پنجاب کی صاف پانی کمپنی تین ارب لگا کر ایک بوند صاف پانی نہ دے سکی سپریم کورٹ
پنجاب کی 56 کمپنیوں کو قانون سے بالاتر رکھا گیا، جسٹس اعجاز الاحسن
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ پنجاب کی 56 کمپنیوں کو قانون سے بالاتر رکھا گیا اور صاف پانی کمپنی تین ارب لگا کر ایک بوند صاف پانی نہ دے سکی۔
سپریم کورٹ میں پنجاب کی 56 کمپنیوں کے ملازمین کی بھاری مراعات کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالتوں پراعتماد رکھیں کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہوگی، جس نے کوئی جرم یاغلط کام کیا ہوا اس کیساتھ قانون کے مطابق سلوک ہوگا، دنیا میں کسی سرکاری افسر کو کمپنیوں میں تعینات نہیں کیا جاتا، حکومت نے کمپنیاں بنانا تھیں تو اشتہار دیکر بھرتیاں کرتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پنجاب کی تمام کمپنیوں کو قانون سے بالاتر رکھا گیا، ان پر پیپرا رولز کا اطلاق ہوتا تھا نہ کسی اور قانون کا، ان سرکاری کمپنیوں کا کوئی آڈٹ بھی نہیں ہوتا تھا، تمام کمپنیوں کو احتساب سے بھی بالاتر رکھا گیا تھا، صاف پانی کمپنی تین ارب لگا کر بھی ایک بوند صاف پانی نہیں دے سکی۔
نیب نے ملازمین کی بھاری مراعات سے متعلق رپورٹ جمع کرائی جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت اور کمپنیوں کے افسران سے جواب طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ میں پنجاب کی 56 کمپنیوں کے ملازمین کی بھاری مراعات کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالتوں پراعتماد رکھیں کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہوگی، جس نے کوئی جرم یاغلط کام کیا ہوا اس کیساتھ قانون کے مطابق سلوک ہوگا، دنیا میں کسی سرکاری افسر کو کمپنیوں میں تعینات نہیں کیا جاتا، حکومت نے کمپنیاں بنانا تھیں تو اشتہار دیکر بھرتیاں کرتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پنجاب کی تمام کمپنیوں کو قانون سے بالاتر رکھا گیا، ان پر پیپرا رولز کا اطلاق ہوتا تھا نہ کسی اور قانون کا، ان سرکاری کمپنیوں کا کوئی آڈٹ بھی نہیں ہوتا تھا، تمام کمپنیوں کو احتساب سے بھی بالاتر رکھا گیا تھا، صاف پانی کمپنی تین ارب لگا کر بھی ایک بوند صاف پانی نہیں دے سکی۔
نیب نے ملازمین کی بھاری مراعات سے متعلق رپورٹ جمع کرائی جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت اور کمپنیوں کے افسران سے جواب طلب کرلیا۔