عمران خان کا امتحان
جنرل الیکشن کے بعد ضمنی الیکشن بھی اختتام پذیر ہو چکے ہیں۔ ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو اگر...
جنرل الیکشن کے بعد ضمنی الیکشن بھی اختتام پذیر ہو چکے ہیں۔ ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو اگر مسلم لیگ ن کے ہاتھوں پنجاب میں قومی اسمبلی کی ایک نشست، میانوالی این اے 71 سے محروم ہونا پڑا ہے تو یہ حساب اس نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی دو صوبائی نشستیں، پی پی 243 ڈیرہ غازی خان اور پی پی 247 راجن پور جیت کر چکا دیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے پنجاب میں اگر عمران خان کی خالی کردہ نشست پر قبضہ جما لیا ہے تو تحریک انصاف نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی خالی کردہ نشست چھین لی ہے۔ خیبر پختون خوا میں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف اگر قومی اسمبلی کی ایک نشست، این اے 1 پشاور ہار گئی ہے، تو این اے 13 صوابی اور این اے 27 نوشہرہ کی دو نشستو ں پر قریب قریب کامیاب ہو چکی ہے؛ کیونکہ خواتین کے چند ایک پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ سے نتائج میں تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔
یہاں بھی اگر عمران خان کی خالی کردہ نشست اے این پی کے غلام احمد بلور لے اڑے ہیں، تو جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمان کی خالی کردہ نشست، تحریک انصاف نے اچک لی ہے۔ مزید یہ کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف، صوبائی اسمبلی کی 2 نشستوں پر جن 2 آزاد امیدواروں کی حمایت کر رہی تھی، وہ جیت چکے ہیں۔ اس کے برعکس، پنجاب میں مسلم لیگ ن این اے 177مظفر گڑھ اور پی پی 193 اوکاڑہ میں جن 2 آزاد امیدواروں کی حمایت کر رہی تھی، وہ ہار چکے ہیں۔ یوں، پنجاب اور خیبر پختون خوا، دونوں صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کی عددی طاقت بڑھ گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی تحریک انصاف کو عددی طور پر نقصان نہیں ہو ا ہے۔ 2 جیتی ہوئی نشستیں اگر ہار گئی ہے، تو 2 ہاری ہوئی نشستیں جیت گئی ہے۔ تحریک انصاف کے مخالف عناصر کی طرف سے یہ جو تاثر دیا جا رہا ہے کہ ضمنی الیکشن میں اس کو بہت بڑا سیٹ بیک ہوا ہے، حقیقتاً اس میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی ہے۔
ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو بلکہ ایک اور سیاسی فائدہ بھی ہوا ہے، اور یہ سیاسی فائدہ ضمنی الیکشن میں اس کی انتخابی کامیابی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ تحریک انصاف کی حریف مسلم لیگ ن کا دعویٰ جو بھی ہو، لیکن ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن عملاً صرف پنجاب میں نظر آ رہی تھی۔ اس کے برعکس تحریک انصاف، پنجاب، خیبر پختون خوا اور سندھ میں بیک وقت بروئے کار تھی؛ پنجاب میں مسلم لیگ ن سے نبرد آزما تھی، خیبر پختون خوا میں اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام کو للکار رہی تھی، اور کراچی میں ایم کیوایم کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑی تھی۔ یہ صورت حال اس امر کی غماز ہے کہ مسلم لیگ ن کے برعکس تحریک انصاف کی جڑیں پنجاب سے باہر دوسرے صوبوں میں برابر پھیل رہی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پیپلز پارٹی نعرہ لگایا کرتی تھی، ''چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر''۔ یہ نعرہ خلاف حقیقت نہیں تھا۔ بے نظیر بھٹو کو واقعتاً چاروں صوبوں میں پذیرائی حاصل تھی۔ لیکن ضمنی الیکشن کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے بعد اب یہ عمران خان ہیں، جن کو چاروں صوبوں میں پذیرائی مل رہی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
جنرل الیکشن سے ضمنی الیکشن تک، عمران خان نے کئی سیاسی تجربات کیے ہیں۔ کہتے ہیں، تجربہ، تجربہ ہوتا ہے، کامیاب بھی ہوتا ہے اور ناکام بھی ہوتا ہے۔ لیکن کامیاب حکمت کار وہی ہوتا ہے، جو اپنے ناکام تجربات سے سیکھتا ہے اور ان کو دہراتا نہیں ہے۔ 11 مئی 2013 ء کو تحریک انصاف کو جو انتخابی کامیابی ملی ہے، حقیقتاً یہ اس انتخابی کامیابی سے کم، بہت کم ہے، جو ایک بہتر انتخابی حکمت عملی سے حاصل کی جا سکتی تھی۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ اولاً، عمران خان کو اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ الیکشن سے پہلے ''انٹرا پارٹی الیکشن'' کا ایک طویل عمل شروع کرنے کا ان کا فیصلہ عاقبت نا اندیشانہ تھا۔
ثانیاً، ''موروثی سیاست'' کے خلاف عمران خان کا موقف برحق، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر ان کا ایک چچا زاد بھائی پچھلے 16 سال سے برابر ان کا بے لوث ساتھ دے رہا ہے، یا دوسرا چچا زاد بھائی اسمبلی رکنیت کو ٹھوکر مار کر مردانہ وار ان کے شانہ بہ شانہ آٓ کھڑا ہوتا ہے، اور پھر دونوں بھائی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ان کا بھر پور دفاع کرتے ہیں، تو صرف اس لیے پارٹی میں ان کو پیچھے دھکیل دیا جائے کہ وہ ان کے رشتہ دار ہیں۔ عمران خان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ'' رشتہ دار'' ہونے سے پارٹی میں اگر کوئی اہل نہیں ہو جاتا، تو نااہل بھی نہیں ہو جاتا ہے۔ ثالثاً، خیبر پختون خوا میں عمران خان جماعت اسلامی اور آفتاب شیر پاو گروپ کے اشتراک سے مخلوط حکومت بنا چکے ہیں۔ متعدد مرتبہ اس امر کی طرف اشارہ کر چکا ہوں کہ صوبہ میں حکومت اور وفاق میں اپوزیشن؛ یہ وہی صورت حال ہے جس کو بنیاد بنا کے تحریک انصاف گزشتہ دور میں مسلم لیگ ن کو ہدف تنقید بناتی رہی ہے۔
تحریک انصاف کے لیے بہتر یہ تھا کہ جب تک خیبر پختون خوا میں حکومت سازی کے لیے واضح اکثریت نہیں ملتی، حکومت نہ بناتی۔ خیبر پختون خوا تحریک انصاف نے لیکن مان کر نہ دیا۔ بہرحال، خیبر پختون خوا میں وفاقی حکومت کی بھر پور سرپرستی کے بغیر، جس کا کوئی امکان نہیں، تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کوئی چمتکار نہیں دکھا سکتی ہے۔ آثار یہی ہیں کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت میں کشمکش کا حال یہ ہو گا کہ عمران خان کو خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے کے فیصلہ پر نظر ثانی کر نا پڑے گی۔ ان کے ایک حالیہ بیان میں اس امر کا اشارہ موجود ہے کہ اگر خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت نہ چلنے دی گئی، تو وہ صوبائی حکومت چھوڑ دیں گے۔ یہ مرحلہ کب آتا ہے، آتا بھی ہے یا نہیں، یہ عمران خان جانتے ہیں یا تحریک انصاف، لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جب تک تحریک انصاف، خیبر پختون خوا میں حکومت کر رہی ہے، اس کو حقیقی اپوزیشن کا مرتبہ و مقام نہیں مل سکے گا۔ فرینڈلی اپوزیشن کا وہی الزام، جو مسلم لیگ ن پر لگایا جاتا تھا، اب تحریک انصاف کے خلاف دہرایا جائے گا۔
رابعاً، جنرل الیکشن سے ضمنی الیکشن تک، تحریک انصاف کی انتخابی حکمت عملی تنہا پرواز کی رہی ہے۔ یہ انتخابی حکمت عملی ناکام ثابت ہو گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کے دائیں بائیں تشریف فرما بعض راہنماوں کو اندیشہ ہے کہ ''اتحادی سیاست'' کے بعد عمران خان کے دائیں بائیں یہ جگہ خالی نہیں رہے گی، نتیجتاً وہ پس منظر میں چلے جائیں گے۔ گاہے، خود عمران خان کے اندر بھی اس طرح کا خوف جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً، سال رواں کے آغاز میں شاہراہ دستور پر عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنا میں علامتی شرکت سے بھی اجتناب کیا تھا۔ دو بار کہہ چکے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن اور الیکشن کمیشن سے متعلق جو کہا تھا، سچ کہا تھا، لیکن ابھی تک ڈاکٹر طاہر القادری سے براہ راست ملاقات سے گریزاں ہیں۔ اگر عمران خان واقعتاً اپوزیشن کی بامعنی سیاست کرنا چاہتے ہیں، تو انھیں تنہا پرواز کی حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی۔ خامساً، اس میں شک نہیں کہ عمران خان کا شخصی ووٹ بینک بہت زیادہ ہے، لیکن اس کے باوجود عمران خان کو مناسب امیدواروں اور بھرپور انتخابی مہم سے مستغنی نہیں ہو جانا چاہیے۔
ضمنی الیکشن کا ایک پیغام تو یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاسی اور انتخابی طاقت بدستور قائم ہے۔ ایک جگہ سے اگر اس کو تھوڑا بہت نقصان پہنچا ہے، تو دوسری جگہ سے اس کی تلافی ہو گئی ہے؛ لیکن ضمنی الیکشن کا ایک دوسرا پیغام یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف اگر غلط سیاسی فیصلے کریں گے، یا لاپرواہی کے مرتکب ہوں گے تو ان کے اثرات ِ بد سے نہیں بچ سکیں گے۔ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ان کا وہائٹ پیپر آ چکا ہے۔ یہ معاملہ بھی ان کو کسی انجام تک پہنچانا ہے، جو آسان نظر نہیں آتا ہے۔ سپریم کورٹ ان کے خلاف توہین عدالت کا از خود نوٹس، از خود واپس لے چکی ہے، جو یقیناً ان کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ لیکن آگے بلدیاتی الیکشن آ رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں عمران خان اپنے انتخابی تجربات سے کس حد تک فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ایک بات بہرحال عمران خان کو پلے باندھ لینا چاہیے کہ اگر بلدیاتی الیکشن بھی تحریک انصاف نے اسی طرح لڑا، جس طرح 11 مئی اور 22 اگست کے الیکشن لڑے ہیں، تو آیندہ عام انتخابات میں اس کی انتخابی مشکلات میں مزید کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔
یہاں بھی اگر عمران خان کی خالی کردہ نشست اے این پی کے غلام احمد بلور لے اڑے ہیں، تو جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمان کی خالی کردہ نشست، تحریک انصاف نے اچک لی ہے۔ مزید یہ کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف، صوبائی اسمبلی کی 2 نشستوں پر جن 2 آزاد امیدواروں کی حمایت کر رہی تھی، وہ جیت چکے ہیں۔ اس کے برعکس، پنجاب میں مسلم لیگ ن این اے 177مظفر گڑھ اور پی پی 193 اوکاڑہ میں جن 2 آزاد امیدواروں کی حمایت کر رہی تھی، وہ ہار چکے ہیں۔ یوں، پنجاب اور خیبر پختون خوا، دونوں صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کی عددی طاقت بڑھ گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی تحریک انصاف کو عددی طور پر نقصان نہیں ہو ا ہے۔ 2 جیتی ہوئی نشستیں اگر ہار گئی ہے، تو 2 ہاری ہوئی نشستیں جیت گئی ہے۔ تحریک انصاف کے مخالف عناصر کی طرف سے یہ جو تاثر دیا جا رہا ہے کہ ضمنی الیکشن میں اس کو بہت بڑا سیٹ بیک ہوا ہے، حقیقتاً اس میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی ہے۔
ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو بلکہ ایک اور سیاسی فائدہ بھی ہوا ہے، اور یہ سیاسی فائدہ ضمنی الیکشن میں اس کی انتخابی کامیابی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ تحریک انصاف کی حریف مسلم لیگ ن کا دعویٰ جو بھی ہو، لیکن ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن عملاً صرف پنجاب میں نظر آ رہی تھی۔ اس کے برعکس تحریک انصاف، پنجاب، خیبر پختون خوا اور سندھ میں بیک وقت بروئے کار تھی؛ پنجاب میں مسلم لیگ ن سے نبرد آزما تھی، خیبر پختون خوا میں اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام کو للکار رہی تھی، اور کراچی میں ایم کیوایم کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑی تھی۔ یہ صورت حال اس امر کی غماز ہے کہ مسلم لیگ ن کے برعکس تحریک انصاف کی جڑیں پنجاب سے باہر دوسرے صوبوں میں برابر پھیل رہی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پیپلز پارٹی نعرہ لگایا کرتی تھی، ''چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر''۔ یہ نعرہ خلاف حقیقت نہیں تھا۔ بے نظیر بھٹو کو واقعتاً چاروں صوبوں میں پذیرائی حاصل تھی۔ لیکن ضمنی الیکشن کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے بعد اب یہ عمران خان ہیں، جن کو چاروں صوبوں میں پذیرائی مل رہی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
جنرل الیکشن سے ضمنی الیکشن تک، عمران خان نے کئی سیاسی تجربات کیے ہیں۔ کہتے ہیں، تجربہ، تجربہ ہوتا ہے، کامیاب بھی ہوتا ہے اور ناکام بھی ہوتا ہے۔ لیکن کامیاب حکمت کار وہی ہوتا ہے، جو اپنے ناکام تجربات سے سیکھتا ہے اور ان کو دہراتا نہیں ہے۔ 11 مئی 2013 ء کو تحریک انصاف کو جو انتخابی کامیابی ملی ہے، حقیقتاً یہ اس انتخابی کامیابی سے کم، بہت کم ہے، جو ایک بہتر انتخابی حکمت عملی سے حاصل کی جا سکتی تھی۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ اولاً، عمران خان کو اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ الیکشن سے پہلے ''انٹرا پارٹی الیکشن'' کا ایک طویل عمل شروع کرنے کا ان کا فیصلہ عاقبت نا اندیشانہ تھا۔
ثانیاً، ''موروثی سیاست'' کے خلاف عمران خان کا موقف برحق، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر ان کا ایک چچا زاد بھائی پچھلے 16 سال سے برابر ان کا بے لوث ساتھ دے رہا ہے، یا دوسرا چچا زاد بھائی اسمبلی رکنیت کو ٹھوکر مار کر مردانہ وار ان کے شانہ بہ شانہ آٓ کھڑا ہوتا ہے، اور پھر دونوں بھائی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ان کا بھر پور دفاع کرتے ہیں، تو صرف اس لیے پارٹی میں ان کو پیچھے دھکیل دیا جائے کہ وہ ان کے رشتہ دار ہیں۔ عمران خان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ'' رشتہ دار'' ہونے سے پارٹی میں اگر کوئی اہل نہیں ہو جاتا، تو نااہل بھی نہیں ہو جاتا ہے۔ ثالثاً، خیبر پختون خوا میں عمران خان جماعت اسلامی اور آفتاب شیر پاو گروپ کے اشتراک سے مخلوط حکومت بنا چکے ہیں۔ متعدد مرتبہ اس امر کی طرف اشارہ کر چکا ہوں کہ صوبہ میں حکومت اور وفاق میں اپوزیشن؛ یہ وہی صورت حال ہے جس کو بنیاد بنا کے تحریک انصاف گزشتہ دور میں مسلم لیگ ن کو ہدف تنقید بناتی رہی ہے۔
تحریک انصاف کے لیے بہتر یہ تھا کہ جب تک خیبر پختون خوا میں حکومت سازی کے لیے واضح اکثریت نہیں ملتی، حکومت نہ بناتی۔ خیبر پختون خوا تحریک انصاف نے لیکن مان کر نہ دیا۔ بہرحال، خیبر پختون خوا میں وفاقی حکومت کی بھر پور سرپرستی کے بغیر، جس کا کوئی امکان نہیں، تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کوئی چمتکار نہیں دکھا سکتی ہے۔ آثار یہی ہیں کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت میں کشمکش کا حال یہ ہو گا کہ عمران خان کو خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے کے فیصلہ پر نظر ثانی کر نا پڑے گی۔ ان کے ایک حالیہ بیان میں اس امر کا اشارہ موجود ہے کہ اگر خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت نہ چلنے دی گئی، تو وہ صوبائی حکومت چھوڑ دیں گے۔ یہ مرحلہ کب آتا ہے، آتا بھی ہے یا نہیں، یہ عمران خان جانتے ہیں یا تحریک انصاف، لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جب تک تحریک انصاف، خیبر پختون خوا میں حکومت کر رہی ہے، اس کو حقیقی اپوزیشن کا مرتبہ و مقام نہیں مل سکے گا۔ فرینڈلی اپوزیشن کا وہی الزام، جو مسلم لیگ ن پر لگایا جاتا تھا، اب تحریک انصاف کے خلاف دہرایا جائے گا۔
رابعاً، جنرل الیکشن سے ضمنی الیکشن تک، تحریک انصاف کی انتخابی حکمت عملی تنہا پرواز کی رہی ہے۔ یہ انتخابی حکمت عملی ناکام ثابت ہو گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کے دائیں بائیں تشریف فرما بعض راہنماوں کو اندیشہ ہے کہ ''اتحادی سیاست'' کے بعد عمران خان کے دائیں بائیں یہ جگہ خالی نہیں رہے گی، نتیجتاً وہ پس منظر میں چلے جائیں گے۔ گاہے، خود عمران خان کے اندر بھی اس طرح کا خوف جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً، سال رواں کے آغاز میں شاہراہ دستور پر عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنا میں علامتی شرکت سے بھی اجتناب کیا تھا۔ دو بار کہہ چکے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن اور الیکشن کمیشن سے متعلق جو کہا تھا، سچ کہا تھا، لیکن ابھی تک ڈاکٹر طاہر القادری سے براہ راست ملاقات سے گریزاں ہیں۔ اگر عمران خان واقعتاً اپوزیشن کی بامعنی سیاست کرنا چاہتے ہیں، تو انھیں تنہا پرواز کی حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی۔ خامساً، اس میں شک نہیں کہ عمران خان کا شخصی ووٹ بینک بہت زیادہ ہے، لیکن اس کے باوجود عمران خان کو مناسب امیدواروں اور بھرپور انتخابی مہم سے مستغنی نہیں ہو جانا چاہیے۔
ضمنی الیکشن کا ایک پیغام تو یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاسی اور انتخابی طاقت بدستور قائم ہے۔ ایک جگہ سے اگر اس کو تھوڑا بہت نقصان پہنچا ہے، تو دوسری جگہ سے اس کی تلافی ہو گئی ہے؛ لیکن ضمنی الیکشن کا ایک دوسرا پیغام یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف اگر غلط سیاسی فیصلے کریں گے، یا لاپرواہی کے مرتکب ہوں گے تو ان کے اثرات ِ بد سے نہیں بچ سکیں گے۔ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ان کا وہائٹ پیپر آ چکا ہے۔ یہ معاملہ بھی ان کو کسی انجام تک پہنچانا ہے، جو آسان نظر نہیں آتا ہے۔ سپریم کورٹ ان کے خلاف توہین عدالت کا از خود نوٹس، از خود واپس لے چکی ہے، جو یقیناً ان کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ لیکن آگے بلدیاتی الیکشن آ رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں عمران خان اپنے انتخابی تجربات سے کس حد تک فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ایک بات بہرحال عمران خان کو پلے باندھ لینا چاہیے کہ اگر بلدیاتی الیکشن بھی تحریک انصاف نے اسی طرح لڑا، جس طرح 11 مئی اور 22 اگست کے الیکشن لڑے ہیں، تو آیندہ عام انتخابات میں اس کی انتخابی مشکلات میں مزید کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔