مہنگائی کے رنگ ڈھنگ
یوں تو ہمارے ملک کو متعدد بحرانوں کا سامناہے، ان میں سے ایک تکلیف دہ بحران ’’مہنگائی‘‘ کا ہے...
WASHINGTON:
یوں تو ہمارے ملک کو متعدد بحرانوں کا سامناہے، ان میں سے ایک تکلیف دہ بحران ''مہنگائی'' کا ہے۔ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ گزرتے دن، مہینوں اور سال کے ساتھ بھی عوام کی جان نہیں چھوڑ رہا ہے بلکہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے، کیوں نہ چلے! روز مرہ کی اشیائے خور ونوش اور دیگر اشیائے بود و باش انسان کی زندگی کی ضروریات کی حیثیت رکھتی ہیں۔
انسان روکھی سوکھی کھاکر، پھٹا، پرانا پہن کر، جھونپڑی ہو کہ کچا مکان ہو، ہر حال میں گزارا کرتا ہے لیکن اس کا گزارا ان اشیائے ضروریات کے بغیر ناممکن ہے۔ ہر آدمی اپنی بساط، استطاعت کے مطابق ان اشیا کا استعمال کرتاہے، یعنی جتنی چادر ہے اتنا پیر پھیلاتا ہے۔ اگر وہ اپنی استطاعت سے تجاوز کرجائے تو یقیناً اس کے لیے بود و باش کا حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور نتیجتاً وہ ''غربت'' کے بھیانک سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اشیائے ضروریات اس کی پہنچ سے باہر ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان اعتدال پسندی کے ساتھ زندگی گزارے تو اس کو دیگر مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جن میں لازمی طور پر ''مہنگائی'' کا مسئلہ بھی شامل ہے۔
مہنگائی ہوتی کیوں ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، بلیک مارکیٹنگ وغیرہ شامل ہیں، جن کا تعلق تاجر برادری، بیوپاری حضرات (ہول سیل و خوردہ فروش) اور صنعت کاروں سے وابستہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی تاجر سرمایہ کاری کرتا ہے تو اس کا بنیادی مقصد ہی منافع کمانا ہوتا ہے، بغیر منافع کے کاروبار کرنے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری جانب مہنگائی کے اسباب میں زرمبادلہ اور کرنسی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا دخل بھی ہوتا ہے۔
عام آدمی چونکہ ان معاشی اصولوں اور قوانین سے بے بہرہ ہوتا ہے، اس لیے وہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے مہنگائی اور سستائی کا اندازہ لگاتا ہے۔ جب اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھتی جاتی ہیں تو عام آدمی کہتا ہے کہ ''مہنگائی'' ہوگئی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اور پھر اس پر منافع کا حصول ہی مہنگائی کو جنم دیتا ہے، اس لیے عام آدمی اس رد و بدل کو آسانی سے سمجھتا بھی ہے۔ دیگر پیچیدہ مسائل پر غور کرنا اس کے لیے آسان نہیں ہوتا اور اسے ضرورت بھی کیا ہے پیچیدہ مسائل کی طرف جانے کی۔ اسے تو صرف اپنی استطاعت کے مطابق خرید و فروخت سے سروکار ہوتا ہے۔ دراصل اس مہنگائی کے عفریت میں غربت و امارت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
سماجی معاشرے میں تو سب ہی ایک ساتھ رہتے ہیں، کیا امیر کیا غریب۔ یہ ضروری نہیں کہ سارے امیر ڈیفنس میں رہتے ہوں اور سارے غریب سرجانی میں رہتے ہوں۔ ہر محلے میں امیر و غریب بستے ہیں۔ مظاہرے و مشاہدات بتاتے ہیں کہ بعض علاقوں میں شاندار عمارتوں کے پیچھے یا کچھ فاصلے سے جھونپڑیاں بھی نظر آتی ہیں یا قائم ہیں۔ ان میں زیادہ تر گداگروں یا خانہ بدوشوں کی رہائش ہوتی ہے۔ ان کے درمیان میں بھی امیر و غریب کا فرق پایا جاتاہے۔ اس وجہ سے کہ ان جھونپڑ پٹی کے رہائشی مختلف گروہوں، قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں جو گداگری کرتے ہیں۔ وہ بھی اتنی کمائی کرلیتے ہیں کہ اپنے سردار کو حصہ دینے کے باوجود بھی بچت کرلیتے ہیں اور خوشحال رہتے ہیں۔
یہی خوشحال رہائشی ان کی بستی کے ''امیر'' ہوتے ہیں۔ برعکس خانہ بدوشوں کی بستی میں ''غریب'' ہی ملتے ہیں کیونکہ ان کو کسی ایک جگہ بیٹھنے سے پذیرائی نہیں ملتی کیوںکہ جو بھی خیراتی ادارہ یا مخیر حضرات ان کی مدد کرتے ہیں یہ لوگ (خانہ بدوش) ان کی نظر میں آجاتے ہیں، یعنی مستقل رابطوں کی وجہ سے ان کی پہچان آسان ہوجاتی ہے، اسی وجہ سے یہ لوگ اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان کی آمدنی گداگروں سے کم ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں میں ''امارت'' کا تصور کم ہوتا ہے، بلکہ ہوتا ہی نہیں۔
یہ تو تھی کچھ مہنگائی کی روداد۔ اب دیکھتے ہیں مہنگائی کا دوسرا رخ۔ یہ ہے ''مہنگائی'' میں حکومت یا ریاست کا کردار۔ عموماً مشاہدے میں یہی آیا ہے کہ بیشتر حکومتیں (فوجی حکومتوں کے علاوہ) یعنی سول یا جمہوری حکومتیں اس مسئلے پر نہایت ہی مشکل اور مجبوری کی بنا پر ہی توجہ دیتی ہیں، ورنہ اس امر سے کوئی سروکار نہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام پر کیا گزررہی ہے۔ وہ تو ریل کی پٹری پر چلنے والی روش اختیار کیے ہوئے ہوتی ہیں، جیسے ریل پٹری پر سیدھی سیدھی چلی جاتی ہے، نہ موڑ ہے نہ کوئی رکاوٹ، بس ایک اسٹیشن سے روانہ ہوئی دوسرے پر رک گئی۔
اسی طرح یہ جمہوری حکومتیں آنکھیں بند کیے ہوئے اپنے پروگرام کے مطابق کام کرتی ہیں۔ مڑ کر عوام کی طرف دیکھتی ہی نہیں کہ اس مہنگائی کی عفریت نے عوام کا کیا حال کر ڈالا۔ در اصل ایسی حکومتیں ''شاک پروف'' کہلاتی ہیں ان پر عوام کی طرف سے مہنگائی کے خلاف ہونے والے احتجاج، ہڑتالیں، ریلیاں، دھرنے، مشتعل ہوکر گھیراؤ جلاؤ کرنے اور دیگر ایسے ہی نفرت و غصے والے عوامی ردعمل کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
عوام کا کیا حال ہوگا وہ بھی کسی سے مخفی نہیں۔ لیکن ان تاجروں اور بیوپاریوں نے ایک حربہ اور نکالاہے، مہنگائی کے توڑ کے لیے، وہ یہ ہے کہ اپنی مصنوعات کو نمبر دے دیے ہیں۔ ایک نمبر مال اور دو نمبری مال۔ جو مہنگا ہوتا ہے وہ ایک نمبر اور جو ذرا کم قیمت ہوتا ہے وہ دو نمبری۔ عوام کو یہی پیغام پہنچتا ہے کہ دونوں راستے ہیں آپ کے جدھر چاہیں جائیے۔ ایسی صورت میں مہنگائی کا مارا بازار سے خالی ہاتھ تو نہیں لوٹے گا، دو نمبر مال پر ہی اکتفا کرے گا۔
یوں تو مہنگائی کا مسئلہ ہر دور حکومت میں رہا ہے لیکن اتنی شدت کے ساتھ نہیں تھا، کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ مگر اب ملک جیسے جیسے ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے (یعنی مصنوعی ترقی، قرضوں کے بل بوتے پر) ویسے ویسے مہنگائی کا جن بھی آسانی سے اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ کیوں! اس لیے کہ پچھلی یعنی ماضی کی حکومتوں کے دور میں ایک سال، چھ مہینوں میں اشیائے خور و نوش اور دیگر اشیائے ضروریات کی قیمتوں کا تعین (رد و بدل) ہوا کرتا تھا۔ لیکن پچھلے 5،6 سال سے جمہوری حکومتوں نے یہ رویہ اپنایا ہوا ہے کہ ہر مہینے پندرہ دن میں اشیا خور ونوش اور دیگر اشیا کی قیمتیں بدلنے لگی ہیں۔
بالخصوص پٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس، پانی کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں اور اس پر طرۂ امتیاز یہ ہے کہ قیمتیں بڑھائی تو جاتی ہیں 5 سے 7 روپے تک لیکن جب کمی کا احسان کرتے ہیں تو ایک روپے، دو روپے یا 80 نوے پیسے کم کرتے ہیں۔ خصوصاً بجلی کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس اضافے کا بوجھ عام صارفین پر نہیں پڑے گا، بلکہ یہ قیمتیں صنعتی صارفین پر لاگو ہوں گی۔ صارفین کی بجلی، گیس، تیل، پانی وغیرہ کی قیمتیں بڑھیں گی تو کیا ان کی پیداواری لاگت میں اضافہ نہیں ہوگا اور پھر وہ اپنی مصنوعات مارکیٹ میں لائیں گے تو اسی اضافے کی نسبت سے عوام کو سپلائی کرنے کے لیے قیمتوں میں اضافہ نہیں کریں گے؟
اﷲ تعالیٰ نے وطن عزیز کو ہر نعمت سے نوازا ہے، بس ان سے استفادہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مہنگائی پر قابو پانا آسان نہیں، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف قسم کی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنا ناممکن ہے۔ سب سے بہتر اقدام یہی ہے کہ حکومتی اخراجات کم کیے جائیں اور سادگی اپنائی جائے اور جتنے بھی اقدام اس مسئلے کے حل کے لیے اٹھائے جائیں ان پر ''عمل درآمد'' یقینی بنایا جائے، محض کاغذی کارروائی کرکے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ مہنگائی سے چھٹکارا اسی وقت ہوسکے گا جب ایک مضبوط اور جامع معاشی پالیسی تشکیل دی جائے۔
پاکستان کے عوام نے 66 سال میں کبھی سکون، امن، چین اور خوشحالی نہیں دیکھی، بس اندھیرے ہی اندھیرے دیکھے۔ آئیے! ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم مہنگائی کے جن کو قابو کریں گے اور ہمارے حکمران ایسا آئین و قانون بنائیں گے جس سے مہنگائی کا تدارک ہوسکے۔ نیک نیتی، خلوص، ایمانداری سے کام کیاجائے تو مطلوبہ حقائق کا حصول بھی ممکن ہوسکے گا اور مہنگائی کا خاتمہ بھی۔