وہ واپس آئے گی
وہ خوشگوار زندگی گزار رہی تھی۔ اچھی تعلیم کے بعد شادی اور پھر پیارے سے بچے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ آنے والا وقت۔۔۔
وہ خوشگوار زندگی گزار رہی تھی۔ اچھی تعلیم کے بعد شادی اور پھر پیارے سے بچے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ آنے والا وقت کتنا بھاری ہے۔ پہلے امجد سے طلاق ہوگئی۔ وہ اسے بہت بڑا صدمہ سمجھ رہی تھی۔ اسے خبر نہ تھی کہ اب صدموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہونے والا ہے، اتنی اذیت اور اتنے طاقتور کی دشمنی شاید ہی دنیا کی کسی عورت نے سہی ہو۔ پہلے اس سے بچے بچھڑ گئے۔ وہ کراچی سے اسلام آباد جارہی تھی کہ اسے اغوا کرلیا گیا۔ تین معصوم بچے کہاں ہیں؟ وہ بے خبر تھی۔ طاقتور لوگ عافیہ صدیقی کے گھر پہنچے اور اہل خانہ کو ڈرایا کہ اگر انھوں نے زبان کھولی تو بیٹی سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ 30 مارچ 2003 کی بات ہے۔
عمران خان نے سب سے پہلے پریس کانفرنس کرکے بتایا کہ کابل کے قریب بگرام ہوائی اڈے کی جیل میں قیدی نمبر 650 کی چیخیں سنی گئی ہیں۔ اس معاملے کو جماعت اسلامی، عمران خان اور پاسبان نے تیزی سے اٹھایا۔ حکومت پاکستان مجبور ہوئی کہ واشنگٹن سے منوایا جائے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ان کی قید میں ہے۔ اس معاملے نے بین الاقوامی شہرت حاصل کرلی۔ اکثر پاکستانیوں کا خیال ہے کہ وہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شکار ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ یا اسلام و مسلمانوں کے خلاف؟
''خطرناک قیدی'' کو افغانستان سے امریکا لے جایا گیا ہے۔ 86 پونڈ کی خاتون کو 86 سال کی سزا دینے والوں نے عافیہ پر سنگین الزامات عاید کیے۔ اس پر مجسمہ آزادی، امپائر اسٹیٹ بلڈنگ، وال اسٹریٹ پر حملہ کرنے کے الزام لگا کر میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ عافیہ کو ''القاعدہ وومن'' کہہ کر امریکی عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ پانچ فٹ چار انچ کی خاتون پر مضحکہ خیز الزام لگایا گیا کہ اس نے رائفل سے امریکی فوجیوں پر حملہ کیا۔ افغانستان کے پولیس کمپاؤنڈ میں ایف بی آئی کے ایجنٹوں پر حملے کا مقدمہ دائر کیا گیا۔ عدالت میں استغاثہ کوئی شہادت لانے میں ناکام ثابت ہوا۔ کیسے ایک نہتی اور کمزور خاتون طاقتور فوجیوں سے گن چھین کر فائر کرے۔ وہ خاتون جو پچھلے کئی برسوں سے قید میں اذیت جھیل رہی ہے۔ بنائی گئی کہانی کا پلاٹ خود اپنی کمزوری کی گواہی دے رہا تھا۔
مشرف دور میں یہ معاملہ عوام کے سامنے آیا تو حکومت کے پاس اپنی ایک شہری کو امریکیوں کے حوالے کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اپنی کتاب In the line of fire میں جنرل مشرف یہ قبول کرچکے تھے کہ انھوں نے لوگوں کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا اور اس کے عوض ڈالر وصول کیے۔ اس بات کی تصدیق سندھ پولیس کے ایک سربراہ کے بیان سے ہوتی ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کی گرفتاری کے معاملے میں ملوث تھے۔ یہ سب کچھ انھوں نے حکومت کی ایما پر کیا۔ 2010ء کی یہ ویڈیو ثابت کرتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے قوم کی دختر کو کس مول پر امریکیوں کے حوالے کیا؟
1998ء میں گریجویشن اور بعد میں ٹیکساس سے ڈاکٹریٹ کرنے والی تین بچوں کی ماں امریکیوں کی قید میں ہے۔ وہ اسے 86 سال قید کی سزا سنا چکے ہیں۔ امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں طویل قید کی سزا سننے والی عافیہ وہیل چیئر پر تھیں اور ان کا وزن 86 پونڈ تھا۔ تشدد اور زیادتی کا شکار پاکستانی بیٹی اب تک دس برس سے زیادہ وقت امریکیوں کی قید میں گزار چکی ہے۔ دس ہفتے بھی پاکستانی قید میں نہ رہنے والے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ثابت کرتی ہے کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی ہوا کرتی ہے۔
مقدمے اور سزا کی مضحکہ خیزی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ نہ کوئی امریکی فوجی زخمی ہوا ہے نہ رائفل پر عافیہ کی انگلیوں کے نشان ہیں۔ عافیہ کی وکیل نے جیوری سے کہا کہ ایک عورت جو کمزور ہے، چھوٹے قد کی ہے، وہ کس طرح تربیت یافتہ اور طاقتور امریکی فوجیوں سے مقابلے کے بعد گن چھین سکتی ہے؟ یہ کس طرح ممکن ہے؟
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیموں کو اس معاملے نے بے نقاب کردیا ہے۔ ڈالر اور پاؤنڈ لے کر آقاؤں کے اشارے پر اٹھ کھڑی ہونے والی این جی اوز نے امریکی قید میں ظلم، اذیت و زیادتی کے دکھ سہنے والی عافیہ کے معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ دوسرا دعویٰ کس کا بودا ثابت ہوا؟ امریکی عدالتوں کی آزادی کے دعوے کو اس مقدمے نے کمزور کردیا ہے۔ کینگرو معیار کا مقدمہ اور اس قدر طویل سزا۔ عافیہ نے تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ وہ عدالت کے حق سماعت کو ہی تسلیم نہیں کرتی۔ اسے کراچی میں اپنے گھر کے باہر سے اغوا کیا گیا۔ امریکی فوجیوں سے گن چھیننے کا الزام افغانستان کی سرزمین سے گھڑا گیا جب کہ مقدمہ چلے نیویارک میں۔ اسرائیلی باپ کے بیٹے جج رچرڈ برمن نے عافیہ کی ایک نہ سنی اور کئی مرتبہ انھیں عدالت سے باہر بھیج دیا۔
اب کیا ہوگا؟ کیا عافیہ پاکستان واپس آئے گی؟ کئی مرتبہ ایسی امیدیں دلائی جاچکی ہیں۔ افغانستان میں پھنسا امریکا جلد ازجلد واپسی چاہتا ہے۔ اسے روسی فوجیوں کا حشر معلوم ہے، جب وہ افغانستان سے رخصت ہورہے تھے۔ ہزاروں روسی فوجی، افغان جنگجوؤں کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے تھے۔ واپسی کا راستہ اختیار کرنے والے لڑنا نہیں چاہتے تھے اور زخم خوردہ افغان انھیں چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ یہی مسئلہ امریکیوں کو درپیش ہے کہ وہ اپنے دو ڈھائی ہزار فوجی بچانا چاہتے ہیں۔ وہ طالبان سے مذاکرات کرکے ''باعزت'' واپسی کا راستہ چاہتے ہیں۔ ایسے میں انھیں پاکستانیوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ امریکی جانتے ہیں عافیہ صدیقی کا معاملہ پاکستانیوں کے لیے بڑا نازک بن چکا ہے۔ امریکیوں نے تجویز دی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں۔ اگر ایسا معاہدہ ہوجائے تو عافیہ صدیقی کی واپسی ممکن ہے۔ اس طرح باقی سزا وہ پاکستان میں کاٹیں۔
عافیہ صدیقی اس وقت ٹیکساس کے اسپیشل ہاؤسنگ یونٹ میں قید ہیں۔ یہ کوئی رہنے کے لیے اچھی جگہ نہیں ہے۔ ان کی اپیل خارج ہوچکی ہے۔ کیا عافیہ کو رہائی نصیب ہوگی؟ ریمنڈ ڈیوس کے عوض رہائی کی امید تھی لیکن چار پاکستانیوں کے قاتل کو چھوڑ دیا گیا اور چار امریکیوں پر اقدام قتل کے الزام میں قید عافیہ رہا نہ ہوئی۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا رہا کروانا چاہتا ہے۔ قیدیوں کی رہائی کے مجوزہ معاہدے کے الفاظ اس جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ امریکا بہادر کیا چاہتا ہے اور پاکستانی حکمران کس حد تک بہادری کا مظاہرہ کرسکتے ہیں؟ عافیہ کے بارے میں امید و خوف سے سوچنے والے پاکستانیوں کا سوال ہے کہ کیا وہ واپس آئے گی؟
عمران خان نے سب سے پہلے پریس کانفرنس کرکے بتایا کہ کابل کے قریب بگرام ہوائی اڈے کی جیل میں قیدی نمبر 650 کی چیخیں سنی گئی ہیں۔ اس معاملے کو جماعت اسلامی، عمران خان اور پاسبان نے تیزی سے اٹھایا۔ حکومت پاکستان مجبور ہوئی کہ واشنگٹن سے منوایا جائے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ان کی قید میں ہے۔ اس معاملے نے بین الاقوامی شہرت حاصل کرلی۔ اکثر پاکستانیوں کا خیال ہے کہ وہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شکار ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ یا اسلام و مسلمانوں کے خلاف؟
''خطرناک قیدی'' کو افغانستان سے امریکا لے جایا گیا ہے۔ 86 پونڈ کی خاتون کو 86 سال کی سزا دینے والوں نے عافیہ پر سنگین الزامات عاید کیے۔ اس پر مجسمہ آزادی، امپائر اسٹیٹ بلڈنگ، وال اسٹریٹ پر حملہ کرنے کے الزام لگا کر میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ عافیہ کو ''القاعدہ وومن'' کہہ کر امریکی عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ پانچ فٹ چار انچ کی خاتون پر مضحکہ خیز الزام لگایا گیا کہ اس نے رائفل سے امریکی فوجیوں پر حملہ کیا۔ افغانستان کے پولیس کمپاؤنڈ میں ایف بی آئی کے ایجنٹوں پر حملے کا مقدمہ دائر کیا گیا۔ عدالت میں استغاثہ کوئی شہادت لانے میں ناکام ثابت ہوا۔ کیسے ایک نہتی اور کمزور خاتون طاقتور فوجیوں سے گن چھین کر فائر کرے۔ وہ خاتون جو پچھلے کئی برسوں سے قید میں اذیت جھیل رہی ہے۔ بنائی گئی کہانی کا پلاٹ خود اپنی کمزوری کی گواہی دے رہا تھا۔
مشرف دور میں یہ معاملہ عوام کے سامنے آیا تو حکومت کے پاس اپنی ایک شہری کو امریکیوں کے حوالے کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اپنی کتاب In the line of fire میں جنرل مشرف یہ قبول کرچکے تھے کہ انھوں نے لوگوں کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا اور اس کے عوض ڈالر وصول کیے۔ اس بات کی تصدیق سندھ پولیس کے ایک سربراہ کے بیان سے ہوتی ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کی گرفتاری کے معاملے میں ملوث تھے۔ یہ سب کچھ انھوں نے حکومت کی ایما پر کیا۔ 2010ء کی یہ ویڈیو ثابت کرتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے قوم کی دختر کو کس مول پر امریکیوں کے حوالے کیا؟
1998ء میں گریجویشن اور بعد میں ٹیکساس سے ڈاکٹریٹ کرنے والی تین بچوں کی ماں امریکیوں کی قید میں ہے۔ وہ اسے 86 سال قید کی سزا سنا چکے ہیں۔ امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں طویل قید کی سزا سننے والی عافیہ وہیل چیئر پر تھیں اور ان کا وزن 86 پونڈ تھا۔ تشدد اور زیادتی کا شکار پاکستانی بیٹی اب تک دس برس سے زیادہ وقت امریکیوں کی قید میں گزار چکی ہے۔ دس ہفتے بھی پاکستانی قید میں نہ رہنے والے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ثابت کرتی ہے کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی ہوا کرتی ہے۔
مقدمے اور سزا کی مضحکہ خیزی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ نہ کوئی امریکی فوجی زخمی ہوا ہے نہ رائفل پر عافیہ کی انگلیوں کے نشان ہیں۔ عافیہ کی وکیل نے جیوری سے کہا کہ ایک عورت جو کمزور ہے، چھوٹے قد کی ہے، وہ کس طرح تربیت یافتہ اور طاقتور امریکی فوجیوں سے مقابلے کے بعد گن چھین سکتی ہے؟ یہ کس طرح ممکن ہے؟
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیموں کو اس معاملے نے بے نقاب کردیا ہے۔ ڈالر اور پاؤنڈ لے کر آقاؤں کے اشارے پر اٹھ کھڑی ہونے والی این جی اوز نے امریکی قید میں ظلم، اذیت و زیادتی کے دکھ سہنے والی عافیہ کے معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ دوسرا دعویٰ کس کا بودا ثابت ہوا؟ امریکی عدالتوں کی آزادی کے دعوے کو اس مقدمے نے کمزور کردیا ہے۔ کینگرو معیار کا مقدمہ اور اس قدر طویل سزا۔ عافیہ نے تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ وہ عدالت کے حق سماعت کو ہی تسلیم نہیں کرتی۔ اسے کراچی میں اپنے گھر کے باہر سے اغوا کیا گیا۔ امریکی فوجیوں سے گن چھیننے کا الزام افغانستان کی سرزمین سے گھڑا گیا جب کہ مقدمہ چلے نیویارک میں۔ اسرائیلی باپ کے بیٹے جج رچرڈ برمن نے عافیہ کی ایک نہ سنی اور کئی مرتبہ انھیں عدالت سے باہر بھیج دیا۔
اب کیا ہوگا؟ کیا عافیہ پاکستان واپس آئے گی؟ کئی مرتبہ ایسی امیدیں دلائی جاچکی ہیں۔ افغانستان میں پھنسا امریکا جلد ازجلد واپسی چاہتا ہے۔ اسے روسی فوجیوں کا حشر معلوم ہے، جب وہ افغانستان سے رخصت ہورہے تھے۔ ہزاروں روسی فوجی، افغان جنگجوؤں کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے تھے۔ واپسی کا راستہ اختیار کرنے والے لڑنا نہیں چاہتے تھے اور زخم خوردہ افغان انھیں چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ یہی مسئلہ امریکیوں کو درپیش ہے کہ وہ اپنے دو ڈھائی ہزار فوجی بچانا چاہتے ہیں۔ وہ طالبان سے مذاکرات کرکے ''باعزت'' واپسی کا راستہ چاہتے ہیں۔ ایسے میں انھیں پاکستانیوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ امریکی جانتے ہیں عافیہ صدیقی کا معاملہ پاکستانیوں کے لیے بڑا نازک بن چکا ہے۔ امریکیوں نے تجویز دی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں۔ اگر ایسا معاہدہ ہوجائے تو عافیہ صدیقی کی واپسی ممکن ہے۔ اس طرح باقی سزا وہ پاکستان میں کاٹیں۔
عافیہ صدیقی اس وقت ٹیکساس کے اسپیشل ہاؤسنگ یونٹ میں قید ہیں۔ یہ کوئی رہنے کے لیے اچھی جگہ نہیں ہے۔ ان کی اپیل خارج ہوچکی ہے۔ کیا عافیہ کو رہائی نصیب ہوگی؟ ریمنڈ ڈیوس کے عوض رہائی کی امید تھی لیکن چار پاکستانیوں کے قاتل کو چھوڑ دیا گیا اور چار امریکیوں پر اقدام قتل کے الزام میں قید عافیہ رہا نہ ہوئی۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا رہا کروانا چاہتا ہے۔ قیدیوں کی رہائی کے مجوزہ معاہدے کے الفاظ اس جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ امریکا بہادر کیا چاہتا ہے اور پاکستانی حکمران کس حد تک بہادری کا مظاہرہ کرسکتے ہیں؟ عافیہ کے بارے میں امید و خوف سے سوچنے والے پاکستانیوں کا سوال ہے کہ کیا وہ واپس آئے گی؟