جہیز کے سماجی مُضمرات

آج کا نوجوان اور اس کا خاندان نکاح کے ذریعے اپنی ضروریات اور مصارف کی ذمے داری بھی لڑکی کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔

آج کا نوجوان اور اس کا خاندان نکاح کے ذریعے اپنی ضروریات اور مصارف کی ذمے داری بھی لڑکی کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

دور حاضر میں جہیز کا مطالبہ عام ہوتا جارہا ہے اور جو عورت کم جہیز لائے اسے کوسنے سے لے کر ستانے، طلاق دینے، یہاں تک کہ جلانے اور مار ڈالنے تک کے واقعات کی خبریں معمول ہیں۔

صد افسوس! ایک پاکیزہ رشتہ جسے رب کائنات نے پاکیزہ اور عظیم مقاصد کے لیے جاری کیا، جو ہر دور میں پاکیزہ اور سادہ طریقے سے عمل میں آتا رہا آج دین سے دُور خاندانوں اور نوجوانوں نے اسے نفع جوئی اور زر طلبی کا کاروبار سمجھ لیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جہیز کی حرص کیوں؟ مختصر لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ حریصانہ طبیعت حُبِ دنیا کی پیداوار ہے اور دین سے دُوری کا نتیجہ ہے۔

اس لیے کہ آدمی اپنی کوشش و محنت سے جتنا چاہے مال کمائے مگر دوسرے کے مال کی طمع اور اسے اپنا مال بنانے کی حرص یقینا مذموم ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے تو جہیز کا سارا سامان جو بیوی شوہر کے گھر لائے تمام تر بیوی ہی کی ملکیت ہے۔ اس پر زکوٰۃ فرض ہو تو اس کی ادائی بیوی ہی کی ذمے داری ہے اور اس کا استعمال کوئی دوسرا اگر کرنا بھی چاہے تو بیوی کی رضا مندی اور اجازت ہی پر منحصر ہے۔ لیکن اس کے برخلاف جن خاندانوں اور جوانوں میں یہ خیال فاسد جڑ پکڑ چکا ہے کہ دلہن کا سارا مال ہماری ملکیت ہے اور ہم اسے جیسے چاہیں استعمال کریں ان لوگوں کی دین اور اس کے مسائل و مقاصد سے دوری بالکل عیاں ہے۔

احکام اسلام کی رُو سے نکاح کے بعد مہر و نان نفقہ اور سکونت کے سارے مصارف شوہر پر عاید ہوتے ہیں۔ بیوی پر قطعاً یہ کوئی واجب یا فرض یا سنت نہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال و دولت شوہر اور اس کے خاندان والوں کے حصہ میں لائے اور وہ بھی اپنی کمائی سے نہیں، اپنے ماں باپ اور خاندان و اقارب کی محنت اور پسینے کی کمائی سے۔ لڑکی کے خاندان پر بھی صرف یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ مناسب لڑکے سے اس کا عقد کریں۔ یہ ان کی ذمے داری ہرگز نہیں کہ اس لڑکے کو مال و دولت سے بھی سرفراز کریں، یا اپنی لڑکی کو زیادہ سامان سے نوازیں۔ بل کہ عقد نکاح تو وہ عمل ہے جس کی وجہ سے لڑکی کے ذاتی مصارف کی بھی ذمے داری بھی شوہر پر منتقل ہوجاتی ہے۔

لیکن یہ عجب حرص و ہوس ہے کہ آج کا نوجوان اور اس کا خاندان نکاح کے ذریعے اپنی ضروریات اور مصارف کی ذمے داری بھی لڑکی کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس ظلم و ستم اور جذبات و خیالات کے اندھے پن سے خدا کی پناہ۔ جہیز کی کمی کے باعث جو خاندان اور نوجوان شاکی ہوتے ہیں اور اپنی بے جا توقعات پر پانی پھرتا دیکھ کر اس قدر غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ظلم و ستم اور ننگی جارحیت پر اتر آتے ہیں، وہ یا تو دین و شریعت کے مزاج اور اصول و قوانین ہی سے نابلد ہوتے ہیں، یا جانتے ہوئے بھی احکام ربانی کی خلاف ورزی کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کی روز مرہ کی زندگی میں بھی دین و شریعت سے انحراف نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

خصوصاً جہیز یا کسی دنیاوی رنجش کی بناء پر قتل تو ایسا ظالمانہ عمل ہے کہ اس کے متعلق قرآن کریم نے صاف طور پر بتایا ہے کہ اس کا بدلہ جہنم ہے۔ ظاہر ہے کہ جو خوف آخرت سے خالی اور رب قہار کی ناراضی اور اس کے انتقام سے بے پروا ہو، وہی اس طرح کی ظالمانہ جسارت کر سکتا ہے۔

یہ ایک رخ ہے جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ جہیز طلبی کی حریصانہ طبیعت اور نہ ملنے پر ظالمانہ جسارت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ لیکن ایک رخ اور ہے جس سے یہ معلوم ہوگا کہ زیادہ جہیز لینے دینے کا عمل کیوں پروان چڑھ رہا ہے اور اس سلسلے میں کوئی آہ و فغاں اور شور و فریاد کارگر کیوں نہیں ہوتی؟ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ جو اہل ثروت ہیں وہ اپنی دولت کی نمائش کی خاطر اتنا جہیز دے ڈالتے ہیں کہ متوسط طبقے کی ساری جائیداد کی مالیت لگائی جائے تو اس کے برابر نہ ہو۔ ان حضرات کا یہ عمل دیکھ کر دوسرے بھی زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی فکر کرتے ہیں اور اسی کو عزت و عظمت خیال کرتے ہیں اور نہ دینے میں اپنی بے عزتی و حقارت محسوس کرتے ہیں۔


زیادہ دینے کا رواج دولت مند اور متوسط قسم کے اچھے خاصے دین دار اور پابند شرع لوگوں میں بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص بہ ظاہر خوش حال نظر آتا ہو لیکن حقیقت میں وہ پریشان حال اور تنگ دست ہو تو اس لیے اتنا جہیز نہ دے سکے جو معاشرے میں اس کے برابر اور ہم پلہ شمار کیے جانے والوں نے دیا ہے تو اسے بخیل شمار کیا جاتا ہے اور لڑکی، داماد سے عدم محبت پر محمول کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں لڑکی کو بہت سی اذیتوں اور مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

آخر علاج کیا ہے؟ ان حالات و اسباب کا جائزہ لینے کے بعد اب ان کے ازالے اور علاج پر غور کیجیے تو درج ذیل صورتوں کے بغیر اس لعنت کا ازالہ اور ظالمانہ و جارحانہ واقعات کا انسداد ناممکن ہے۔ معاشرے میں دینی اسلامی روح پیدا کی جائے، اسلامی احکام کی اہمیت و عظمت دلوں میں اتاری جائے، آخرت کا خوف پیدا کیا جائے۔ متاع دنیا کی حرص دور کی جائے۔ اس بات کو دل و دماغ میں راسخ کیا جائے کہ مومن کی سرخ روئی اور کام یابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طور پر اپنی دنیا بھی خوش حال بنائے اور آخرت بھی سنوارے، ناانصافی اور ظلم و ستم سے بہ ہر حال پرہیز کرے ورنہ اس کا انجام بڑا ہی بھیانک اور خطرناک ہے خالق حقیقی کی سزا سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔

یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو انسان کی حفاظت و بقاء اور اس کے فطری جذبات کی مناسب تحدید کے لیے وضع ہوا ہے۔ اس رشتے کے بعد دو خاندانوں میں قرابت و محبت اور اتحاد یگانگت بھی برپا ہوتی ہے اور مرد و زن پر بہت سی ذمے داریاں بھی عاید ہوتیں ہیں۔ لیکن مصارف و اخراجات کی ساری ذمے داری شریعت نے مرد کے سر رکھی ہے۔ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ مرد کی عزت اور وقار کا تقاضا یہی ہے کہ مرد خود اپنی کمائی، اپنی محنت اور اپنی دولت پر بھروسا کرے۔ بیوی یا اس کے ماں باپ اور اہل خاندان کی کمائی اور دولت پر حریصانہ نظر رکھنا گھٹیا طبیعت کی غماز ہے۔

جس سے ہر شریف اور باغیرت فرد اور خاندان کو دور ہونا چاہیے۔ عملی طور پر شادی بیاہ کے موقع پر خصوصاً دولت مندوں کو سمجھایا جائے کہ خدا نے آپ کو دولت دی ہے اور آپ اپنی بیٹی داماد کو جو چاہے دے سکتے ہیں لیکن اس کا بھی خیال رکھیں کہ اس سے غریبوں کی دل شکنی نہ ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ غریب خاندانوں کی لڑکیاں اس رسم جہیز کی وجہ سے بیٹھی رہ جاتی ہیں اور ان کا کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا۔ آپ کو دینا ہی ہے تو بعد میں کبھی پوشیدہ طور پر دے لیں لیکن خدارا اپنے جہیز اور دولت کی نمائش کر کے تنگ دست لڑکیوں کی زندگی اجیرن نہ بنائیں۔

ایسی انجمنیں بنائی جائیں جو سماج کے دردمند، صاحب کردار اور مخلص افراد پر مشتمل ہوں یہ حضرات جہیز میں دیے جانے والے سامان کی مناسب حد بندی کریں اور سب سے پہلے خود اس پر کاربند ہوں پھر دوسروں کو اس کا پابند بنائیں۔ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ تم اگر اپنی محنت سے دولت کے مالک بن سکے تو یہ دولت تمہارے لیے راحت و عزت کا باعث ہو سکتی ہے، لیکن ظلم و ستم کے طریقوں اور ناجائز راستوں کو اپنا کر بھیک کی طرح جہیز مانگ کر مال و اسباب جمع کرنا کوئی شریفانہ طریقہ نہیں، تمہاری عظمت اور وقار اسی میں ہے کہ تم کسی دکھی اور غریب و پریشان حال کے لیے باعزت زندگی کا سہارا بنو اور اسے اپنی زوجیت میں لاکر اس کا دکھ درد رنج و الم دور کرو، نہ یہ کہ وہ خود اپنے جہیز سے تمہاری محتاجی و غربت کا علاج کرے۔

جہیز اگر بہت زیادہ ہو تو بھی پوری زندگی اور اس کے اخراجات و ضروریات کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ بہ ہر حال ایک وقت تمہیں اپنی اور اپنی نسل کی کفالت کے لیے خود محنت کرنا ہوگی، تو کیوں نہ آج ہی تم سسرال کے بہ جائے اپنے بازو کی قوت اور اپنے اﷲ کی عنایت پر بھروسا کرو۔ قناعت ہی اصل مال داری ہے آدمی کو جو مل جائے اس کی محنت سے جو برآمد ہو اگر اس پر اس نے قناعت نہ کی تو مزید پر مزید کی حرص ہمیشہ اسے دل کے اعتبار سے فقیر اور محتاج ہی رکھے گی۔

حاصل کلام یہ ہے کہ فکر و مزاج میں تبدیلی لائی جائے۔ تصورات و خیالات، معاملات و عادات کو اسلامی و ایمانی رنگ میں ڈھالا جائے اور دولت مند طبقہ نادار و کم زور کے دکھ درد اور اس کے مصائب و مشکلات کا سچے دل سے احساس کرے، جبھی جہیز میں افراط و غلو اور اس سے پیدا ہونے والے مفاسد کا سدباب ہوسکتا ہے اور انہیں بہ روئے کار لانے کے لیے ہر شہر اور گاؤں میں ایسی تنظیموں کا وجود ضروری ہے جو سماج میں مؤثر اور مخلص و درد مند افراد پر مشتمل ہونے کے ساتھ سرگرم عمل بھی ہوں تو ان کے ذریعے دیگر بہت سے اصلاحی و فلاح کے اعمال انجام پا سکتے ہیں۔
Load Next Story