خیالی دنیا سے باہر نکلیں
جیون ساتھی اور افسانوں یا ڈراموں کا ہیرو مختلف ہوتا ہے۔
''میں زہر کھالوںگی لیکن اس موٹے سے ہرگز شادی نہیں کروں گی۔''
''امی میں ایسی غیر رومانوی اور روبوٹ جیسی زندگی نہیں گزار سکتی۔ میں اس شخص سے خلع لے لوں گی۔''
ایسی باتیں ہم سنتے رہتے ہیں۔ کم فہم اور جذباتی لڑکیاں ایسے فیصلے کرکے پچھتاتی ہیں۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد لڑکیاں اپنے ہم سفر کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں۔ وہ افسانوں، ڈراموں، فلموں کے ہیرو کی طرح ایک جیون ساتھی کا خواب دیکھتی ہیں۔ وہ ایک خیالی دنیا بنانے لگتی ہیں جس میں کوئی خامی نہیں ہوتی۔ وہ امیر کبیر ہوتا ہے اور کسی یونانی دیوتا جیسا اور اس کی سب سے اہم خوبی یہ ہوتی ہے وہ بہت پیار کرنے والا اور خیال رکھنے والا ہوتا ہے۔
اپنے اس آئیڈیل لڑکے کی کھوج میں لڑکیاں اپنے آنے والے ہر رشتے کو مسترد کرتے کرتے عمر کی اس دہلیز پر پہنچ جاتی ہیں جہاں بالوں میں چاندی آجاتی ہے لیکن وہ آئیڈیل شوہر کے حوالے سے سمجھوتا نہیں کرتیں۔ لڑکیوں کی اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے والدین وقت سے پہلے بوڑھے اور لاغر ہوجاتے ہیں۔
اگر والدین لڑکی کی ضد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کا رشتہ کہیں طے کردیتے ہیں تو وہ اپنے خاوند کا موازنہ اپنے ذہن میں موجود آئیڈیل سے ہی کرتی رہتی ہیں اور پھر اچھے بھلے انسان میں اسے سو سو خامیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ وہ اسے دل سے تسلیم ہی نہیں کرپاتیں اور یوں اچھی بھلی زندگی برباد ہونے لگتی ہے۔ لڑکی کے سمجھوتا نہ کرنے کی وجہ سے آخر کار نوبت طلاق پر آجاتی ہے اور وہ اپنے والدین کے گھر آجاتی ہے۔
لڑکیاں یہ نہیں سوچتیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کا شوہر معاش کی فکر کرے، دفتری اور کام کی پریشانیوں اور بوجھ کے ساتھ شادی کی سال گرہ، پہلی ملاقات کا دن اور سب تاریخیں یاد رکھے اور افسانوی ہیرو کی طرح انھیں سیلیبریٹ بھی کرے۔ یہ سب باتیں فلموں اور افسانوں میں تو اچھی لگتی ہیں لیکن حقیقت میں ممکن نہیں۔ آپ کو سمجھنا ہو گا کہ یہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ زندگی نشیب و فراز کا دوسرا نام ہے۔ اسی آئیڈل ازم کی وجہ سے لڑکیاں اپنے گھر آباد کرنے سے پہلے ہی برباد کر دیتی ہیں۔ دوسری طرف بعض بدکردار اور شریر صفت لڑکے ایسی جذباتی اور آئیڈیل ازم کی ماری لڑکیوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور یہ ان کا آسان شکار ہوتی ہیں۔
لڑکیوں کو چاہیے جس سے والدین رشتہ استوار کریں اس کا موازنہ اپنے آئیڈیل سے نہ کریں۔ کیوں کہ آئیڈیل آپ کی خیالی دنیا کا ایک کردار ہوتا ہے جسے آپ نے خود تخلیق کیا ہے اور جس شخص کے ساتھ آپ شادی کے بندھن میں منسلک ہیں وہ ایک حقیقت ہے۔ آپ اسے دل سے قبول کریں اور خامیاں تلاش کرنے کے بجائے اس کی شخصیت میں خوبیاں ڈھونڈیں۔ اس طرح نہ صرف آپ کو قلبی اور ذہنی سکون میسر آئے گا ساتھ ہی آپ کی ازدواجی زندگی بھی خوش گوار ہوجائے گی۔
آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی لڑکیوں کے ذہن متاثر ہورہے ہیں۔ جن لڑکیوں کی نئی نئی شادی ہوتی ہے وہ اپنی دوستوں کو متاثر کرنے کے لیے یا پھر اپنے عزیز و اقارب کو دکھانے کے لیے اپنی شاپنگ، گھومنے پھرنے کی تصاویر لگاتی ہیں تو کبھی اپنے شوہر کی تعریف کرتی ہیں جس کے بعد مالی طور پر کم زور گھرانے کی شادی شدہ لڑکیاں احساس کم تری کا شکار ہو کر اپنے شوہر سے الجھ جاتی ہیں اور دوسری طرف غیرشادی شدہ لڑکیاں اپنی آنے والی زندگی کے حسین خواب بننے لگتی ہیں۔ آج کے تعلیم یافتہ دور میں لڑکیوں کو اس سے باہر نکل کر اپنی شخصیت اور کردار کو تعلیم اور ہنر کے ذریعے سنوارنا چاہیے اور اپنی شخصیت میں ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہییں کہ لوگ ان سے متاثر ہوں اور آپ کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔
''امی میں ایسی غیر رومانوی اور روبوٹ جیسی زندگی نہیں گزار سکتی۔ میں اس شخص سے خلع لے لوں گی۔''
ایسی باتیں ہم سنتے رہتے ہیں۔ کم فہم اور جذباتی لڑکیاں ایسے فیصلے کرکے پچھتاتی ہیں۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد لڑکیاں اپنے ہم سفر کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں۔ وہ افسانوں، ڈراموں، فلموں کے ہیرو کی طرح ایک جیون ساتھی کا خواب دیکھتی ہیں۔ وہ ایک خیالی دنیا بنانے لگتی ہیں جس میں کوئی خامی نہیں ہوتی۔ وہ امیر کبیر ہوتا ہے اور کسی یونانی دیوتا جیسا اور اس کی سب سے اہم خوبی یہ ہوتی ہے وہ بہت پیار کرنے والا اور خیال رکھنے والا ہوتا ہے۔
اپنے اس آئیڈیل لڑکے کی کھوج میں لڑکیاں اپنے آنے والے ہر رشتے کو مسترد کرتے کرتے عمر کی اس دہلیز پر پہنچ جاتی ہیں جہاں بالوں میں چاندی آجاتی ہے لیکن وہ آئیڈیل شوہر کے حوالے سے سمجھوتا نہیں کرتیں۔ لڑکیوں کی اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے والدین وقت سے پہلے بوڑھے اور لاغر ہوجاتے ہیں۔
اگر والدین لڑکی کی ضد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کا رشتہ کہیں طے کردیتے ہیں تو وہ اپنے خاوند کا موازنہ اپنے ذہن میں موجود آئیڈیل سے ہی کرتی رہتی ہیں اور پھر اچھے بھلے انسان میں اسے سو سو خامیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ وہ اسے دل سے تسلیم ہی نہیں کرپاتیں اور یوں اچھی بھلی زندگی برباد ہونے لگتی ہے۔ لڑکی کے سمجھوتا نہ کرنے کی وجہ سے آخر کار نوبت طلاق پر آجاتی ہے اور وہ اپنے والدین کے گھر آجاتی ہے۔
لڑکیاں یہ نہیں سوچتیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کا شوہر معاش کی فکر کرے، دفتری اور کام کی پریشانیوں اور بوجھ کے ساتھ شادی کی سال گرہ، پہلی ملاقات کا دن اور سب تاریخیں یاد رکھے اور افسانوی ہیرو کی طرح انھیں سیلیبریٹ بھی کرے۔ یہ سب باتیں فلموں اور افسانوں میں تو اچھی لگتی ہیں لیکن حقیقت میں ممکن نہیں۔ آپ کو سمجھنا ہو گا کہ یہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ زندگی نشیب و فراز کا دوسرا نام ہے۔ اسی آئیڈل ازم کی وجہ سے لڑکیاں اپنے گھر آباد کرنے سے پہلے ہی برباد کر دیتی ہیں۔ دوسری طرف بعض بدکردار اور شریر صفت لڑکے ایسی جذباتی اور آئیڈیل ازم کی ماری لڑکیوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور یہ ان کا آسان شکار ہوتی ہیں۔
لڑکیوں کو چاہیے جس سے والدین رشتہ استوار کریں اس کا موازنہ اپنے آئیڈیل سے نہ کریں۔ کیوں کہ آئیڈیل آپ کی خیالی دنیا کا ایک کردار ہوتا ہے جسے آپ نے خود تخلیق کیا ہے اور جس شخص کے ساتھ آپ شادی کے بندھن میں منسلک ہیں وہ ایک حقیقت ہے۔ آپ اسے دل سے قبول کریں اور خامیاں تلاش کرنے کے بجائے اس کی شخصیت میں خوبیاں ڈھونڈیں۔ اس طرح نہ صرف آپ کو قلبی اور ذہنی سکون میسر آئے گا ساتھ ہی آپ کی ازدواجی زندگی بھی خوش گوار ہوجائے گی۔
آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی لڑکیوں کے ذہن متاثر ہورہے ہیں۔ جن لڑکیوں کی نئی نئی شادی ہوتی ہے وہ اپنی دوستوں کو متاثر کرنے کے لیے یا پھر اپنے عزیز و اقارب کو دکھانے کے لیے اپنی شاپنگ، گھومنے پھرنے کی تصاویر لگاتی ہیں تو کبھی اپنے شوہر کی تعریف کرتی ہیں جس کے بعد مالی طور پر کم زور گھرانے کی شادی شدہ لڑکیاں احساس کم تری کا شکار ہو کر اپنے شوہر سے الجھ جاتی ہیں اور دوسری طرف غیرشادی شدہ لڑکیاں اپنی آنے والی زندگی کے حسین خواب بننے لگتی ہیں۔ آج کے تعلیم یافتہ دور میں لڑکیوں کو اس سے باہر نکل کر اپنی شخصیت اور کردار کو تعلیم اور ہنر کے ذریعے سنوارنا چاہیے اور اپنی شخصیت میں ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہییں کہ لوگ ان سے متاثر ہوں اور آپ کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔