’’یہ سیاسی مجبوری ہے‘‘

ہمارے نیک مزاج اور بے حد خوشحال حکمران خاندان کے ایک نوجوان مگر ذہنی طورپر نابالغ رکن جناب بلال یسین جن۔۔۔


Abdul Qadir Hassan September 02, 2013
[email protected]

ہمارے نیک مزاج اور بے حد خوشحال حکمران خاندان کے ایک نوجوان مگر ذہنی طورپر نابالغ رکن جناب بلال یسین جن کا لیموں اور پیاز کے سلسلے میں پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے، اب تازہ ارشاد یہ کیا ہے کہ محکمہ خوراک کچھ بھی ہو کسی ہوٹل وغیرہ پر چھاپہ نہ مارے اور اسے ہر گز سیل نہ کرے اس کے لیے وزیر موصوف کی پیشگی اجازت ضروری ہے کیونکہ یہ سیاسی معاملہ ہے اور سیاسی مجبوری ہے۔

ہمارے ہاں ایک مدت سے کھانا تیار کرنے والے ہوٹلوں وغیرہ میں باسی کھانا اسٹور کر لیا جاتا ہے جو نہ صرف متعفن ہو جاتا ہے بلکہ کیڑوں مکوڑوں کا ڈیرہ بن جاتا ہے۔ کھانا تو دور کی بات ہے ،کوئی انسان اسے دیکھ بھی نہیں سکتا چنانچہ حکومت کا محکمہ خوراک وزیراعلیٰ پنجاب کی ہی سخت ہدایت پر چھاپے مارتا ہے، ہوٹلوں وغیرہ کو سربمہر کر دیتا ہے اور مالکوں پر جرمانہ بھی کرتا ہے۔ ایسا کھانا فروخت کرنا چند اونچے قومی جرائم میں شامل ہے۔ اس قوم کو بڑی کرپٹ اور ناجائز حکومتوں نے جو آزار لاحق کر دیے ہیں، ان کا شمار آسان نہیں۔

یہ ہوٹلوں وغیرہ میں یہ بدبودار گلا سڑا کھانا ان میں سے ایک عذاب ہے جو یہ قوم بے خبری میں جھیل رہی ہے، اس کے سامنے صرف ستھرے برتنوں اور ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں کھانا پیش کیا جاتا ہے، لوگ نہ صرف بڑے شوق سے کھاتے ہیں بلکہ اس کی غیر معمولی قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے اس قومی عذاب سے عوام کو نجات دلانے کا حکم دیا اور ظاہر ہے کہ محکمہ خوراک اس کا ذمے دار تھا لیکن ملاوٹ کے خلاف اس کارروائی میں وزیر خوراک اور ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی میں جنگ شروع ہو گئی ہے۔

وزیر موصوف کا حکم ہے کہ چونکہ ان ملاوٹیوں میں اور ان کے سرپرستوں میں سیاستدان بھی ہوتے ہیں، اس لیے وزیر موصوف کی اجازت کے بغیر کوئی کارروائی نہ کی جائے کیونکہ یہ ان کی سیاسی مجبوری ہے۔ اگر ووٹروں کو گلی سڑی خوراک کھلانا کسی وزیر کی سیاسی مجبوری ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے اور چونکہ شرمناک ایک عدالتی گالی بن گئی ہے اس لیے یہ ایک بہت ہی نامناسب بات ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ ہمارے رپورٹر رضوان آصف کے مطابق ڈی جی خوراک اڑ گئے ہیں یعنی وہ ایک سرکاری ملازم ہے مگر وزیر کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔

ان کا نام اسد اسلام مانی ہے ایک مسلمان ملک کے واقعی شیر (اسد) تو یہ ایک ملازم ہیں جو آج کے شیروں کے مقابلے میں ڈٹ گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انسانوں کے لیے غلیظ غذا اور خوراک تیار کرنے اور فروخت کرنے والے آزاد ہو گئے ہیں محکمہ کے ملازمین پریشان ہیں کہ وہ کیا کریں کیونکہ ان کو حکم ہے کہ وہ وزیر کی پیشگی اجازت کے بغیر گلی سڑی گندی خوراک کو چلنے دیں۔ دنیا بھر کے شریف ملکوں میں رات کو بچا ہوا کھانا ضایع کر دیا جاتا ہے مگر پاکستان میں سیاسی مجبوری اس کے آڑے آ جاتی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ سیاسی مجبوری کسی بھی بدبو دار خوراک سے زیادہ طاقت ور ہے۔

دنیا بھر میں دوائیں ہوں یا انسانی استعمال کی دوسری چیزیں ان کے کوالٹی کنٹرول کا بڑا سخت نظام ہوتا ہے۔ میں ایک بار جدہ میں شاہی مہمان خانے میں مقیم تھا، رات دیر ہو گئی۔ میں بارہ بجے کے بعد لوٹا تو ہوٹل والوں سے کھانا مانگا۔ اس مہمان خانے کا عملہ پاکستانی تھا، اس نے مجھے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ یہاں پر ہوٹل اور ریستوران کا کھانا رات بارہ بجے کے بعد ضایع کر دیا جاتا ہے۔ ہم آپ کو ٹوسٹ آملیٹ وغیرہ بنا کر دے سکتے ہیں۔ کئی دوسرے عرب ملکوں میں بھی یہی دستور ہے لیکن ہم جو ان سب سے زیادہ اسلام کے پرستار اور نام لیوا ہیں وہ ہر غیر اسلامی حرکت کو خوشی خوشی کرتے ہیں۔

ہماری سیاسی مجبوریاں ہمارے ہر قانون اوراخلاقی اقدار پر غالب ہوتی ہیں اور گزشتہ 66 برسوں میں اپنی سیاسی مجبوریوں نے ہمارے وطن عزیز کو اب رہنے کے قابل نہیں رہنے دیا، ہر کوئی بھاگ جانا چاہتا ہے۔ ہر کوئی وہ شاعر تو نہیں ہوتا جو اس مٹی کی محبت ہی میں قرض بھی اتارتا ہے جو اس پر واجب ہی نہیں تھے۔ ہمارے سیاستدان اللہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں، نمبر ایک تو وہ یقیناً پاکستانی مٹی کے نہیں ہیں اور اگر تھے تو انھوں نے اپنی مٹی بدل لی ہے جیسے کسی بیماری میں خون بدل دیا جاتا ہے کیونکہ کوئی بھی کسی ملک کا شہری اس قدر بے حس اور اپنے ملک سے لاتعلق نہیں ہوتا کہ بجائے اس کے کہ برائی کو روکے الٹا برائی کو رائج کرے اور اس کی حوصلہ افزائی کرے۔

ہمارے حکمران طبقے نے ہمارے ملک کو تباہ کیا ہے، کسی بھارت امریکا یا کسی دوسرے دشمن نے یہ سب نہیں کیا ہے۔ یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ ہمارے نئے الیکشن ہوئے قوم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بڑی امیدوں کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر قطاروں میں کھڑے رہے لیکن اندر سے سیاسی مجبوریاں برآمد ہوئیں۔ عوام کی تمنائیں امیدیں آرزوئیں سب سیاسی مصلحتوں اور سیاسی مجبوریوں میں ڈھل گئیں۔ ان کے لیے گندے گلے سڑے بدبودار کھانے رہ گئے جو ان کے بھوکے معدے بھی ہضم نہ کر پاتے۔ ہمارے اسپتال ان دنوں سوء ہضم کے بیماروں سے بھرے ہوئے ہیں۔

وہ اپنی جیب خالی کر کے بیماری لے کر آتے ہیں۔ یہاں ایک عرض کر دوں کہ صرف پاکستانی ہوٹل وغیرہ ہی نہیں یہ غیر ملکی کھانے بیچنے والوں کا بھی محاسبہ کریں۔ اس وقت بھی ایک سیاسی مجبوری میرے غریب خانے میں بستر پر الٹ پلٹ ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ قے ہو گی اور سب کچھ باہر نکلے گا تو خود بخود صحت بحال ہو جائے گی۔ گزارش ہے کہ میاں صاحبان اپنے خاندان کے نوجوانوں کے قومی خرچ پر وظیفے مقرر کر دیں مگر ان کی سیاسی مجبوریوں سے قوم کو نجات دلا دیں۔ شکریہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں