پھیلتا ایڈز اخلاقیات اور ہمارا پسماندہ معاشرہ
اس بیماری کا جلدی پتا چلنا بہت ضروری ہے۔ جتنی دیر سے پتا چلے گا، ایڈز کے امکانات بھی بڑھتے جائیں گے
گزشتہ دنوں لاڑکانہ کے نواحی علاقے رتوڈیرو میں ایچ آئی وی کی تشخیص کے کیسز سامنے آنا شروع ہوئے تھے۔ یہ تعداد اب 751 سے تجاوز کر چکی ہے جس میں 604 بچے شامل ہیں۔ جن افراد میں ایڈز کی تشخیص ہوئی وہ نجی کلینک میں علاج کی غرض سے جاتے تھے۔ وہ کلینک ماہر اطفال ڈاکٹر مظفر گھانگھرو چلا رہا تھا۔ شک کی بنیاد پر جب ڈاکٹرکا ایڈز کےلیے ایچ آئی وی ٹیسٹ کروایا گیا تو وہ مثبت آیا تو اس ڈاکٹر کو گرفتار کیا گیا۔ پتا چلا کہ وہ جان بوجھ کر متاثرہ سرنج کے استعمال سے کلینک پر آنے والے بچوں میں ایڈز منتقل کر رہا تھا۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا نے سندھ اسمبلی میں اس کیس سے متعلق جو رپورٹ پیش کی ہے، اس کے مطابق ڈاکٹر اس واقعے میں ملوث تھا، اور ایک ہی ڈرپ کٹ اور انجکشن بچوں پر استعمال کر رہا تھا۔
جو بھی اس افسوس ناک اور قبیح جرم میں ملوث ہو، اسے قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ اگر اس ڈاکٹر نے واقعی ایسا کیا ہے تو ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم پر بھی یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ آخر کیسے ان جیسے سفاک لوگ ڈاکٹر بنا کر ہم پر مسلط کردیئے جاتے ہیں جن میں نہ تو اخلاقیات نام کی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی شرم و حیا۔ ڈاکٹر ہو کر اتنی بڑی لاپرواہی، جس کی وجہ سے معصوم بچے بھی اس جان لیوا بیماری کی لپیٹ میں آگئے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: لاڑکانہ میں ایڈز پھیلانے کے الزام میں ڈاکٹر گرفتار، ایڈز کی تصدیق
ایچ آئی وی کا آغاز 1920 میں کانگو سے ہوا لیکن 1980 تک معلوم نہیں تھا کہ کتنے لوگ ایچ آئی وی یا ایڈز سے متاثر تھے۔ یہ بیماری چیمپینزی (بندر) سے انسانوں میں منتقل ہوئی۔ کسی ایک انسان کی غلط حرکت کی سزا آج پوری انسانیت بھگت رہی ہے۔ ایڈز کا پہلا کیس 1981 میں سان فرانسسکو، امریکا میں رپورٹ ہوا تھا، اور تب سے اب تک عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 3.5 کروڑ لوگ اس بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ 2017 تک کے اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت پوری دنیا میں 36.9 ملین لوگ ایچ آئی وی یا ایڈز کے ساتھ موجود ہیں۔
ایچ آئی وی ایک وائرس ہے جو ہمارے مدافعتی نظام (امیون سسٹم) ہی کو نشانہ بناتا ہے، جس کی وجہ سے انفیکشنز اور بہت سی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ بیماری ایڈز کا باعث بنتی ہے جو اس کی ایڈوانس اور آخری اسٹیج ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: لاڑکانہ کے بچوں کو ایڈز نہیں ایچ آئی وی ہے، وزیر صحت
ایچ آئی وی کا ٹیسٹ اگر پازیٹیو آتا ہے تو اس کےلیے مختلف ادویہ استعمال کروائی جاتی ہیں جنہیں مجموعی طور پر ''اے آر ٹی'' (اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی) کہا جاتا ہے۔ اگر اس تھراپی کو باقاعدگی سے کیا جائے تو نہ صرف مریض کی زندگی بہتر ہوتی ہے بلکہ ایڈز لاحق ہونے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔
ایچ آئی وی جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ خون لگنے، دوران حمل ماں سے بچے میں، دوران پیدائش، یا بچے کو دودھ پلانے سے بھی یہ بیماری ہو سکتی ہے۔ اس بیماری کی بظاہر کوئی علامات نہیں۔ اس بیماری کے آغاز میں بخار ہونا، سر میں درد، جوڑوں میں درد، گلے میں درد ہونا شامل ہیں۔ یہ علامات اس بیماری سے مخصوص نہیں، اس لیے اس بیماری کے بارے پتا نہیں چل پاتا۔ اس بیماری کی خاص علامات (بار بار بخار ہونا، رات میں پسینہ آنا، زبان یا منہ میں سفید دھبوں کا ہونا، وزن کا کم ہونا، غیر معمولی تھکاوٹ اور کمزوری، جلد پر نشانات وغیرہ) ظاہر ہونے میں 10 سال لگتے ہیں۔ تب تک یہ بیماری ایڈز کی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے، جس کا اب تک کوئی علاج نہیں۔
ایک سروے کے مطابق، پاکستان میں ایچ آئی وی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ پنجاب ہے جہاں 60,000، سندھ میں 52,000، کے پی کے میں 11,000، اور بلوچستان میں ایک، ایچ آئی وی سے متاثرہ مریض موجود ہیں۔ صرف اسلام آباد میں 6,000 رجسٹرڈ ایچ آئی وی مریض موجود ہیں۔ پاکستان کی وفاقی وزارتِ صحت کے تحت ایڈز کو روکنے اور کنٹرول کرنے کےلیے 1987 میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام (این اے سی پی) کی بنیاد رکھی گئی۔ این اے سی پی کی دسمبر 2018 کی رپورٹ کے مطا بق اس وقت پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ 65 ہزار لوگ ایڈز سے متاثر ہیں لیکن رجسٹرڈ تعداد صرف 23,757 ہے، جبکہ علاج صرف 15,821 لوگوں کا ہورہا ہے۔
ایچ آئی وی کے وبائی مرض بننے میں تین مرحلے ہیں: پہلا مرحلہ پورے ملک میں اس بیماری کی شدت 5 فیصد سے کم ہو، دوسرا مرحلہ متاثرہ افراد میں اس بیماری کی شدت 5 فیصد سے زیادہ ہو، اور آخری مرحلہ جب ایچ آئی وی انفیکشن کا تناسب خون دینے والے افراد یا حاملہ خواتین میں 1 فیصد سے زیادہ ہو جائے۔ ہمارے ملک میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں جو عوامل شامل ہیں، ان میں غربت، تعلیم کی کمی، اس بیماری کے ٹرانسمیشن کے طریقوں کے بارے میں پتا نہ ہونا، لوگوں کے منفی رویہ کی وجہ سے اس بیماری کا ٹیسٹ نہ کروانا، یا پازیٹیو ٹیسٹ آنے پر چھپانا وغیرہ زیادہ نمایاں ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان 2003 کے بعد دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں سب سے زیادہ کردار انجکشن کے ذریعے منشیات لینے والے افراد کا ہے جن کا تناسب اس بیماری کو پھیلانے میں 27.2 فیصد ہے۔ دوسری بڑی وجہ سیکس ورکرز ہیں جن کا تناسب اس بیماری کو پھیلانے میں 4 سے 6 فیصد ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: حکومت ایڈز کی روک تھام کے بجائے صرف تشخیص میں مصروف
ڈبلیو ایچ او 1990 سے اب تک ملیریا، ٹی بی، اور ایڈز کو کنٹرول کرنے کےلیے پاکستان کی 100 ملین ڈالر کی مدد کرچکا ہے جس میں ایڈزکے حوالے سے آگاہی مہم، فری اسکرینیگ ٹیسٹ، اور اس بیماری کا علاج وغیرہ شامل ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے لاڑکانہ کو ''گریڈ 2 ایمرجنسی'' ڈکلیئر کیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت رتوڈیرو میں فوری طور پر 1.5 ملین ڈالرز (225 ملین روپے) کی ضرورت ہے لیکن فنڈز صرف 200,000 ڈالرز موجود ہیں۔ یعنی مالی امداد کا فرق 1.3 ملین ڈالرز (195 ملین روپے) ہے۔ اس کی دہائی کسے دیں؟ وفاقی حکومت کو یا سندھ حکومت کو؟ آپ خود ہی فیصلہ کر لیجیے۔
اس بیماری کا جلدی پتا چلنا بہت ضروری ہے۔ جتنی دیر سے پتا چلے گا، ایڈز کے امکانات بھی بڑھتے جائیں گے۔ اس لیے اس بیماری کا کم از کم سال میں ایک بار ٹیسٹ ضرور کروائیے۔ ٹیسٹ پازیٹیو آنے پر علاج فوراً شروع کردیجیے اور دوسروں میں اسے منتقل نہ ہونے دیجیے، یہ اخلاقیات کا تقاضا ہے۔
معاشرتی طور پر بھی یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ بیماری صرف سیکس سے ہی نہیں پھیلتی۔ اس لیے ایسے لوگوں سے بدظن نہ ہوں، کیوں کہ انہیں اس وقت سب سے زیادہ اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ ڈاکٹر مظفر گھانگھرو جیسے سفاک لوگوں کی اس دنیا میں کوئی کمی نہیں۔ خود کو اور اپنوں کو اس جان لیوا بیماری سے بچانے کےلیے ہمیشہ اسکریننگ شدہ انجکشن اور خون کا ہی استعمال کیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جو بھی اس افسوس ناک اور قبیح جرم میں ملوث ہو، اسے قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ اگر اس ڈاکٹر نے واقعی ایسا کیا ہے تو ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم پر بھی یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ آخر کیسے ان جیسے سفاک لوگ ڈاکٹر بنا کر ہم پر مسلط کردیئے جاتے ہیں جن میں نہ تو اخلاقیات نام کی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی شرم و حیا۔ ڈاکٹر ہو کر اتنی بڑی لاپرواہی، جس کی وجہ سے معصوم بچے بھی اس جان لیوا بیماری کی لپیٹ میں آگئے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: لاڑکانہ میں ایڈز پھیلانے کے الزام میں ڈاکٹر گرفتار، ایڈز کی تصدیق
ایچ آئی وی کا آغاز 1920 میں کانگو سے ہوا لیکن 1980 تک معلوم نہیں تھا کہ کتنے لوگ ایچ آئی وی یا ایڈز سے متاثر تھے۔ یہ بیماری چیمپینزی (بندر) سے انسانوں میں منتقل ہوئی۔ کسی ایک انسان کی غلط حرکت کی سزا آج پوری انسانیت بھگت رہی ہے۔ ایڈز کا پہلا کیس 1981 میں سان فرانسسکو، امریکا میں رپورٹ ہوا تھا، اور تب سے اب تک عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 3.5 کروڑ لوگ اس بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ 2017 تک کے اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت پوری دنیا میں 36.9 ملین لوگ ایچ آئی وی یا ایڈز کے ساتھ موجود ہیں۔
ایچ آئی وی ایک وائرس ہے جو ہمارے مدافعتی نظام (امیون سسٹم) ہی کو نشانہ بناتا ہے، جس کی وجہ سے انفیکشنز اور بہت سی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ بیماری ایڈز کا باعث بنتی ہے جو اس کی ایڈوانس اور آخری اسٹیج ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: لاڑکانہ کے بچوں کو ایڈز نہیں ایچ آئی وی ہے، وزیر صحت
ایچ آئی وی کا ٹیسٹ اگر پازیٹیو آتا ہے تو اس کےلیے مختلف ادویہ استعمال کروائی جاتی ہیں جنہیں مجموعی طور پر ''اے آر ٹی'' (اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی) کہا جاتا ہے۔ اگر اس تھراپی کو باقاعدگی سے کیا جائے تو نہ صرف مریض کی زندگی بہتر ہوتی ہے بلکہ ایڈز لاحق ہونے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔
ایچ آئی وی جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ خون لگنے، دوران حمل ماں سے بچے میں، دوران پیدائش، یا بچے کو دودھ پلانے سے بھی یہ بیماری ہو سکتی ہے۔ اس بیماری کی بظاہر کوئی علامات نہیں۔ اس بیماری کے آغاز میں بخار ہونا، سر میں درد، جوڑوں میں درد، گلے میں درد ہونا شامل ہیں۔ یہ علامات اس بیماری سے مخصوص نہیں، اس لیے اس بیماری کے بارے پتا نہیں چل پاتا۔ اس بیماری کی خاص علامات (بار بار بخار ہونا، رات میں پسینہ آنا، زبان یا منہ میں سفید دھبوں کا ہونا، وزن کا کم ہونا، غیر معمولی تھکاوٹ اور کمزوری، جلد پر نشانات وغیرہ) ظاہر ہونے میں 10 سال لگتے ہیں۔ تب تک یہ بیماری ایڈز کی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے، جس کا اب تک کوئی علاج نہیں۔
ایک سروے کے مطابق، پاکستان میں ایچ آئی وی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ پنجاب ہے جہاں 60,000، سندھ میں 52,000، کے پی کے میں 11,000، اور بلوچستان میں ایک، ایچ آئی وی سے متاثرہ مریض موجود ہیں۔ صرف اسلام آباد میں 6,000 رجسٹرڈ ایچ آئی وی مریض موجود ہیں۔ پاکستان کی وفاقی وزارتِ صحت کے تحت ایڈز کو روکنے اور کنٹرول کرنے کےلیے 1987 میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام (این اے سی پی) کی بنیاد رکھی گئی۔ این اے سی پی کی دسمبر 2018 کی رپورٹ کے مطا بق اس وقت پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ 65 ہزار لوگ ایڈز سے متاثر ہیں لیکن رجسٹرڈ تعداد صرف 23,757 ہے، جبکہ علاج صرف 15,821 لوگوں کا ہورہا ہے۔
ایچ آئی وی کے وبائی مرض بننے میں تین مرحلے ہیں: پہلا مرحلہ پورے ملک میں اس بیماری کی شدت 5 فیصد سے کم ہو، دوسرا مرحلہ متاثرہ افراد میں اس بیماری کی شدت 5 فیصد سے زیادہ ہو، اور آخری مرحلہ جب ایچ آئی وی انفیکشن کا تناسب خون دینے والے افراد یا حاملہ خواتین میں 1 فیصد سے زیادہ ہو جائے۔ ہمارے ملک میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں جو عوامل شامل ہیں، ان میں غربت، تعلیم کی کمی، اس بیماری کے ٹرانسمیشن کے طریقوں کے بارے میں پتا نہ ہونا، لوگوں کے منفی رویہ کی وجہ سے اس بیماری کا ٹیسٹ نہ کروانا، یا پازیٹیو ٹیسٹ آنے پر چھپانا وغیرہ زیادہ نمایاں ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان 2003 کے بعد دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں سب سے زیادہ کردار انجکشن کے ذریعے منشیات لینے والے افراد کا ہے جن کا تناسب اس بیماری کو پھیلانے میں 27.2 فیصد ہے۔ دوسری بڑی وجہ سیکس ورکرز ہیں جن کا تناسب اس بیماری کو پھیلانے میں 4 سے 6 فیصد ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: حکومت ایڈز کی روک تھام کے بجائے صرف تشخیص میں مصروف
ڈبلیو ایچ او 1990 سے اب تک ملیریا، ٹی بی، اور ایڈز کو کنٹرول کرنے کےلیے پاکستان کی 100 ملین ڈالر کی مدد کرچکا ہے جس میں ایڈزکے حوالے سے آگاہی مہم، فری اسکرینیگ ٹیسٹ، اور اس بیماری کا علاج وغیرہ شامل ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے لاڑکانہ کو ''گریڈ 2 ایمرجنسی'' ڈکلیئر کیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت رتوڈیرو میں فوری طور پر 1.5 ملین ڈالرز (225 ملین روپے) کی ضرورت ہے لیکن فنڈز صرف 200,000 ڈالرز موجود ہیں۔ یعنی مالی امداد کا فرق 1.3 ملین ڈالرز (195 ملین روپے) ہے۔ اس کی دہائی کسے دیں؟ وفاقی حکومت کو یا سندھ حکومت کو؟ آپ خود ہی فیصلہ کر لیجیے۔
اس بیماری کا جلدی پتا چلنا بہت ضروری ہے۔ جتنی دیر سے پتا چلے گا، ایڈز کے امکانات بھی بڑھتے جائیں گے۔ اس لیے اس بیماری کا کم از کم سال میں ایک بار ٹیسٹ ضرور کروائیے۔ ٹیسٹ پازیٹیو آنے پر علاج فوراً شروع کردیجیے اور دوسروں میں اسے منتقل نہ ہونے دیجیے، یہ اخلاقیات کا تقاضا ہے۔
معاشرتی طور پر بھی یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ بیماری صرف سیکس سے ہی نہیں پھیلتی۔ اس لیے ایسے لوگوں سے بدظن نہ ہوں، کیوں کہ انہیں اس وقت سب سے زیادہ اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ ڈاکٹر مظفر گھانگھرو جیسے سفاک لوگوں کی اس دنیا میں کوئی کمی نہیں۔ خود کو اور اپنوں کو اس جان لیوا بیماری سے بچانے کےلیے ہمیشہ اسکریننگ شدہ انجکشن اور خون کا ہی استعمال کیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔