مصالحت کا راستہ یا قربانی کی تیاری
عوام نجات کاراستہ تلاش کررہے ہیں لیکن کیا حزب اختلاف کی جماعتیں منظم مزاحمتی تحریکیں شروع کرسکیں گے۔
عجیب بکھری ہوئی حکومت ہے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے قمری کلینڈر رائج کردیا اور عیدکی تاریخ کا اعلان بھی کردیا۔خیبر پختون خوا کی حکومت نے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ مفتی منیب نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس بلایا اور عید کے چاند کا اعلان کردیا۔
صوبہ خیبر پختون خوا میں بہت سے لوگوں کے 28 روزے ہوئے اور ملک میں دو عیدیں ہوئیں ،یوں عملی طور پر پاکستان میں تفریق پیدا ہوئی۔گزشتہ نو ماہ کی پالیسیوں کی نتیجے میں مہنگائی کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ڈالرکی قیمت ایک سو باون سے اوپر چلی گئی ہے۔
بھارت سمیت دنیا بھر میں تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی ، مگر حکومت پاکستان نے پٹرول،مٹی کا تیل اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کردیا۔ اس سے پہلے بجلی اور گیس کے نرخ پہلے ہی بڑھائے جا چکے تھے۔ مہنگائی سے عوام کی کمر ٹوٹ گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عید کے موقع پر خریداروں کی تعداد کم ہوگئی۔ اگرچہ ٹی وی چینلز نے بازاروں کی رونق کو اپنے پروگراموں میں خوب ابھارا مگر معاشی اعداد وشمار سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ اس بار عید کے موقعے پر چالیس فیصد عیدکی خریداری میں کمی واقع ہوئی ہے۔
لاہور، انجمن تاجران کے صدر نے ایک بیان میں کہاکہ خریداروں کے دستیاب نہ ہونے سے دکاندار سال کی اہم ترین کمائی سے محروم ہوگئے ہیں۔چالیس فیصد خریداروں کے غائب ہونے سے صرف دکاندار ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ جوتے ،کپڑے ،کھانے پینے حتیٰ کہ چشمہ بنانے والی صنعتوںکو شدید دھچکا لگا ۔ ان صنعتوں کی مصنوعات کا بیشتر حصہ عید کے تہوار کے موقعے پر خرچ ہوتا ہے ۔پھر بجٹ نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔ اسی دوران حکومت نے سپریم کورٹ کے فاضل جج قاضی فائز عیسی کو عدلیہ سے خارج کرنے کے لیے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا۔ یوں وکلا برادری نے احتجاج شروع کردیا اگرچہ وکلا اس مسئلے پر دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
نیب کے سربراہ جسٹس(ر) جاوید اقبال نے سابق صدر آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کیے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی عبوری ضمانتوں کی درخواست مسترد کردی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کے بارے میں وفاقی حکومت کے کئی وزراء پیشن گوئی کررہے تھے کہ وہ جیل جانے والے ہیں۔آصف زرداری نے اپنی گرفتاری کے پیش نظر مسلم لیگ کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کی تھی اور بلاول بھٹو نے مریم نواز اور میاں نوازشریف سے رابطے کیے تھے۔ بلاول کی دعوت پر حزب اختلاف کے رہنماء افطار پارٹی میں جمع ہوئے تھے۔
یہ افطار پارٹی حزب اختلاف کے لیے آیندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کا بہت اچھا موقع تھا مگر شاید بلاول اور مریم کو علیحدہ علیحدہ غیب سے ملنے والی مدد کی امید تھی یوں یہ افطار پارٹی کوئی واضع لائحہ عمل اختیار نہیں کرسکی اور معاملہ گول میز کانفرنس کے انعقاد پر تھم گیا۔اس دوران مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی نے لوگوں کو مہنگائی کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے بڑے بڑے جلسے کیے مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ عوام کو متحرک کرنے کی جانب مائل نہیں ہوئی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ گزشتہ ستر سال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ برسراقتدار حکومتیں بجٹ پیش کرنے سے پہلے حزب اختلاف کے ساتھ نرم رویہ اختیارکرتی ہیںاور کوشش کرتی ہیں کہ حزب اختلاف کے اراکین کی ترقیاتی اسکیمیں بھی بجٹ میں شامل کر لی جائیں تاکہ بجٹ کے موقعے پر ایوان میں سکون رہے۔
اس طرح حکومت معاشرے کے تمام طبقات کے لیے کچھ نہ کچھ مراعات کا اعلان کرتی رہتی ہے تاکہ کسی قسم کی ایجی ٹیشن کے امکانات کو روکا جا سکے۔تاریخ شاید ہے کہ کئی بار حزب اختلاف کے قائدین نے اپنی خواہش کے باوجود کسی قسم کے ایجی ٹیشن کی کوشش کی بھی تو حزب اقتدار کے مثبت رویے نے اسے ناکام بنا دیا۔ سترکی دہائی میں پیپلز پارٹی کا شمار سندھ ، پنجاب اور خیبر پختون خوا کی منظم جماعتوں میں ہوتا تھا۔پیپلز پارٹی کے مزدوروں، کسانوں ،طلبا اور دانشوروں کے ونگ خاصے فعال تھے۔
یوں پیپلز پارٹی حکومتوں کے خلاف تحریک منظم کرنے میں بنیادی کردار اداکرتی تھی۔جنرل یحییٰ کے خلاف تحریک میں پیپلز پارٹی نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے ضیا ء کی آمریت کے خلاف تاریخی مزاحمت کی تھی۔پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو کی جان بچانے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے۔ہزاروں کارکنوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیںاور سیکڑوں کارکنوں کو کوڑے مارے گئے۔یوں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے میاں شہباز شریف کے دونوں ادوار حکومت میں اپنا مزاحمتی کردار زندہ رکھا۔
پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ بے نظیر بھٹو اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے جب 2007ء میں کراچی ایئرپورٹ پر پہنچی تھیں تو لاکھوں کی تعداد میں جیالے ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔کارساز کے قریب دھماکے میں کئی کارکن جاںبحق ہوئے تھے ان میں سے کئی ایک کی شناخت بھی نہیں ہوسکی تھی اور گڑھی خدا بخش میں آج بھی ان کی قبریں موجود ہیں۔مگر 2008ء میں پیپلز پارٹی اگرچہ وفاق اور سندھ میں اقتدار میں آئی مگر پیپلز پارٹی میں سیاسی کلچر ختم ہونا شروع ہوگیا۔2018ء کے انتخابات سے پہلے بلاول بھٹو نے پنجاب اور سندھ میں پرانے کارکنوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی جس کے خاطرخواہ نتائج سامنے آئے۔
مسلم لیگ ہمیشہ ایک روایتی کلچر کا شکار رہی ہے۔مسلم لیگ کی قیادت نے ہمیشہ جوڑ توڑکی سیاست کے ذریعے سے معاملات طے کیے ہیں، مگر میاں نواز شریف نے اپنے انٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے سے مسلم لیگ کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی یوں مسلم لیگی کارکن بہت زیادہ متحرک ہوئے۔ مریم نواز ایک نئے کردار کے ساتھ سیاسی افق پر نمودار ہوئیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر موثر انداز میں اپنا بیانیہ پھیلایا اور جلسوں میں گرما دینے والی تقاریر کیں جس سے فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو کی جھلک نظرآنے لگی، مگر نواز شریف کو دوبارہ جیل ہوگئی اور قیادت میاں شہباز شریف کے ہاتھ میں آگئی ۔میاں شہباز شریف جس طرح پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف دھاڑتے تھے ان کی وہ آواز شاید کہیں کھوگئی ہے۔مریم نواز اب دوبارہ فعال ہوگئی ہیں اورانھوں نے ایک بار پھر کارکنوں کو فعال کرنا شروع کردیا ہے۔
جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن 2018ء کے انتخابات کے فورا بعد سے ہی حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر زور دیتے رہے ہیں ۔اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یارولی نے مہنگائی کے خلاف عوام کے بڑے اجتماعات جمع کیے ہیں۔ آصف زرداری اور حمزہ شہبازکی گرفتاری کے بعد اس بات کے امکانات ہیں کہ مسلم لیگ کے اور رہنما بھی گرفتار ہوجائیں گے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے نیب کے ذریعے حزب اختلاف کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی ۔اب ایک طرف حکومت ہے جس سے عوام مایوس ہیں اور دوسری طرف نیب زدہ حزب اختلاف ہے ۔عوام نجات کاراستہ تلاش کررہے ہیں لیکن کیا حزب اختلاف کی جماعتیں منظم مزاحمتی تحریکیں شروع کرسکیں گے اس کا جواب پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ کی قیادت ہی دے سکتی ہے کہ وہ اب بھی مصالحت کا راستہ اختیارکریں گی یا پھر قربانیوں کے لیے تیار ہوجائیں گی۔
صوبہ خیبر پختون خوا میں بہت سے لوگوں کے 28 روزے ہوئے اور ملک میں دو عیدیں ہوئیں ،یوں عملی طور پر پاکستان میں تفریق پیدا ہوئی۔گزشتہ نو ماہ کی پالیسیوں کی نتیجے میں مہنگائی کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ڈالرکی قیمت ایک سو باون سے اوپر چلی گئی ہے۔
بھارت سمیت دنیا بھر میں تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی ، مگر حکومت پاکستان نے پٹرول،مٹی کا تیل اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کردیا۔ اس سے پہلے بجلی اور گیس کے نرخ پہلے ہی بڑھائے جا چکے تھے۔ مہنگائی سے عوام کی کمر ٹوٹ گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عید کے موقع پر خریداروں کی تعداد کم ہوگئی۔ اگرچہ ٹی وی چینلز نے بازاروں کی رونق کو اپنے پروگراموں میں خوب ابھارا مگر معاشی اعداد وشمار سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ اس بار عید کے موقعے پر چالیس فیصد عیدکی خریداری میں کمی واقع ہوئی ہے۔
لاہور، انجمن تاجران کے صدر نے ایک بیان میں کہاکہ خریداروں کے دستیاب نہ ہونے سے دکاندار سال کی اہم ترین کمائی سے محروم ہوگئے ہیں۔چالیس فیصد خریداروں کے غائب ہونے سے صرف دکاندار ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ جوتے ،کپڑے ،کھانے پینے حتیٰ کہ چشمہ بنانے والی صنعتوںکو شدید دھچکا لگا ۔ ان صنعتوں کی مصنوعات کا بیشتر حصہ عید کے تہوار کے موقعے پر خرچ ہوتا ہے ۔پھر بجٹ نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔ اسی دوران حکومت نے سپریم کورٹ کے فاضل جج قاضی فائز عیسی کو عدلیہ سے خارج کرنے کے لیے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا۔ یوں وکلا برادری نے احتجاج شروع کردیا اگرچہ وکلا اس مسئلے پر دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
نیب کے سربراہ جسٹس(ر) جاوید اقبال نے سابق صدر آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کیے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی عبوری ضمانتوں کی درخواست مسترد کردی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کے بارے میں وفاقی حکومت کے کئی وزراء پیشن گوئی کررہے تھے کہ وہ جیل جانے والے ہیں۔آصف زرداری نے اپنی گرفتاری کے پیش نظر مسلم لیگ کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کی تھی اور بلاول بھٹو نے مریم نواز اور میاں نوازشریف سے رابطے کیے تھے۔ بلاول کی دعوت پر حزب اختلاف کے رہنماء افطار پارٹی میں جمع ہوئے تھے۔
یہ افطار پارٹی حزب اختلاف کے لیے آیندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کا بہت اچھا موقع تھا مگر شاید بلاول اور مریم کو علیحدہ علیحدہ غیب سے ملنے والی مدد کی امید تھی یوں یہ افطار پارٹی کوئی واضع لائحہ عمل اختیار نہیں کرسکی اور معاملہ گول میز کانفرنس کے انعقاد پر تھم گیا۔اس دوران مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی نے لوگوں کو مہنگائی کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے بڑے بڑے جلسے کیے مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ عوام کو متحرک کرنے کی جانب مائل نہیں ہوئی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ گزشتہ ستر سال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ برسراقتدار حکومتیں بجٹ پیش کرنے سے پہلے حزب اختلاف کے ساتھ نرم رویہ اختیارکرتی ہیںاور کوشش کرتی ہیں کہ حزب اختلاف کے اراکین کی ترقیاتی اسکیمیں بھی بجٹ میں شامل کر لی جائیں تاکہ بجٹ کے موقعے پر ایوان میں سکون رہے۔
اس طرح حکومت معاشرے کے تمام طبقات کے لیے کچھ نہ کچھ مراعات کا اعلان کرتی رہتی ہے تاکہ کسی قسم کی ایجی ٹیشن کے امکانات کو روکا جا سکے۔تاریخ شاید ہے کہ کئی بار حزب اختلاف کے قائدین نے اپنی خواہش کے باوجود کسی قسم کے ایجی ٹیشن کی کوشش کی بھی تو حزب اقتدار کے مثبت رویے نے اسے ناکام بنا دیا۔ سترکی دہائی میں پیپلز پارٹی کا شمار سندھ ، پنجاب اور خیبر پختون خوا کی منظم جماعتوں میں ہوتا تھا۔پیپلز پارٹی کے مزدوروں، کسانوں ،طلبا اور دانشوروں کے ونگ خاصے فعال تھے۔
یوں پیپلز پارٹی حکومتوں کے خلاف تحریک منظم کرنے میں بنیادی کردار اداکرتی تھی۔جنرل یحییٰ کے خلاف تحریک میں پیپلز پارٹی نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے ضیا ء کی آمریت کے خلاف تاریخی مزاحمت کی تھی۔پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو کی جان بچانے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے۔ہزاروں کارکنوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیںاور سیکڑوں کارکنوں کو کوڑے مارے گئے۔یوں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے میاں شہباز شریف کے دونوں ادوار حکومت میں اپنا مزاحمتی کردار زندہ رکھا۔
پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ بے نظیر بھٹو اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے جب 2007ء میں کراچی ایئرپورٹ پر پہنچی تھیں تو لاکھوں کی تعداد میں جیالے ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔کارساز کے قریب دھماکے میں کئی کارکن جاںبحق ہوئے تھے ان میں سے کئی ایک کی شناخت بھی نہیں ہوسکی تھی اور گڑھی خدا بخش میں آج بھی ان کی قبریں موجود ہیں۔مگر 2008ء میں پیپلز پارٹی اگرچہ وفاق اور سندھ میں اقتدار میں آئی مگر پیپلز پارٹی میں سیاسی کلچر ختم ہونا شروع ہوگیا۔2018ء کے انتخابات سے پہلے بلاول بھٹو نے پنجاب اور سندھ میں پرانے کارکنوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی جس کے خاطرخواہ نتائج سامنے آئے۔
مسلم لیگ ہمیشہ ایک روایتی کلچر کا شکار رہی ہے۔مسلم لیگ کی قیادت نے ہمیشہ جوڑ توڑکی سیاست کے ذریعے سے معاملات طے کیے ہیں، مگر میاں نواز شریف نے اپنے انٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے سے مسلم لیگ کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی یوں مسلم لیگی کارکن بہت زیادہ متحرک ہوئے۔ مریم نواز ایک نئے کردار کے ساتھ سیاسی افق پر نمودار ہوئیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر موثر انداز میں اپنا بیانیہ پھیلایا اور جلسوں میں گرما دینے والی تقاریر کیں جس سے فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو کی جھلک نظرآنے لگی، مگر نواز شریف کو دوبارہ جیل ہوگئی اور قیادت میاں شہباز شریف کے ہاتھ میں آگئی ۔میاں شہباز شریف جس طرح پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف دھاڑتے تھے ان کی وہ آواز شاید کہیں کھوگئی ہے۔مریم نواز اب دوبارہ فعال ہوگئی ہیں اورانھوں نے ایک بار پھر کارکنوں کو فعال کرنا شروع کردیا ہے۔
جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن 2018ء کے انتخابات کے فورا بعد سے ہی حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر زور دیتے رہے ہیں ۔اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یارولی نے مہنگائی کے خلاف عوام کے بڑے اجتماعات جمع کیے ہیں۔ آصف زرداری اور حمزہ شہبازکی گرفتاری کے بعد اس بات کے امکانات ہیں کہ مسلم لیگ کے اور رہنما بھی گرفتار ہوجائیں گے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے نیب کے ذریعے حزب اختلاف کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی ۔اب ایک طرف حکومت ہے جس سے عوام مایوس ہیں اور دوسری طرف نیب زدہ حزب اختلاف ہے ۔عوام نجات کاراستہ تلاش کررہے ہیں لیکن کیا حزب اختلاف کی جماعتیں منظم مزاحمتی تحریکیں شروع کرسکیں گے اس کا جواب پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ کی قیادت ہی دے سکتی ہے کہ وہ اب بھی مصالحت کا راستہ اختیارکریں گی یا پھر قربانیوں کے لیے تیار ہوجائیں گی۔