سوڈانی انقلاب خواتین موسیقی اورعالمی طاقتیں

پرانے اور بوڑھے آمر کی جگہ نئے اور قدرے جوان آمرکو سوڈانی عوام قبول کرنے کو تیار نہیں۔


فرحین شیخ June 13, 2019
[email protected]

دور دور تک عوام کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے، حدِ نگاہ بس سر ہی سر ہیں۔اس انسانی سمندرکے بیچوں بیچ گاڑی کی چھت پرکھڑی تبدیلی کے لیے لوگوں کو پکارتی یہ جواں سال لڑکی آخر ہے کون؟ اس باہمت، نڈر اور باحوصلہ سوڈانی لڑکی کا نام آلہ صالح ہے۔

سوڈان میں حالیہ بڑھنے والے سیاسی انتشار میں حق اور انصاف کا علم تھامے، جمہوری اقدارکے فروغ کے لیے اگلے محاذوں پر لڑنے والی آلہ صالح کی عمر فقط بائیس سال ہے۔ سوڈان کے سابق راہ نما عمرالبشیر کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے ہونیوالے مظاہروں میں سوڈانی عورتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور سوڈانیوں میں تبدیلی کے خواب جگانے والی آلہ صالح جب انقلابی نظمیں پڑھتی ہیں تو مجمع وجد میں آجاتا ہے۔

لہو گرماتے نعروں کے درمیان مخصوص انداز سے ہاتھ لہراتی آلہ صالح کو دیکھ کر کون یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ منحنی سی لڑکی سوڈان میں ذہنی ارتقا اور سیاسی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے۔ سوڈان میں کئی مہینوں سے جاری مظاہروں کی بہت سی خاص باتیں ہیں جن میں سے پہلی تو یہ کہ یہ مظاہرے سوڈان کی تاریخ کے سب سے بڑے اور منظم مظاہرے ہیں پھر ان میں شامل مظاہرین کا دو تہائی حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ ان مظاہروں کی ایک اور خاص بات ان میں رقص اور موسیقی کا خوبصورت استعمال ہے۔

ڈھول کی تھاپ اور سُروں پر لہک لہک کر انقلاب (جسے سوڈانی زبان میں تھاورا کہا جاتا ہے) کے وہ نعرے لگائے گئے کہ سوڈان دنیا بھرکی توجہ کا مرکز بن گیا اور پھر آلہ صالح کے منفرد انداز نے ان مظاہروں کو مزید انفرادیت بخش دی۔ تالیوں کی گونج میں منظوم تقاریرکے ذریعے عوامی جوش جگاتی آلہ صالح سوڈان کا نیا چہرہ اور نئی امید ہے۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ آلہ صالح کی وائرل ہونے والی یہ تصاویر ہزار لفظوں پر بھاری ہیں۔

اس نوجوان لڑکی کو سوڈان کی تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے گی جس نے تیس سال سے اقتدار پر قابض ایک ڈکٹیٹر کو بیدخل کرنے میں انقلابی کردار ادا کیا ہے۔ سوڈان کے عوام نے آلہ صالح کو ''کنداکا'' کا خطاب دے دیا ہے جو قدیم سوڈان میں صرف ملکاؤں کے لیے مخصوص تھا۔ شدید معاشی بحران کے باعث سوڈان میں گزشتہ سال دسمبر میں روٹی کی قیمت دگنی ہوجانے پر افراتفری پھیل گئی جس نے بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں کو جنم دیا۔ پریشان حال عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ ایسے میں خرطوم یونیورسٹی کی انجینئرنگ کی طالبہ آلہ صالح نے خرطوم میں ہونیوالے مظاہروں کی قیادت کی، وہ ان مظاہروں میں لکھی ہوئی تقریروں کے بجائے لے اور سُرکا استعمال کرتی ہے۔

معروف برطانوی اخبار دی گارجین کو انٹرویو دیتے ہوئے آلہ صالح نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میری وائرل ہونے والی تصاویر کے ذریعے دنیا نے سوڈان کے انقلاب کے بارے میں جانا۔ آلہ نے بتایا کہ جب سے سوڈان میں حکومت کے خلاف بغاوت پھیلی اس وقت سے وہ روزانہ مظاہروں کا حصہ بنتی ہے کیونکہ اس کے والدین نے اسے وطن کی محبت کا درس پڑھا کر پروان چڑھایا ہے۔ آلہ صالح کا کبھی کوئی سیاسی پس منظر نہیں رہا، اس کی ماں فیشن ڈیزائنر ہے جو سوڈانی عورتوں کے روایتی پہناوے تیارکرتی ہے جب کہ اس کے والد ایک کمپنی کے مالک ہیں۔ آلہ فخریہ کہتی ہے کہ ہم تبدیلی کے لیے پُرامید ہیں کیوں کہ سوڈان کسی بھی خاص سیاسی نظریے اور فرقہ وارانہ تقسیم سے پاک ہے۔ آلہ صالح نے مظاہروں میں حصہ لینے کی ابتدا چھے عورتوں کے ایک گروہ سے کی، وہ ان کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی انقلابی نظم بڑے جوش اور جذبے سے گانے لگی، تو ان عورتوں نے بھی تالیاں بجا بجا کر آلہ کا ساتھ دیا۔

ابتدا میں وہ ایسے ہی چوراہوں اور سڑکوں پر کھڑے ہو کر چھوٹے چھوٹے مجمعوں کے سامنے گاتی، رفتہ رفتہ اس کے اطراف کا یہ مجمع بڑھتے بڑھتے ریلی کی شکل اختیار کرگیا، ان ریلیوں کے شرکاء کی ایک بڑی تعداد عورتوں پر مشتمل ہوتی۔'' ہم کوگولی نہیں بلکہ لوگوں کی خاموشی مار تی ہے'' آلہ کی منظوم تقریرکا یہ حصہ سوڈان میں آج ایک ایک کی زبان پر ہے۔ سوڈانی انقلاب کے لیے نظمیں گا گا کر آلہ صالح کا گلا بیٹھ گیا اور حلق زخمی ہوگیا لیکن اس کا جذبہ کم نہ ہوا۔ سوڈان کے انقلاب میں خواتین کا حالیہ کردار حیران کن اور غیرمعمولی ہے، شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں یہاں کی خواتین کو انتہائی امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔ بنیادی حقوق سے بیدخل کر نے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔

اسلامی قوانین کی سخت تشریحات کر کے خواتین پر زندگی تنگ کی گئی۔ انھی باتوں کے پیشِ نظر عرب اسپرنگ کی طرز پر سوڈانی تحریک کو افریکن اسپرنگ کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ سوڈانی عورتوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک دوسرے آمرانہ طرزحکومت والے افریقی ممالک میں بھی پُرامن جدوجہد کے آغازکا باعث بنے گی۔ سوڈان میں بڑھتے ہوئے انتشار اور عوامی احتجاج کے بعد آخر کارگیارہ اپریل کو فوج نے عمرالبشیرکو ان کے منصب سے بے دخل کر دیا لیکن اس وقت بھی سوڈان کی سڑکیں خونی انقلاب کی زد پر ہیں۔ مظاہروں کو روکنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن سوڈانی باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اقتدار عوامی نمایندوں کے ہاتھوں میں نہیں آجاتا۔ فوجی دستے عوامی زورکو روکنے کے لیے بلاامتیاز پُرتشدد کارروائیاں کر رہے ہیں، دریائے نیل لاشیں اگل رہا ہے۔ دوسری طرف سوڈانی پرچم تھامے ہزاروں مظاہرین اب بھی خرطوم میں واقع فوجی ہیڈ کواٹر کے ارد گرد جمع ہیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ سویلین حکومت کے قیام تک ہم یہیں جمع رہیں گے۔ عید کے دن بھی سوڈانی باشندے مبارکباد کی نہیں بلکہ گولیوں کی آوازیں سنتے رہے، سڑکیں سنسان رہیں۔ تشدد کی یہ نئی لہر اس وقت پھیلی جب سوڈان کی عبوری ملٹری کونسل نے بحالی جمہوریت کے حامی مظاہرین کے ساتھ جاری مذاکرات اچانک ختم کر کے ان کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔ عوام اس دھوکے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ فوج سویلین ہاتھوں میں اقتدار کی منتقلی کا وعدہ پورا کرے لیکن ملک سے وفاداری کا عہد کرنیوالی افواج جانے کیوں اکثر عوام سے دغا کر ہی جاتی ہیں۔ اس دغابازی کے نتیجے میں سوڈانی انقلاب کے پیچھے دردناک کہانیاں جنم لے رہی ہیں ریپ اور بد ترین تشدد کے حربے آزما کر مظاہرین کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔

تین جون سے اب تک سو افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ حالات کا بدلتا رخ دیکھ کر ذہن میں اندیشہ کلبلا رہا ہے کہ کہیں سوڈان نیا شام اور یمن بننے تو نہیں جا رہا! اس خطرناک صورتحال کے باوجود باہمت سوڈانیوں کی زبان پر بس یہی ہے کہ ہم آگے بڑھیں گے، جذبوں کو اسی طرح گرمائیں گے، ہمارے پاس واپسی کا اب کوئی راستہ نہیں ہے۔ سوڈان میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد کی جاچکی ہے جب کہ ٹی وی چینل کڑی سنسرشپ کی زد میں ہیں۔

اس کے باوجود تبدیلی کے خواہشمند یہ لوگ جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے گھر گھر جا کر لوگوں کو حالات سے آگاہی فراہم کر کے نیا لائحہ عمل بتانے میں جتے ہوئے ہیں۔ پرانے اور بوڑھے آمر کی جگہ نئے اور قدرے جوان آمرکو سوڈانی عوام قبول کرنے کو تیار نہیں۔ دنیا کی تمام پسی ہوئی اقوام چہرے نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کی متقاضی ہوتی ہیں، یہی تقاضا اس وقت سوڈانیوں کا ہے۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، قطر، ترکی، امریکا اور روس سمیت کئی ممالک سوڈان کی طرف نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔ وقت جیسے ہی اور زیادہ ناسازگار ہوا یہ طاقتیں پنجے گاڑنے میں بھی ذرا دیر نہیں لگائیں گی۔ ایسے میں سوڈانیوں کا باہمی اتحاد اور تبدیلی کا جنون ہی شاید ان طاقتوں کو پیچھے دھکیل سکے، ورنہ خاکمِ بدہن، آثار تو اچھے نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں