلسل سیاسی بنیادوںپر بھرتیاں ہو رہی ہیں اور انتہائی نالائق اور نااہل افسران اور اہلکاروں کو اس شہر میں تعینات کیا جارہا ہے۔ چہارم،سندھ میں شہری اور دیہی کی لسانی بنیادوں پر تقسیم راست فیصلہ سازی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ پنجم، دیہی سندھ سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں اقتدار واختیار کی عدم مرکزیت سے خوفزدہ ہونے کے سبب اس کی سب سے بڑی مخالف بن چکی ہیں،حالانکہ یہ عوام کے وسیع تر مفادات کے تحفظ کی ضمانت ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے بڑے شہروں کے لیے الگ انتظامی ڈھانچے کی تشکیل ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔یہ وہ وجوہات ہیں جوکراچی میں خونریزی کا سبب بنی ہوئی ہیں اورجن کو حل کیے بغیر امن کا قیام ممکن نظر نہیںآرہا۔
سندھ ملک کا وہ واحد صوبہ ہے، جہاں شہری اور دیہی کی تقسیم میں لسانی تفاوت ایک طاقتور عنصر کی شکل میں موجود ہے۔سندھی بجاطورپر یہ سمجھتے ہیں کہ کراچی ان کا شہر ہے، جس کے معاملات پر انھیں پورا حق حاصل ہونا چاہیے۔ جب کہ اردو بولنے والوں کی اکثریت چونکہ اس شہر میں آباد ہے اور اس کی اپنی نمایندہ جماعت بھی ہے۔اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ سندھ کے حوالے سے ہونے والی فیصلہ سازی میں انھیں بھی حصہ ملنا چاہیے اور کراچی کے علاوہ دیگر اربن مراکز جہاں ان کی نمایندگی ہے، ان کے حق کو تسلیم کیا جائے۔دونوں کمیونٹیز کے درمیان عدم اعتماد کی ابتداء ایوب خان کے دور میںہوئی، جب کراچی میں 4سو کے قریب سندھی میڈیم اسکول بیک جنبش قلم بندکردیے گئے اور اہل کراچی نے اس پر احتجاج نہیں کیا۔ اس کے بعد1972ء ہونے والے لسانی فسادات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔یوں ان دونوں کمیونٹیز کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی گئی۔
یہ مسئلہ اتناپیچیدہ نہیں ہے کہ حل نہ ہوسکے۔اگر سنجیدگی اورنیک نیتی کے ساتھ باہمی مکالمے کو فروغ دیاجائے تواس کا حل ممکن ہے۔لیکن حکومت اور ریاستی ایجنسیاںان دونوں لسانی اکائیوں کے درمیان باہمی سیاسی وسماجی اشتراک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ حکومت اس اختلاف سے فائدہ اٹھاکر سندھ کے وسائل پر قابض ہے، جب کہ ریاستی ایجنسیاںان اکائیوں کے ملاپ کو Security Riskقرار دے کراختلافات کو مزیدہوا دیتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان دونوں کمیونٹیز کے درمیان غلط فہمیوں کی خلیج کو گہراکرنے میں دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے کاروباری طبقات کا بھی نمایاں ہاتھ ہے، جو کراچی کی اسٹاک ایکسچینج اور بندرگاہ پرقبضہ کرکے من مانیاں کرناچاہتے ہیں۔
یہ معاملہ اس حد تکPoliticisedاورسنگین ہوچکاہے کہ سندھی اور اردو بولنے والے دانشور اور قلمکار اس مسئلے کے حل کے لیے ایک میز پر بیٹھتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ خاص طورپر گزشتہ برس جب مقامی حکومتی نظام کے بارے میں قوم پرست جماعتوں نے سخت ترین موقف اختیار کیا تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس مسئلے پر کسی قسم کی افہام وتفہیم کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم چونکہ دیہی اور شہری علاقوں کی نمایندگی کرتی ہیں،اس لیے ان کے درمیان پالیسی امور پر مفاہمت کابہت کم امکان ہے۔ گزشتہ پانچ برس اس رویے کی واضح مثال ہیں،جب یہ دونوں جماعتیںاپنے مخصوص سیاسی مفادات کی خاطرنہ صرف متفقہ قانون سازی نہیں کرسکیں، بلکہ لسانی تفاوت میں اضافے کا سبب بھی بنیں۔اس کے برعکس جن امور پر ان دونوں جماعتوں کے درمیاں اتفاق ہوا،تو بعض دیگر عناصر نے سخت گیر موقف اختیار کرکے اس اتفاق رائے کو سبوتاژ کردیا۔لہٰذااس وقت حالات جس نہج پر جاچکے ہیں اگر وہ جاری رہتے ہیں، تو نہ سندھ میں پائیدار اور ترقی دوست اقدامات کی توقع کی جاسکتی اور نہ کراچی سمیت صوبے بھر میں امن کی خواہش پوری ہوسکتی ہے ۔
اب پھر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا سندھ اور اس کا دارالحکومت کراچی اسی طرح بدامنی کا شکار اور لہو میں رنگا رہے گا؟تو اس کاسادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ آج اکیسویں صدی میں نہ کوئی کسی قوم کو اقلیت میں تبدیل کرسکتا ہے اور نہ کسی دوسری کمیونٹی کو صوبہ بدر کیا جاسکتا ہے۔اس لیے صوبے کے مستقل باسیوں کو جن کے سیاسی، معاشی اورسماجی مفادات اس صوبے سے وابستہ ہیں اور جنھیں یہیں جینا اور مرنا ہے،اپنے صوبے میں امن اور پائیدار ترقی کی خاطر جلد یا بدیر ایک نئے عمرانی معاہدہ (Social Contract)پر آمادہ ہونا پڑے گا۔بصورت دیگر یہ صوبہ اور اس کا سب سے بڑا شہر اسی طرح خون تھوکتارہے گا۔اس معاہدے کی تیاری میں سندھ سیاسی دانشوراور اہل قلم اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔جو عوام کے اعتماد سے اس معاہدے پر عمل درآمدکے لیے سیاسی جماعتوں پر دبائو ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ سندھ کے دانشوروفاقی حکومت اور ریاستی ایجنسیوں کو یہ باور کرسکتے ہیں کہ سندھ کے مستقل باسیوں کے درمیان بہتر تعلقات کسی بھی طورریاست کے لیے Security Riskنہیںبلکہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے سندھ کے مفادات کوتحفظ دینے کی خاطر Save Sindh Committeeکے نام سے ایک تھنک ٹینک کام کررہا ہے۔ جس میں سندھی، اردو بولنے والے، بلوچ،پنجابی اور پختون دانشور اور سیاسی سرگرم کارکن شامل ہیں۔اس کمیٹی نے ایک دستاویز بھی تیار کی ہے، جسے سندھ کے علمی، ادبی اور سیاسی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔اس کمیٹی کے مستقل اراکین میں عبدالخالق جونیجو، یوسف مستی خان، عثمان بلوچ، ڈاکٹر ٹیپو سلطان، ڈاکٹر حبیب سومرو ، آپا صالحہ اطہر اور راقم شامل ہیں۔یہ کمیٹی سندھ کے وسیع تر مفاد میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈائیلاگ کر کے ایک نیا عمرانی معاہدے کی طرف بڑھنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرسکتی ہے، بشرطیکہ تمام سیاسی وسماجی شراکت دار اس عمل کو آگے بڑھانے پرسنجیدگی کے ساتھ آمادہ ہوں۔