بس اتنا ہی
تم خود کو سمجھتے کیا ہو؟ تمھارے لیے انسانوں کے خون سے بڑھ کر اپنی شان و شوکت ہے۔کیا تمھیں انسانوں کا خون پیئے بغیر۔۔۔
تم خود کو سمجھتے کیا ہو؟ تمھارے لیے انسانوں کے خون سے بڑھ کر اپنی شان و شوکت ہے۔کیا تمھیں انسانوں کا خون پیئے بغیر سکون نہیں ملتا ۔ یہ پچھلی صدی کے سب سے بڑے قاتل تم ہی تو ہو جس نے ''ہیروشیما ''اور ''ناگاساکی '' میں اپنی خونی پیاس کو بجھایا تھا ۔ یہ تم ہی تو ہو جو کہیں اپنے مفادات کے لیے جمہوریت کی آڑ لے کر اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑتے ہو۔ یہ تم ہی تو ہو جو کہیں خطرناک اسلحہ کا ڈھنڈھورا پیٹ کر بغداد کی گلیوں کو خون میں نہلا دیتے ہو۔ یہ تم ہی تو ہو جو کمیونسٹوں کو خطرہ سمجھ کر ویت نام کے جنگلوں کو سرخ کر دیتے ہو۔
کیا وہ تم نہیں ،جس نے کوریا کے درمیان لکیر کھینچی ۔ کیا میں تمھارا نام نہ لوں جس نے میری زمین کو بارود سے بھر دیا ۔ جس نے میری مٹی کو میرے لہو سے ہی سرخ کر دیا ۔ کیا میں مان لوں کہ واقعی شام میں خطرناک گیس نے سیکڑوں لوگوں کی جان لے لی جب کہ میں جانتا ہوں کہ تم نے جب کہا جھوٹ کہا۔ کون نہیں جانتا کہ شام میں باغیوں کو کس نے تیار کیا اور کس کس ملک سے لوگوں کو یہاں بھیجا ۔ کون نہیں جانتا کہ اُن سب کو پیسہ کس نے دیا ۔ ہاں مار دو ۔ تباہ کر دو شام کو ۔ کیوں تمھاری پیاس تو اُسی سے بجھے گی۔
مت مانو کہ اقوام متحدہ کیا کہتی ہے ۔ مت سوچو کہ روس نے کیا کہا ہے ۔ مگرکیا کریں ہم بھی تو بکھرے ہوئے ہیں ۔ یہ جھوٹ تو بالکل بھی نہیں کہ بعض عرب ملک امریکا کے ساتھ ہیں ۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ پاکستان میں امریکا کے خلاف لڑنے والے ،شام میں امریکا کے ساتھ ہے ۔ کیا تمھارا دل نہیں بھرا ہمیں فرقوں میں بانٹ کر ۔ کیا ہو رہا ہے آج عراق کی گلیوں میں ۔ جہاں ایک ساتھ رہنے والے اب اپنی مسجدوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ بہت بڑا کارنامہ تھا تمھارا کرنل قذافی کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا ۔ مگر کیا تم نے پلٹ کر لیبیا کے قبائل کی بندوق دیکھی ہے ۔تمھیں بہت ناز تھا مصر میں ایک شخص کو تخت سے تختہ تک پہنچانے کا ۔ اب تو تمھیں تحریر اسکوئر کی سڑکیں نظر نہیں آرہی ہو گی ۔ ہر طرف شور سا برپا تھا کہ جب سے تمھارے قدم افغانستان میں پڑے، عورتیں ساری آزاد ہو گئیں ۔ مجھے کچھ بتا دو کہ اب وہاں کتنی بچیاں اسکول جاتی ہیں ۔ پچھلے دس سالوں میں کتنی لڑکیاں ڈاکٹر بنیں ۔ نہیں بتا سکتے ۔ تم یہ بتا سکتے ہو کہ تمھارے سینے پر قتل کے کتنے تمغے لگے ہیں ۔
جا رہے ہو ۔ تو جائو۔ پر یہ تو بتا دو کہ پچھلے دس سالوں میں ہمارے 40 ہزار لوگوں کے خون کا حساب کون دیگا ۔ جارہے ہو تو جائو۔ پر یہ تو بتا دو کہ اب ہمیں کتنے سال اپنے لوگوں کے جنازے اٹھانے ہیں ۔ اگر شام میں آرہے ہو تو آئو ۔ پر یہ تو بتا دو کہ تم کتنی مائوں کی گودیں اجاڑو گے ۔ تم نے خوب کھیلا اور ہم تمھارے چکر میں آگئے ۔ آزاد ملک کا آزاد میڈیا صرف وہ بتاتا رہا جو تم نے کہا۔ تم نے چلا چل کر کہا کہ شام نے ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ۔ ہم نے وہ ہی کاپی کر کے اپنے لوگوں کو بتایا ۔ اب یہ بتا دو کہ ہم اپنے لوگوں سے یہ کہیں کہ جو افغانستان اور پاکستان میں ہوا وہ شام میں نہیں ہو گا۔
میں جانتا ہوں کہ تم کسی کے جنازے میں بھی بغیر مقصد کے نہیں جاتے، تمھیں شام کے لوگوں سے اتنی ہمدردی کیسے ہو گئی کہ تم انھیں آزادکرانے کے لیے اُن کا خون بہائو گے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ستمبر 1970 میں ناصر کا انتقال ہوا تو تم اُس کے جنازے میں بھی نہیں گئے تھے ۔ یہ وہ ہی ناصر تھا جس کے ایک اشارے پر عربوں کے دل دھڑکتے تھے ۔ جب وہ ریڈیو پر بولتا تھا تو ہر طرف سکوت ہوتا اور بس پورے مصر میں اُس کی ہی آواز گونجتی تھی ۔ تمھارا صدر اُس وقت مصر سے زیادہ دور نہیں تھا جب ناصرکا جنازہ اٹھایا جارہا تھا یہ تمھارا صدر ہی تھا رچرڈ نکسن جس نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ میں نے تاریخ میں اس سے بڑا جنازہ نہیں دیکھا تھا ،قاہرہ میں پچاس لاکھ لوگ تھے ۔ بیروت سے شایع ہونے والے ایک فرانسسی روزنامہ نے لکھا تھا کہ آج 10 کروڑ عرب یتیم ہو گئے ۔
اُس وقت تمھارا صدر رچرڈ نکسن بحراوقیانوس میں چھٹے بیڑے کا دورہ کر رہا تھا ۔ ایسا ہی بیڑہ تھا جو تم نے ابھی شام کے لیے بھیجا ہے ۔ اُسے اطلاع دی کہ ناصر کے دل نے کام کرنا بند کردیا اور اُس کا انتقال ہو گیا ۔ معلوم ہے تمھیں کہ اُس وقت تمھارے صدرنے 10 کروڑ عربوں کے یتیم ہونے کے باوجود اس جنازے میں شرکت کیوں نہیں کی تھی ؟ بس اس لیے کہ ناصر کے تعلقات روس سے اچھے تھے ۔ اب تم خود سوچو، 43 سال بعد ایک امریکی صدر کو عربوں سے کیوں اتنی محبت ہو گئی، کہ وہ اُس محبت میں تم پر بم گرانے آرہا ہے ؟ یہ جب جنازے میں شرکت بغیر کسی وجہ کے نہیں کرتے تو اب کیوں انھیں ہمارے حقوق سے اتنی محبت ہو گئی ہے ۔
اُس وقت کیوں خاموش تھے جب ناصر کے بعد انوار نے مصر میں تم سے محبت دکھائی لیکن دوسری طرف اُس نے سیاسی لوگوں کا قتل شروع کیا تھا ۔ اُس وقت عربوں کی محبت کہاں تھی ۔ میں دل کی گہرائیوں سے یقین رکھتا ہوں کہ نہ تمھیں پہلے ہم سے محبت تھی نہ آج ہے ۔ بس میں یہ ڈھونڈ رہا ہوں کہ اس بار تم ہماری لاشوں پر کھڑے ہو کر کون سے تمغے سجانا چاہتے ہو۔بس اتنا انتظار ہے ۔ بس اتنا ہی ۔
کیا وہ تم نہیں ،جس نے کوریا کے درمیان لکیر کھینچی ۔ کیا میں تمھارا نام نہ لوں جس نے میری زمین کو بارود سے بھر دیا ۔ جس نے میری مٹی کو میرے لہو سے ہی سرخ کر دیا ۔ کیا میں مان لوں کہ واقعی شام میں خطرناک گیس نے سیکڑوں لوگوں کی جان لے لی جب کہ میں جانتا ہوں کہ تم نے جب کہا جھوٹ کہا۔ کون نہیں جانتا کہ شام میں باغیوں کو کس نے تیار کیا اور کس کس ملک سے لوگوں کو یہاں بھیجا ۔ کون نہیں جانتا کہ اُن سب کو پیسہ کس نے دیا ۔ ہاں مار دو ۔ تباہ کر دو شام کو ۔ کیوں تمھاری پیاس تو اُسی سے بجھے گی۔
مت مانو کہ اقوام متحدہ کیا کہتی ہے ۔ مت سوچو کہ روس نے کیا کہا ہے ۔ مگرکیا کریں ہم بھی تو بکھرے ہوئے ہیں ۔ یہ جھوٹ تو بالکل بھی نہیں کہ بعض عرب ملک امریکا کے ساتھ ہیں ۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ پاکستان میں امریکا کے خلاف لڑنے والے ،شام میں امریکا کے ساتھ ہے ۔ کیا تمھارا دل نہیں بھرا ہمیں فرقوں میں بانٹ کر ۔ کیا ہو رہا ہے آج عراق کی گلیوں میں ۔ جہاں ایک ساتھ رہنے والے اب اپنی مسجدوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ بہت بڑا کارنامہ تھا تمھارا کرنل قذافی کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا ۔ مگر کیا تم نے پلٹ کر لیبیا کے قبائل کی بندوق دیکھی ہے ۔تمھیں بہت ناز تھا مصر میں ایک شخص کو تخت سے تختہ تک پہنچانے کا ۔ اب تو تمھیں تحریر اسکوئر کی سڑکیں نظر نہیں آرہی ہو گی ۔ ہر طرف شور سا برپا تھا کہ جب سے تمھارے قدم افغانستان میں پڑے، عورتیں ساری آزاد ہو گئیں ۔ مجھے کچھ بتا دو کہ اب وہاں کتنی بچیاں اسکول جاتی ہیں ۔ پچھلے دس سالوں میں کتنی لڑکیاں ڈاکٹر بنیں ۔ نہیں بتا سکتے ۔ تم یہ بتا سکتے ہو کہ تمھارے سینے پر قتل کے کتنے تمغے لگے ہیں ۔
جا رہے ہو ۔ تو جائو۔ پر یہ تو بتا دو کہ پچھلے دس سالوں میں ہمارے 40 ہزار لوگوں کے خون کا حساب کون دیگا ۔ جارہے ہو تو جائو۔ پر یہ تو بتا دو کہ اب ہمیں کتنے سال اپنے لوگوں کے جنازے اٹھانے ہیں ۔ اگر شام میں آرہے ہو تو آئو ۔ پر یہ تو بتا دو کہ تم کتنی مائوں کی گودیں اجاڑو گے ۔ تم نے خوب کھیلا اور ہم تمھارے چکر میں آگئے ۔ آزاد ملک کا آزاد میڈیا صرف وہ بتاتا رہا جو تم نے کہا۔ تم نے چلا چل کر کہا کہ شام نے ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ۔ ہم نے وہ ہی کاپی کر کے اپنے لوگوں کو بتایا ۔ اب یہ بتا دو کہ ہم اپنے لوگوں سے یہ کہیں کہ جو افغانستان اور پاکستان میں ہوا وہ شام میں نہیں ہو گا۔
میں جانتا ہوں کہ تم کسی کے جنازے میں بھی بغیر مقصد کے نہیں جاتے، تمھیں شام کے لوگوں سے اتنی ہمدردی کیسے ہو گئی کہ تم انھیں آزادکرانے کے لیے اُن کا خون بہائو گے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ستمبر 1970 میں ناصر کا انتقال ہوا تو تم اُس کے جنازے میں بھی نہیں گئے تھے ۔ یہ وہ ہی ناصر تھا جس کے ایک اشارے پر عربوں کے دل دھڑکتے تھے ۔ جب وہ ریڈیو پر بولتا تھا تو ہر طرف سکوت ہوتا اور بس پورے مصر میں اُس کی ہی آواز گونجتی تھی ۔ تمھارا صدر اُس وقت مصر سے زیادہ دور نہیں تھا جب ناصرکا جنازہ اٹھایا جارہا تھا یہ تمھارا صدر ہی تھا رچرڈ نکسن جس نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ میں نے تاریخ میں اس سے بڑا جنازہ نہیں دیکھا تھا ،قاہرہ میں پچاس لاکھ لوگ تھے ۔ بیروت سے شایع ہونے والے ایک فرانسسی روزنامہ نے لکھا تھا کہ آج 10 کروڑ عرب یتیم ہو گئے ۔
اُس وقت تمھارا صدر رچرڈ نکسن بحراوقیانوس میں چھٹے بیڑے کا دورہ کر رہا تھا ۔ ایسا ہی بیڑہ تھا جو تم نے ابھی شام کے لیے بھیجا ہے ۔ اُسے اطلاع دی کہ ناصر کے دل نے کام کرنا بند کردیا اور اُس کا انتقال ہو گیا ۔ معلوم ہے تمھیں کہ اُس وقت تمھارے صدرنے 10 کروڑ عربوں کے یتیم ہونے کے باوجود اس جنازے میں شرکت کیوں نہیں کی تھی ؟ بس اس لیے کہ ناصر کے تعلقات روس سے اچھے تھے ۔ اب تم خود سوچو، 43 سال بعد ایک امریکی صدر کو عربوں سے کیوں اتنی محبت ہو گئی، کہ وہ اُس محبت میں تم پر بم گرانے آرہا ہے ؟ یہ جب جنازے میں شرکت بغیر کسی وجہ کے نہیں کرتے تو اب کیوں انھیں ہمارے حقوق سے اتنی محبت ہو گئی ہے ۔
اُس وقت کیوں خاموش تھے جب ناصر کے بعد انوار نے مصر میں تم سے محبت دکھائی لیکن دوسری طرف اُس نے سیاسی لوگوں کا قتل شروع کیا تھا ۔ اُس وقت عربوں کی محبت کہاں تھی ۔ میں دل کی گہرائیوں سے یقین رکھتا ہوں کہ نہ تمھیں پہلے ہم سے محبت تھی نہ آج ہے ۔ بس میں یہ ڈھونڈ رہا ہوں کہ اس بار تم ہماری لاشوں پر کھڑے ہو کر کون سے تمغے سجانا چاہتے ہو۔بس اتنا انتظار ہے ۔ بس اتنا ہی ۔