کسی کی پراپرٹی ہونا کوئی جرم نہیںچیف جسٹس
پرائیویٹ طور پر اگر کوئی شخص کام کرتا ہے تو یہ کوئی جرم نہیں،چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کهوسہ نے کہا ہے کہ کسی کی پراپرٹی ہونا کوئی جرم نہیں، اگر پرائیویٹ طور پر کوئی شخص اپنا کام کرتا ہے تو یہ کوئی جرم نہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سوئی نادرن کے سب انجنیئر آصف محمود کے آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکهتے ہوئے ملزم کی بریت کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی۔ ٹرائل کورٹ نے آصف محمود کو 7 سال قید کی سزا سنائی تهی لیکن ہائی کورٹ نے آصف محمود کو بری کر دیا تها۔
چیف جسٹس آصف سعید کهوسہ نے نیب وکیل سے کہا کہ آپ نے آصف محمود کے خلاف اتنا سنگین الزام لگادیا، آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟۔ نیب وکیل نے بتایا کہ سب انجنیئر آصف محمود کی تنخواہ 5 ہزار روپے تهی اور ان کا ذاتی پلازہ اور پراپرٹی تهی، ہم نے ان کی ساری پراپرٹی کی تفصیل پیش کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کی پراپرٹی ہونا کوئی جرم نہیں، آپ نے کیسے ثابت کیا کہ اس نے کرپشن کی؟۔ آپ نے پراپرٹی کی تفصیل بتا دی لیکن کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں دیا، ہم نے دیکهنا ہے کہ کیا اس نے سروس میں آنے کے بعد پلازہ بنایا، نیب کو اس وقت ساڑهے دس مرلے والے ہی نظر آتے تهے۔
نیب وکیل نے کہا کہ ملزم نے کہا ہے کہ وہ ملازمت کے ساتھ پراپرٹی کا کام بهی کرتا تها۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بل گیٹس نے اپنے ہاتھ سے کچھ چیزیں بنانی شروع کیں آج وہ دنیا کا امیر آدمی ہے، پرائیویٹ طور پر اگر کوئی کام کرتا ہے تو یہ کوئی جرم نہیں، آپ نے سارا کیس ملزم کے بیان پر بنایا ہے، اگر بیان پر کیس کهڑا کریں گے تو پلازے کے ساتھ آپ کا کیس بهی گر جائے گا۔
چیف جسٹس نے زیر التوا مقدمات سے متعلق ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں پورے ملک کی صرف 133 کرمنل اپیلیں رہ گئی ہیں، کچھ ہفتوں بعد فوجداری اپیلیں صفر ہوں گی، وکیل انتظار کریں گے کہ کوئی کرمنل اپیل آئے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سوئی نادرن کے سب انجنیئر آصف محمود کے آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکهتے ہوئے ملزم کی بریت کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی۔ ٹرائل کورٹ نے آصف محمود کو 7 سال قید کی سزا سنائی تهی لیکن ہائی کورٹ نے آصف محمود کو بری کر دیا تها۔
چیف جسٹس آصف سعید کهوسہ نے نیب وکیل سے کہا کہ آپ نے آصف محمود کے خلاف اتنا سنگین الزام لگادیا، آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟۔ نیب وکیل نے بتایا کہ سب انجنیئر آصف محمود کی تنخواہ 5 ہزار روپے تهی اور ان کا ذاتی پلازہ اور پراپرٹی تهی، ہم نے ان کی ساری پراپرٹی کی تفصیل پیش کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کی پراپرٹی ہونا کوئی جرم نہیں، آپ نے کیسے ثابت کیا کہ اس نے کرپشن کی؟۔ آپ نے پراپرٹی کی تفصیل بتا دی لیکن کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں دیا، ہم نے دیکهنا ہے کہ کیا اس نے سروس میں آنے کے بعد پلازہ بنایا، نیب کو اس وقت ساڑهے دس مرلے والے ہی نظر آتے تهے۔
نیب وکیل نے کہا کہ ملزم نے کہا ہے کہ وہ ملازمت کے ساتھ پراپرٹی کا کام بهی کرتا تها۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بل گیٹس نے اپنے ہاتھ سے کچھ چیزیں بنانی شروع کیں آج وہ دنیا کا امیر آدمی ہے، پرائیویٹ طور پر اگر کوئی کام کرتا ہے تو یہ کوئی جرم نہیں، آپ نے سارا کیس ملزم کے بیان پر بنایا ہے، اگر بیان پر کیس کهڑا کریں گے تو پلازے کے ساتھ آپ کا کیس بهی گر جائے گا۔
چیف جسٹس نے زیر التوا مقدمات سے متعلق ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں پورے ملک کی صرف 133 کرمنل اپیلیں رہ گئی ہیں، کچھ ہفتوں بعد فوجداری اپیلیں صفر ہوں گی، وکیل انتظار کریں گے کہ کوئی کرمنل اپیل آئے۔