کچے رن وے سے گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ تک
یہ پاکستان کا جدید ترین اور سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہو گا۔
پاکستا ن دنیا کے نقشے میں بہت اہم جغرافیائی پوزیشن پر واقع ہے اور یوں یہ مغرب اور مشرق کے فضائی راستوں کے درمیان جنگشن کی حیثیت رکھتاہے۔
اس اعتبار سے علاقائی سطح پر یہ ایران، افغانستان، سنٹرل ایشیائی ممالک ، بھارت ، بنگلہ دیش اور چین کے لیے بھی بہت اہم ہے ، یعنی اِن ملکوں کو اپنے فضائی سفر کے لیے پاکستان کی فضائی حدود سے گزر کر جانا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں چند ایئر پورٹس اور ائیر فیلڈ پہلی جنگ عظم سے کچھ پہلے اور بعد میں تعمیر ہوگئے تھے ، اور ان میں سے بہت سے ائیرپورٹ یا رن وے ایسے تھے کہ اِن کو انگریزوں نے خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں فوری طور پر بنایا تھا کہ پہلی جنگ عظیم میں یہ خطرہ تھا کہ کہیں جرمنی اور ترکی اگر جنگ میں روس کو عبور کرتے ہوئے یا ایران سے ہوتے ہوئے اُس وقت کے برطانوی ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تو اُن کو یہاں سے روکا جا سکے گا۔
اگر چہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام سے ایک سال قبل روس میں لینن اور اسٹالن کیمونسٹ انقلاب لے آئے اور روس کو لاکھوں فوجیوں کی ہلاکت کے بعد جنگ عظیم سے نکال لیا ، مگر اس سے چار سال قبل امریکہ نے دنیا کا پہلا طیارہ بردار بحری بیڑا بنا لیا تھا اور جنگ عظیم سے روس کے نکل جانے کے فوراً بعد وہ اس جنگ میں جرمنی اور ترکی کے خلاف سب سے اہم اتحادی بن گیا تھا، لیکن اس کے باجود جنگ عظیم کے خاتمے کے صرف ایک سال بعد یعنی مئی تا اگست 1919 ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ ہوئی تو برطانوی ہندوستان کے زیر قبضہ خیبر پختونخوا کے نئے تعمیر کردہ انہی رن ویز سے طیاروں نے پرواز کی اور افغانستان کے دیگر علاقوں کے علاوہ کابل شہر پر بھی بمباری کی تھی۔
بلوچستان میں افغانستان اور ایران کی سرحدوں کے قریب بھی انگریزوں نے جنگی بنیادوں پر ہنگامی طور پر کچھ رن ویز بنائے تھے۔ اِن میں بعض اب بھی موجود ہیں حالانکہ تقربیا گذشتہ 73 برسوں سے نہ تو اِن کی دیکھ بھال ہوئی ہے اور نہ ہی اِن کی مرمت ہو سکی ہے۔
اِن ویران رن ویز میں ایک کوئٹہ سے 30 کلو میٹر شمال میں پشین سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اَس رن وے کے چاروں طرف اب کھیت ہیں لیکن یہ رن وے اب بھی ایسی حالت میں ہے کہ اس پر ہنگامی صورتحال میں جنگی طیارے لینڈنگ کر سکتے ہیں اسی کی دہائی میں جب سابق سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئی تھیں تو اُس وقت سوویت یونین کے ایک منخرف پائلٹ نے اپنے جنگی طیارے کے ساتھ پشین کے ویران رن وے پر لینڈنگ کی تھی اور پھر اُسے کسی مغربی ملک نے سیاسی پناہ دی تھی لیکن اِن ویران یا ناکارہ پرانے جنگی رن ویز کے علاہ اِس وقت ہمارے ملک میں تقریباً 60 ایئر فیڈلز ہیں جن میں سے 13 ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل ایئر پورٹس کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
پاکستان کے بڑے انٹرنیشنل ایئرپورٹس میں، قائد اعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی ، علامہ اقبال انٹر نیشنل ایئرپورٹ لاہور ،کوئٹہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ ، بینظر انٹر نیشنل ایئر پورٹ اسلام آباد ،گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے علاوہ ملتان، پشاور تربت، سیالکو ٹ ، شیخ زید انٹر نیشنل ایئر پورٹ رحیم یارخان شامل ہیں جب کہ فیصل آباد اورڈیرہ غازی خا ن کے ایئر پورٹس ڈومیسٹک ایئر پورٹ ہیں ۔ اِس وقت اِن تمام انٹرنیشنل ایئر پورٹس میں گوادر ائر پورٹ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں اہمیت اختیار کر رہا ہے اس نئے ایئر پورٹ کا سنگ بنیاد وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے29 مارچ 2019 ء کو رکھا اِس موقع پر اُن کے ہمراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان بھی تھے۔ یہ ملک کا ایک بہت بڑا اہم اور جدید ترین ایئر پورٹ ہو گا۔
جس پر بڑے سے بڑے مسافر بردار طیارے پوری دنیا کے لیے لینڈنگ اور ٹیک آف کر یں گے،اس کا رقبہ 4300 ایکڑ یعنی 17 کلومیٹر ہے، اس کی تعمیر کے لیے ہمارا ہمسایہ دوست ملک چین گرانٹ فراہم کر رہا اور چین ہی کی کمپنیوں نے اب یہاں کام شروع کیا ہے اور باقائد ہ تعمیراتی کام جون 2019 ء یعنی چند ر وز بعد شروع ہو جائے گا،گوادر انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر لاگت کا تخمینہ 246 ملین ڈالر یعنی 24 کروڑ 60 لاکھ ڈالر ہے اگرچہ اس شاہکار ایئر پورٹ کی تعمیر چین کی کمپنیاں ہی کر رہی ہیں مگر ا س پروجیکٹ کے ایدمنسٹریٹر پاکستان سول ایویشن کے چیئرمین ہیں۔
گوادر اگرچہ تاریخی طور پر بلوچستان کا حصہ ہی تھا مگر ماضی میں بلوچستان کے حکمران نے اُس زمانے کی روایات کے مطابق جب، اپنی شہزادی کی شادی سلطنت اومان ''مسقط'' کے شہزادے سے کی تو گوادر کو بطور شال یا دوپٹہ بیٹی کے جہیز میں دے دیا ۔ پاکستان کی آزادی کے گیارہ سال تک گوادر مسقط ہی کا حصہ تسلیم کیا جاتا تھا، 1958 ء میں وزیراعظم فیروز خان نون اور صدر اسکندر مرزا کے زمانے میں گوادر کو مسقط کے سلطان سے خریدا گیا۔
1966 ء میں یہاں چھوٹا سا ایئر پورٹ بنایا گیا ، جس کا رن وے اسی کی دہا ئی تک کچا تھا اور اس پر روزانہ کرکٹ کی پچ کی طرح لوہے کا رولر پھیرا جاتا تھا، بارش کی صورت میں ہفتوں تک یہاں پروازیں بند ہو جایا کرتی تھیں ۔ 1984 ء سے گوادر ایئر پورٹ کو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی حیثیت یوں حاصل ہو گئی کہ پی آئی اے کے فوکر طیاروں کی پروازیں یہاں سے کراچی براستہ گوادر ، مسقط شروع ہو گئیں ۔ واضح رہے کہ جب گوادر کو خریدا گیا تو سلطنتِ عمان ''مسقط'' نے یہاں کے باشند وں کی مسقط کی شہریت منسوخ نہیں کی۔ یوں گوادر ہمارے ملک کا وہ حصہ ہے جس کے شہری پاکستانی ہو نے کے ساتھ ساتھ مسقط کی بھی شہریت رکھتے ہیں۔
اور گوادر کے ہزاروں خاندان مسقط میں روزگار سے وابستہ ہیں، یوں 1984 ء سے پہلے اُن کو مسقط جانے کے لیے کراچی سے پروازوں کے ذریعے جانا ہوتا تھا اور جب کراچی براستہ گوادر ، مسقط اور مسقط براستہ گوادر ،کراچی پی آئی اے کی پروازیں شروع ہو ئیں تو گوادر کا چھوٹا سا ایئر پورٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ بن گیا تھا۔ اُس زمانے سے گوادر کا ایئرپورٹ یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہ تھا، اس کی بنیادی وجہ تو یہ تھی کہ گوادر اور مسقط کی دوہری شہریت رکھنے والے بلوچ صرف آدھے گھنٹے میں مسقط سے گوادر پہنچ جاتے ہیں، میں یہاں بطور لیکچرار گوادر گورنمنٹ کالج میں 1992 ء میں تعینات ہوا اور تین سال یہاں گزارے اُس وقت گوادر سے کراچی براستہ سڑک سفر نہایت دشوار اور بہت تھکا دینے والا تھا ۔ ساحل کے ساتھ ساتھ چلنے والی ساڑھے سات سو کلومیٹر سڑک نہایت خستہ تھی اور اگر دورانِ سفر بس خراب ہو جاتی تو خصوصاً رات کو یہاں زہریلے سانپ اور بچھوں کی بہات رہتی ہے۔
دن کے وقت اس صحرائی علاقے میں دھوپ کی تپش مار دینے والی ہوتی۔ اسی طرح یہاں آبادی بہت کم ہے اور پانی کی قلت آج بھی ہے۔ جہاں لوگ قطرہ قطرہ پانی کی قدر کرتے۔ یوں اس راستے سے یا تربت کے راستے سے بھی اُس زمانے میں سفر کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ 1992 ء میں پی آئی اے یہاں مسافر بردار فوکر طیاروں کی سروس مہیا کر رہا تھا تو جیونی ، پسنی ، تربت کے علاوہ گوادر سے روزانہ فوکر طیاروں کی چار سے پانچ پروازیں گوادر تا کراچی اور کراچی تا گوادر ہوا کرتی تھیں،اور اِن میں سے یومیہ ایک پرواز کراچی ،گوادر، مسقط ۔ مسقط ،گوادر، کراچی ہوا کرتی تھی۔
اگرچہ اُس زمانے میں بھی گوادر کے عام آدمی کی حالت مالی اعتبار سے بہتر نہیں تھی مگر اُن کو ایک سہولت یہ تھی کہ یہاں آج کی طرح اُس وقت بھی دوبئی ، مسقط سے بحری راستوں سے غیر ملکی سامان اسمگل ہو کر آتا ہے اور گوادر سے ایرانی سرحد بھی قریب ہے جہاں سے ایرانی مصنوعات بھی اسمگل ہو کر گوادر آتی ہیں اس لیے گوادر سے کراچی بذریعہ طیارہ سفر کرنے والے کچھ اشیا اپنے ساتھ رکھ لیتے ہیں جن کو وہ کراچی میں مہنگے داموں فروخت کر کے طیارے کے ٹکٹ کی رقم حاصل کر لیتے ہیں۔
1992 ء میں جب میں گوادر میں تھا تو اُس وقت گوادر سے کراچی تک فوکر کا کرایہ سات سو روپے تھا۔ اُس زمانے میں جاپانی ڈیک، ٹیپ ریکارڈر گوادر میں ایک ہزار روپے میں ملتے تھے اور کراچی میں فوراً دو ہزار روپے میں فروخت ہو جایا کرتے تھے یہاں کے مقامی افراد چار سے چھ جاپانی ڈیک کراچی لے جاتے تھے، یوں سفر کے مزے بھی کر لیتے تھے اور کراچی میں رہائش کھانے پینے کا خرچ بھی نکل آتا تھا۔ اُس وقت گوادر شہر کی آبادی45 ہزار تھی، فوکر طیارے میں 44 مسافروں کی گنجائش ہوتی تھی یوں روزانہ گوادر تا کراچی اور کراچی تا گوادر تقریباً 300 سے350 افراد فوکر طیاروں میں سفر کیا کرتے تھے اور کسٹم کے حکام اِن کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے کہ اس زمانے میں یہاں سے ویسے بھی بہت بڑے پیمانے پر سمندر اور خشکی کے راستوں سے اسمگلنگ ہوا کرتی تھی۔
اس لیے کسٹم کے حکام اِن چھوٹی مچھلیوں کو چھوڑ دیا کرتے تھے ۔ اب گوادر انٹر نیشنل ایئرپورٹ عالمی معیار کا ایک جدید ایئر پورٹ بن رہا ہے۔ اور انشااللہ تعالیٰ منصوبے کے مطابق دو سال سے کم مدت میں یہ ایئر پورٹ تعمیر ہو جائے گا تو یہ ملک کا ہی نہیں دنیا کا ایک اہم بڑا اور مصروف ترین ایئر پورٹ ہو گا۔ اِ س وقت بھی گوادر سے عام حالت میں کراچی ، لاہور ، اسلام آباد، کو ئٹہ کے علاوہ مسقط ، دوبئی اور خلیجی ریاستوں کو پروازیں جاتی اور آتی ہیں لیکن انشااللہ تعالیٰ جون 2021 ء میں اس ایئر پورٹ کا افتتاح ہو رہا ہوگا اور یہ ایئر پورٹ نہ صرف ملک کا جد ید خوبصورت اور بڑا ائیر پورٹ ہو گا بلکہ یہ ملک اور صوبہ بلوچستان کی خوشحالی کا جگمگاتا اور ترقی کی روشی پھیلاتا ایئر پورٹ ثابت ہوگا ۔
اس اعتبار سے علاقائی سطح پر یہ ایران، افغانستان، سنٹرل ایشیائی ممالک ، بھارت ، بنگلہ دیش اور چین کے لیے بھی بہت اہم ہے ، یعنی اِن ملکوں کو اپنے فضائی سفر کے لیے پاکستان کی فضائی حدود سے گزر کر جانا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں چند ایئر پورٹس اور ائیر فیلڈ پہلی جنگ عظم سے کچھ پہلے اور بعد میں تعمیر ہوگئے تھے ، اور ان میں سے بہت سے ائیرپورٹ یا رن وے ایسے تھے کہ اِن کو انگریزوں نے خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں فوری طور پر بنایا تھا کہ پہلی جنگ عظیم میں یہ خطرہ تھا کہ کہیں جرمنی اور ترکی اگر جنگ میں روس کو عبور کرتے ہوئے یا ایران سے ہوتے ہوئے اُس وقت کے برطانوی ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تو اُن کو یہاں سے روکا جا سکے گا۔
اگر چہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام سے ایک سال قبل روس میں لینن اور اسٹالن کیمونسٹ انقلاب لے آئے اور روس کو لاکھوں فوجیوں کی ہلاکت کے بعد جنگ عظیم سے نکال لیا ، مگر اس سے چار سال قبل امریکہ نے دنیا کا پہلا طیارہ بردار بحری بیڑا بنا لیا تھا اور جنگ عظیم سے روس کے نکل جانے کے فوراً بعد وہ اس جنگ میں جرمنی اور ترکی کے خلاف سب سے اہم اتحادی بن گیا تھا، لیکن اس کے باجود جنگ عظیم کے خاتمے کے صرف ایک سال بعد یعنی مئی تا اگست 1919 ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ ہوئی تو برطانوی ہندوستان کے زیر قبضہ خیبر پختونخوا کے نئے تعمیر کردہ انہی رن ویز سے طیاروں نے پرواز کی اور افغانستان کے دیگر علاقوں کے علاوہ کابل شہر پر بھی بمباری کی تھی۔
بلوچستان میں افغانستان اور ایران کی سرحدوں کے قریب بھی انگریزوں نے جنگی بنیادوں پر ہنگامی طور پر کچھ رن ویز بنائے تھے۔ اِن میں بعض اب بھی موجود ہیں حالانکہ تقربیا گذشتہ 73 برسوں سے نہ تو اِن کی دیکھ بھال ہوئی ہے اور نہ ہی اِن کی مرمت ہو سکی ہے۔
اِن ویران رن ویز میں ایک کوئٹہ سے 30 کلو میٹر شمال میں پشین سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اَس رن وے کے چاروں طرف اب کھیت ہیں لیکن یہ رن وے اب بھی ایسی حالت میں ہے کہ اس پر ہنگامی صورتحال میں جنگی طیارے لینڈنگ کر سکتے ہیں اسی کی دہائی میں جب سابق سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئی تھیں تو اُس وقت سوویت یونین کے ایک منخرف پائلٹ نے اپنے جنگی طیارے کے ساتھ پشین کے ویران رن وے پر لینڈنگ کی تھی اور پھر اُسے کسی مغربی ملک نے سیاسی پناہ دی تھی لیکن اِن ویران یا ناکارہ پرانے جنگی رن ویز کے علاہ اِس وقت ہمارے ملک میں تقریباً 60 ایئر فیڈلز ہیں جن میں سے 13 ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل ایئر پورٹس کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
پاکستان کے بڑے انٹرنیشنل ایئرپورٹس میں، قائد اعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی ، علامہ اقبال انٹر نیشنل ایئرپورٹ لاہور ،کوئٹہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ ، بینظر انٹر نیشنل ایئر پورٹ اسلام آباد ،گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے علاوہ ملتان، پشاور تربت، سیالکو ٹ ، شیخ زید انٹر نیشنل ایئر پورٹ رحیم یارخان شامل ہیں جب کہ فیصل آباد اورڈیرہ غازی خا ن کے ایئر پورٹس ڈومیسٹک ایئر پورٹ ہیں ۔ اِس وقت اِن تمام انٹرنیشنل ایئر پورٹس میں گوادر ائر پورٹ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں اہمیت اختیار کر رہا ہے اس نئے ایئر پورٹ کا سنگ بنیاد وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے29 مارچ 2019 ء کو رکھا اِس موقع پر اُن کے ہمراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان بھی تھے۔ یہ ملک کا ایک بہت بڑا اہم اور جدید ترین ایئر پورٹ ہو گا۔
جس پر بڑے سے بڑے مسافر بردار طیارے پوری دنیا کے لیے لینڈنگ اور ٹیک آف کر یں گے،اس کا رقبہ 4300 ایکڑ یعنی 17 کلومیٹر ہے، اس کی تعمیر کے لیے ہمارا ہمسایہ دوست ملک چین گرانٹ فراہم کر رہا اور چین ہی کی کمپنیوں نے اب یہاں کام شروع کیا ہے اور باقائد ہ تعمیراتی کام جون 2019 ء یعنی چند ر وز بعد شروع ہو جائے گا،گوادر انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر لاگت کا تخمینہ 246 ملین ڈالر یعنی 24 کروڑ 60 لاکھ ڈالر ہے اگرچہ اس شاہکار ایئر پورٹ کی تعمیر چین کی کمپنیاں ہی کر رہی ہیں مگر ا س پروجیکٹ کے ایدمنسٹریٹر پاکستان سول ایویشن کے چیئرمین ہیں۔
گوادر اگرچہ تاریخی طور پر بلوچستان کا حصہ ہی تھا مگر ماضی میں بلوچستان کے حکمران نے اُس زمانے کی روایات کے مطابق جب، اپنی شہزادی کی شادی سلطنت اومان ''مسقط'' کے شہزادے سے کی تو گوادر کو بطور شال یا دوپٹہ بیٹی کے جہیز میں دے دیا ۔ پاکستان کی آزادی کے گیارہ سال تک گوادر مسقط ہی کا حصہ تسلیم کیا جاتا تھا، 1958 ء میں وزیراعظم فیروز خان نون اور صدر اسکندر مرزا کے زمانے میں گوادر کو مسقط کے سلطان سے خریدا گیا۔
1966 ء میں یہاں چھوٹا سا ایئر پورٹ بنایا گیا ، جس کا رن وے اسی کی دہا ئی تک کچا تھا اور اس پر روزانہ کرکٹ کی پچ کی طرح لوہے کا رولر پھیرا جاتا تھا، بارش کی صورت میں ہفتوں تک یہاں پروازیں بند ہو جایا کرتی تھیں ۔ 1984 ء سے گوادر ایئر پورٹ کو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی حیثیت یوں حاصل ہو گئی کہ پی آئی اے کے فوکر طیاروں کی پروازیں یہاں سے کراچی براستہ گوادر ، مسقط شروع ہو گئیں ۔ واضح رہے کہ جب گوادر کو خریدا گیا تو سلطنتِ عمان ''مسقط'' نے یہاں کے باشند وں کی مسقط کی شہریت منسوخ نہیں کی۔ یوں گوادر ہمارے ملک کا وہ حصہ ہے جس کے شہری پاکستانی ہو نے کے ساتھ ساتھ مسقط کی بھی شہریت رکھتے ہیں۔
اور گوادر کے ہزاروں خاندان مسقط میں روزگار سے وابستہ ہیں، یوں 1984 ء سے پہلے اُن کو مسقط جانے کے لیے کراچی سے پروازوں کے ذریعے جانا ہوتا تھا اور جب کراچی براستہ گوادر ، مسقط اور مسقط براستہ گوادر ،کراچی پی آئی اے کی پروازیں شروع ہو ئیں تو گوادر کا چھوٹا سا ایئر پورٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ بن گیا تھا۔ اُس زمانے سے گوادر کا ایئرپورٹ یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہ تھا، اس کی بنیادی وجہ تو یہ تھی کہ گوادر اور مسقط کی دوہری شہریت رکھنے والے بلوچ صرف آدھے گھنٹے میں مسقط سے گوادر پہنچ جاتے ہیں، میں یہاں بطور لیکچرار گوادر گورنمنٹ کالج میں 1992 ء میں تعینات ہوا اور تین سال یہاں گزارے اُس وقت گوادر سے کراچی براستہ سڑک سفر نہایت دشوار اور بہت تھکا دینے والا تھا ۔ ساحل کے ساتھ ساتھ چلنے والی ساڑھے سات سو کلومیٹر سڑک نہایت خستہ تھی اور اگر دورانِ سفر بس خراب ہو جاتی تو خصوصاً رات کو یہاں زہریلے سانپ اور بچھوں کی بہات رہتی ہے۔
دن کے وقت اس صحرائی علاقے میں دھوپ کی تپش مار دینے والی ہوتی۔ اسی طرح یہاں آبادی بہت کم ہے اور پانی کی قلت آج بھی ہے۔ جہاں لوگ قطرہ قطرہ پانی کی قدر کرتے۔ یوں اس راستے سے یا تربت کے راستے سے بھی اُس زمانے میں سفر کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ 1992 ء میں پی آئی اے یہاں مسافر بردار فوکر طیاروں کی سروس مہیا کر رہا تھا تو جیونی ، پسنی ، تربت کے علاوہ گوادر سے روزانہ فوکر طیاروں کی چار سے پانچ پروازیں گوادر تا کراچی اور کراچی تا گوادر ہوا کرتی تھیں،اور اِن میں سے یومیہ ایک پرواز کراچی ،گوادر، مسقط ۔ مسقط ،گوادر، کراچی ہوا کرتی تھی۔
اگرچہ اُس زمانے میں بھی گوادر کے عام آدمی کی حالت مالی اعتبار سے بہتر نہیں تھی مگر اُن کو ایک سہولت یہ تھی کہ یہاں آج کی طرح اُس وقت بھی دوبئی ، مسقط سے بحری راستوں سے غیر ملکی سامان اسمگل ہو کر آتا ہے اور گوادر سے ایرانی سرحد بھی قریب ہے جہاں سے ایرانی مصنوعات بھی اسمگل ہو کر گوادر آتی ہیں اس لیے گوادر سے کراچی بذریعہ طیارہ سفر کرنے والے کچھ اشیا اپنے ساتھ رکھ لیتے ہیں جن کو وہ کراچی میں مہنگے داموں فروخت کر کے طیارے کے ٹکٹ کی رقم حاصل کر لیتے ہیں۔
1992 ء میں جب میں گوادر میں تھا تو اُس وقت گوادر سے کراچی تک فوکر کا کرایہ سات سو روپے تھا۔ اُس زمانے میں جاپانی ڈیک، ٹیپ ریکارڈر گوادر میں ایک ہزار روپے میں ملتے تھے اور کراچی میں فوراً دو ہزار روپے میں فروخت ہو جایا کرتے تھے یہاں کے مقامی افراد چار سے چھ جاپانی ڈیک کراچی لے جاتے تھے، یوں سفر کے مزے بھی کر لیتے تھے اور کراچی میں رہائش کھانے پینے کا خرچ بھی نکل آتا تھا۔ اُس وقت گوادر شہر کی آبادی45 ہزار تھی، فوکر طیارے میں 44 مسافروں کی گنجائش ہوتی تھی یوں روزانہ گوادر تا کراچی اور کراچی تا گوادر تقریباً 300 سے350 افراد فوکر طیاروں میں سفر کیا کرتے تھے اور کسٹم کے حکام اِن کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے کہ اس زمانے میں یہاں سے ویسے بھی بہت بڑے پیمانے پر سمندر اور خشکی کے راستوں سے اسمگلنگ ہوا کرتی تھی۔
اس لیے کسٹم کے حکام اِن چھوٹی مچھلیوں کو چھوڑ دیا کرتے تھے ۔ اب گوادر انٹر نیشنل ایئرپورٹ عالمی معیار کا ایک جدید ایئر پورٹ بن رہا ہے۔ اور انشااللہ تعالیٰ منصوبے کے مطابق دو سال سے کم مدت میں یہ ایئر پورٹ تعمیر ہو جائے گا تو یہ ملک کا ہی نہیں دنیا کا ایک اہم بڑا اور مصروف ترین ایئر پورٹ ہو گا۔ اِ س وقت بھی گوادر سے عام حالت میں کراچی ، لاہور ، اسلام آباد، کو ئٹہ کے علاوہ مسقط ، دوبئی اور خلیجی ریاستوں کو پروازیں جاتی اور آتی ہیں لیکن انشااللہ تعالیٰ جون 2021 ء میں اس ایئر پورٹ کا افتتاح ہو رہا ہوگا اور یہ ایئر پورٹ نہ صرف ملک کا جد ید خوبصورت اور بڑا ائیر پورٹ ہو گا بلکہ یہ ملک اور صوبہ بلوچستان کی خوشحالی کا جگمگاتا اور ترقی کی روشی پھیلاتا ایئر پورٹ ثابت ہوگا ۔