اختتام کائنات اور سیاہ مادہ
انسان کا انجام اس کے اعمال اور کائنات کا حشر اس کی کمیت کے برابر ہوتا ہے۔
چلیے صاحب !کائنات کسی بھی طرح بنی ہو لیکن یہی بتا دیجیے کہ یہ کیسے ختم ہوگی؟ جواب وہی پسندیدہ ہے یعنی ہم نہیں جانتے۔ ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ کائنات تین چار مختلف طرح سے اختتام پذیر ہوسکتی ہے۔
انسان کا انجام اس کے اعمال اور کائنات کا حشر اس کی کمیت کے برابر ہوتا ہے اگرکائنات میں ایک خاص مقدار سے زیادہ کمیت ہے تو ایک دن اس کا پھیلاؤ کم ہونا شروع ہوجائے گا حتیٰ کہ رک جائے گا۔ پھرکائنات اپنے بوجھ تلے سکڑنا شروع ہوگی۔
کہکشائیں ستارے اور سیارے ایک دوسرے کے قریب آنے لگیں گے، درجہ حرارت بڑھے گا اور رات بھی دن کی طرح روشن ہوجائے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چیزیں قریب آتی چلی جائیں گی حتیٰ کہ آپس میں ٹکرا جائیں گی۔ ایٹم ٹوٹ جائیں گے اور کائنات اسی حالت میں لوٹ جائے گی جیسی کہ پیدائش کے وقت تھی۔ ''بند'' کائنات کی بات ہے۔ ''بند'' کائنات میں آخر یا تو سب کچھ ختم ہوجائے گا یا پھر سے ایک بگ بینگ ہوجائے گا اور وہی چکر دوبارہ شروع ہوجائے گا۔ کائنات کی یہ صورت ''اہتزازی کائنات'' Osillatory Universe کہلاتی ہے۔
کائنات میں اگر مادہ کم ہے تو پھر یہ پھیلتی جائے گی۔ سورج اور ستارے اپنا ایندھن پھونک کر ختم ہوجائیں گے۔کائنات کا درجہ حرارت گرتا چلا جائے گا اور انسان اور دوسری مخلوقات سرد موت مرجائیں گے۔ 10 سال بعد زیادہ تر ستارے یا تو مر رہے ہوں گے یا مر کر بلیک ہول یا نیوٹرون ستاروں میں تبدیل ہوچکے ہوں گے۔
اس وقت مرے ہوؤں کو موت آئے گی کیونکہ عظیم نظریہ وحدت کے مطابق 31 /10 سال پروٹون کی زندگی ہے۔ پروٹون کے ٹوٹنے سے بلیک ہول اور بقیہ مادہ آہستہ آہستہ شعاعوں میں تبدیل ہونا شروع ہوجائے گا حتیٰ کہ 105 /10 سال بعد کائنات میں مادہ نام کو باقی نہیں رہے گا۔ بس شعاع Radiation رہ جائے گی۔مگر کائنات کا اختتام کیسے ہوگا۔ اس میں روشن مادہ کی اوسط مقدار 23-10x7.5 گرام بتائی جاتی ہے جب کہ 3-10x5 گرام فی مکعب سینٹی میٹر وہ threhold مقدار ہے جس پرکائنات ''بند'' ہو جاتی ہے۔ تو کیا یہ ''کھلی'' ہوئی ہے کہ پھیلتی چلی جائے گی۔ ہوسکتا ہے ''بند'' ہو کیونکہ ماہرین کائنات اب بھی پیمائش میں مصروف ہیں اگر ''بند'' تو کیا اہتزازی ہے کہ اس کی زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا کاش ہم جان سکتے!
سیاہ مادہ کیا ہے؟:کائنات میں مادہ ستاروں اور سیاروں وغیرہ کی شکل میں موجود ہے۔ یہ فلکی اجسام یا خود روشن ہیں یا روشنی منعکس کرکے روشن نظر آتے ہیں۔ جدید تحقیق سے حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ نظر آنیوالا مادہ بہت تھوڑی مقدار میں ہے اور بڑی مقدار میں موجود مادہ سرے سے نظر ہی نہیں آتا اس وجہ سے کہ یہ روشن نہیں۔ پہلے خیال تھا کہ کہکشاں کا مرکز کیونکہ سب سے زیادہ روشن حصہ ہوتا ہے اس لیے سب سے زیادہ کمیت بھی وہیں ہوگی۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ کہکشاں کی زیادہ کمیت اس کے بازو میں ہوتی ہے۔ اگر کائنات کا زیادہ مادہ سیاہ ہے تو یہ ہے کیا؟
شروع شروع میں ماہرین کا خیال تھا کہ سیاہ مادہ سیارے ہیں۔ سیارے کیونکہ روشن نہیں ہوتے اس لیے نظر نہیں آتے سیاروں کے ساتھ سفید بونے نیوٹرون ستارے اور بلیک ہول بھی سیاہ مادہ کے امیدوار تھے۔ تحقیق سے البتہ معلوم ہوا کہ ذرات، کائنات کا سیاہ اور چھپا ہوا مادہ ہیں۔ پہلا خیال نیوٹری نو ذرات کی طرف گیا۔ ہر ستارہ ہر سیکنڈ میں لاکھوں کروڑوں نیوٹری نو ذرات بنا رہا ہے اور پھر یہ ذرہ عظیم دھماکہ (بگ بینگ) میں بھی بڑی تعداد میں وجود میں آیا تھا۔ اگر نیوٹری نو ہی سیاہ مادہ ہے تو کہکشائیں آج کی صورت میں تشکیل نہیں پاتیں۔
نیوٹری نو نہیں تو پھر کیا؟ شاید ایکسونAxionذرہ یہ بھی انتہائی ہلکا ہے اور تھوڑی سی جگہ میں ڈھیر سارا سما جاتا ہے یا شاید ذرات کی ایک اور قسم ''ومپ'' wimp=weakly interacting massive particals سیاہ مادہ ہیں۔ آج کل ماہرین کائنات سیاہ مادے کا سراغ پانے میں مصروف ہیں۔سیاہ مادے کی دریافت سائنس کا ایک عظیم انقلاب ہو گا۔ کائنات کے بارے میں انسانی علم بالکل بدل جائے گا۔ اس طرح شاید کائنات کی ابتدا اور انجام کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہوں گی اور آسمان کو سمجھنے کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔
بلیک ہول کائناتی قید خانہ:ستارے بھی مر جاتے ہیں اور کبھی مر کے امر ہوجاتے ہیں۔ ان کی موت اور لاشیں ان کی پیدائش سے کہیں زیادہ شاندار ہوتی ہے۔ مرنے کے بعد ستارے کا حشر اس کی کمیت کے مطابق ہوتا ہے چھوٹا ستارہ بجھ کر سفید بونا بناتا ہے اور بڑے ستارے پھٹ کر نیوٹرون ستاروں کو جنم دیتے ہیں ''ہیوی ویٹ'' ستارے پھٹ کر انوکھی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور وہ صورت ہے ''بلیک ہول'' مرحوم ستارہ اپنے اوپر سکڑتا چلا جاتا ہے۔ اس کی کثافت بڑھتی جاتی ہے اور قوت ثقل میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔ پھر ایک وقت وہ آتا ہے جب مادے کی کثافت کے بڑھ جانے کی وجہ سے کشش ثقل اتنی طاقتور ہوجاتی ہے کہ ہر شے کو نگل لیتی ہے حتیٰ کہ روشنی بھی اس کی اسیر ہوجاتی ہے۔ ستارہ اب ستارہ نہیں رہا بلکہ ''بلیک ہول'' بن گیا ہے۔ اندھیرے سیاہ تاریک کائناتی قید خانہ جس میں سے روشنی تک فرار ہونے میں ناکام رہتی ہے۔
بلیک ہول کے اسرار و رموز پر سے پردہ کشائی آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے ذریعے ہوئی ہے۔ بلیک ہول کا مرکز Singularity کہلاتا ہے اور یہ اضافیت کے مطابق یہاں مادے کی کثافت لامحدود ہے۔
Event Horizon بلیک ہول کی سرحد کا نام ہے دور بیٹھے ناظر کے لیے یہاں وقت کھڑا ہوگیا ہے۔ اگر وہ بلیک ہول میں پتھر پھینکے تو اسے پتھر افق پر اٹکا ہوا نظر آئے گا جب کہ دراصل وہ کبھی کا بلیک ہول کے اندر پہنچ گیا ہوگا لیکن ناظر کے لیے وقت افق پر ٹھہر گیا اس لیے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پتھر وہیں نظر آتا رہے گا۔ بلیک ہول کے اندر لامحدود وقت سے پرے کی دنیا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ یہاں زمان و مکاں کی ہیئت بدل جاتی ہے جسم مکاں میں صرف ایک طرف، ایک جانب جاتا ہے یعنی ''سنگولیریٹی'' کی جانب لیکن زمانے میں وہ کسی بھی طرف نکل سکتا ہے۔
حال، ماضی اور مستقبل۔ وہ تینوں میں پہنچنے کی آزادی رکھتا ہے۔یہ عجیب باتیں ہیں اور سائنسدانوں کے لیے بھی انوکھی ہیں سنگولیریٹی اور بھی عجیب اور انوکھی ہے یہاں نظریہ اضافیت بھی گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ یہاں زمان و مکاں کیسے ہوں گے؟ کیا سنگولیریٹی سے گزر کر کائنات کے دوسرے حصوں میں پہنچا جاسکتا ہے یا دوسری کائناتوں میں؟ بلیک ہول کے اندر کیا کچھ ہے؟ کاش ہم اس کے اندر جائے بغیر جان سکتے!
حال ہی میں ماہرین فلکیات نے بلیک ہول کی پہلی مرتبہ تصویر لی ہے جو ایک دور دراز کہکشاں میں واقع ہے۔ یہ ایک بہت بڑا بلیک ہول ہے جس کی لمبائی 400 ارب کلومیٹر ہے۔ یہ زمین کے مجموعی حجم سے تیس لاکھ گنا بڑا ہے اور سائنسدان اسے ایک ''مانسٹر'' یا ''دیو'' قرار دے رہے ہیں۔ یہ بلیک ہول دنیا سے تقریباً50 کروڑ کھرب کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے اور اس کی تصویر دنیا کے مختلف حصوں میں نصب 8 دور بینوں کے ذریعے لی گئی ہے۔ نیدر لینڈز یونیورسٹی رادباؤنڈ کے پروفیسر ہاینوف یلک جنھوں نے یہ تجربہ کرنے کی تجویز دی تھی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ یہ کہکشاں جس کی تصویر حاصل کی گئی ہے اسے ایم 87 کہا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ہمارے پورے نظام شمسی سے بڑا ہے۔
اس کا حجم سورج سے 16.5 ارب گنا بڑا ہے اور سائنسدانوں کے خیال میں اب تک دریافت ہونے والے بلیک ہولز میں سب سے زیادہ وزنی ہے۔ یہ روشنی ہماری کہکشاں میں موجود تمام ستاروں سے زیادہ تابناک ہے اور اسی وجہ سے ہم اسے زمین سے دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ بلیک ہول کے اردگرد موجود دائرہ وہاں پر اس لیے موجود ہے کیونکہ وہ بلیک ہول میں داخلے کا مرکز ہے اور وہاں پر سے گزرنے والی کوئی بھی شے بلیک ہول کی کشش کو برداشت نہیں کرسکتی اور اس میں چلی جاتی ہے۔ اس مقام پر فزکس کے تمام تر اصول ناکام ہوجاتے ہیں۔
انسان کا انجام اس کے اعمال اور کائنات کا حشر اس کی کمیت کے برابر ہوتا ہے اگرکائنات میں ایک خاص مقدار سے زیادہ کمیت ہے تو ایک دن اس کا پھیلاؤ کم ہونا شروع ہوجائے گا حتیٰ کہ رک جائے گا۔ پھرکائنات اپنے بوجھ تلے سکڑنا شروع ہوگی۔
کہکشائیں ستارے اور سیارے ایک دوسرے کے قریب آنے لگیں گے، درجہ حرارت بڑھے گا اور رات بھی دن کی طرح روشن ہوجائے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چیزیں قریب آتی چلی جائیں گی حتیٰ کہ آپس میں ٹکرا جائیں گی۔ ایٹم ٹوٹ جائیں گے اور کائنات اسی حالت میں لوٹ جائے گی جیسی کہ پیدائش کے وقت تھی۔ ''بند'' کائنات کی بات ہے۔ ''بند'' کائنات میں آخر یا تو سب کچھ ختم ہوجائے گا یا پھر سے ایک بگ بینگ ہوجائے گا اور وہی چکر دوبارہ شروع ہوجائے گا۔ کائنات کی یہ صورت ''اہتزازی کائنات'' Osillatory Universe کہلاتی ہے۔
کائنات میں اگر مادہ کم ہے تو پھر یہ پھیلتی جائے گی۔ سورج اور ستارے اپنا ایندھن پھونک کر ختم ہوجائیں گے۔کائنات کا درجہ حرارت گرتا چلا جائے گا اور انسان اور دوسری مخلوقات سرد موت مرجائیں گے۔ 10 سال بعد زیادہ تر ستارے یا تو مر رہے ہوں گے یا مر کر بلیک ہول یا نیوٹرون ستاروں میں تبدیل ہوچکے ہوں گے۔
اس وقت مرے ہوؤں کو موت آئے گی کیونکہ عظیم نظریہ وحدت کے مطابق 31 /10 سال پروٹون کی زندگی ہے۔ پروٹون کے ٹوٹنے سے بلیک ہول اور بقیہ مادہ آہستہ آہستہ شعاعوں میں تبدیل ہونا شروع ہوجائے گا حتیٰ کہ 105 /10 سال بعد کائنات میں مادہ نام کو باقی نہیں رہے گا۔ بس شعاع Radiation رہ جائے گی۔مگر کائنات کا اختتام کیسے ہوگا۔ اس میں روشن مادہ کی اوسط مقدار 23-10x7.5 گرام بتائی جاتی ہے جب کہ 3-10x5 گرام فی مکعب سینٹی میٹر وہ threhold مقدار ہے جس پرکائنات ''بند'' ہو جاتی ہے۔ تو کیا یہ ''کھلی'' ہوئی ہے کہ پھیلتی چلی جائے گی۔ ہوسکتا ہے ''بند'' ہو کیونکہ ماہرین کائنات اب بھی پیمائش میں مصروف ہیں اگر ''بند'' تو کیا اہتزازی ہے کہ اس کی زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا کاش ہم جان سکتے!
سیاہ مادہ کیا ہے؟:کائنات میں مادہ ستاروں اور سیاروں وغیرہ کی شکل میں موجود ہے۔ یہ فلکی اجسام یا خود روشن ہیں یا روشنی منعکس کرکے روشن نظر آتے ہیں۔ جدید تحقیق سے حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ نظر آنیوالا مادہ بہت تھوڑی مقدار میں ہے اور بڑی مقدار میں موجود مادہ سرے سے نظر ہی نہیں آتا اس وجہ سے کہ یہ روشن نہیں۔ پہلے خیال تھا کہ کہکشاں کا مرکز کیونکہ سب سے زیادہ روشن حصہ ہوتا ہے اس لیے سب سے زیادہ کمیت بھی وہیں ہوگی۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ کہکشاں کی زیادہ کمیت اس کے بازو میں ہوتی ہے۔ اگر کائنات کا زیادہ مادہ سیاہ ہے تو یہ ہے کیا؟
شروع شروع میں ماہرین کا خیال تھا کہ سیاہ مادہ سیارے ہیں۔ سیارے کیونکہ روشن نہیں ہوتے اس لیے نظر نہیں آتے سیاروں کے ساتھ سفید بونے نیوٹرون ستارے اور بلیک ہول بھی سیاہ مادہ کے امیدوار تھے۔ تحقیق سے البتہ معلوم ہوا کہ ذرات، کائنات کا سیاہ اور چھپا ہوا مادہ ہیں۔ پہلا خیال نیوٹری نو ذرات کی طرف گیا۔ ہر ستارہ ہر سیکنڈ میں لاکھوں کروڑوں نیوٹری نو ذرات بنا رہا ہے اور پھر یہ ذرہ عظیم دھماکہ (بگ بینگ) میں بھی بڑی تعداد میں وجود میں آیا تھا۔ اگر نیوٹری نو ہی سیاہ مادہ ہے تو کہکشائیں آج کی صورت میں تشکیل نہیں پاتیں۔
نیوٹری نو نہیں تو پھر کیا؟ شاید ایکسونAxionذرہ یہ بھی انتہائی ہلکا ہے اور تھوڑی سی جگہ میں ڈھیر سارا سما جاتا ہے یا شاید ذرات کی ایک اور قسم ''ومپ'' wimp=weakly interacting massive particals سیاہ مادہ ہیں۔ آج کل ماہرین کائنات سیاہ مادے کا سراغ پانے میں مصروف ہیں۔سیاہ مادے کی دریافت سائنس کا ایک عظیم انقلاب ہو گا۔ کائنات کے بارے میں انسانی علم بالکل بدل جائے گا۔ اس طرح شاید کائنات کی ابتدا اور انجام کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہوں گی اور آسمان کو سمجھنے کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔
بلیک ہول کائناتی قید خانہ:ستارے بھی مر جاتے ہیں اور کبھی مر کے امر ہوجاتے ہیں۔ ان کی موت اور لاشیں ان کی پیدائش سے کہیں زیادہ شاندار ہوتی ہے۔ مرنے کے بعد ستارے کا حشر اس کی کمیت کے مطابق ہوتا ہے چھوٹا ستارہ بجھ کر سفید بونا بناتا ہے اور بڑے ستارے پھٹ کر نیوٹرون ستاروں کو جنم دیتے ہیں ''ہیوی ویٹ'' ستارے پھٹ کر انوکھی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور وہ صورت ہے ''بلیک ہول'' مرحوم ستارہ اپنے اوپر سکڑتا چلا جاتا ہے۔ اس کی کثافت بڑھتی جاتی ہے اور قوت ثقل میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔ پھر ایک وقت وہ آتا ہے جب مادے کی کثافت کے بڑھ جانے کی وجہ سے کشش ثقل اتنی طاقتور ہوجاتی ہے کہ ہر شے کو نگل لیتی ہے حتیٰ کہ روشنی بھی اس کی اسیر ہوجاتی ہے۔ ستارہ اب ستارہ نہیں رہا بلکہ ''بلیک ہول'' بن گیا ہے۔ اندھیرے سیاہ تاریک کائناتی قید خانہ جس میں سے روشنی تک فرار ہونے میں ناکام رہتی ہے۔
بلیک ہول کے اسرار و رموز پر سے پردہ کشائی آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے ذریعے ہوئی ہے۔ بلیک ہول کا مرکز Singularity کہلاتا ہے اور یہ اضافیت کے مطابق یہاں مادے کی کثافت لامحدود ہے۔
Event Horizon بلیک ہول کی سرحد کا نام ہے دور بیٹھے ناظر کے لیے یہاں وقت کھڑا ہوگیا ہے۔ اگر وہ بلیک ہول میں پتھر پھینکے تو اسے پتھر افق پر اٹکا ہوا نظر آئے گا جب کہ دراصل وہ کبھی کا بلیک ہول کے اندر پہنچ گیا ہوگا لیکن ناظر کے لیے وقت افق پر ٹھہر گیا اس لیے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پتھر وہیں نظر آتا رہے گا۔ بلیک ہول کے اندر لامحدود وقت سے پرے کی دنیا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ یہاں زمان و مکاں کی ہیئت بدل جاتی ہے جسم مکاں میں صرف ایک طرف، ایک جانب جاتا ہے یعنی ''سنگولیریٹی'' کی جانب لیکن زمانے میں وہ کسی بھی طرف نکل سکتا ہے۔
حال، ماضی اور مستقبل۔ وہ تینوں میں پہنچنے کی آزادی رکھتا ہے۔یہ عجیب باتیں ہیں اور سائنسدانوں کے لیے بھی انوکھی ہیں سنگولیریٹی اور بھی عجیب اور انوکھی ہے یہاں نظریہ اضافیت بھی گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ یہاں زمان و مکاں کیسے ہوں گے؟ کیا سنگولیریٹی سے گزر کر کائنات کے دوسرے حصوں میں پہنچا جاسکتا ہے یا دوسری کائناتوں میں؟ بلیک ہول کے اندر کیا کچھ ہے؟ کاش ہم اس کے اندر جائے بغیر جان سکتے!
حال ہی میں ماہرین فلکیات نے بلیک ہول کی پہلی مرتبہ تصویر لی ہے جو ایک دور دراز کہکشاں میں واقع ہے۔ یہ ایک بہت بڑا بلیک ہول ہے جس کی لمبائی 400 ارب کلومیٹر ہے۔ یہ زمین کے مجموعی حجم سے تیس لاکھ گنا بڑا ہے اور سائنسدان اسے ایک ''مانسٹر'' یا ''دیو'' قرار دے رہے ہیں۔ یہ بلیک ہول دنیا سے تقریباً50 کروڑ کھرب کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے اور اس کی تصویر دنیا کے مختلف حصوں میں نصب 8 دور بینوں کے ذریعے لی گئی ہے۔ نیدر لینڈز یونیورسٹی رادباؤنڈ کے پروفیسر ہاینوف یلک جنھوں نے یہ تجربہ کرنے کی تجویز دی تھی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ یہ کہکشاں جس کی تصویر حاصل کی گئی ہے اسے ایم 87 کہا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ہمارے پورے نظام شمسی سے بڑا ہے۔
اس کا حجم سورج سے 16.5 ارب گنا بڑا ہے اور سائنسدانوں کے خیال میں اب تک دریافت ہونے والے بلیک ہولز میں سب سے زیادہ وزنی ہے۔ یہ روشنی ہماری کہکشاں میں موجود تمام ستاروں سے زیادہ تابناک ہے اور اسی وجہ سے ہم اسے زمین سے دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ بلیک ہول کے اردگرد موجود دائرہ وہاں پر اس لیے موجود ہے کیونکہ وہ بلیک ہول میں داخلے کا مرکز ہے اور وہاں پر سے گزرنے والی کوئی بھی شے بلیک ہول کی کشش کو برداشت نہیں کرسکتی اور اس میں چلی جاتی ہے۔ اس مقام پر فزکس کے تمام تر اصول ناکام ہوجاتے ہیں۔