نیتوں کا فتور ہمیں کچھ کرنے نہیں دیتا

پاکستان کی تمام حکومتوں کی کج روی اورعدم دلچسپی نے اِس شہر کو شہرغریباں بنادیا ہے۔


Dr Mansoor Norani June 12, 2019
[email protected]

KARACHI: اورنج ٹرین کا منصوبہ بدقسمتی سے وہ منصوبہ ہے جو حکومت کے بدل جانے، سیاسی اختلاف اور منافرت کی وجہ سے گزشتہ ایک سال سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اور باوجود سپریم کورٹ کی تنبیہ کے پنجاب کی صوبائی حکومت اور اسلام آباد میں قائم پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اُسے مسلسل ٹالے جا رہی ہے۔ قومی اہمیت کے کسی منصوبے کو بلاوجہ اِس طرح تاخیر کا شکارکرنے سے قومی خزانے پرکتنا اضافی بوجھ پڑا کرتا ہے خان صاحب کی حکومت اِسے پایہ تکمیل تک پہنچانے سے گریزاں ہے۔

وہ شاید یہ سمجھتی ہے کہ یہ منصوبہ چونکہ سابقہ نون لیگی حکومت نے شروع کیا تھا اِس لیے خواہ وہ کچھ بھی کرلے اُس کاکریڈٹ مسلم لیگ نون ہی کو جائے گا، لہٰذا پھر وہ کیوں اُس پر توجہ دیکر اور پیسہ لگاکر اِسے بروقت مکمل ہونے دے۔ ویسے بھی ہمارے صحافتی حلقوں میں قیاس یہی کیاجاتا ہے کہ جب تک پشاورکا میٹرو منصوبہ مکمل نہیں ہو جاتا، اورنج ٹرین کا منصوبہ بھی اِسی طرح تعطل کاشکار ہی رہے گا۔ یہ خان صاحب کی سیاسی مجبوری بھی ہے اور ذاتی مصلحت بھی۔

لاہور کے اورنج ٹرین کا منصوبہ اگر BRT کے منصوبے سے پہلے پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو بے چارے ہمارے کپتان کو اور بھی خفت اور پریشانی اُٹھانی پڑے گی ۔ وہ پہلے ہی اِس منصوبے کو لے کر عوام کے سامنے جواب دینے سے قاصر ہیں اگر اورینج ٹرین کا منصوبہ اُس سے پہلے مکمل ہوجاتا ہے تووہ پھرBRTکے بارے میںعوام کو کیاجواب دیں گے۔ ویسے بھی اورنج ٹرین کے افتتاح سے انھیں کوئی خاص سیاسی فائدہ تو پہنچنے سے رہا ، پھر بھلا وہ کیوں اُس کے لیے تگ ودوکریں۔

ایسا ہی کچھ حال کراچی کی میٹروبس سروس اور سرکلر ریلوے کی بحالی کا ہے۔ بدقسمتی سے اِس شہرکے حصے میں ہمیشہ ایسی ہی جمہوری حکومتیں آتی رہی ہیں جنھیں یہاں کے مسائل اور مصائب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

یہاں کی صوبائی حکومت مسلسل دس گیارہ سال سے صرف ایک ہی سیاسی پارٹی کی رہی ہے لیکن کیا مجال کہ اُس نے کبھی سنجیدہ ہوکر یہاں کے مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم اُٹھایا ہو۔ صاف پانی، ڈرینج اور نکاسی آب کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیارکر چکا ہے ۔ سارے شہرکا گٹر اور فیکٹریوں سے نکلنے والا فضلہ کئی سال سے براہ راست سمندر میں گرتاجا رہا ہے لیکن حکومت اِسے روکنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کر رہی۔گندے پانی کو صاف کرنے کا کوئی ٹریٹمنٹ پلانٹ حکومت کے زیر غور نہیں ہے۔اس کے علاوہ شہر میں صفائی ستھرائی کا بھی کوئی جامع منصوبہ ترتیب ہی نہیں دیا گیا ۔ بس وقت گزارے اورچل چلاؤ کی پالیسی پرگامزن انتظامیہ جب کبھی شور اُٹھتا ہے توچند دنوں کے لیے حرکت میں آجاتی ہے اور پھر بعد ازاں وہی خواب غفلت کے مزے لوٹنے لگ جاتی ہے۔

شہر کی آبادی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے ۔ اُسی تناسب سے یہاں کے مسائل بھی تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں لیکن حیران کن طور پر نہ یہاں کی شہری حکومت اور نہ صوبائی حکومت اِن مسائل کی سنگینی کا ادراک ہے اور نہ اُسے سمجھنے کی صلاحیت۔ شہری حکومت فنڈزکا رونا رو کر اپنا دامن بچالیتی ہے اور صوبائی حکومت کارکردگی نہ دکھانے کا الزام شہری حکومت کے سر تھوپ دیتی ہے۔

شہر میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ دن بدن ابتر ہوتا جارہا ہے۔ لیکن دس پندرہ سال سے حکومتی سطح پرایک منصوبہ بھی سامنے نہیں آیا۔ پرویز مشرف کے زمانے میں گرین بس سروس شروع کی گئی تھی لیکن اُس کے بعد اِس شہر قائد میںسرکاری سطح پرٹرانسپورٹ کا کوئی جامع نظام رائج ہی نہیں کیا گیا ۔ میاں نواز شریف نے میٹرو کی طرز پر کراچی والوں کے لیے بھی گرین بس سروس کا اہتمام اورانتظام تو ضرور کیالیکن اِس شرط پرکہ ٹریک اور بس اسٹیثنوں سمیٹ انفرااسٹرکچر کے تما م تر اخراجات وفاقی حکومت اُٹھائے گی اوربسوں کی فراہمی اور اُسے چلانے کی ذمے داری صوبائی حکومت کی ہوگی۔ مگر دیکھا یہ گیا کہ وفاقی حکومت نے حسب وعدہ میٹرو بس سروس کے لیے فلائی اوورز اور ٹریک تو بنالیا لیکن بسوں کی فراہمی میں صوبائی حکومت اپنے وعدے سے انحراف کرتی نظر آرہی ہے۔

سرکلر ریلوے سروس بیس سال سے بند پڑی ہے ۔نجی ٹرانسپورٹ مافیا اُسے دوبارہ فعال ہونے نہیں دے رہا ۔ساتھ ہی ساتھ یہاں کی شہری حکومت اورصوبائی حکومت بھی اُسے دوبارہ چلانے سے انکاری ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار صاحب نے اپنے طور اِس ضمن میں ایک حکم نامہ جاری کیاہواہے لیکن یہاں نہ اب تک ریلوے ٹریک مکمل طور پر صاف ہوپایا ہے اورنہ پلیٹ فارم بن پائے ہیں۔ ایسا لگتا ہے وہ بھی یہاں کے حکمرانوں کی چال بازیوں کے آگے ایک روز مایوس ہوکر لوٹ جائیں گے اورسرکلر ریلوے کی بحالی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔

خان صاحب کی پارٹی کو اِس شہر نے گزشتہ الیکشن میں تقریباً 14 نشستو ں سے نواز ا تھا۔ لہٰذا شہر کی تعمیر وترقی کے تمام کام اب اُس کے سپرد کردیے گئے ہیں۔ خان صاحب نے ویسے تو جوش میں آکر کراچی شہر کے لیے کئی ارب روپے کے پیکیج کا اعلان تو کردیا لیکن عملاًوہ بھی کچھ کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔کراچی شہر نے انھیں سارے پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں دلوائی ہیں۔ انھیں چاہیے کہ سب سے پہلے کراچی کے مسائل پرتوجہ دیں۔

پاکستان کی تمام حکومتوں کی کج روی اورعدم دلچسپی نے اِس شہر کو شہرغریباں بنادیا ہے۔ پچیس تیس سال تک ایم کیو ایم اِس شہر کی حاکم اور غمگسار بنی رہی لیکن اُس نے بھی اپنے ووٹروں کے لیے کچھ نہ کیا۔بلکہ اگر یہ کہاجائے تو قطعاً غلط اور بے جا نہیں ہوگا کہ ایم کیو ایم اپنے شہر یوں کے مسائل اور مصائب کیا حل کرتی وہ تو اُن میں مزید اضافے کا باعث بنی رہی۔ آئے دن کی ہنگامہ آرائی اور قتل وغارت گری نے شہریوں سے اُن کاامن و سکون بھی چھین لیا۔شہر کے بڑے بڑے مسائل کیاحل ہوتے اِن کے دور میں تواِس شہرکورہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا گیا۔ اللہ اللہ کرکے میاںصاحب نے اپنے دورِ گزشتہ میں شہر کے امن کی بحالی کے لیے سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ملکر آپریشن شروع کیاجس کے مثبت نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔

اگر یہ شہر آج بھی انھیں دنوں کی یاد دلارہاہوتاتوکیامجال تھی کہ خان صاحب یہاں سے اتنی بڑی تعداد میں سیٹیں نکال لے جاتے۔ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُس زمانے میں پولنگ اسٹیشنوں پر کس تنظیم کاراج ہواکرتا تھا۔اورکسی کی مجال نہ تھی کہ اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرواتا۔یہ وہ زمانہ تھا جب خان صاحب یہاں آنے سے کترارہے ہوتے تھے۔

چند ایک سیٹ پر ضمنی الیکشنوں میں انھوں نے اپنی پارٹی کی پوزیشن دیکھ لی تھی کہ چند ہزار ووٹوں سے زیادہ انھیں یہاںسے کچھ نہیں مل پارہاتھا۔خان صاحب اگر میاں صاحب کی شکرگزار نہیں ہوسکتے تو کم ازکم اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں کے شکر گزار ہوکر یہ اعتراف کرلیںکہ اُن کی اِس جیت کے پیچھے بہت سوں کی کاوشیں اور کوششیں کارفرما ہیں۔اور کراچی کی 14نشستوں کے عوض اِس شہر کے مسائل پر تھوڑی سے توجہ دیدیں۔انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگریہ چودہ سیٹیں انھیں نہ ملتیں توآج مرکز میں بھی اُن کی حکومت نہ ہوتی۔شہری اور ملکی مسائل کے حل کے لیے اگر نیتیں صاف اور پر خلوص ہوں تو نہ کوئی اٹھارویں ترمیم آڑے آسکتی ہے اورنہ کوئی دوسری مجبوری۔بات صرف ارادوں کی پختگی اور نیتوں کے اخلاص کی ہے۔اگر وہی درست نہ ہوں تو پھر ہرکام مشکل اورکٹھن دکھائی دینے لگتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔