ایوانِ صدر کاایک حیرت انگیز مکین
آج سے ٹھیک سات دن بعد صدرِمملکت آصف علی زرداری اسلام آباد کے پُرشکوہ قصرِ ابیض یعنی ایوانِ صدر سے باقاعدہ رخصت...
آج سے ٹھیک سات دن بعد صدرِمملکت آصف علی زرداری اسلام آباد کے پُرشکوہ قصرِ ابیض یعنی ایوانِ صدر سے باقاعدہ رخصت ہوجائیں گے۔وہ پاکستان کی چھ عشروں پر مشتمل تاریخ کے واحد سویلین صدر ہیں جنہوں نے جم کر پانچ سال صدارت کے مزے لیے ہیں اور آئینِ پاکستان کے ودیعت کردہ عرصے کو مکمل کیا ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی پر جھول جانے والے ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل پرویزمشرف کے دورِ اقتدار میں گولیوں کا نشانہ بننے والی محترمہ بے نظیربھٹو نے قربانیوں کی جوبے مثال روایات قائم کیں،اُسی کے طفیل آصف علی زرداری صدرِ پاکستان بننے میں کامیاب ہوئے۔اُنہوں نے اپنے تئیں بھی بھرپورانداز میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ خود بھی صدرِمملکت کے محترم عہدے پر متمکن ہونے کے اہل ہیں لیکن حیرانی کی بات ہے کہ ایوانِ صدر کا ایک مکین دعویٰ کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ آصف علی زرداری نے ایوانِ صدر میں یہ جو پانچ سال گزارے ہیں،یہ اُس کی دعائوں اور عملیات کا نتیجہ ہے۔
جنابِ صدر مملکت آصف علی زرداری نے چند روز قبل ایوانِ صدر میں اخبار نویسوں کو عشایئے پر مدعو کیا۔ یہ سب لوگ دربار ہال میں اکٹھے ہوچکے تھے۔تقریباً ایک دائرے کی شکل میں۔صدر صاحب نے مصافحہ کرنے کا آغازدائیں جانب سے کیا۔ملنے والوں میں بعض ایسے تھے جن سے صدر صاحب براہِ راست شناساتھے اور کئی ایسے تھے جنھیں مصافحہ کرتے وقت صدر صاحب کو خود اپنے بارے میں مختصر الفاظ میں متعارف کرانا پڑتاتھا۔بعض ایسے عشاق بھی آئے جو صدر سے ہاتھ ملانے کے بعد ہاتھ چھوڑنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔درمیانے قد کے مالک صدر صاحب بہرحال صبر کا مظاہرہ کرتے رہے۔اچانک میرے سامنے ایک ایسا شخص آکھڑا ہوا جس نے سفید دھوتی پہنی ہوئی تھی،سرپر ململ کا سفید عمامہ سا،ململ ہی کا کُرتہ،پائوں میں سیاہ سیلپر۔مَیں نے اُن صاحب کو دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔کبھی اُن کے لباس اور اُن کی شخصیت کو دیکھتا اور کبھی ایوانِ صدر کے پُرشکوہ دربارہال کو تکتا۔یہ ایوانِ صدر کے طے شدہ ڈیکورم کے خلاف تھا۔ مَیں خاموش رہا کہ صدر صاحب عوامی پارٹی کے عوامی صدر ہیں،ممکن ہے اُنہوں نے موج میں آکر اپنے ایک پروانے کو بھی مدعو کرلیا ہو۔
جب ہم صدر صاحب کے ساتھ مصافحے اور مختصر سی گفتگو سے فارغ ہو کر مخالف سمت میں واقعے دوسرے دربارہال میں،عشایئے کے لیے پہنچے تو وہاں بھی وہی صاحب آخری میزوں پر تشریف فرماتھے اور بڑے اعتماد سے کھانا تناول کررہے تھے۔مجھے تجسس ہوا۔ساتھ بیٹھے اسلام آباد کے بزرگ اخبار نویس محترم سیّد سعود ساحرصاحب سے اُن کی بابت پوچھا۔اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا:''یہ صاحب صدرِمملکت آصف علی زرداری کے پِیر صاحب ہیں۔ایوانِ صدر کے اصل مکین اور اصل بادشاہ تو یہ ہیں۔''میری نظریں دوبارہ اُن کی جانب اُٹھ گئیں۔ سامنے بیٹھے انگریزی اخبار کے ایک ممتاز رپورٹر نے لُقمہ دیا:''پانچ سال اِسی پِیر صاحب نے ہی تو دراصل صدارتی طاقت کے مزے لُوٹے ہیں''۔میری نظریں سہ بار اُن صاحب کی جانب اُٹھتی چلی گئیں۔مجھے یہ بھی بتایاگیا کہ صدر صاحب نے اپنے اِس پِیر صاحب کی سیوا اور خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔میری نظروں سے اِنہی پِیر صاحب کا یہ ارشادِگرامی بھی گزرا ہے:''پانچ سال قبل کہہ دیاتھا کہ صدر زرداری کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اُنہوں نے پانچ سال پوری شان سے گزارے ہیں۔''مَیں نے سوچا صدر صاحب اپنی ٹرم پوری کرنے کے لیے محض ایک شخص یعنی اپنے پِیر صاحب کے نازنخرے اٹھاتے رہے۔اِس کا نتیجہ یہی نکلناتھا کہ گیارہ مئی کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو عبرتناک شکست ہوتی۔
حیرت ہوتی ہے کہ حکمرانوں کو پِیروں کی ضرورت کیوں پڑجاتی ہے؟ چاہیے تو یہ کہ جن غریب ووٹروں کی طاقت سے وہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں ،اُن کے مصائب حل کرنے اور اُن کے دکھوں کو کم کرنے کے لیے دن رات ایک کردیں لیکن ایسا کرنے کے بجائے وہ پِیروں کے پائوں پڑ جاتے ہیں۔خیال ہے کہ جب حکمران کمزور ہوجائیں،تب احساسِ کمزوری سے نجات حاصل کرنے اور اپنے اقتدار کے دن پورے کرنے کے لیے پِیروں کاسہارا تلاش کیاجاتا ہے۔جنرل ایوب خان نے بھی دو پِیروں کاسہارا ڈھونڈاتھا۔ معروف معنوں میں بھٹو صاحب کا کوئی پِیرتو نہیں تھا،اِس لیے اُن کے دور میں ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم اِس نعمت سے محفوظ رہے مگر اُن کے دَور میں اُن کا ایک نک چڑھا نوکر بہت مشہور ہوا۔''ہمارے'' جنرل ضیاء الحق نے تو پِیروں اور مولویوں کو باقاعدہ اپنا سیاسی حلقہ بنالیا۔ محترمہ بے نظیربھٹو اور نوازشریف کے سابقہ ادوار میں ایک پِیر صاحب (بابا دھنکا) نے جو شہرت حاصل کی،وہ ابھی عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی۔
بعض مغربی اور غیر مسلم حکمران بھی اپنے ''پِیروں'' کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے۔رُوس کے بادشاہ(زار) کے دربار میں ''مرشد'' راسپوٹین نے جو گہرا اثرورسوخ حاصل کیا، اُس کی کہانیاں آج تک زیرِگردش ہیں۔راسپوٹین پر ناول لکھے گئے،ہالی وڈ نے کئی فلمیں بنائیں،عالمی محققین نے کتابیں لکھیں،محض یہ جاننے کے لیے کہ زار کے اِس پِیر صاحب کے پاس کیا کرامت تھی،کیا سحرتھا جسے بروئے کار لا کر اُس نے پوری بادشاہت اور اس کے تمام کل پرزے اپنی گرفت میں لے لیے تھے۔ مئورخین اِس نتیجے پر پہنچے کہ روسی سلطنت کے حکمران، نواب اور جاگیردار جب حد سے زیادہ کرپٹ ہوگئے،عوام سے اُن کا تعلق ٹوٹ گیا،جب ظلم حد سے تجاوز کرگیا تو اُن کی قوتِ عمل مفلوج ہوگئی،وہ سب مستقبل سے مایوس ہوگئے تھے۔چنانچہ کسی وہ مسیحا کی تلاش میں نکلے تاکہ شاہی مستقبل محفوظ بنایاجاسکے، پھر اُنہیں راسپوٹین ملا جس نے پوری طرح اُن کی نفسی کمزوریوں کو ایکسپلائٹ کیا اور ایک روز پوری روسی سلطنت ہی ڈوب گئی۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مَیں نے بیک وقت دو کتابیں پڑھی ہیں جو بتاتی ہیں کہ حکمران آخرکیونکر اور کیوں پِیروں کی گرفت میں جکڑے جاتے ہیں۔اِن کتابوں میں سے ایک کانام ہے:''نظامی بنسری'' اور دوسری کا نام ہے:فوائدالفواد''۔ دونوں تصنیفات مجھے برادرم مدثر حسن قاسمی صاحب(جو بلند درجہ صوفی اورادیب جعفرقاسمی مرحوم کے فرزند ارجمند اور چنیوٹ کالج میں عربی زبان کے استاد ہیں)نے بطور ارمغان بھیجی ہیں۔اوّل الذکر کے مصنف ہردیو (احمد ایاز) اور ثانی الذکر کے لکھنے والے کا نام ہے :خواجہ حسن علاء سنجری۔دونوں حضرات دہلی کے مشہورترین بزرگ اور صوفی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے مرید ہیں۔یہ کتابیں تقریباً سات سو برس قبل فارسی زبان میں لکھی گئیں۔دونوں کا ترجمہ اردو کلاسیکی ادب کے معروف ادیب خواجہ حسن نظامی صاحب علیہ رحمہ نے کیا ہے۔
خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے سات آٹھ بادشاہوں کا دَور دیکھا لیکن آپؒ کسی بادشاہ کے دربار میں کبھی حاضر نہ ہوئے۔ دوبادشاہوں نے آپ کو زبردستی دربار میں بلانے اور اپنے سامنے آپؒ کا سرجھکانے کی مذموم کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔راقم نے حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی ذاتِ بابرکات اور اُن کے زمانے کے بادشاہوں کے مختلف النوع کرداروں کا ممکنہ مطالعہ کیا ہے۔نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ بادشاہ تبھی حضرتؒ کی طرف رجوع کرتے،اُن سے دعائوں کے طالب ہوتے جب دشمن کے مقابلے میں اُن کی شکست واضح طور پر نظر آنا شروع ہوجاتی،جب وہ اپنی رعایا اور عوام کااعتماد کھوچکے ہوتے۔یہ واقعہ ہے کہ ازمنٔہ قدیم کے بادشاہ ہوں یا آج کے منتخب صدور یا وزرائے اعظم،یہ لوگ ہمیشہ واصلانِ حق کی بابرکت دعائوں کے محتاج رہے ہیں۔یہ احتیاج اُس وقت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں،جب حکمران اپنے ووٹروں کے مصائب ومسائل سے لاتعلق ہوجاتے ہیں اور جب ایوانِ صدر یا ایوانِ وزیراعظم ہائوس میں لایعنی افراد کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
ہم دعاگو ہیں کہ آج سے ٹھیک سات روز بعد جناب آصف علی زرداری کے ایوانِ صدر سے نکل جانے کے بعد جو صاحب اِس سفید محل کے نئے مکین بننے والے ہیں، اُن کی معیت وسنگت میں کوئی ایسا پِیرنہ ہو جو ہمیں چند روز قبل ایوانِ صدر میں نظر آیا اور ہماری سِٹّی گم ہوگئی۔ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ اسلام آباد کے ایوانِ صدر سے تھوڑے سے فاصلے پر واقع پرائم منسٹر ہائوس بھی ایسے پیر صاحب سے محفوظ ومامون رہے تاکہ ہمارے وزیرِاعظم اور عوام کے درمیان کوئی دیوار حائل نہ ہوسکے۔
جنابِ صدر مملکت آصف علی زرداری نے چند روز قبل ایوانِ صدر میں اخبار نویسوں کو عشایئے پر مدعو کیا۔ یہ سب لوگ دربار ہال میں اکٹھے ہوچکے تھے۔تقریباً ایک دائرے کی شکل میں۔صدر صاحب نے مصافحہ کرنے کا آغازدائیں جانب سے کیا۔ملنے والوں میں بعض ایسے تھے جن سے صدر صاحب براہِ راست شناساتھے اور کئی ایسے تھے جنھیں مصافحہ کرتے وقت صدر صاحب کو خود اپنے بارے میں مختصر الفاظ میں متعارف کرانا پڑتاتھا۔بعض ایسے عشاق بھی آئے جو صدر سے ہاتھ ملانے کے بعد ہاتھ چھوڑنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔درمیانے قد کے مالک صدر صاحب بہرحال صبر کا مظاہرہ کرتے رہے۔اچانک میرے سامنے ایک ایسا شخص آکھڑا ہوا جس نے سفید دھوتی پہنی ہوئی تھی،سرپر ململ کا سفید عمامہ سا،ململ ہی کا کُرتہ،پائوں میں سیاہ سیلپر۔مَیں نے اُن صاحب کو دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔کبھی اُن کے لباس اور اُن کی شخصیت کو دیکھتا اور کبھی ایوانِ صدر کے پُرشکوہ دربارہال کو تکتا۔یہ ایوانِ صدر کے طے شدہ ڈیکورم کے خلاف تھا۔ مَیں خاموش رہا کہ صدر صاحب عوامی پارٹی کے عوامی صدر ہیں،ممکن ہے اُنہوں نے موج میں آکر اپنے ایک پروانے کو بھی مدعو کرلیا ہو۔
جب ہم صدر صاحب کے ساتھ مصافحے اور مختصر سی گفتگو سے فارغ ہو کر مخالف سمت میں واقعے دوسرے دربارہال میں،عشایئے کے لیے پہنچے تو وہاں بھی وہی صاحب آخری میزوں پر تشریف فرماتھے اور بڑے اعتماد سے کھانا تناول کررہے تھے۔مجھے تجسس ہوا۔ساتھ بیٹھے اسلام آباد کے بزرگ اخبار نویس محترم سیّد سعود ساحرصاحب سے اُن کی بابت پوچھا۔اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا:''یہ صاحب صدرِمملکت آصف علی زرداری کے پِیر صاحب ہیں۔ایوانِ صدر کے اصل مکین اور اصل بادشاہ تو یہ ہیں۔''میری نظریں دوبارہ اُن کی جانب اُٹھ گئیں۔ سامنے بیٹھے انگریزی اخبار کے ایک ممتاز رپورٹر نے لُقمہ دیا:''پانچ سال اِسی پِیر صاحب نے ہی تو دراصل صدارتی طاقت کے مزے لُوٹے ہیں''۔میری نظریں سہ بار اُن صاحب کی جانب اُٹھتی چلی گئیں۔مجھے یہ بھی بتایاگیا کہ صدر صاحب نے اپنے اِس پِیر صاحب کی سیوا اور خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔میری نظروں سے اِنہی پِیر صاحب کا یہ ارشادِگرامی بھی گزرا ہے:''پانچ سال قبل کہہ دیاتھا کہ صدر زرداری کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اُنہوں نے پانچ سال پوری شان سے گزارے ہیں۔''مَیں نے سوچا صدر صاحب اپنی ٹرم پوری کرنے کے لیے محض ایک شخص یعنی اپنے پِیر صاحب کے نازنخرے اٹھاتے رہے۔اِس کا نتیجہ یہی نکلناتھا کہ گیارہ مئی کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو عبرتناک شکست ہوتی۔
حیرت ہوتی ہے کہ حکمرانوں کو پِیروں کی ضرورت کیوں پڑجاتی ہے؟ چاہیے تو یہ کہ جن غریب ووٹروں کی طاقت سے وہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں ،اُن کے مصائب حل کرنے اور اُن کے دکھوں کو کم کرنے کے لیے دن رات ایک کردیں لیکن ایسا کرنے کے بجائے وہ پِیروں کے پائوں پڑ جاتے ہیں۔خیال ہے کہ جب حکمران کمزور ہوجائیں،تب احساسِ کمزوری سے نجات حاصل کرنے اور اپنے اقتدار کے دن پورے کرنے کے لیے پِیروں کاسہارا تلاش کیاجاتا ہے۔جنرل ایوب خان نے بھی دو پِیروں کاسہارا ڈھونڈاتھا۔ معروف معنوں میں بھٹو صاحب کا کوئی پِیرتو نہیں تھا،اِس لیے اُن کے دور میں ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم اِس نعمت سے محفوظ رہے مگر اُن کے دَور میں اُن کا ایک نک چڑھا نوکر بہت مشہور ہوا۔''ہمارے'' جنرل ضیاء الحق نے تو پِیروں اور مولویوں کو باقاعدہ اپنا سیاسی حلقہ بنالیا۔ محترمہ بے نظیربھٹو اور نوازشریف کے سابقہ ادوار میں ایک پِیر صاحب (بابا دھنکا) نے جو شہرت حاصل کی،وہ ابھی عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی۔
بعض مغربی اور غیر مسلم حکمران بھی اپنے ''پِیروں'' کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے۔رُوس کے بادشاہ(زار) کے دربار میں ''مرشد'' راسپوٹین نے جو گہرا اثرورسوخ حاصل کیا، اُس کی کہانیاں آج تک زیرِگردش ہیں۔راسپوٹین پر ناول لکھے گئے،ہالی وڈ نے کئی فلمیں بنائیں،عالمی محققین نے کتابیں لکھیں،محض یہ جاننے کے لیے کہ زار کے اِس پِیر صاحب کے پاس کیا کرامت تھی،کیا سحرتھا جسے بروئے کار لا کر اُس نے پوری بادشاہت اور اس کے تمام کل پرزے اپنی گرفت میں لے لیے تھے۔ مئورخین اِس نتیجے پر پہنچے کہ روسی سلطنت کے حکمران، نواب اور جاگیردار جب حد سے زیادہ کرپٹ ہوگئے،عوام سے اُن کا تعلق ٹوٹ گیا،جب ظلم حد سے تجاوز کرگیا تو اُن کی قوتِ عمل مفلوج ہوگئی،وہ سب مستقبل سے مایوس ہوگئے تھے۔چنانچہ کسی وہ مسیحا کی تلاش میں نکلے تاکہ شاہی مستقبل محفوظ بنایاجاسکے، پھر اُنہیں راسپوٹین ملا جس نے پوری طرح اُن کی نفسی کمزوریوں کو ایکسپلائٹ کیا اور ایک روز پوری روسی سلطنت ہی ڈوب گئی۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مَیں نے بیک وقت دو کتابیں پڑھی ہیں جو بتاتی ہیں کہ حکمران آخرکیونکر اور کیوں پِیروں کی گرفت میں جکڑے جاتے ہیں۔اِن کتابوں میں سے ایک کانام ہے:''نظامی بنسری'' اور دوسری کا نام ہے:فوائدالفواد''۔ دونوں تصنیفات مجھے برادرم مدثر حسن قاسمی صاحب(جو بلند درجہ صوفی اورادیب جعفرقاسمی مرحوم کے فرزند ارجمند اور چنیوٹ کالج میں عربی زبان کے استاد ہیں)نے بطور ارمغان بھیجی ہیں۔اوّل الذکر کے مصنف ہردیو (احمد ایاز) اور ثانی الذکر کے لکھنے والے کا نام ہے :خواجہ حسن علاء سنجری۔دونوں حضرات دہلی کے مشہورترین بزرگ اور صوفی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے مرید ہیں۔یہ کتابیں تقریباً سات سو برس قبل فارسی زبان میں لکھی گئیں۔دونوں کا ترجمہ اردو کلاسیکی ادب کے معروف ادیب خواجہ حسن نظامی صاحب علیہ رحمہ نے کیا ہے۔
خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے سات آٹھ بادشاہوں کا دَور دیکھا لیکن آپؒ کسی بادشاہ کے دربار میں کبھی حاضر نہ ہوئے۔ دوبادشاہوں نے آپ کو زبردستی دربار میں بلانے اور اپنے سامنے آپؒ کا سرجھکانے کی مذموم کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔راقم نے حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی ذاتِ بابرکات اور اُن کے زمانے کے بادشاہوں کے مختلف النوع کرداروں کا ممکنہ مطالعہ کیا ہے۔نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ بادشاہ تبھی حضرتؒ کی طرف رجوع کرتے،اُن سے دعائوں کے طالب ہوتے جب دشمن کے مقابلے میں اُن کی شکست واضح طور پر نظر آنا شروع ہوجاتی،جب وہ اپنی رعایا اور عوام کااعتماد کھوچکے ہوتے۔یہ واقعہ ہے کہ ازمنٔہ قدیم کے بادشاہ ہوں یا آج کے منتخب صدور یا وزرائے اعظم،یہ لوگ ہمیشہ واصلانِ حق کی بابرکت دعائوں کے محتاج رہے ہیں۔یہ احتیاج اُس وقت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں،جب حکمران اپنے ووٹروں کے مصائب ومسائل سے لاتعلق ہوجاتے ہیں اور جب ایوانِ صدر یا ایوانِ وزیراعظم ہائوس میں لایعنی افراد کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
ہم دعاگو ہیں کہ آج سے ٹھیک سات روز بعد جناب آصف علی زرداری کے ایوانِ صدر سے نکل جانے کے بعد جو صاحب اِس سفید محل کے نئے مکین بننے والے ہیں، اُن کی معیت وسنگت میں کوئی ایسا پِیرنہ ہو جو ہمیں چند روز قبل ایوانِ صدر میں نظر آیا اور ہماری سِٹّی گم ہوگئی۔ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ اسلام آباد کے ایوانِ صدر سے تھوڑے سے فاصلے پر واقع پرائم منسٹر ہائوس بھی ایسے پیر صاحب سے محفوظ ومامون رہے تاکہ ہمارے وزیرِاعظم اور عوام کے درمیان کوئی دیوار حائل نہ ہوسکے۔