تعلیمی نظام یا پرچون کی دکان

اقتدار میں آکر ہمارے وہ سیاست دان جو اپوزیشن میں ہوکر ہر وقت قوم اور قوم کے ہر فرد کے لیے صحافیوں کے سامنے سراپا۔۔۔


احمد خان September 01, 2013

اقتدار میں آکر ہمارے وہ سیاست دان جو اپوزیشن میں ہوکر ہر وقت قوم اور قوم کے ہر فرد کے لیے صحافیوں کے سامنے سراپا ''درد دل'' بنے رہتے ہیں لیکن ذاتی خوبی قسمت اور عوام کی شومئی قسمت کہ جب یہی سیاست دان اقتدار میں آتے ہیں اپنے ہی قوم اور اپنے ہی شہریوں کے لیے ''فاتح اور مفتوح'' کا روپ دھار کر تلواریں سونت ان کی گردنیں کاٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ مشرف کے ضلعی نظام کی سب سے بڑی خرابی جو اس نظام کی بدنامی کا باعث بنی وہ ضلع، ٹائون اور یونین کونسل ناظمین کی سرکاری امور میں حد درجہ مداخلت، بے جا سفارش اور میرٹ کی ہر معاملے میں پامالی تھی۔ ضلعی سطح پر عام ملازمین تو کجا ڈی سی اوز اور ڈی پی اوز سطح کے افسران مکمل طور پر ان ناظمین کے سراسر ناجائز امور کی بجا آوری پر مجبور تھے۔ اب مشرف کی سیاسی مخالف جماعت مسلم لیگ ن برسراقتدار ہے۔

عوام کی اکثریت ن لیگ سے یہ توقعات وابستہ کیے ہوئے تھی کہ جہاں قانون کا بول بالا ہوگا وہیں مشرف کی روشن خیالی سے سرکاری اور معاشرتی نظام میں در آنے والی پالیسیوں کا خاتمہ بھی کردیا جائے گا۔ مشرف دور میں روشن خیالی کی آڑ میں مشرقی اقدار کے حامل معاشرے پر کیا کیا وار کیے گئے، اس کے لیے کالم نہیں ایک ''دبستان'' درکار ہے۔ خاص طور پر بیرونی آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سرکاری بوائز اسکولوں میں خواتین اساتذہ کی بھرتی کے سلسلے نے جہاں سرکاری اسکولوں میں اخلاقیات کا جنازہ نکالا وہیں خواتین اساتذہ کی بوائز اسکولوں میں تعیناتی سے طلبا کی تعلیمی حالت پر بھی منفی اثرات پڑے۔

مغربی ممالک کی غلامی اور مغربی معاشرے کے اسیر مشرف نے تعلیمی ماحول میں جو بیج بویا، ن لیگ کے برسر اقتدار آنے کے بعد عوامی توقعات یہ تھیں کہ مشرف کے پھیلائے گئے ''شر'' کو ن لیگ کی حکومت ''صاف'' کرنے کی سعی کرے گی۔ مگر ہو کیا رہا ہے؟ مشرف دور میں نظام تعلیم میں جو بے سر و پا پالیسیاں اور خرابیاں دیدہ و دانستہ پیدا کی گئیں موجودہ حکمرانوں نے انھی پالیسیوں کو ''ہوا'' دینے کی راہ اپنا لی ہے۔ کبھی ری ایلوکیشن جیسی تعلیم دشمن پالیسی کے نفاذ کا اسکولوں میں حکومتی اور افسر شاہی سطح پر اعلان کیا جاتا ہے، کبھی تعلیم کو تباہ کرنے والے کسی اور ''دیمک'' کی شنید گردش کرنے لگتی ہے۔ اب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کے نام سے تعلیم کی ''قومی فصل'' تباہ ہو جائے گی۔

ملکی تاریخ میں یہ عجیب ترین واقعہ ہوگا کہ ہزاروں سرکاری اداروں کو پرائیوٹ لوگوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تعلیم، تعلیمی معاملات اور مسائل سے کامل بے بہرہ یہ ''باوا آدم'' قسم کے لوگ کس طرح سے اسکولوں کو چلائیں گے؟ اس سوال کا جواب صرف ''تباہی'' کے لفظ میں چھپا ہے۔ مشرف دور کے ضلعی نظام میں سرکاری نظام تعلیم کو جو ''چرکے'' لگائے گئے وہ اب تعلیمی نظام کے لیے ناسور بن چکے ہیں۔ اور اگرموجودہ حکمرانوں نے مکمل طور پر تعلیمی نظام کو چندلوگوںکے حوالے کردیا پھر پالیسی نہیں صرف ''مرضی'' چلا کرے گی۔ ترقی، تنزلی، تبادلے، تدریس غرض تعلیم سے منسلک ہر عمل اور ہر قاعدہ صرف سفارش کے بل پر منزل کی جانب قدم اٹھائے گا۔ جب تعلیمی نظام میں مکمل طور پر سیاست، سفارت، سفارش، رشوت اور من مرضی کی پالیسیاں لاگو ہوجائیں تو اس کے بعد قوم کی ہتھیلی پر کیا رہ پائے گا؟ تعلیمی نظام ... نہیں وہ پھرپرچون کی دکان کہلائے گی۔ جو ''تگڑا'' ہوگا، اس کے وارے نیارے ہوں گے اور غریب عوام کے بچے ''چھوٹو'' بن کر ہرایک کے ''تین حرف'' سہتے رہیں گے۔

مکرر عرض ہے کہ اگر محکمہ تعلیم میں ''تعلیم'' کا عَلم بلند کرنا ہے تو سرکار صرف اتنی کرم نوازی کرے کہ تمام اضلاع کے ای ڈی اوزایجوکیشن کا تقرر کامل میرٹ پر کرے اور پھر اپنے اپنے اضلاع میں ان ای ڈی اوز کو اپنی ''ٹیم'' بنانے کا مکمل اختیار اور آزادی دے۔ نتیجہ کیا نکلے گا، کچھ عرصے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں سرکار اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی۔ لیکن حکومت اس سیدھی سادی اور ہر لحاظ سے قابل عمل پالیسی پر عمل کرنے سے برابر کترا رہی ہے کہ کوچہ سیاست کے مکین ایم این اے، ایم پی اے کو پھرکس طرح سے راضی کیا جاسکے گا؟ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہر حکومت اور حکومتی اکابرین شعبہ تعلیم کے بل پر ہی اپنے اپنے علاقوں، شہروں اور حلقوں میں سیاسی دکانداری چمکاتے ہیں۔

سابق حکومت کے دور کا واقعہ ہے کہ ایک ضلع میں درجہ چہارم کے ملازمین کی بھرتی شروع ہوئی۔ بھرتی شروع ہوتے ہی اس ضلع کے تمام ایم این اے اور ایم پی اے متعلقہ ضلع کے ای ڈی اوکے پاس پہنچے اور حکم صادر کیا کہ درجہ چہارم کے ملازمین کی بھرتیاں ہماری مرضی سے ہوں گی۔ متعلقہ ضلع کے ای ڈی او نے مسکراتے ہوئے اس وقت کے تمام سیاسی نمایندوں کے حکم پر صدق دل سے آمین کہہ دیا۔جب اس ضلع کے ای ڈی او کے اس فیصلے کا علم ہمیں ہوا تو ہم نے فون کرکے ان سے اس فیصلے پر حیرانی کا اظہار کیا۔ انھوں نے فرمایا! ''عزیزی، تیل دیکھیںاور تیل کی دھار دیکھیں۔'' واقعی سیاست دانوں کی آپس کی ''سیاسی کشتی'' کئی ماہ تک جاری اور درجہ چہارم کے ملازمت کے خواہش مند اپنا سا منہ لے کر کھڑے رہے۔ جو سیاست دان چند درجہ چہارم کے ملازمین کی تقرری کرنے میں ناکام رہے، کیا وہ تعلیم جیسے اہم اور حساس قومی شعبے کو کامیابی سے چلا پائیں گے؟ منصف آپ سو فیصلہ بھی آپ کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں