ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی
11مئی کے عام انتخابات میں حکمران پیپلزپارٹی کو اپنے صدر مملکت کی موجودگی کے باوجود سندھ کے سوا دیگر۔۔۔
11مئی کے عام انتخابات میں حکمران پیپلزپارٹی کو اپنے صدر مملکت کی موجودگی کے باوجود سندھ کے سوا دیگر تینوں صوبوں میں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا اور حیرت انگیز طور پر پی پی کو سندھ سے قومی اور صوبائی نشستوں پر سب سے زیادہ نشستیں ملی تھیں۔ جس کی بنیاد پر صرف سندھ میں پی پی نے دوبارہ اپنی حکومت بنائی جس کا وزیراعلیٰ بھی قائم علی شاہ کو تیسری بار بنایا گیا۔ 22 اگست کے ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کو سندھ سے قومی اسمبلی کی دو اور پنجاب سے ایک نشست، صوبائی اسمبلیوں میں پیپلزپارٹی کو پنجاب سے دو اور سندھ سے ایک نشست ملی ہے جس پر سابق وزیراعظم گیلانی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور پی پی رہنما بہت خوش ہیں اور ان کا کہناہے کہ عوام ڈھائی تین ماہ ہی میں مسلم لیگ ن کی حکومت سے بیزار ہوکر پیپلزپارٹی کی طرف واپس آرہے ہیں جو پارٹی کی بڑی کامیابی ہے اور ن لیگ مختصر مدت میں ہی اپنی مقبولیت کھونے لگی ہے اور ملک کے عوام دوبارہ پیپلزپارٹی کی طرف مائل ہونے لگے ہیں۔
پی پی رہنمائوں کی خوش فہمی کسی حد تک درست کہی جاسکتی ہے کیونکہ ن لیگ نے عام انتخابات میں جو وعدے عوام سے کیے تھے وہ پور ے نہیں کیے گئے۔ ملک کے عوام پی پی حکومت سے لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور کرپشن پر بیزار ہوگئے تھے اور پی پی کو مسترد کرکے پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں مسلم لیگ ن، تحریک انصاف پر اعتماد کر بیٹھے تھے۔ عوام نے پی پی کی اتحادی دو اہم جماعتوں مسلم لیگ ق اور اے این پی کو مسترد کردیا تھا جب کہ کے پی کے اور بلوچستان میں جے یو آئی اپنی عزت بچانے میں کامیاب رہی تھی۔ جب کہ سندھ کے شہری علاقوں سے متحدہ کافی حد تک اپنی نشستوں کے دفاع میں کامیاب رہی مگر اس کے ووٹ کم ہوئے اور تحریک انصاف نے متحدہ کے علاقوں سے سوا چھ لاکھ ووٹ لے کر عوام کو حیران کیا اور قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں کراچی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی۔ پی پی صرف لیاری میں اپنی نشستیں بچاسکی اور مسلم لیگ ن بھی ایک مدت کے بعد کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کرسکی اور جماعت اسلامی بائیکاٹ کی عادت پر برقرار رہی۔
11مئی کے مقابلے میں 22 اگست کو پیپلزپارٹی کو ضمنی انتخاب زیادہ راس آیا اور مسلم لیگ ن کی حکومت کی مایوسانہ کارکردگی نے پی پی کو دوبارہ سنبھلنے کا موقع ضرور فراہم کیا ہے مگر اس کی وجہ پی پی کی عوام میں مقبولیت نہیں بلکہ کچھ اور وجوہات ہیں جس میں ن لیگ کی حکومت کی ناقص کارکردگی اور لیگی قیادت کے غلط فیصلے بھی شامل ہیں۔ ن لیگ اور تحریک انصاف کی اہم نشستوں پر شکست کو چھوڑ کر فی الحال پیپلزپارٹی کی ضمنی انتخابات پر بات کی جائے تو یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ پی پی نے سندھ میں ٹھٹھہ کی اپنی آبائی نشست برقرار رکھی ہے جہاں 11 مئی کو منتخب ہوکر پی پی کا کامیاب امیدوار صادق میمن نااہل ہوگیا تھا، جن کی والدہ اپنے بیٹے کی نشست پر کامیاب ہوئیں اور یہ نشست بھی شیرازی گروپ کے پاس نہیں رہی اور اس بار صوبائی وزیر اویس مظفر اور سندھ حکومت کے ذمے داروں نے شکست سے محفوظ رہنے کے لیے حلقہ کی تمام اہم برادریوں کو سرکاری اثر و رسوخ سے پیپلزپارٹی میں شامل کروادیا اور شیرازی گروپ کے اہم رہنما کو بھی الیکشن سے قبل گرفتار کراکر سیاسی صورتحال پی پی کے حق میں بہتر بنالی تھی۔ اس طرح پی پی اپنی نشست کے دفاع میں کامیاب رہی اور شیرازی گروپ ن لیگ میں آکر بھی کچھ نہ کرسکا، جو ضلع میں ایک مضبوط سیاسی قوت ہے۔
پیپلزپارٹی کو سانگھڑ ضلع میں جو کامیابی پہلی بار ملی ہے اس کا کریڈٹ پی پی کے بجائے خود نو منتخب رکن قومی اسمبلی شازیہ عطا مری کو جاتاہے جو نہ صرف صوبائی وزیر رہیں بلکہ ان کے والد عطا محمد مری مرحوم ضلع سانگھڑ کی اہم سیاسی قوت رہے ہیں۔ ضلع کی نشست این اے 237 پیر پگارا کی فنکشنل لیگ کے پاس ایک عرصے سے رہی ہے جو 11 مئی کو پیر علی گوہر شاہ نے خالی کی تھی جو اب وفاقی وزیر ہیں۔ فنکشنل لیگ نے اس بار ٹکٹ ایک غیر معروف اور نئے امیدوار کو دیا تھا جس پر ایک گروپ ناراض تھا جو فنکشنل لیگ کی شکست کا سبب بنا اور پیروں نے خود انتخابی مہم میں حصہ لیا نہ توجہ دی۔ جب کہ شازیہ مری نے اس علاقے میں بہت ترقیاتی کام کرائے تھے اور عوام سے قریبی رابطہ رکھا تھا۔ علاقے کے ووٹروں نے پیپلزپارٹی پر نہیں بلکہ شازیہ مری کی ذاتی شخصیت پر اعتماد کرکے انھیں کامیاب کرایا جو فنکشنل لیگ کی سیاست کو اہم دھچکا ہے۔ پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی کی تیسری نشست مظفر گڑھ پنجاب سے زبردست مقابلے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ جو آزاد رکن جمشید دستی نے خالی کی تھی اور اپنے آبائی حلقہ خانگڑھ، شاہ جمال کی وہ نشست برقرار رکھی تھی جہاں وہ نوابزادوں کو ایک نہیں تین بار شکست دے چکے تھے۔
سندھ میں ضلع شکارپور کے حلقے پی ایس 12خان پور اور جاگن کی نشست بھی چند ہزار ووٹوں کے فرق سے حاصل کی ہے جہاں 11 مئی کو این پی پی کے ڈاکٹر ابراہیم جتوئی پی پی کے آفتاب میرانی کو شکست دے کر منتخب ہوئے تھے مگر صوبائی نشست پر ان کے چھوٹے بھائی میر عابد جتوئی پی پی کے امیدوار میر بابل خان بھیو سے ہارگئے تھے۔ ضلع رحیم یار خان کی صوبائی نشست پی پی 291 پر سابق گورنر پنجاب احمد محمود کے صاحبزادے نے قومی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھ کر چھوڑی تھی جو احمد محمود کی آبائی نشست ہے جس پر کبھی پی پی کامیاب نہیں ہوئی اور احمد محمود گروپ ہی یہاں سے ماضی میں کامیاب ہوتا رہا ہے اور وہ جس پارٹی میں جائیںگے ان کی یہ نشست ان ہی کے پاس رہی ہے اور احمد محمود گورنر بننے کے لیے پی پی میں شامل ہوگئے تھے۔ یہ نشست 11 مئی کو بھی ان کے صاحبزادے نے جیتی تھی اور 22 اگست کو بھی انھوں نے ہی حاصل کرلی ہے۔ یہاں پی پی ماضی میں احمد محمود گروپ کے مقابلے میں ہارتی رہی ہے۔ احمد محمود کے صاحبزادے کی کامیابی کو پیپلزپارٹی کی کامیابی اس حد تک کہا جاسکتا ہے کہ احمد محمود فنکشنل لیگ چھوڑ کر پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔
پی پی 193 ضلع اوکاڑہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار خرم وٹو کامیاب ہوئے ہیں جو پنجاب کے سابق اسپیکر کے صاحبزادے ہیں اور یہ حلقہ منظور وٹو کا آبائی حلقہ ہے جہاں وٹو برادری کے تین امیدواروں میں مقابلہ تھا جہاں ن لیگ کا امیدوار نورالامین 6ہزار ووٹوں سے ہار گیا ہے۔ اس حلقے سے منظور وٹو کامیاب ہوتے رہے ہیں جو وزیراعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں انھوںنے اپنے حلقے میں کافی ترقیاتی کام کرائے جو 11مئی کو پی پی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے تھے۔ اس نشست کے حصول کے لیے منظور وٹو نے بڑی محنت کی اور بھرپور انتخابی مہم چلاکر کامیابی حاصل کی جب کہ ماضی میں وہ یہاں سے متعدد بار ہار بھی چکے ہیں اور ضلع میں ایک با اثر سیاست دان کے طورپر سیاسی میدان میں رہے ہیں۔
22 اگست کے ضمنی انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی سمیت تمام پارٹیوں کو انتخابی ٹکٹ دیے جو پہلے بھی منتخب ہوتے رہے ہیں اور دوبارہ انتخاب لڑنے کے اخراجات برداشت کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب امیدواروں یا ان کے خاندانوں نے 11 مئی کا بھی انتخاب لڑا تھا اور یہ سب اتنی سیاسی اور مالی طاقت رکھتے ہیں کہ اگر کوئی نا اہل ہوجائے تب بھی وہ اپنے خاندان کے کسی فرد کو دوبارہ الیکشن لڑواسکتے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں بھی اکثر علاقوںمیں سیاسی پارٹیوں سے زیادہ شخصیت پرستی کامیاب ہوئی ہے کسی عام کارکن کو انتخابی ٹکٹ نہیں دیاگیا بلکہ انھیں نظر انداز کرکے صرف ان با اثر شخصیات اور خاندانوں کو ٹکٹ دیے گئے جو انتخاب لڑنے کی طاقت رکھتے تھے اور اسی لیے پیپلزپارٹی کے تمام امیدوار کامیاب رہے۔
پی پی کے پاس جہاں مضبوط امیدوار نہیں تھے وہاں خانہ پری کے لیے امیدوار نامزد کیے گئے جس کی وجہ سے سیالکوٹ حلقہ پی پی 123 پر پی پی کے امیدوار صرف 731 ووٹ اور کراچی میں پی ایس 95 پر پی پی کے امیدوار صرف دو ہزار ووٹ بھی حاصل نہ کرسکے جب کہ اس حلقے میں پی پی کے پاس معقول ووٹ بینک تھا۔