خان صاحب قدم بڑھائیں
معتبر جمہوری نظام کا پودا تو جب ہی پھل دے گا جس کی جڑیں عوام میں ہوں۔
حکومت اور اس کے وزراء یہ چاہتے ہیں کہ قوم ٹیکس دے مگر قوم کی بہتری کے لیے اب تک حکومت کی جانب سے بصیرت افروز خیالات کا فقدان ہے۔ عمران خان بحیثیت وزیر اعظم کوشاں ہیں کہ پاکستان بے مقصد تصادم سے بچتے ہوئے ترقی کرے۔ مانا کہ یہ ان کا فراخ دلانہ فیصلہ ہے اور یہ اچھی سوچ ہے مگر اتنی خوبیاں ہونے کے باوجود مہنگائی کے حوالے سے قوم ناراض ہے۔ وقت کا ضیاع کیے بغیر خان صاحب اچھے فیصلے کریں جو نظر آئیں۔
معتبر جمہوری نظام کا پودا تو جب ہی پھل دے گا جس کی جڑیں عوام میں ہوں اپوزیشن بلند بانگ دعوے کرکے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی پوری کوششیں کر رہی ہے اور جو کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں وہ بھی پارسا بن کر واویلا مچا رہے ہیں مگر دکھ اس بات کا ہے کہ حکومت کے وزرا اپنی قیادت کو قواعد و ضوابط سمجھانے سے قاصر ہیں، یہ بڑا المیہ ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ حکومتی وزرا قوم کی بہتری کے بجائے اپوزیشن کو جواب دینے کے لیے رات رات بھر بیانات لکھتے ہیں اور پھاڑ دیتے ہیں کہ صبح انھیں اپوزیشن کا حساب کتاب مکمل کرنا ہوتا ہے۔
حالات یہ ہیں کہ دشمن ملک کی فلموں کو ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں مگر انھیں کشمیر اور فلسطین کی آزادی چاہیے اچھی قومیں اپنے حکمرانوں کا حساب کتاب لیتی ہیں مگر کرپشن سے لتھڑے ہوئے لوگوں کا دفاع کرنے کے لیے یہ جان کی بازی لگا دیتے ہیں پھر ایک دن ان سے تاریخ خود حساب لے لیتی ہے۔ یہ قوم بہت معصوم ہے ماضی کے دروازوں کو بند کرکے حال کے دروازے کھول لیتی ہے۔
آج اپوزیشن شور مچا رہی ہے کہ مہنگائی نے عوام کی جان نکال دی ہے مگر وہ یہ بھول گئی کہ اپوزیشن نے ماضی میں کیا کیا تھا کیا ماضی کی حکومتوں میں پٹرول 118 روپے لیٹر تک فروخت نہیں ہوا کیا آلو 100 روپے کلو اور ٹماٹر 150 روپے کلو نہیں بکے؟ یہ وہی معصوم لوگ ہیں جن کے بارے میں، میں پچھلی سطروں میں لکھ چکا ہوں۔ اب آتے ہیں مسائل کی طرف۔ عمران خان صاحب کو چاہیے کہ اپوزیشن کی باتوں پر کان نہ دھریں بلکہ دل گرفتہ قوم کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ وزیروں کو بیانات سے روک دیں اور ہر وزیر کو کثیر فنڈ دیں تاکہ وہ اپنے حلقوں میں جائیں اور لوگوں کے مسائل کی طرف توجہ دیں۔
خان صاحب چاہتے ہیں کہ ہر پاکستانی ٹیکس دے۔ آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق ہے مگر جو لوگ ایمانداری سے ٹیکس دے رہے ہیں ان کو ایسی مراعات دیں کہ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے وہ شرم سے پانی پانی ہو جائیں اور اس معاشرے میں کوئی اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرسکتا۔ اخبارات کے آرٹیکل کے لیے ایک مشیر کا اہتمام کریں جو صحافی عوامی مشکلات پر قلم اٹھاتے ہیں ان کے آرٹیکل پڑھنے کے بعد اگر اس میں اصلاح کا پہلو نظر آتا ہے تو انتہائی محنت اور ایمانداری سے خان صاحب اس پر عمل کریں اور یاد رکھیں خان صاحب مفلس نادار اور غریب صحافی ہی قومی مسائل پر لکھتے ہیں کہ انھیں تو خود پیٹ کے لالے پڑے ہیں اور وہ عوام میں رہ کر سختیاں جھیلتے ہیں کہ وہ انھی میں سے ہیں اگر آپ عوام سے قربانی مانگ رہے ہیں اور آپ عوامی پذیرائی کے طلب گار ہیں تو پھر حقیقی قدم بڑھائیں کہ انصاف کی تزئین سامنے آسکے اور مایوسی کی گرد چھٹنی شروع ہو، عوام تو 30 سال سے تیری باری اور میری باری کے انتظار میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر توہین و تذلیل کا شکار ہوتے رہے ۔
آپ فیصلہ کیجیے یہ قوم کب تک سولی پر لٹکی رہے گی اور اس سلگتے عوام نے آپ کے حق میں فیصلہ دے دیا مدینے کی ریاست اگر بنانی ہے تو پھر حضرت عمر فاروقؓ کے کردار پر عمل کرنا ہوگا یہ قوم کب تک قربانی دے گی آپ پہلی فرصت میں تمام ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹر، وفاقی و صوبائی وزرا، مشیر حضرات کی مراعات ختم کریں ان کی مراعات پر کروڑوں روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں ان کے پروٹوکول پر ایسے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ لکھتے ہوئے شرم آتی ہے سب کچھ آپ قوم سے لینا چاہتے ہیں تو پھر حضرت عمر اور مدینے والی ریاست کیسے جنم لے گی جب اسمبلی میں مراعات کی بات ہوتی ہے تو اپوزیشن اور حکومتی اراکین اپنے حقوق کے لیے ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر واویلا مچاتے ہیں۔
ان کی مراعات دیکھتے ہوئے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں یہ کیسا انصاف ہے قوم نے آپ کو اس لیے ووٹ دیا تھا کہ اب سارے اعزاز و اکرام قوم کے حصے میں آئیں گے مگر قوم تو وہی سوکھے کنوئیں پر کھڑی ہے جس میں عزت کے پانی نام کی کوئی چیز نہیں ہے آپ ٹیکس ضرور لیجیے کہ جو قومیں ٹیکس دیتی ہیں وہ خوشحالی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور ایف بی آر کے ممبر ہیں ان کے لیے ریلوے، پی آئی اے، سرکاری اداروں میں ایک کاؤنٹر بنائیں جو صرف ایف بی آر کے ممبرز کے لیے ہوں آپ سوچیں جب کوئی ریلوے میں ٹکٹ کی بکنگ کے لیے جائے تو اس کاؤنٹر پر کھڑا ہو جو ٹیکس نہیں دیتا دوسرے لوگ اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے پھر آخر مجبور ہوکر خوشحال لوگ اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرسکیں گے اور حکومت کو خود ٹیکس دیں گے اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو کروڑ پتی ہیں مگر ٹیکس کے نام پر ایک آنہ نہیں دیتے۔ وہ اس بے عزتی کو کیسے برداشت کریں گے جو روٹی کے لیے محتاج ہے۔
اس کی صحت پر ان کاؤنٹر کا اثر نہیں پڑے گا ہاں جو کروڑوں کی گاڑیوں میں آتے ہیں ملک کو ایک پیسہ نہیں دیتے ان کے لیے یہ مرحلہ کسی عذاب سے کم نہیں ہوگا یہ کیسی روایت ہے کہ جو تنخواہ دار طبقہ ہے اس سے تو ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے کہ وہ آپ کے اور ادارے کے حصار میں ہے مگر جو کاروبار کے نام پر لاکھوں کماتے ہیں مگر ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جو ٹیکس ادا کرتے ہیں انھیں آپ کی حکومت اسٹیکر جاری کرے ۔
تاکہ بوقت ضرورت وہ اس اسٹیکر کو استعمال کریں۔ خدارا جو ملک کو ٹیکس دیتے ہیں ان کی عزت کیجیے لاکھوں موٹر سائیکلیں ہزاروں پبلک ٹرانسپورٹ تو لاقانونیت کرتے ہیں مگر جو شریف شہری ٹیکس دیتا ہے ایف بی آر کا ممبر ہے اس سے پولیس پوچھتی ہے کہ آپ نے بیلٹ کیوں نہیں باندھی۔ راقم نے اصولوں کے دروازے کو کھٹکھٹایا ہے آپ نیکی سے اس دروازے کو کھولیے تاکہ قوم میں ٹیکس دینے کا شعور پیدا ہو اگر آپ اس ناقص مشورے پر توجہ نہیں دیں گے تو پھر اگلا الیکشن تمام سیاسی جماعتیں اتحاد کرکے آپ کے مدمقابل ہوں گی لہٰذا اچھے اصول نافذ العمل کریں اور راقم کی تحریر پر توجہ دیں کہ راقم بھی اس مفلس عوام کا حصہ ہے آپ سے محبت کا یہ عالم ہے قوم کا کہ کراچی والوں نے آپ کے حق میں فیصلہ دیا تو پھر آپ اس قوم کو مایوس نہ کریں۔ خان صاحب قوم کے لیے اب نئے عزم و استقلال کی ضرورت ہے۔ کیا خوب غالب نے کہا ہے کہ:
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک