وزیر اعظم کی سپریم کورٹ میں حاضری مثبت پیش رفت
پیپلز پارٹی نے عدالتی فیصلوں کے خلاف احتجاج کا راستہ اختیار کیا...
کافی دنوں سے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے این آر او عملدرآمد کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہونے یا نہ ہونے کی بابت قیاس آرائیاں نقطہ عروج پر تھیں، سرکاری و نجی محفلوں میںان خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف عدالت نہیں جائیں گے۔ بعض حکومتی شخصیات نے تو اعلانیہ کہہ دیا تھا کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہونگے۔ موجودہ وزیر اعظم کو عدالت میں پیش نہ ہونے کا سب سے پہلے مشورہ دینے والوں میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی شامل تھے۔
صدر آصف علی زرداری اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے اکثر قائدین وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے حق میں نہیں تھے تاہم حکومت کی اتحادی جماعتوں کے سرکردہ قائدین نے ایوان صدر اسلام آباد میں مشاورتی اجلاس میں یک زبان ہو کر یہ موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم کو ہر صورت عدالتی احکامات پر ملک کی سب سے بڑی عدالت میں پیش ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم کے پیش نہ ہونے سے ریاستی اداروں کے درمیان ٹکرائو اور تصادم کی فضا پیدا ہو گی اور ہم اداروں کے درمیان محاذ آرائی کے حق میں نہیں ہیں، 2 سے 3 روز تک ایوان صدر حکومت اور اسکی اتحادی جماعتوں کی سرگرمیوں کا محور و مرکز بنا رہا، مشاورتی اجلاس میں طویل غور و خوض کے بعد صدر آصف علی زرداری نے اتحادی جماعتوں کے قائدین کے مشورے سے وزیر اعظم کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی، سیاسی مخالفین بھی وزیر اعظم کے عدالت میں پیش ہونے کے فیصلے کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وزیر اعظم کے پیش ہونے سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی میں کمی واقع ہو گی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ راجہ پرویز اشرف این آر او عملدرآمد کیس میں عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے عدالت سے مشاورت کیلئے مزید مہلت کی استدعا کی، عدالت نے وزیر اعظم کو 22 دنوں کی مہلت دیتے ہوئے این آر او کیس کی سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کر دی، عدالت نے وقتی طور پر وزیر اعظم کو ریلیف دے دیا ہے توقعات کے برعکس عدالت نے وزیر اعظم کو مہلت دی ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم عدالت عظمیٰ میں جو یقین دہانی کرا کے آئے ہیں وہ کیسے پوری کر پاتے ہیں، وزیر اعظم کے اقتدار پر خطرات منڈلا رہے ہیں اور اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ راجہ پرویز اشرف اپنے محسن صدر آصف علی زرداری کے خلاف کبھی خط نہیں لکھیں گے اور ایسا لگ رہا ہے کہ دوسرے وزیر اعظم کی قربانی کا وقت قریب آ گیا ہے، حکومت نگراں سیٹ اپ کے قیام تک عدالت سے وقت حاصل کرنا چاہتی ہے، راجہ پرویز اشرف کو یہ منصب سنبھالے ہوئے ابھی کم و بیش دو ماہ ہوئے ہیں، عدالت میں وزیر اعظم نے ملک کو درپیش بحرانوں اور مسائل کا ذکر کیا اور عدالت کو باور کرایا کہ مجھے وقت دیا جائے،
پاکستان پیپلز پارٹی کے اکثر قائدین نے عدالت پر تنقید کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور بعض قائدین تو عدالت کے کنڈکٹ پر براہ راست شدید تنقید کر کے محاذ آرائی کو ہوا دے رہے ہیں، این آر او کیس کے اثرات ملک کے مجموعی سیاسی منظر نامے پر مرتب ہونگے، پیپلز پارٹی کے جارحانہ اقدامات سے اس امر کی عکاسی ہو رہی ہے کہ حکمران جماعت این آر او کیس میں دوسرے وزیر اعظم کی ممکنہ نااہلی کے فیصلے کے خلاف مزاحمت کریگی اور بعض رہنمائوں کو عدالت پر کیچڑ اچھالنے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے، حکومت کی اتحادی جماعتیں عدالت کے ساتھ محاذ آرائی کے حق میں ہرگز نہیں ہیں اگر پیپلز پارٹی نے عدالتی فیصلوں کے خلاف احتجاج کا راستہ اختیار کیا تو ملک میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے اور اپوزیشن عدالت کے ساتھ کھڑی ہو گی۔
عام انتخابات کے انعقاد میں زیادہ عرصہ نہیں رہا اور سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے، عید الفطر کے موقع پر صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے تمام اپوزیشن رہنمائوں کو فون کر کے خیر سگالی کے پیغامات کا تبادلہ کیا، فوری طور پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کے امکانات نہیں ہیں، قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نگراں حکومت کے قیام کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ بات چیت کی تردید کر چکے ہیں اور یہ واضح کر چکے ہیں کہ حکومت کے ساتھ ابھی کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔
عام انتخابات سے قبل ہی حکومت نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا آغاز کرتے ہوئے نئے صوبوں کیلئے ایک پارلیمانی کمیشن قائم کر دیا ہے، مسلم لیگ (ن) نے کمیشن کے قیام اور اس کے ممبران کی تعداد اور دائرہ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے نصف ارکان کو نمائندگی مسلم لیگ (ن) کو دینے کا مطالبہ کر دیا ہے، پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے کے نام پر مسلم لیگ (ن) کو جنوبی پنجاب میں ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر چکی ہے، مسلم لیگ (ن) کے تحفظات ابھی تک اس کمیشن کے بارے میں دور نہیں کئے گئے ہیں، سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ سرائیکی صوبے کا قیام مشکل ہے، سیاسی جماعتیں انتخابات میں اسی ایشو کو استعمال کر کے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔
صدر آصف علی زرداری اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے اکثر قائدین وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے حق میں نہیں تھے تاہم حکومت کی اتحادی جماعتوں کے سرکردہ قائدین نے ایوان صدر اسلام آباد میں مشاورتی اجلاس میں یک زبان ہو کر یہ موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم کو ہر صورت عدالتی احکامات پر ملک کی سب سے بڑی عدالت میں پیش ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم کے پیش نہ ہونے سے ریاستی اداروں کے درمیان ٹکرائو اور تصادم کی فضا پیدا ہو گی اور ہم اداروں کے درمیان محاذ آرائی کے حق میں نہیں ہیں، 2 سے 3 روز تک ایوان صدر حکومت اور اسکی اتحادی جماعتوں کی سرگرمیوں کا محور و مرکز بنا رہا، مشاورتی اجلاس میں طویل غور و خوض کے بعد صدر آصف علی زرداری نے اتحادی جماعتوں کے قائدین کے مشورے سے وزیر اعظم کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی، سیاسی مخالفین بھی وزیر اعظم کے عدالت میں پیش ہونے کے فیصلے کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وزیر اعظم کے پیش ہونے سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی میں کمی واقع ہو گی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ راجہ پرویز اشرف این آر او عملدرآمد کیس میں عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے عدالت سے مشاورت کیلئے مزید مہلت کی استدعا کی، عدالت نے وزیر اعظم کو 22 دنوں کی مہلت دیتے ہوئے این آر او کیس کی سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کر دی، عدالت نے وقتی طور پر وزیر اعظم کو ریلیف دے دیا ہے توقعات کے برعکس عدالت نے وزیر اعظم کو مہلت دی ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم عدالت عظمیٰ میں جو یقین دہانی کرا کے آئے ہیں وہ کیسے پوری کر پاتے ہیں، وزیر اعظم کے اقتدار پر خطرات منڈلا رہے ہیں اور اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ راجہ پرویز اشرف اپنے محسن صدر آصف علی زرداری کے خلاف کبھی خط نہیں لکھیں گے اور ایسا لگ رہا ہے کہ دوسرے وزیر اعظم کی قربانی کا وقت قریب آ گیا ہے، حکومت نگراں سیٹ اپ کے قیام تک عدالت سے وقت حاصل کرنا چاہتی ہے، راجہ پرویز اشرف کو یہ منصب سنبھالے ہوئے ابھی کم و بیش دو ماہ ہوئے ہیں، عدالت میں وزیر اعظم نے ملک کو درپیش بحرانوں اور مسائل کا ذکر کیا اور عدالت کو باور کرایا کہ مجھے وقت دیا جائے،
پاکستان پیپلز پارٹی کے اکثر قائدین نے عدالت پر تنقید کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور بعض قائدین تو عدالت کے کنڈکٹ پر براہ راست شدید تنقید کر کے محاذ آرائی کو ہوا دے رہے ہیں، این آر او کیس کے اثرات ملک کے مجموعی سیاسی منظر نامے پر مرتب ہونگے، پیپلز پارٹی کے جارحانہ اقدامات سے اس امر کی عکاسی ہو رہی ہے کہ حکمران جماعت این آر او کیس میں دوسرے وزیر اعظم کی ممکنہ نااہلی کے فیصلے کے خلاف مزاحمت کریگی اور بعض رہنمائوں کو عدالت پر کیچڑ اچھالنے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے، حکومت کی اتحادی جماعتیں عدالت کے ساتھ محاذ آرائی کے حق میں ہرگز نہیں ہیں اگر پیپلز پارٹی نے عدالتی فیصلوں کے خلاف احتجاج کا راستہ اختیار کیا تو ملک میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے اور اپوزیشن عدالت کے ساتھ کھڑی ہو گی۔
عام انتخابات کے انعقاد میں زیادہ عرصہ نہیں رہا اور سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے، عید الفطر کے موقع پر صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے تمام اپوزیشن رہنمائوں کو فون کر کے خیر سگالی کے پیغامات کا تبادلہ کیا، فوری طور پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کے امکانات نہیں ہیں، قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نگراں حکومت کے قیام کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ بات چیت کی تردید کر چکے ہیں اور یہ واضح کر چکے ہیں کہ حکومت کے ساتھ ابھی کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔
عام انتخابات سے قبل ہی حکومت نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا آغاز کرتے ہوئے نئے صوبوں کیلئے ایک پارلیمانی کمیشن قائم کر دیا ہے، مسلم لیگ (ن) نے کمیشن کے قیام اور اس کے ممبران کی تعداد اور دائرہ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے نصف ارکان کو نمائندگی مسلم لیگ (ن) کو دینے کا مطالبہ کر دیا ہے، پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے کے نام پر مسلم لیگ (ن) کو جنوبی پنجاب میں ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر چکی ہے، مسلم لیگ (ن) کے تحفظات ابھی تک اس کمیشن کے بارے میں دور نہیں کئے گئے ہیں، سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ سرائیکی صوبے کا قیام مشکل ہے، سیاسی جماعتیں انتخابات میں اسی ایشو کو استعمال کر کے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔