مرتے ہوئے شہر کا عشق اور کتابوں کا طلسم
کراچی سے عشق کسی خوابیدہ عفریت سے عشق جیسا معاملہ ہے۔
دوستو، اِس شہر سے عشق سہل نہیں۔ تقاضے سخت ہیں، یہ تو انگاروں پر چلنے کا معاملہ ہے۔
کراچی سے عشق کسی خوابیدہ عفریت سے عشق جیسا معاملہ ہے۔ایک ایسی حسینہ سے عشق، جو درحقیقت ایک قاتلہ ہے۔اس عشق میں دھول سے اٹی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں،کچرا کنڈیاں ہیں، خون کی بو ہے، تاریک گھر، تنگ گلیاں ہیں، خوف ہے، اندیشہ ہے، تاریکی ہے۔ یوں جانیں،کراچی سے عشق سرا سرگھاٹے کا سودا ہے۔
اس کے باوجود میں اس کا گرویدہ ہوں ۔ یہاں چلنے والے موت کے جھکڑکا، گرد کے طوفان کا ، موت کے جشن کا ، شکستہ خوابوں کا ، بکھرتی امیدوں کا۔کراچی کبھی ایک شہر تھا ، اب تو یہ خس وخاشاک ہوا، راکھ ہوا، قصہ ماضی ہوا، مگر مایوسی نہیں، عین ممکن ہے ققنس کے مانند، یہ پھر اپنی راکھ سے جی اٹھے۔
البتہ اِس عشق کے باوجود میںاس شہر کو جاننے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ گو میں یومیہ اِدھر زندگی کرتا ہوں۔ اس کی سڑکوں پرگھوما ہوں۔سرطان زدہ سڑکیں۔ تب بھی، جب پسینے اور دھویں کی بو کے ملاپ سے دبیز وحشت جنم لیتی ہے، اور تب بھی، جب ان سڑکوں کا سناٹا، لاحاصل پراسرایت کو اگلتا ہے۔میں نے اس کے چائے خانے، شراب خانے دیکھے ہیں۔ میں نے پوش علاقوں سے ملحقہ کچی بستیاں دیکھی ہیں۔ میں نے یہاں رونما ہونے والے لجلجے حادثات دیکھے ہیں۔
میں ان بس اسٹاپوں سے گزرا ہوں، جہاں جسم فروش مرد، عورتیں اورخواجہ سرا دستیاب ہوتے ہیں۔میں نے بم دھماکوں کے درمیان سفرکیا ۔ان سڑکوں سے گزرا ، جہاں گرنے والا خون ابھی تازہ تھا، جہاں سے لاشوں کو اٹھائے ابھی کچھ ہی ساعتیں گزریں تھی، جہاں تازہ تازہ مرے ہوئے جسم کی بو تھی۔
میں نے ماں بولی کے نام پر انسانوں کوکٹتے دیکھا ، عورتوں کی آبروریزی، انسانیت کی موت کا گواہ بنا۔میں نے کراچی نامی شہر میں بہت کچھ دیکھا ۔مگر اس کے باوجود میں اسے جاننے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی نہیں کرسکتا۔
چاہے اس پر درجنوں فلمیں بنائی جائیں، سیکڑوں ناول لکھے جائیں، چاہے آپ ہزاروں بار ان سڑکوں سے گزریں، جن سے میں گزرا ہوں ،آپ اس شہرکو جاننے کا دعوی نہیں کرسکتے۔کراچی فقط ڈیفنس نہیں، یہ فقط ناظم آباد نہیں، یہ فقط لیاری نہیں، یہ فقط لانڈھی نہیں۔ یہ فقط اورنگی نہیں۔یہ تو ایک زندہ لاش ہے، جو راکھ ہو رہی ہے، تاکہ اپنی راکھ سے پھر جی اٹھے۔لگتا ہے، ایک دن میں بھی اس شہرکے ساتھ مر جاؤں گا اور امر ہوجاؤں گا۔مگر تب بھی، میں اسے جاننے کا دعوی نہیں کرسکوں گا۔
اچھا،اسی کراچی میں حسن منظر نامی ایک ادیب بستا ہے، جو اپنی مثال آپ ہے۔ اجنبی دیسوں کی کہانی حیران گرفت کے ساتھ بیان کرنے کے باعث، پرپیچ، مگر دل پذیر جملہ لکھنے کے باعث، گہرائی میں موجود خفیف سے طنز کے باعث، اپنے کرداروں کے حال اور ماضی سے زبردست واقفیت کے باعث، ڈاکٹر حسن منظر اردو فکشن کے ایک ایسے استھان پر برا جمان ہوتے ہیں، جس کا کوئی اور دعوے دار نہیں۔یہاں وہ اکیلا ہے، اس راہ گزر پرکسی کا گزر نہیں ہوا۔
''حبس'' حسن منظرکے ان ناولز میں آخری ہے، جو ان کے ذہن میں عشروں قبل لکھے گئے ہوں گے، مگر ان کی اشاعت کا سلسلہ 2005ہی میں جا کر شروع ہوا۔ ناول کا لوکیل اسرائیل اور فلسطین ہے، مرکزی کردار ایرئیل شیرون ہے، ایک قصائی، جو اب اسپتال کے بستر پر موجود ہے، موت کا انتظار کرتا ہوا۔
اور یہاں اس کی خود کلامی میں اس خطے کی تاریخ سے کردار در آتے ہیں۔ وہ جو گزر گئے، وہ جو شیرون کی صہیونیت کا شکار بنے، جو اس پل مر رہے ہیں، اور جو آنے والے کل مریں گے۔خطۂ فلسطین کی تاریخ، وہاں کے کرب اور وہاں بسنے والوں کے المیے پر حسن منظر کی گہری نظر ہے، جسے انھوں نے، ایک بار پھر، ایک مخصوص ڈھب پر، اپنے ہی وضع کردہ اسلوب میں بیان کیا۔ اور اردو ادب کو ایک پنکھ عطا کیا۔
کیا ایک ناول اس قدر معلومات کا، اس عزم کا، اس تکنیک کا بوجھ اٹھا سکتا ہے؟ کیا ایک شخص کے ذہن میں در آتے تاریخی کرداروں، واقعات اور یادوں کو 400 صفحات پر محیط ناول کی شکل دی جاسکتی ہے؟یہ وہ سوالات ہیں، جو ناول پڑھتے ہوئے بارہا میرے ذہن میں آئے۔
کیا یہ ناول حبس، اگر تھیٹرکے ڈھب پر پیش کیا جائے، تو ایک چونکا دینے والا پیس آف آرٹ بن سکتا ہے؟ یا پھر اگر یہ چار سو کے دو صفحات تک محدود رہتا، تب؟سوالات کئی ہوسکتے ہیں، مگر جواب ایک ہے، حسن منظر۔اس عہد کا منفرد ناولسٹ، جو اپنی انفرادیت کے باعث اردو ادیب کی تاریخ میں، صحرا میںتنہا درخت کے مانند ہے۔
بات کراچی سے شروع ہوئی تھی۔اِس کراچی کی ایک کہانی عبید اللہ کیہر نے بھی اپنی کتاب ''کراچی جواک شہر تھا'' میں بیان کی ہے۔ وہ اپنے قابل مطالعہ سفرناموں کے وسیلے، کتابوں کی اشاعت کے انوکھے طریقوں سے ہم آہنگ کرکے اپنے قارئین پیدا کرچکے ہیں۔یہ کتاب شہر کراچی سے متعلق ان کی یادداشت، مشاہدات، تجربات سے مزین ہے، جس میںاس شہر کی تاریخ سے متعلق بھی، تفصیلی نہ سہی، مگر اہم معلومات ملتی ہے۔کتاب کا آغاز افسانوی ہے، جو دلچسپی کو مہمیز کرتا ہے، عبید اللہ کیہر اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں، زبان کو ابلاغ کے لیے کیسے برتا جائے، انھیں خبر ہے۔
اس مختصر سی کتاب میں جہاں ہمیں پرانے کراچی کے وہ رنگ دکھائی دیتے ہیں، موجودہ نسل جن سے لاعلم، وہیں ان کرب ناک مناظر سے بھی ہمارا سامنا ہوتا ہے، جنھوں نے کراچی کو آگ میں جھونک دیا۔ بھٹو کی پھانسی، جنرل ضیا الحق کے طیارے کی تباہی، سانحہ علی گڑھ اور پھر بگاڑ کا ایک بے انت سلسلہ، منصنف نے ہر واقعے کو اپنی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کے زاویے سے بیان کیا ہے۔
ان کا بہ مصنف تجربہ، نقطہ نگاہ اور اردو سے عشق متقاضی ہے کہ وہ اس شہر پر مزید لکھیں۔ یوں بھی اس شہر میں ہر قدم پر، ہر موڑ پر، ہر پتھر کے نیچے ایک کہانی ہے. ایک کرب ناک کہانی۔
تو صاحبو، یہ کراچی ہے ،ساحلی شہر، جس کا ذکر ہندوؤں کی مقدس کتاب میں نہیں، اور جسے سکندر اعظم نے درخور اعتنا نہ جانا تھا۔
ایک مرتا ہوا شہر۔
کراچی سے عشق کسی خوابیدہ عفریت سے عشق جیسا معاملہ ہے۔ایک ایسی حسینہ سے عشق، جو درحقیقت ایک قاتلہ ہے۔اس عشق میں دھول سے اٹی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں،کچرا کنڈیاں ہیں، خون کی بو ہے، تاریک گھر، تنگ گلیاں ہیں، خوف ہے، اندیشہ ہے، تاریکی ہے۔ یوں جانیں،کراچی سے عشق سرا سرگھاٹے کا سودا ہے۔
اس کے باوجود میں اس کا گرویدہ ہوں ۔ یہاں چلنے والے موت کے جھکڑکا، گرد کے طوفان کا ، موت کے جشن کا ، شکستہ خوابوں کا ، بکھرتی امیدوں کا۔کراچی کبھی ایک شہر تھا ، اب تو یہ خس وخاشاک ہوا، راکھ ہوا، قصہ ماضی ہوا، مگر مایوسی نہیں، عین ممکن ہے ققنس کے مانند، یہ پھر اپنی راکھ سے جی اٹھے۔
البتہ اِس عشق کے باوجود میںاس شہر کو جاننے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ گو میں یومیہ اِدھر زندگی کرتا ہوں۔ اس کی سڑکوں پرگھوما ہوں۔سرطان زدہ سڑکیں۔ تب بھی، جب پسینے اور دھویں کی بو کے ملاپ سے دبیز وحشت جنم لیتی ہے، اور تب بھی، جب ان سڑکوں کا سناٹا، لاحاصل پراسرایت کو اگلتا ہے۔میں نے اس کے چائے خانے، شراب خانے دیکھے ہیں۔ میں نے پوش علاقوں سے ملحقہ کچی بستیاں دیکھی ہیں۔ میں نے یہاں رونما ہونے والے لجلجے حادثات دیکھے ہیں۔
میں ان بس اسٹاپوں سے گزرا ہوں، جہاں جسم فروش مرد، عورتیں اورخواجہ سرا دستیاب ہوتے ہیں۔میں نے بم دھماکوں کے درمیان سفرکیا ۔ان سڑکوں سے گزرا ، جہاں گرنے والا خون ابھی تازہ تھا، جہاں سے لاشوں کو اٹھائے ابھی کچھ ہی ساعتیں گزریں تھی، جہاں تازہ تازہ مرے ہوئے جسم کی بو تھی۔
میں نے ماں بولی کے نام پر انسانوں کوکٹتے دیکھا ، عورتوں کی آبروریزی، انسانیت کی موت کا گواہ بنا۔میں نے کراچی نامی شہر میں بہت کچھ دیکھا ۔مگر اس کے باوجود میں اسے جاننے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی نہیں کرسکتا۔
چاہے اس پر درجنوں فلمیں بنائی جائیں، سیکڑوں ناول لکھے جائیں، چاہے آپ ہزاروں بار ان سڑکوں سے گزریں، جن سے میں گزرا ہوں ،آپ اس شہرکو جاننے کا دعوی نہیں کرسکتے۔کراچی فقط ڈیفنس نہیں، یہ فقط ناظم آباد نہیں، یہ فقط لیاری نہیں، یہ فقط لانڈھی نہیں۔ یہ فقط اورنگی نہیں۔یہ تو ایک زندہ لاش ہے، جو راکھ ہو رہی ہے، تاکہ اپنی راکھ سے پھر جی اٹھے۔لگتا ہے، ایک دن میں بھی اس شہرکے ساتھ مر جاؤں گا اور امر ہوجاؤں گا۔مگر تب بھی، میں اسے جاننے کا دعوی نہیں کرسکوں گا۔
اچھا،اسی کراچی میں حسن منظر نامی ایک ادیب بستا ہے، جو اپنی مثال آپ ہے۔ اجنبی دیسوں کی کہانی حیران گرفت کے ساتھ بیان کرنے کے باعث، پرپیچ، مگر دل پذیر جملہ لکھنے کے باعث، گہرائی میں موجود خفیف سے طنز کے باعث، اپنے کرداروں کے حال اور ماضی سے زبردست واقفیت کے باعث، ڈاکٹر حسن منظر اردو فکشن کے ایک ایسے استھان پر برا جمان ہوتے ہیں، جس کا کوئی اور دعوے دار نہیں۔یہاں وہ اکیلا ہے، اس راہ گزر پرکسی کا گزر نہیں ہوا۔
''حبس'' حسن منظرکے ان ناولز میں آخری ہے، جو ان کے ذہن میں عشروں قبل لکھے گئے ہوں گے، مگر ان کی اشاعت کا سلسلہ 2005ہی میں جا کر شروع ہوا۔ ناول کا لوکیل اسرائیل اور فلسطین ہے، مرکزی کردار ایرئیل شیرون ہے، ایک قصائی، جو اب اسپتال کے بستر پر موجود ہے، موت کا انتظار کرتا ہوا۔
اور یہاں اس کی خود کلامی میں اس خطے کی تاریخ سے کردار در آتے ہیں۔ وہ جو گزر گئے، وہ جو شیرون کی صہیونیت کا شکار بنے، جو اس پل مر رہے ہیں، اور جو آنے والے کل مریں گے۔خطۂ فلسطین کی تاریخ، وہاں کے کرب اور وہاں بسنے والوں کے المیے پر حسن منظر کی گہری نظر ہے، جسے انھوں نے، ایک بار پھر، ایک مخصوص ڈھب پر، اپنے ہی وضع کردہ اسلوب میں بیان کیا۔ اور اردو ادب کو ایک پنکھ عطا کیا۔
کیا ایک ناول اس قدر معلومات کا، اس عزم کا، اس تکنیک کا بوجھ اٹھا سکتا ہے؟ کیا ایک شخص کے ذہن میں در آتے تاریخی کرداروں، واقعات اور یادوں کو 400 صفحات پر محیط ناول کی شکل دی جاسکتی ہے؟یہ وہ سوالات ہیں، جو ناول پڑھتے ہوئے بارہا میرے ذہن میں آئے۔
کیا یہ ناول حبس، اگر تھیٹرکے ڈھب پر پیش کیا جائے، تو ایک چونکا دینے والا پیس آف آرٹ بن سکتا ہے؟ یا پھر اگر یہ چار سو کے دو صفحات تک محدود رہتا، تب؟سوالات کئی ہوسکتے ہیں، مگر جواب ایک ہے، حسن منظر۔اس عہد کا منفرد ناولسٹ، جو اپنی انفرادیت کے باعث اردو ادیب کی تاریخ میں، صحرا میںتنہا درخت کے مانند ہے۔
بات کراچی سے شروع ہوئی تھی۔اِس کراچی کی ایک کہانی عبید اللہ کیہر نے بھی اپنی کتاب ''کراچی جواک شہر تھا'' میں بیان کی ہے۔ وہ اپنے قابل مطالعہ سفرناموں کے وسیلے، کتابوں کی اشاعت کے انوکھے طریقوں سے ہم آہنگ کرکے اپنے قارئین پیدا کرچکے ہیں۔یہ کتاب شہر کراچی سے متعلق ان کی یادداشت، مشاہدات، تجربات سے مزین ہے، جس میںاس شہر کی تاریخ سے متعلق بھی، تفصیلی نہ سہی، مگر اہم معلومات ملتی ہے۔کتاب کا آغاز افسانوی ہے، جو دلچسپی کو مہمیز کرتا ہے، عبید اللہ کیہر اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں، زبان کو ابلاغ کے لیے کیسے برتا جائے، انھیں خبر ہے۔
اس مختصر سی کتاب میں جہاں ہمیں پرانے کراچی کے وہ رنگ دکھائی دیتے ہیں، موجودہ نسل جن سے لاعلم، وہیں ان کرب ناک مناظر سے بھی ہمارا سامنا ہوتا ہے، جنھوں نے کراچی کو آگ میں جھونک دیا۔ بھٹو کی پھانسی، جنرل ضیا الحق کے طیارے کی تباہی، سانحہ علی گڑھ اور پھر بگاڑ کا ایک بے انت سلسلہ، منصنف نے ہر واقعے کو اپنی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کے زاویے سے بیان کیا ہے۔
ان کا بہ مصنف تجربہ، نقطہ نگاہ اور اردو سے عشق متقاضی ہے کہ وہ اس شہر پر مزید لکھیں۔ یوں بھی اس شہر میں ہر قدم پر، ہر موڑ پر، ہر پتھر کے نیچے ایک کہانی ہے. ایک کرب ناک کہانی۔
تو صاحبو، یہ کراچی ہے ،ساحلی شہر، جس کا ذکر ہندوؤں کی مقدس کتاب میں نہیں، اور جسے سکندر اعظم نے درخور اعتنا نہ جانا تھا۔
ایک مرتا ہوا شہر۔