جبر کے ہاتھوں
ملازمت پیشہ خواتین کی زندگی دُہری اذیت کا شکارہے
SUKKUR/KARACHI:
ایک طرف جہاں خواتین ایک جدوجہد اور مشن لے کر گھر سے باہر نکلتی ہیں تو بہت سی خواتین حالات کے جبر سے ایسا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
ایسی خواتین اپنے گھروں کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے چند روپوں کے عوض کٹھن مسائل سے نبرد آزما ہوتی ہیں۔ مجبوری میں باہر نکلنے والی خواتین ظاہر ہے کسی اعلا عہدے پر فائز ہونے کے بہ جائے اکثر چھوٹی ملازمتیں ہی حاصل کر پاتی ہیں۔
فیکٹریوں، دُکانوں اور مختلف دفاتر میں چھوٹے عہدوں پر موجود خواتین اپنی ملازمت کے دوران اَن گنت مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔ انہیں جیسے عورت ہونے کی سزا دی جاتی ہے، چوں کہ اس سطح کی ملازمت کرنے والی خواتین اکثر مجبوری کے عالم میں باہر نکلی ہوتی ہیں، اس لیے ان کی مجبوری کو کم زوری بنا لیا جاتا ہے۔ ایک خاتون سے دشمنی کی بنا پر سب سے پہلے اس کے کردار کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ایسی صورت حال میں کچھ بناوٹی ہم درد بھی نمودار ہو جاتے ہیں، جن کا مقصد بھی دل جوئی کے بہ جائے فقط اپنا مقصد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اکثر ملازمت پیشہ خواتین کی خوش اخلاقی کا بھی غلط مطلب لیا جانے لگتا ہے۔ کچھ ہم پیشہ مردوں کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کی برائیاں کر کے دفتر کی ساتھی خواتین کی توجہ و ہم دردی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوران ملازمت خواتین کو ذہنی طور پر ہراساں کرنا ایک عام رویہ ہے۔ پیشہ ورانہ حسد یا پھر کسی اور وجوہ کی بنا پر مرد حضرات انہیں ذہنی و جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔ خواتین کو ذہنی و جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف اگرچہ قانون موجود ہے، لیکن عام خواتین سمجھتیہیں کہ اس سے جگ ہنسائی ہوگی۔ ایسی خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر والوں کو اعتماد میں لے کر متعلقہ حکام تک یہ معاملہ پہنچائیں۔ اگر اس کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہو تو پھر ایسی جگہ پر مزید ملازمت مناسب نہیں۔
بعض اوقات ملازمت پیشہ خواتین کی شادی بھی محض اسی وجہ سے نہیں ہو پاتی کہ وہ نوکری کر رہی ہیں۔ بڑے عہدوں پر موجود خواتین کے تو اچھی جگہوں پر رشتے ہو جاتے ہیں، لیکن ذرا چھوٹی نوکری کرنے والی لڑکیوں کو اس موقع پر بھی خاصے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسی لڑکیوں سے متعلق عام طور پر یہی رائے ہوتی ہے کہ یہ خواتین زبان دراز ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اسی سوچ کی وجہ سے ایسی ملازمت کرنے والی لڑکیوں سے عموماً لوگ رشتہ کرنے سے کتراتے ہیں یا پھر ان کے رشتے ایسی جگہوں پر ہو جاتے ہیں، جہاں شوہر اپنے سے زیادہ ان کے پیسوں پر راج کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں، یوں اگر شادی ہو بھی جائے تو اس طرح کی سوچ کے حامل لوگ مسائل پیدا کرتے ہیں۔
شادی کے بعد اگر ملازمت پیشہ خواتین گھر میںکسی بات پر اصرار کریں تو انہیں یہ طعنے بھی ملتے ہیں کہ ''ہاں تم نے تو سر چڑھنا ہی ہے، کما جو رہی ہو۔۔۔!'' جب کہ دوسری طرف خاتون کے ذہن میں قطعی یہ نکتہ ہوتا ہی نہیں۔ ایسے میں خواتین ذہنی طور شدید پریشان ہوتی ہیں، کہ میں نے تو کبھی ایسی بات نہیں کی، لیکن دوسرے ان کے بارے میں کیسی سوچ رکھتے ہیں۔
دوسری طرف ایک ملازمت کرنے والی خاتون جب اپنی نئی زندگی شروع کرنے جا رہی ہو تو اسے بھی بہت سی چیزوں کو سامنے رکھنا چاہیے، تاکہ شوہر اور دیگر سسرالی رشتہ داروں کے دل میں اگر کوئی ایسا گمان بھی ہے تو وہ نکل جائے۔ جیسے اگر شوہر سے تنخواہ زیادہ ہو تو کبھی بھی اس حوالے سے شوہر کے دل میں احساس کم تری کو جگہ نہ پانے دیں۔ کبھی ایسا لگے بھی تو فوراً بات کر کے شوہر کے اس خیال کو رفو کریں، بہ صورت دیگر ازدواجی زندگی خاصی متاثر رہتی ہے۔ اخراجات کے حوالے سے کبھی یہ خیال بھی نہ ہونے دیں کہ یہ پیسہ میرا ہے، تو اسے بس اب میں ہی اپنی مرضی سے خرچ کروں گی۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین اپنی ملازمت کی وجہ سے اپنے گھر اور بچوں کو وہ وقت نہیں دے پاتیں، جو عام طور پر گھریلو خواتین دیتی ہیں، جس کی بنا پر انھیں شوہر اور بچوں کی طرف سے شکایت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ گھر نظر انداز نہ ہو۔
ہمارے معاشرے میں ایک اور نا انصافی خواتین کو اضافی سہولیات دینے کے بہ جائے ناکافی اجرت دینا ہے۔ اگرچہ بہت سی جگہوں پر اب صورت حال بہتر ہو رہی ہے، لیکن خواتین کے استحصال کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ان سے مکمل طور پر مردوں کے مساوی کام لینے کے باوجود اجرت مردوں سے کہیں کم دی جاتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں خواتین کے استحصال سے کبھی ترقی کی راہ ہم وار نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ترقی و خوش حالی میں عورت کی جدوجہد کو تسلیم کیا جائے اور اسے اس کی جائز حقوق دینے کے ساتھ اس کی عظمت کا خیال اور اس کے حوالے سے غلط معاشرتی تاثر کو ختم کیا جائے۔
ایک طرف جہاں خواتین ایک جدوجہد اور مشن لے کر گھر سے باہر نکلتی ہیں تو بہت سی خواتین حالات کے جبر سے ایسا کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
ایسی خواتین اپنے گھروں کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے چند روپوں کے عوض کٹھن مسائل سے نبرد آزما ہوتی ہیں۔ مجبوری میں باہر نکلنے والی خواتین ظاہر ہے کسی اعلا عہدے پر فائز ہونے کے بہ جائے اکثر چھوٹی ملازمتیں ہی حاصل کر پاتی ہیں۔
فیکٹریوں، دُکانوں اور مختلف دفاتر میں چھوٹے عہدوں پر موجود خواتین اپنی ملازمت کے دوران اَن گنت مسائل کا سامنا کرتی ہیں۔ انہیں جیسے عورت ہونے کی سزا دی جاتی ہے، چوں کہ اس سطح کی ملازمت کرنے والی خواتین اکثر مجبوری کے عالم میں باہر نکلی ہوتی ہیں، اس لیے ان کی مجبوری کو کم زوری بنا لیا جاتا ہے۔ ایک خاتون سے دشمنی کی بنا پر سب سے پہلے اس کے کردار کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ایسی صورت حال میں کچھ بناوٹی ہم درد بھی نمودار ہو جاتے ہیں، جن کا مقصد بھی دل جوئی کے بہ جائے فقط اپنا مقصد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اکثر ملازمت پیشہ خواتین کی خوش اخلاقی کا بھی غلط مطلب لیا جانے لگتا ہے۔ کچھ ہم پیشہ مردوں کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کی برائیاں کر کے دفتر کی ساتھی خواتین کی توجہ و ہم دردی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوران ملازمت خواتین کو ذہنی طور پر ہراساں کرنا ایک عام رویہ ہے۔ پیشہ ورانہ حسد یا پھر کسی اور وجوہ کی بنا پر مرد حضرات انہیں ذہنی و جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔ خواتین کو ذہنی و جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف اگرچہ قانون موجود ہے، لیکن عام خواتین سمجھتیہیں کہ اس سے جگ ہنسائی ہوگی۔ ایسی خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر والوں کو اعتماد میں لے کر متعلقہ حکام تک یہ معاملہ پہنچائیں۔ اگر اس کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہو تو پھر ایسی جگہ پر مزید ملازمت مناسب نہیں۔
بعض اوقات ملازمت پیشہ خواتین کی شادی بھی محض اسی وجہ سے نہیں ہو پاتی کہ وہ نوکری کر رہی ہیں۔ بڑے عہدوں پر موجود خواتین کے تو اچھی جگہوں پر رشتے ہو جاتے ہیں، لیکن ذرا چھوٹی نوکری کرنے والی لڑکیوں کو اس موقع پر بھی خاصے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسی لڑکیوں سے متعلق عام طور پر یہی رائے ہوتی ہے کہ یہ خواتین زبان دراز ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اسی سوچ کی وجہ سے ایسی ملازمت کرنے والی لڑکیوں سے عموماً لوگ رشتہ کرنے سے کتراتے ہیں یا پھر ان کے رشتے ایسی جگہوں پر ہو جاتے ہیں، جہاں شوہر اپنے سے زیادہ ان کے پیسوں پر راج کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں، یوں اگر شادی ہو بھی جائے تو اس طرح کی سوچ کے حامل لوگ مسائل پیدا کرتے ہیں۔
شادی کے بعد اگر ملازمت پیشہ خواتین گھر میںکسی بات پر اصرار کریں تو انہیں یہ طعنے بھی ملتے ہیں کہ ''ہاں تم نے تو سر چڑھنا ہی ہے، کما جو رہی ہو۔۔۔!'' جب کہ دوسری طرف خاتون کے ذہن میں قطعی یہ نکتہ ہوتا ہی نہیں۔ ایسے میں خواتین ذہنی طور شدید پریشان ہوتی ہیں، کہ میں نے تو کبھی ایسی بات نہیں کی، لیکن دوسرے ان کے بارے میں کیسی سوچ رکھتے ہیں۔
دوسری طرف ایک ملازمت کرنے والی خاتون جب اپنی نئی زندگی شروع کرنے جا رہی ہو تو اسے بھی بہت سی چیزوں کو سامنے رکھنا چاہیے، تاکہ شوہر اور دیگر سسرالی رشتہ داروں کے دل میں اگر کوئی ایسا گمان بھی ہے تو وہ نکل جائے۔ جیسے اگر شوہر سے تنخواہ زیادہ ہو تو کبھی بھی اس حوالے سے شوہر کے دل میں احساس کم تری کو جگہ نہ پانے دیں۔ کبھی ایسا لگے بھی تو فوراً بات کر کے شوہر کے اس خیال کو رفو کریں، بہ صورت دیگر ازدواجی زندگی خاصی متاثر رہتی ہے۔ اخراجات کے حوالے سے کبھی یہ خیال بھی نہ ہونے دیں کہ یہ پیسہ میرا ہے، تو اسے بس اب میں ہی اپنی مرضی سے خرچ کروں گی۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین اپنی ملازمت کی وجہ سے اپنے گھر اور بچوں کو وہ وقت نہیں دے پاتیں، جو عام طور پر گھریلو خواتین دیتی ہیں، جس کی بنا پر انھیں شوہر اور بچوں کی طرف سے شکایت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ گھر نظر انداز نہ ہو۔
ہمارے معاشرے میں ایک اور نا انصافی خواتین کو اضافی سہولیات دینے کے بہ جائے ناکافی اجرت دینا ہے۔ اگرچہ بہت سی جگہوں پر اب صورت حال بہتر ہو رہی ہے، لیکن خواتین کے استحصال کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ان سے مکمل طور پر مردوں کے مساوی کام لینے کے باوجود اجرت مردوں سے کہیں کم دی جاتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں خواتین کے استحصال سے کبھی ترقی کی راہ ہم وار نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ترقی و خوش حالی میں عورت کی جدوجہد کو تسلیم کیا جائے اور اسے اس کی جائز حقوق دینے کے ساتھ اس کی عظمت کا خیال اور اس کے حوالے سے غلط معاشرتی تاثر کو ختم کیا جائے۔