بجلی چوری‘ فتویٰ ضروری

ایک مذہبی آدمی سے کے الیکٹرک کے اضافی بلوں پر پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ خود بھی کنڈے پر اے سی چلاتے ہیں۔

لاہور:
وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا ہے کہ ملک میں بجلی کی جو چوری ہو رہی ہے، اس کے خلاف علمائے کرام کو فتویٰ دینا چاہیے۔ وفاقی وزیر فتویٰ مانگنے سے قبل یہ بھی معلوم کرلیتے کہ آج سے 50 سال قبل تک ملک میں ان کے دادا صدر ایوب خان کی حکومت تھی تو اس وقت ملک میں بجلی چوری کی پوزیشن کیا تھی ۔ لوگ بجلی کے بل کس تعداد میں بینکوں کے باہر سخت سردی اور شدید گرمی میں گھنٹوں کھڑے رہ کر کس طرح ادا کیا کرتے تھے اور بجلی کی چوری کو برا سمجھ کر گریز کرتے تھے۔

50 سال قبل بجلی کی اتنی طلب بھی نہیں تھی اور بل کے نرخ اتنے مناسب ہوتے تھے کہ لوگ آسانی سے ادا کردیا کرتے تھے۔ نہ بجلی چوری کی کوئی شکایت تھی نہ کسی نے لوڈ شیڈنگ کا نام سنا تھا۔ نئے میٹر آسانی سے مناسب قیمت پر لگ جایا کرتے تھے پھر عوامی حکومت کہلانے والی بھٹو حکومت کا دور آیا اور ریڈیو، ٹی وی پر اشتہار آنے لگے کہ میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے۔

بجلی شہروں کے ساتھ گاؤں میں بھی پھیلائی گئی جس سے بجلی کی طلب بڑھتی گئی اور بجلی دینے والوں سے شکایتیں اور رشوت بھی شروع ہوگئی اور پھر 2008 میں پیپلز پارٹی کا دور زرداری خاندان کی شکل میں آیا۔ ملک بھر میں بجلی کمیاب، طلب زیادہ، سپلائی کم اور ملک اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا اور حکومت نے جس میں راجہ پرویز اشرف وزیر بجلی تھے اور بعد میں وزیر اعظم بنے اپنے پانچ سال ضرور مکمل کیے مگر بجلی بنانے پر توجہ نہیں دی۔

ملک میں لوڈ شیڈنگ کے باعث پیپلز پارٹی 2013ء کا الیکشن ہاری اور مسلم لیگ (ن) بجلی پیدا کرکے ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے منشور پر الیکشن جیتی اور شریف برادران نے ملک بھر میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کیے اور وعدہ پورا کرکے 31 مئی 2018 میں جب رخصت ہوئے تو (ن) لیگی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے سرکاری طور پر ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کیا جس کا کریڈٹ تحریک انصاف کے وزیر توانائی فخریہ لے رہے ہیں کہ ملک میں رمضان میں افطار و سحر میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی اور اب بجلی کی قلت مسئلہ نہیں بلکہ بجلی چوری مسئلہ ہے جس کا حل حکومت 9 ماہ میں نہ نکال سکی اور اب وزیر توانائی بجلی کی چوری کے خلاف فتویٰ جاری ہونے کے منتظر ہیں۔

تبدیلی حکومت نے بجلی کے نرخ مسلسل بڑھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جنوری میں گیس استعمال کرنے والے صارفین نے دیکھا ہے، گیس بلوں میں ایسی تبدیلی آئی کہ وہ سر پکڑکر بیٹھ گئے۔ 32 لاکھ سے زائد صارفین کو ہزاروں روپے زائد کے بل بھیج کر حکومت نے عوام سے اربوں روپے وصول کرلیے۔ احتجاج پر وزیر اعظم نے صارفین کو اضافی رقم کی واپسی کا یقین دلایا مگر چار ماہ گزر گئے اضافی رقم واپس نہیں کی جا رہی۔ حکومت نے آتے ہی گیس نرخوں میں 143 فیصد اضافہ کیا اور اب مزید 47 فیصد اضافے کی خبریں آ رہی ہیں۔


سوئی گیس کی چوری بھی حکومت کے لیے اہم مسئلہ ہے اور سالانہ چالیس ارب روپے سے زائد کی چوری حکومت روک نہیں پا رہی۔ وزیر پٹرولیم تو تبدیل ہوگیا مگر نئے وزیر چوری روکنے کا فتویٰ نہ جانے کیوں نہیں مانگ رہے اگر مانگیں گے تو علما پہلے وزیر اعظم سے مطالبہ نہ کردیں کہ حکومت گیس کی اضافی رقم واپس کرے۔ بجلی کی چوری کے مقابلے میں سوئی گیس کی چوری کم اور آسان نہیں۔ گیس چوری عام صارف نہیں صنعتی ادارے کرتے ہیں جب کہ بجلی کی چوری آسان اور عام ہے جو عام صارفین کم اور صنعتی ادارے زیادہ کر رہے ہیں۔

اور یہ چوری بجلی کے متعلقہ عملے کی مدد سے ہو رہی ہے۔ اداروں نے صارفین بجلی چوری، میٹر خرابی یا میٹر تبدیل کرکے اس کی رپورٹ اپنی ہی لیبارٹریوں سے بنوا کر صارفین کو اضافی بل بھیجنے کا بہانہ بنا رکھا ہے جب کہ اب بجلی میٹر گھروں کے اندر نہیں باہر لگے ہیں جہاں کوئی ٹیمپرنگ محلے داری کے باعث ازخود نہیں کرسکتا۔ بجلی کے میٹر لوگوں کے ذاتی نہیں جن کی وہ رقم ادا کر کے ہر ماہ کرایہ بھی ادا کرتے ہیں ۔ میٹر بھی اداروں کے ہیں اور لیبارٹریاں بھی انھی کی ہیں جس کی وجہ سے میٹر تبدیلی سے ہزاروں روپے کے اضافی بل اس بنیاد پر بھیجے جاتے ہیں جن کو کہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور اضافی بل قسطوں میں جمع کرانا ہی پڑتا ہے۔میٹر تبدیل کیے بغیر بھی اچانک ہزاروں روپے کے اضافی بل دیکھ کر صارف سر پکڑ لیتے ہیں۔ کراچی میں ایک کیس میں میٹر تبدیلی کے بغیر ایک صارف کو ایک لاکھ دو ہزار کا اضافی بل بھیج دیا گیا۔

جس کی سماعت وفاقی محتسب کے ریجنل آفس میں ہوئی تو ادارہ چوری کا ثبوت پیش نہ کرسکا اور بعد میں فیصلے میں درج تھا کہ صارف کے الیکٹرک سے بارگیننگ کرلے جو ففٹی ففٹی تھی۔ کے الیکٹرک کی شاندار آفر میں ماہانہ قسطیں تھیں اور فیصلے پر عمل کی صورت میں آدھی رقم یکمشت ادا کرنا پڑتی اس لیے صارف نے شاندار آفر قبول کرکے قسطوں پر عمل شروع کیا اور دو سال بعد اسی صارف کا میٹر کے الیکٹرک نے تبدیل کرایا اور لیبارٹری رپورٹ میں میٹر سست رفتار قرار دے کر 96 ہزار روپے مزید جرمانہ ڈال دیا گیا جس کے خلاف شنوائی کہیں نہیں ہوئی اور کے الیکٹرک نے تو اضافی بلوں کے خلاف درخواستوں کی وصولی کا سلسلہ پہلے ہی بند کر رکھا تھا اور واحد حل قسطیں کرا کر ادائیگی ضرور کرنا رہ گیا ہے۔

ایک مذہبی آدمی سے کے الیکٹرک کے اضافی بلوں پر پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ خود بھی کنڈے پر اے سی چلاتے ہیں۔ جب انھیں کہا گیا کہ یہ تو چوری ہے تو ان کا جواب تھا کہ جب بجلی کے صارف پر کسی جرم کے بغیر بلوں کے ذریعے ہزاروں روپے کا ڈاکہ ڈالا جائے اور کہیں شنوائی نہ ہو تو بجلی کی چوری مجبوری بن جاتی ہے اور لوگ مہنگی بجلی اور ناجائز ہزاروں روپے کے اضافی بلوں کے باعث ہی بجلی چوری کرنے پر مجبور ہیں۔ نیپرا کے چیئرمین جب کے ای ایس سی کے سربراہ تھے تو انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ مہنگی بجلی ہی بجلی چوری کی اہم وجہ ہے اور پہلے سے مہنگی بجلی پر اب نیپرا نے 55 پیسے مزید بڑھا کر صارفین پر 50 ارب 20 کروڑ روپے کا بوجھ بڑھا دیا ہے۔

اداروں کی مہنگی بجلی پر ان کے چارجز کے علاوہ حکومت کی الیکٹریسٹی ڈیوٹی اور جنرل سیلز ٹیکس بھی صارف کو ضرور دینا پڑے تو بجلی چوری کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہیں بچتا۔ کے الیکٹرک چارجز 7,340 روپے میں الیکٹریسٹی ڈیوٹی 116 روپے اور جی ایس ٹی 1,336 روپے اگر حکومت وصول کرے گی دو سو یونٹ تک 10 روپے 20 پیسے یونٹ زیادہ ہوجانے پر چارجز جب 15.45 وصول ہوں گے تو چوری کیوں نہیں ہوگی۔ علمائے کرام کو وزیر توانائی کی درخواست پر بجلی چوری کا فتویٰ ضرور دینا چاہیے۔
Load Next Story