بگڑتے موسم اور ماحولیاتی تبدیلی
جنگلات کے کٹائو کو روکیں، سادہ طرز زندگی اپنائیں، کیونکہ ہمارے پاس رہنے کےلیے زمین کے علاوہ کوئی دوسرا سیارہ نہیں ہے
آزاد کشمیر کے گاؤں کیل میں شدید ژالہ باری سے فصلیں تباہ ہوگئیں۔ (فوٹو: بلاگر)
KARACHI:
ان دنوں بارش تو اس علاقے کا معمول ہوتی ہے، لیکن آج آسمان پر صبح سے گھنے کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ سہ پہرکے وقت بوندا باندی شروع ہوگئی۔ لوگوں نے اسے معمول کی بارش سمجھا لیکن چند بوندیں گرنے کے بعد صورتحال ڈرامائی رخ اختیار کرلیتی ہے۔ دفعتاََ بڑے بڑے اولے تیزی سے زمین پر گرنے لگتے ہیں۔ ژالہ باری کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ لوگ بے اختیار پناہ کی تلاش میں بھاگتے ہیں۔ بیس سے پچیس منٹ کی ژالہ باری سے زمین نے سفید چادر اوڑھ لی ہے۔ پھلدار درختوں پر لگے تمام پھول پتییوں سمیت فرش ارض بن گئے۔ درختوں کی گری ہوئی ٹہنیاں اس طوفان کی داستان بتا رہی ہیں۔ مکئی کی ابھرتی ہوئی کونپلیں واپس زمین میں دھنسا دی جاتی ہیں۔
ژالہ باری اس علاقے میں نئی نہیں ہے لیکن اس شدت کی ژالہ باری کو گائوں کے بڑے بوڑھے بھی پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ اولوں کا حجم عام طور پر برسنے والے اولوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پھل دار درخت، جن میں سیب، اخروٹ، چیری وغیرہ شامل ہیں، کے تمام پھول رزق خاک ہوگئے ہیں۔ یہ اس پسماندہ علاقے کےلیے ایک آفت سے کم نہیں کہ لوگوں کی اس سال کی فصل تباہ ہوگئی ہے۔
یہ ذکر ہے آذاد کشمیر کی جنت نظیر وادی، نیلم کے خوبصورت گائوں کیل کا۔ جو کئی اعتبار سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ جس کا نواحی گائوں، اڑنگ کیل، خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ژالہ باری کا یہ طوفان چند دن پہلے آیا تھا اور مقامی زراعت کو تباہ کرگیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے طوفان موسم کا معمول ہیں یا ان کے پیچھے کچھ اور قوتیں کارفرما ہیں؟ کیا یہ طوفان عالمی موسمیاتی تغیر کا حصہ ہیں؟ یہاں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے۔ پہلے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ژالہ باری کیسے ہوتی ہے؟
ژالہ باری(Hail storm):
قدرت نے کرۂ ارض پر پانی کی متواتر ترسیل کا نہایت مؤثر مگر نازک نظام بنا رکھا ہے، جس کی وجہ سے پانی خشکی پر ایک قابل تجدید قدرتی وسیلہ ہے۔ بلند درجہ حرارت کی وجہ سے سمندروں کی سطح سے پانی بخارات کی شکل میں فضا میں بلند ہوتا ہے اور بین البراعظمی ہواؤں کے ساتھ خشکی کے ہر کونے تک پہنچ جاتا ہے۔ بادل کرۂ فضا کے سب سے نچلے حصے، کرۂ متغیرہ یا ٹروپو سفیئر میں بنتے ہیں۔ اس کرہ میں بلندی کے ساتھ درجہ حرارت میں بتدریج کمی ہوتی ہے، حتیٰ کہ یہ نقطہ انجماد سے کئی درجے نیچے گرجاتا ہے۔ کم درجہ حرارت عمل تکثیف (کنڈنسیشن) کا باعث بنتا ہے، جس سے پانی کے ہلکے بخارات آپس میں مل کر بڑے قطروں میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور بالآخر کشش ثقل کے باعث زمیں پر گرجاتے ہیں۔ عام طور پر بارش یا برف کے روپ میں گرتے ہیں، تاہم موسم بہار یا گرمیوں میں اولوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
اولے بادلو ں کی قسم کیومیولونمبس میں بنتے ہیں۔ ایسے بادلوں میں فضا میں بلندی پر درجہ حرارت کی مختلف پرتیں ہوتی ہیں۔ ہوا کی روئیں (ڈاؤن ڈرافٹ اور اپ ڈرافٹ) عمودی چل رہی ہوتی ہیں۔عمل تکثیف سے بخارات (جب وہ نقطہ انجماد سے نیچے ہو) برف کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ برف کے یہ قطرے جب نیچے گرتے ہیں تو وہ راستے میں اوپر جانے والی ہوا (اپ ڈرافٹ) کی زد میں آجاتے ہیں، جو ان کو واپس بادلوں کی اوپری پرت تک لے جاتی ہے۔ برف کے یہ قطرات دوبارہ جب کم درجہ حرارت سے گزرتے ہیں تو پانی کے مزید بخارات ان قطرات کے ساتھ مل جاتے ہیں، اور ان کا حجم بڑا ہوتا جاتا ہے۔ یہ عمل کئی بار دہرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اولہ اوپر جانے والی ہوا سے بھاری ہوجاتا ہے اور نیچے کی طرف گرنا شروع ہوجاتا ہے۔
اولوں کا حجم اس اپ ڈرافٹ ہوا کی شدت پر منحصر ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ ہوا چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ سے کم ہوتی ہے۔ لیکن کیل میں ہونے والی ژالہ باری سے پتہ چلتا ہے کہ اپ ڈرافٹ ہوا کی رفتار کم از کم 85 تا 90 کلومیٹر فی گھنٹہ رہی ہوگی، جس سے 30 تا 40 ملی میٹر کے حجم کے اولے برسے ہیں۔ یہ اولے اندازاََ 90 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے ٹکرائے ہوں گے۔ کیونکہ اولوں کے 50 فیصد سے زیادہ بادل 20 تا 40 کلومیٹر اونچے ہوتے ہیں۔ یہ تصادم 8.0 فٹ۔پونڈ (توانائی کا ایک پیمانہ) طاقت کا حامل رہا ہوگا۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ایک انسان کو مارنے کےلیے کم از کم 90 فٹ۔ پونڈ کی طاقت درکار ہوگی۔ کیل میں برسنے والے اولے اتنی طاقت کے حامل تھے کہ مکئی (جو اس وقت تخمی مرحلے پر ہوتی ہے) ننھی کونپلیں، پھول اور نازک شاخیں، سب برباد کرگئے۔
ماحولیاتی تبدیلی(Climate Change):
کیا اولوں کا بڑھتا ہوا سائز ماحولیاتی تبدیلی کا شاخسانہ ہے یا اس کا عمومی موسمی رجحان ہے؟ دنیا میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ژالہ باری کے طوفان (فریکوئنسی یا تعدد، شدت، حجم اور موسمی اوقات) اور موسمی تغیر میں ایک قابل ذکر ربط ہے۔ ہمارے ہاں ملکی سطح پر اس پر مربوط تحقیق کی کمی ہے، تاہم دنیا کے دیگر خطوں میں موسم پر خاطر خواہ ریسرچ ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھی اب ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔
جرمنی میں ہوئی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 2 انچ سے زیادہ کے حجم کے اولے والے طوفان قابل ذکر حد تک بڑھ گئے ہیں۔ زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں اٹلی، رومانیہ، بلقان کی ریاستیں اور جنوبی جرمنی شامل ہیں۔ امریکا میں 2000 سے 2017 تک ایک جائزے میں دیکھا گیا ہے کہ ژالہ باری کے ایسے طوفان جن میں اولوں کا سائز 1.9 انچ (50 ملی میٹر) یا زیادہ رہا ہے، ان کی شرح میں 9 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ صرف امریکا میں ایسے طوفان سالانہ 10 سے 11 ارب ڈالر کے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ مئی 2017 میں صرف ایک طوفان کے باعث امریکا کو 2.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
دستیاب مواد کے مطابق یورپ میں 1980 سے 2015 کے دوران ژالہ باری کے واقعات میں 5 سے 10 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جبکہ اولوں کا سائز بھی بڑھا ہے۔ کم و بیش یہی شرح امریکا اور آسٹریلیا وغیرہ میں بھی ہے۔ اس عرصے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور عالمی حدت میں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑا اولہ 2010 میں امریکا میں گرا تھا، جس کا حجم 8 انچ اور وزن تقریباََ ایک کلوگرام (1.937 پونڈ) تھا۔
کیا ژالہ باری سے بچاؤ ممکن ہے؟
ژالہ باری کے خطرناک طوفانوں، ان کی شدت اور تعدد کو براہِ راست تو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ ایک ماحولیاتی تبدیلی کا قدرتی ردعمل ہے۔ تاہم وہ عوامل جو ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں، جیسے کہ بڑھتی ہوئی عالمی حدت، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری گرین ہاؤس گیسوں کا بے تحاشا اخراج، جنگلات کا کٹائو وغیرہ، کو روکا جاسکتا ہے۔ اس سے کلائیمیٹ چینج کی رفتار کم ہوجائے گی اور انسان کو اس سیارہ پر رہنے کی مہلت میں تھوڑا اضافہ ہوجائے گا۔ ورنہ جس رفتار سے انسان قدرتی توازن کو تہس نہس کررہا ہے، اس سے ہمارا قیام اس سیارہ پرکم ہی رہ گیا ہے۔ جنگلات کے کٹاؤ کو روکیں، سادہ طرز زندگی اپنائیں، کیونکہ ہمارے پاس رہنے کےلیے زمین کے علاوہ کوئی دوسرا سیارہ نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔