شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے پاکستان پر بڑھتا ہوا امریکی دبائو

شمالی وزیرستان میں آپریشن نہیں کیاجارہا ہے ، ملکی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی کاروائی ہوگی


Shahid Hameed August 29, 2012
شمالی وزیرستان میں آپریشن نہیں کیاجارہا ہے ، ملکی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی کاروائی ہوگی (فوٹو : ایکسپریس)

KARACHI: شمالی وزیرستان میں ابھی آپریشن شروع نہیں کیا گیا نہ ہی حکومت یا عسکری ذرائع کے حوالے سے ایسی کوئی خبر ہے بلکہ ان دونوں ذرائع کی جانب سے مسلسل اس بات کا اعادہ کیاجارہا ہے کہ ''شمالی وزیرستان میں آپریشن نہیں کیاجارہا ہے اور نہ ہی بیرونی ڈکٹیشن پر ایسا کیاجائے گا بلکہ اپنے ملکی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی کاروائی ہوگی ''، تاہم اس کے باوجود آثار بتارہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کچھ ہونے والا ہے جس کا اندازہ ایک جانب تو بیرونی دبائو کو دیکھتے ہوئے کیا جاسکتا ہے جس میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک مسلسل اس بات کاتقاضا کرتے آرہے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کیاجائے کیونکہ یہ نہ صرف عسکریت پسندوں کا گڑھ ہے بلکہ حقانی نیٹ ورک بھی یہاں پوری طرح فعال ہے اور امریکہ کے لیے افغانستان میں مسائل بھی پیدا کررہا ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ نے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے بڑھا دیئے ہیں جن میں جلال الدین حقانی کے صاحبزادے اور سراج الدین حقانی کے بھائی بدرالدین حقانی کے بھی مارے جانے کی اطلاعات ہیں ۔

9/11 کے بعد پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے تقریباًتمام ہی قبائلی ایجنسیوں میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن کیے لیکن جب بات شمالی وزیرستان پر آئی تو یہ معاملہ اٹک گیا جبکہ دوسری جانب امریکی کی سوئی بھی شمالی وزیرستان اور حقانی نیٹ ورک پر ہی اٹکی ہوئی ہے کیونکہ امریکہ جس نے گزشتہ ایک دہائی سے بھی زائد عرصہ سے اس خطہ میں جنگ چھیڑی ہوئی ہے وہ اپنی واپسی سے قبل اسے منطقی انجام تک پہنچانے کا خواہش مند ہے اسی لیے امریکہ کی خواہش ہے کہ جنوبی وزیرستان سمیت جس طریقہ سے دیگر قبائلی علاقوں میں پاکستان کی فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائیاں کی ہیں وہ اسی طریقہ سے شمالی وزیرستان میں بھی عسکریت پسندوں کا قلع قمع کرے اور پھر امریکہ کے صدارتی انتخابات جوں ،جوں قریب آرہے ہیں ان کے اس مطالبہ میں بھی شدت آرہی ہے۔

تاہم دوسری جانب پاکستان اور اس کی سیکورٹی فورسز جنہوں نے صرف قبائلی علاقہ جات ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع میں بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آپریشن کیے وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے سے فی الحال گریزاں ہیں تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس سلسلے میں شدید مخالفت کی جارہی ہے جبکہ شمالی وزیرستان کے لوگوں نے بھی اپنے جرگہ کے ذریعے پیغام دے دیا ہے کہ اگر وہاں آپریشن شروع کیا گیا تو وہ افغانستان ہجرت کر جائیں گے جس سے مستقبل قریب میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

گو کہ سیاسی جماعتوں کی مخالفت ،شمالی وزیرستان میں بسنے والوں کی دھمکیوں اور حکومت وسکیورٹی اداروں کے گریزاں رویئے کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب میں تو شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تاہم اس بات کا بھی امکان ہے کہ اگر امریکہ اور عالمی برادری کی جانب سے یونہی دبائو جاری رہا تو آنے والے وقت میں پاکستان اور اس کے سکیورٹی ادارے دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ کی نزاکتوں کے باعث ہوسکتا ہے کہ ایسی کاروائی کرنے پر مجبور ہوجائیں جس کے بعد کی کیا صورت حال بنتی ہے یہ تو آنے والے وقت ہی میں پتا چلے گا تاہم اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب آپریشن کا دبائو ہے تو دوسری جانب افغانستان کی جانب سے پاکستان کے افغانستان کے ساتھ جڑے ہوئے سرحدی علاقوں میں حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جسے بعض حلقے پاکستان کو دو طرف سے گھیرنے کی سازش قراردے رہے ہیں ۔

حکومت کو چاہیے کہ چاہے عسکری حکام کے ذریعے یا چاہے دفتر خارجہ کے ذریعے تاہم اصل صورت حال سے نہ صرف پوری قوم بلکہ پوری دنیا کو آگاہ کرے کہ جب دیگر قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں آپریشن کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا تو پھر شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے کے حوالے سے اتنا تردد کیوں برتا جارہا ہے ؟کیا معاملہ واقعی قومی مفادات کا ہے یا پھر پاکستان نے امریکی ''ڈومور''کی رٹ کو مزید نہ ماننے کا فیصلہ کرلیاہے،حقائق ضرور سامنے آنے چاہیں ۔

روزہ اور عید کے حوالے سے مرکز اور صوبہ کی جنگ بڑی پرانی ہے جس پر ہر سال ہوہا ہوتی ہے تاہم دونوں جانب سے عدم دلچسپی کے باعث یہ معاملہ اگلے سال تک کے لیے ٹال دیاجاتا ہے ، موجودہ حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے تین سال صوبائی سینئر وزیر بشیر بلور خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے مقامی علماء کرام کی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کی توثیق اور ان کے اعلان کے مطابق عید کراتے آئے ہیں اور اب اپنے پانچویں سال بھی انہوں نے ایسا ہی کیا ہے تاہم درمیان میں چوتھے سال صوبائی حکومت نے اس حوالے سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا اور یہ اعلان کسی اور نے نہیں بلکہ خود وزیراعلیٰ نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کیا تھا ۔تاہم اب پانچویں سال حکومت ایک مرتبہ پھر اس حوالے سے آگے بڑھی ہے کیونکہ عام انتخابات نزدیک آگئے ہیں اور صوبہ میں اپنے ووٹروں کے مزاج اور خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھنا ضروری سمجھا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں