بیلنس پالیسی اپوزیشن کے بعد وفاقی وزراء کی ممکنہ گرفتاریاں
آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری متحدہ اپوزیشن کی حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک کا نکتہ آغاز بھی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی ڈگمگاتی حکومت کی جانب سے ایک سخت بلکہ بقول اپوزیشن اور معاشی ماہرین ''عوام دشمن''بجٹ پیش کیئے جانے سے پہلے 24 گھنٹے کے دوران پیپلز پارٹی کے قائدوسابق صدر آصف علی زرداری اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرحمزہ شہباز شریف کی گرفتاری نے سیاسی گرمی میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان گرفتاریوں کی ٹائمنگ اور ''توازن ''قائم کرنے کیلئے مستقبل میں تحریک انصاف کی ممکنہ گرفتاریوں کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔
گزشتہ روز پیش کیئے جانے والا وفاقی بجٹ عام پاکستانی کی رائے میں غیر معمولی سخت اور مشکل بجٹ ہے اور اس کی وجہ سے عوام کو مزید مہنگائی اور بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تحریک انصاف کے بہت سے رہنما یہ کریڈٹ لے رہے ہیں کہ عمران خان نے الیکشن سے قبل عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ قومی خزانہ لوٹنے والے زرداری اور شریف خاندان کو گرفتار کر کے لوٹا ہوا مال واپس لائیں گے اور اب نواز شریف، زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری نے کپتان کے وعدے کو بہت حد تک مکمل کر دیا ہے۔ دوسری جانب سیاسی حلقے ان گرفتاریوں کی ٹائمنگ کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔
بجٹ پیش کرنے سے چند گھنٹے قبل آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری نے بجٹ کے منفی اثرات کو ''کیمو فلاج'' کرنے میں عارضی طور پر حکومت کو سہارا تو ضرور دیا ہے لیکن اب ملک میں ایک ایسی سیاسی جنگ چھڑ چکی ہے جس میں متحدہ اپوزیشن سے لڑنے کیلئے عمران خان کے پاس ''اسٹیبلشمنٹ''کی حمایت تو موجود ہے لیکن عوام کا بڑا طبقہ کپتان کے ساتھ نہیں ہے۔
گزشتہ دس ماہ کے دوران حکومتی اقدامات، مہنگائی اور بے روزگاری نے پہلے ہی عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں اور اب اتنا سخت بجٹ تابوت میں آخری کیل کے مترادف ہے۔آصف علی زرداری کیلئے گرفتاری، قید اور حکومتی اداروں کا تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پابند سلاسل گزارا ہے، پیپلز پارٹی کو آصف زرداری کی گرفتاری سے سیاسی فائدہ ضرور ہوگا اور بلاول بھٹو مزید جارحانہ انداز میں حکومت کے خلاف سامنے آئیں گے۔
آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری متحدہ اپوزیشن کی حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک کا نکتہ آغاز بھی ہے۔ اس وقت تو گرمی کی غیر معمولی لہر کی وجہ سے سڑکوں پر احتجاج شاید کم دکھائی دے لیکن ایک، ڈیڑھ ماہ بعد جب بجٹ کے اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہوں گے، مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہو گا اور موسم بھی قدرے بہتر ہوگا تب اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لانے کیلئے زیادہ طاقت کے ساتھ کام کرے گی۔ عام پاکستانیوں کی رائے کو دیکھا جائے تو انہیں سابق حکمرانوں کے احتساب سے زیادہ اپنے روزگار کو درپیش مشکلات، تباہ کن مہنگائی اور صحت و تعلیم کی ناقص سہولیات سے دلچسپی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ناکامی کا شکار ہے۔
سابق وفاقی وزیر صحت پر یہ الزام لگ چکا ہے کہ انہوں نے ادویات ساز کمپنیوں کو قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کرنے کی''چھوٹ'' دی تھی، پنجاب میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی ابتک کی کارکردگی پر خود تحریک انصاف کے اندر سے شدید تنقید ہو رہی ہے۔کاروباری مندی کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے، لاہور کی تھوک مارکیٹوں میں جہاں کبھی شدید رش ہوتا تھا اب وہاں خریدو فروخت میں 60 فیصد تک کمی آ چکی ہے، اسی طرح گاڑیوں اور موبائل فونز کی خریدو فروخت میں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جاتی تھی لیکن اب یہ دونوں کاروبار تقریبا تباہ ہو چکے ہیں اور دکانداروں کو کرایہ اور ملازمین کی تنخواہیں اپنی جمع پونجی سے ادا کرنا پڑ رہی ہیں۔
اس تمام صورتحال میں اگر تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپوزیشن رہنماوں کی گرفتاریوں اور کرپشن کے ایشو پر عوام کو مطمئن کر سکتی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے،اب تو لوگ عمران خان کی کرپشن کی گردان سے عاجز ہونا شروع ہو گئے ہیں اور لوگ پوچھ رہے ہیں کہ سیاسی مقاصد کیلئے گرفتاریوں سے صر ف حکومت کو فائدہ ہو رہا ہے ،عوام کا تو کئی بھلا نہیں ہوا، نہ ہی اربوں ڈالر ملک میں واپس لانے کے دعوے ثابت ہوئے، نہ ہی لوٹی گئی رقم واپس لا کر عوام کو معاشی ریلیف دیا جا سکا ہے۔آنے والے دنوں میں ملک میں ایک بڑی سیاسی جنگ ہوتی دکھائی دے رہی ہے ، چند ماہ بعد فوجی قیادت کی تبدیلی یا مدت ملازمت میں توسیع کا بڑا فیصلہ بھی ہونا ہے جبکہ اپوزیشن نے بھی پوری طاقت کے ساتھ اکھاڑے میں اترنا ہے۔
سیاسی حلقے یہ دعوی کر رہے ہیں کہ آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کو''بیلنس''کرنے کیلئے نیب حکام تحریک انصاف کے بعض اہم وفاقی وزراء کو گرفتار کر سکتے ہیں،اس حوالے سے چیئرمین نیب کے متنازعہ انٹرویو کی بنیاد پر وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی گرفتاری کا امکان زیادہ مضبوط معلوم ہوتا ہے۔
اس سے قبل بھی ''توازن''قائم کرنے کے اقدامات سب کے سامنے موجود ہیں ، عمران خان کو نا اہلی سے بچانے اور نواز شریف کی گرفتاری کو ''بیلنس'' کرنے کیلئے جہانگیر ترین جیسے قومی سیاستدان کو ''تکنیکی'' بنیاد پر نااہلی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، میاں شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا تو اسے بیلنس کرنے کیلئے پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کو گرفتار کیا گیا۔تحریک انصاف کے وزراء کی ممکنہ گرفتاریوں کے بعد عمران خان کیلئے بھی مشکلات اور چیلنجز میں اضافہ ہو جائے گا اور کپتان کو ایک نئی حکمت عملی طے کرنا ہو گی۔
گزشتہ روز پیش کیئے جانے والا وفاقی بجٹ عام پاکستانی کی رائے میں غیر معمولی سخت اور مشکل بجٹ ہے اور اس کی وجہ سے عوام کو مزید مہنگائی اور بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تحریک انصاف کے بہت سے رہنما یہ کریڈٹ لے رہے ہیں کہ عمران خان نے الیکشن سے قبل عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ قومی خزانہ لوٹنے والے زرداری اور شریف خاندان کو گرفتار کر کے لوٹا ہوا مال واپس لائیں گے اور اب نواز شریف، زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری نے کپتان کے وعدے کو بہت حد تک مکمل کر دیا ہے۔ دوسری جانب سیاسی حلقے ان گرفتاریوں کی ٹائمنگ کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔
بجٹ پیش کرنے سے چند گھنٹے قبل آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری نے بجٹ کے منفی اثرات کو ''کیمو فلاج'' کرنے میں عارضی طور پر حکومت کو سہارا تو ضرور دیا ہے لیکن اب ملک میں ایک ایسی سیاسی جنگ چھڑ چکی ہے جس میں متحدہ اپوزیشن سے لڑنے کیلئے عمران خان کے پاس ''اسٹیبلشمنٹ''کی حمایت تو موجود ہے لیکن عوام کا بڑا طبقہ کپتان کے ساتھ نہیں ہے۔
گزشتہ دس ماہ کے دوران حکومتی اقدامات، مہنگائی اور بے روزگاری نے پہلے ہی عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں اور اب اتنا سخت بجٹ تابوت میں آخری کیل کے مترادف ہے۔آصف علی زرداری کیلئے گرفتاری، قید اور حکومتی اداروں کا تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پابند سلاسل گزارا ہے، پیپلز پارٹی کو آصف زرداری کی گرفتاری سے سیاسی فائدہ ضرور ہوگا اور بلاول بھٹو مزید جارحانہ انداز میں حکومت کے خلاف سامنے آئیں گے۔
آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری متحدہ اپوزیشن کی حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک کا نکتہ آغاز بھی ہے۔ اس وقت تو گرمی کی غیر معمولی لہر کی وجہ سے سڑکوں پر احتجاج شاید کم دکھائی دے لیکن ایک، ڈیڑھ ماہ بعد جب بجٹ کے اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہوں گے، مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہو گا اور موسم بھی قدرے بہتر ہوگا تب اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لانے کیلئے زیادہ طاقت کے ساتھ کام کرے گی۔ عام پاکستانیوں کی رائے کو دیکھا جائے تو انہیں سابق حکمرانوں کے احتساب سے زیادہ اپنے روزگار کو درپیش مشکلات، تباہ کن مہنگائی اور صحت و تعلیم کی ناقص سہولیات سے دلچسپی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ناکامی کا شکار ہے۔
سابق وفاقی وزیر صحت پر یہ الزام لگ چکا ہے کہ انہوں نے ادویات ساز کمپنیوں کو قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کرنے کی''چھوٹ'' دی تھی، پنجاب میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی ابتک کی کارکردگی پر خود تحریک انصاف کے اندر سے شدید تنقید ہو رہی ہے۔کاروباری مندی کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے، لاہور کی تھوک مارکیٹوں میں جہاں کبھی شدید رش ہوتا تھا اب وہاں خریدو فروخت میں 60 فیصد تک کمی آ چکی ہے، اسی طرح گاڑیوں اور موبائل فونز کی خریدو فروخت میں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جاتی تھی لیکن اب یہ دونوں کاروبار تقریبا تباہ ہو چکے ہیں اور دکانداروں کو کرایہ اور ملازمین کی تنخواہیں اپنی جمع پونجی سے ادا کرنا پڑ رہی ہیں۔
اس تمام صورتحال میں اگر تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپوزیشن رہنماوں کی گرفتاریوں اور کرپشن کے ایشو پر عوام کو مطمئن کر سکتی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے،اب تو لوگ عمران خان کی کرپشن کی گردان سے عاجز ہونا شروع ہو گئے ہیں اور لوگ پوچھ رہے ہیں کہ سیاسی مقاصد کیلئے گرفتاریوں سے صر ف حکومت کو فائدہ ہو رہا ہے ،عوام کا تو کئی بھلا نہیں ہوا، نہ ہی اربوں ڈالر ملک میں واپس لانے کے دعوے ثابت ہوئے، نہ ہی لوٹی گئی رقم واپس لا کر عوام کو معاشی ریلیف دیا جا سکا ہے۔آنے والے دنوں میں ملک میں ایک بڑی سیاسی جنگ ہوتی دکھائی دے رہی ہے ، چند ماہ بعد فوجی قیادت کی تبدیلی یا مدت ملازمت میں توسیع کا بڑا فیصلہ بھی ہونا ہے جبکہ اپوزیشن نے بھی پوری طاقت کے ساتھ اکھاڑے میں اترنا ہے۔
سیاسی حلقے یہ دعوی کر رہے ہیں کہ آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کو''بیلنس''کرنے کیلئے نیب حکام تحریک انصاف کے بعض اہم وفاقی وزراء کو گرفتار کر سکتے ہیں،اس حوالے سے چیئرمین نیب کے متنازعہ انٹرویو کی بنیاد پر وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی گرفتاری کا امکان زیادہ مضبوط معلوم ہوتا ہے۔
اس سے قبل بھی ''توازن''قائم کرنے کے اقدامات سب کے سامنے موجود ہیں ، عمران خان کو نا اہلی سے بچانے اور نواز شریف کی گرفتاری کو ''بیلنس'' کرنے کیلئے جہانگیر ترین جیسے قومی سیاستدان کو ''تکنیکی'' بنیاد پر نااہلی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، میاں شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا تو اسے بیلنس کرنے کیلئے پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کو گرفتار کیا گیا۔تحریک انصاف کے وزراء کی ممکنہ گرفتاریوں کے بعد عمران خان کیلئے بھی مشکلات اور چیلنجز میں اضافہ ہو جائے گا اور کپتان کو ایک نئی حکمت عملی طے کرنا ہو گی۔