الیکشن کب کرایا جائے‘ حکومت مخمصے میں پڑ گئی
لوڈ شیڈنگ کا بحران بڑھ گیا تو اس سے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو...
قومی سیاست کے سمندر میں ان دنوں طلاطم خیز لہروں نے ہلچل مچا رکھی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو مہلت ، نئے صوبوں کے قیام کیلئے پارلیمانی کمیشن کی تشکیل اور تیزی سے تبدیل ہوتے ملکی حالات جیسے ایشوز چھائے ہوئے ہیں۔نئی صورتحال کے تناظر میں قبل از وقت انتخابات کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔ یہ واضح نظر آرہا ہے کہ موجودہ اسمبلیاں اور حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں گی اورآئندہ عام انتخابات 2013ء میں ہی ہوں گے۔ اس کا کریڈٹ یقینا صدر زرداری کو جاتا ہے۔
اسمبلیوں کی میعاد 18مارچ 2013ء میں ختم ہو رہی ہے ، ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت الیکشن میں اپنے سیاسی فائدے کیلئے ایک آدھ ماہ پہلے کسی مناسب تاریخ کا اعلان کردے ۔سندھ کے سابق وزیر داخلہ منظور وسان نے انتخابات کے حوالے سے بھی خواب دیکھا ہے، ان کا سیاسی خواب کسی حد تک حقیقت کے قریب دکھائی دیتا ہے۔ منظور وسان کے مطابق 18 فروری کو اسمبلی توڑ دی جائے گی اور عام انتخابات 4 اپریل 2013ء کو ہوں گے۔ 4 اپریل سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کا دن ہے اور پیپلزپارٹی سیاسی فائدہ کیلئے اس تاریخ کا اعلان کر سکتی ہے۔
پیپلزپارٹی انتخابات کے دوران لوڈشیڈنگ کے ایشو سے بھی خوفزدہ ہے ۔ اپریل میںلوڈشیڈنگ کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اس لئے آئندہ انتخابات کیلئے تاریخ کے تعین میں اس پہلو کو بھی دیکھا جارہا ہے۔ 27 دسمبر بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت اور 5 جنوری کو ذوالفقار علی بھٹو کے یوم پیدائش کے دن بھی عام انتخابات کیلئے زیر غور ہیں۔ دسمبر میں بھی پہاڑوں پر برف جم جانے کے باعث لوڈ شیڈنگ بڑھ جاتی ہے اس لئے ایک تجویز یہ ہے کہ جنوری کے آخری اور فروری کے پہلے عشرے میں عام انتخابات کا اعلان کردیا جائے۔
جنوری، فروری میں الیکشن کروائے جائیں تو ٹرن آؤٹ بھی بڑھ جائے گا اور اگر مارچ یا اپریل میں الیکشن کروانے ہیں تو پیسوں کا انتظام بھی کرنا پڑے گا اس طرح زیادہ امکان یہی ہے کہ فروری میں الیکشن کی تاریخ دی جائے۔ نگران سیٹ اپ کے دوران صدر زرداری حکومتی امور میں زیادہ مداخلت نہیں کر سکیں گے اور اگر اس دوران لوڈ شیڈنگ کا بحران بڑھ گیا تو اس سے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے 2008ء کے انتخابات کا نگران سیٹ اپ خود بنایا اس کے باوجود اس پر ان کا کنٹرول کم ہوگیا تھا اور نگران سیٹ اپ لوڈ شیڈنگ اور آٹے کے بحران پر قابو پانے میں ناکام رہا تھا۔ اب قومی اتفاق رائے سے فخرالدین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمشنر تقرری کے بعد نگران سیٹ آپ کیلئے بھی اتفاق رائے کی ضرورت بڑھ رہی ہے اس حوالے سے اپوزیشن کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اپوزیشن بھی چاہتی ہے کہ موجودہ سسٹم چلے اور اتفاق رائے سے نگران سیٹ اپ تشکیل دیا جائے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر عدالت سے باہراپوزیشن کا وہ دباؤ نہیں ہے جو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر تھا۔
یوسف رضا گیلانی کی نااہلی ایک بہت بڑا واقعہ ہے مگر پیپلزپارٹی نے اس پر سخت ردعمل ظاہرنہیںکیا اگر وہ اس فیصلے پر سخت ردعمل دیتے تو اتحادی ساتھ چھوڑ دیتے۔ صدر زرداری نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور اس معاملے کو ٹھنڈا کردیا۔ اب عدلیہ کو بھی اس صورتحال کا احساس ہے کہ اگر ''ایکشن ری پلے'' ہوا تو پیپلزپارٹی دوسرے وزیراعظم کی نااہلی کو برداشت نہیں کرے گی۔
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ، سینیٹر فیصل رضا عابدی اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور فواد چوہدری سمیت دیگر کئی پارٹی رہنماء سخت مزاحمت کی باتیں کررہے ہیں۔ فیصل رضا عابدی جس حدتک جارہے ہیں چیف جسٹس پاکستان اس پر سو موٹو بھی نہیں لے رہے۔ اس وقت حکومت اور عدلیہ کے درمیان مصالحانہ رویہ سامنے آرہا ہے عدلیہ بھی لچکدار موقف اختیار کر رہی ہے اور حکومت کی طرف سے بھی خط کے معاملے میں گنجائش نظر آرہی ہے۔ ملک اور قوم کے مفاد کیلئے اس بحران سے نکلنا بہت ضروری ہوگیا ہے ۔
اسمبلیوں کی میعاد 18مارچ 2013ء میں ختم ہو رہی ہے ، ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت الیکشن میں اپنے سیاسی فائدے کیلئے ایک آدھ ماہ پہلے کسی مناسب تاریخ کا اعلان کردے ۔سندھ کے سابق وزیر داخلہ منظور وسان نے انتخابات کے حوالے سے بھی خواب دیکھا ہے، ان کا سیاسی خواب کسی حد تک حقیقت کے قریب دکھائی دیتا ہے۔ منظور وسان کے مطابق 18 فروری کو اسمبلی توڑ دی جائے گی اور عام انتخابات 4 اپریل 2013ء کو ہوں گے۔ 4 اپریل سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کا دن ہے اور پیپلزپارٹی سیاسی فائدہ کیلئے اس تاریخ کا اعلان کر سکتی ہے۔
پیپلزپارٹی انتخابات کے دوران لوڈشیڈنگ کے ایشو سے بھی خوفزدہ ہے ۔ اپریل میںلوڈشیڈنگ کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اس لئے آئندہ انتخابات کیلئے تاریخ کے تعین میں اس پہلو کو بھی دیکھا جارہا ہے۔ 27 دسمبر بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت اور 5 جنوری کو ذوالفقار علی بھٹو کے یوم پیدائش کے دن بھی عام انتخابات کیلئے زیر غور ہیں۔ دسمبر میں بھی پہاڑوں پر برف جم جانے کے باعث لوڈ شیڈنگ بڑھ جاتی ہے اس لئے ایک تجویز یہ ہے کہ جنوری کے آخری اور فروری کے پہلے عشرے میں عام انتخابات کا اعلان کردیا جائے۔
جنوری، فروری میں الیکشن کروائے جائیں تو ٹرن آؤٹ بھی بڑھ جائے گا اور اگر مارچ یا اپریل میں الیکشن کروانے ہیں تو پیسوں کا انتظام بھی کرنا پڑے گا اس طرح زیادہ امکان یہی ہے کہ فروری میں الیکشن کی تاریخ دی جائے۔ نگران سیٹ اپ کے دوران صدر زرداری حکومتی امور میں زیادہ مداخلت نہیں کر سکیں گے اور اگر اس دوران لوڈ شیڈنگ کا بحران بڑھ گیا تو اس سے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے 2008ء کے انتخابات کا نگران سیٹ اپ خود بنایا اس کے باوجود اس پر ان کا کنٹرول کم ہوگیا تھا اور نگران سیٹ اپ لوڈ شیڈنگ اور آٹے کے بحران پر قابو پانے میں ناکام رہا تھا۔ اب قومی اتفاق رائے سے فخرالدین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمشنر تقرری کے بعد نگران سیٹ آپ کیلئے بھی اتفاق رائے کی ضرورت بڑھ رہی ہے اس حوالے سے اپوزیشن کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اپوزیشن بھی چاہتی ہے کہ موجودہ سسٹم چلے اور اتفاق رائے سے نگران سیٹ اپ تشکیل دیا جائے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر عدالت سے باہراپوزیشن کا وہ دباؤ نہیں ہے جو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر تھا۔
یوسف رضا گیلانی کی نااہلی ایک بہت بڑا واقعہ ہے مگر پیپلزپارٹی نے اس پر سخت ردعمل ظاہرنہیںکیا اگر وہ اس فیصلے پر سخت ردعمل دیتے تو اتحادی ساتھ چھوڑ دیتے۔ صدر زرداری نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور اس معاملے کو ٹھنڈا کردیا۔ اب عدلیہ کو بھی اس صورتحال کا احساس ہے کہ اگر ''ایکشن ری پلے'' ہوا تو پیپلزپارٹی دوسرے وزیراعظم کی نااہلی کو برداشت نہیں کرے گی۔
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ، سینیٹر فیصل رضا عابدی اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور فواد چوہدری سمیت دیگر کئی پارٹی رہنماء سخت مزاحمت کی باتیں کررہے ہیں۔ فیصل رضا عابدی جس حدتک جارہے ہیں چیف جسٹس پاکستان اس پر سو موٹو بھی نہیں لے رہے۔ اس وقت حکومت اور عدلیہ کے درمیان مصالحانہ رویہ سامنے آرہا ہے عدلیہ بھی لچکدار موقف اختیار کر رہی ہے اور حکومت کی طرف سے بھی خط کے معاملے میں گنجائش نظر آرہی ہے۔ ملک اور قوم کے مفاد کیلئے اس بحران سے نکلنا بہت ضروری ہوگیا ہے ۔