مولانا عبید اللہ سندھی

برصغیر کے نابغۂ روزگار عالم اور عظیم انقلابی۔

برصغیر کے نابغۂ روزگار عالم اور عظیم انقلابی۔ فوٹو: فائل

برصغیر کے مسلمانوں کی ایک صدی کی تہذیبی، ثقافتی ، فکری اور مذہبی تاریخ کا بہ نظر غائر مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مغلوں کے زوال اور انگریزوں کی آمد کے بعد ہی سے مسلمانوں کے زوال کا دور شروع ہوجاتا ہے۔

انگریزوں نے اپنی غلامی کے دور میں مسلمانوں کو تہذیبی، ثقافتی، سماجی اور معاشرتی لحاظ سے انتہائی بے دردی سے کچلا۔ ایسے میں برصغیر کے مسلمانوں نے انگریز سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مسلمانوں کے عظیم راہ نمائوں سرسید احمد خان، شاہ ولی اللہ، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر، مولانا شبلی نعمانی، مولانا الطاف حسین حالی، مولانا ظفر علی خان، قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال جیسے عظیم راہ نمائوں نے اپنی علمی بصیرت اور مسلسل جدوجہد سے برصغیر کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا اور مسلمانوں کا تشخص اجاگر کیا۔

یوں تو انسانی تاریخ میں بے شمار شخصیات نے اپنے افکارو نظریات کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں تاہم کچھ ہستیاں ایسی بھی پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنے فکر و فلسفہ سے نہ صرف کروڑوں افراد کے قلوب و اذہان کو متاثر کیا بلکہ اپنے عزم و ارادے اور کردار کی پختگی سے اپنے نظریات کو کام یابی و کام رانی سے ہمکنار ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ یہاں تک کہ تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔ انہی میں امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی شامل ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ مولانا عبیداللہ اپنے نام ساتھ اضافی طور پر سندھی لگاتے تھے، لیکن وہ سندھ کے رہنے والے نہیں تھے، بلکہ ان کا تعلق سیالکوٹ سے تھا اور ان کی مادری زبان پنجابی تھی۔ مولانا تحریک آزادی ہند کے سرگرم کارکن تھے۔ ہندوستان میں برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے سیاسی طور پر سرگرداں رہے۔

امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی 12محرم الحرام1289ھ بروز جمعۃ المبارک کو سیالکوٹ کے قریب ایک گائوں چیانوالی کے ایک سِکھ گھرانے میں اپنے والد رام سنگھ کی وفات کے چار ماہ بعد پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام پریم کور تھا۔ والد کی وفات کی وجہ سے ان کی پرورش کی ذمہ داری ان کے دادا کے ذمہ آگئی۔ انہوں نے اپنے پوتے کا نام بوٹا سنگھ رکھا مگر جلدی دادا کا سہارا بھی سر سے اٹھ گیا۔ ان کے خاندان کا اصلی پیشہ زرگری تھا لیکن کافی عرصے سے ایک حصہ سرکاری ملازمت میں شامل رہا اور بعض افراد ساہوکارہ بھی کرتے رہے۔ دادا کی وفات کے بعد مولانا کی والدہ نے بیٹے کے ساتھ اپنے بھائیوں بڑھا سنگھ اور سدھا سنگھ کے یہاں سکونت اختیار کرلی۔ یہ دونوں جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں پٹواری تھے۔ 1878ء میں چھے سال کی عمر میں جام پور میں تعلیم کا آغاز ہوا۔ آپ نے اپنے تعلیمی عرصے میں ریاضی، الجبرا، اقلیدس اور تاریخ ہند سے متعلق علوم بڑی دل چسپی سے پڑھے۔

اسکول میں بوٹا سنگھ کی دوستی ایک آریا سماجی طالب علم سے ہوگئی۔ بوٹا سنگھ نے ایک دن اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تحفۃ الہند دیکھی۔ بوٹا سنگھ نے یہ کتاب اپنے دوست سے حاصل کی۔ 1884ء میں بارہ سال کی عمر میں ایک نو مسلم عالم عبیداللہ کی کتاب ''تحفۃ الہند'' پڑھی اس کے مسلسل مطالعے میں مصروف رہے اور بہ تدریج اسلام کی صداقت پر یقین بڑھتا گیا۔ ان کے پرائمری اسکول (کوٹلہ مغلاں) کے چند ہندو دوست بھی مل گئے جو ان کی طرح تحفۃ الہند کے گرویدہ تھے۔ انہیں کے توسط سے شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے شاہ اسماعیل شہید کی لکھی ہوئی کتاب ''تقویۃ الایمان'' ملی۔

یہ کتاب پڑھ کر بوٹا سنگھ  کے دل میں اسلام کے بارے میں مزید مطالعہ کی لگن پیدا ہوئی۔ اس نے تیسری کتاب ''احوال الاخرۃ'' کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب سے بوٹا سنگھ کے دل میں عقیدۂ آخرت کی صداقت کھل گئی۔ اب اس کے دل میں اسلام قبول کرنے کا خیال پیدا ہوگیا۔ انہیں اس کے مطالعے سے اسلامی توحید اور شرک اچھی طرح سمجھ میں آگیا۔ اس طرح انہوں نے نماز سیکھ لی اور اپنا نام ''تحفۃ الہند'' کے مصنف کے نام پر عبیداللہ خود تجویز کیا۔ ''احوال الاخرۃ'' کا بار بار مطالعہ اور ''تحفۃ الہند'' کا وہ حصہ جس میں نو مسلموں کے حالات لکھے ہیں یہی دو چیزیں مولانا عبیداللہ سندھی کے لیے جلد اظہار اسلام کا باعث بنیں، ورنہ اصلی ارادہ یہ تھا کہ جب کسی ہائی اسکول میں اگلے سال تعلیم کے لیے جائوں گا تو اس وقت اظہار اسلام کروں گا۔

15اگست 1887ء کو کوٹلا مغلاں کے ایک دوست عبدالقادر کے ساتھ دونوں عربی مدرسہ کے ایک طالب علم کے ساتھ کوٹلہ رحم شاہ ضلع مظفر گڑھ میں پہنچے۔ 9ذی الحجہ 1304ھ کو سنت تطہیر ادا ہوئی۔ اس کے چند روز بعد جب رشتے دار تعاقب کرنے لگے تو مولانا سندھ کی طرف روانہ ہوگئے۔ عربی کی کتابیں راستہ میں اسی طالب علم سے پڑھنا شروع کردی تھیں۔ 1888ء میں سندھ میں حضرت حافظ محمد صدیقی صاحب (بھرچونڈی والے) جو اپنے وقت کے جیّد اور سیدالعارفین تھے، چند ماہ ان کی صحبت میں رہے۔ اس سے مولانا کی اسلامی معاشرت طبیعت ثانیہ بن گئی جس طرح ایک پیدائشی مسلمان کی ہوتی ہے۔

حافظ محمد صدیقی صاحب نے عبیداللہ کو بڑی محبت دی۔ بہت عزت افزائی کی۔ ایک روز حافظ محمد صدیقی صاحب نے اپنے مریدوں کو جمع کیا اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عبیداللہ نے اللہ کے لیے ہم کو اپنا ماں باپ بنایا ہے اور اسلام کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑا ہے۔ آج سے میں عبیداللہ کو اپنا بیٹا بناتا ہوں۔ میری اولاد نہیں، یہی میری اولاد ہے۔ یہ بات عبیداللہ کے دل پر اثر کرگئی، اسی دن سے عبیداللہ صدیقی صاحب کو اپنا دینی باپ سمجھنے لگے۔

اسی مجلس میں عبیداللہ نے اعلان کیا کہ میں آج کے بعد اپنے مرشد کے حوالے سے اپنے آپ کو سندھی کہلائوں گا۔ اس طرح عبیداللہ سندھی کہلانے لگے۔ آج دنیا اسی عبیداللہ کو مولانا عبیداللہ سندھی کے نام سے یاد کرتی ہے اور محض اس لیے سندھ کو مستقل وطن بنایا۔ عبیداللہ سندھی نے حضرت صاحب سے قادری راشدی طریقہ میں بیعت کرلی تھی۔ ایک روز مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنے مرشد حافظ محمد صدیق سے عرض کی کہ میں نے آپ کی خدمت میں رہ کر سلوک و تصوف کا درس لیا ہے۔ آپ کی صحبت نے میرے دل کی دنیا بدل دی ہے۔ اب میرا دل علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل کرنے کی طرف راغب ہورہا ہے تاکہ مجھے دیگر دینی علوم کا پتا چلے۔

ان کے مرشد خوش ہوئے، ان کے مرشد نے کہا کہ برصغیر میں دینی علوم کی بہت بڑی درسگاہ دارالعلوم دیوبند ہے، پوری دنیا سے لوگ دینی علوم حاصل کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں، اگر تم بھی دینی علوم سے مالامال ہونا چاہتے ہو تو دارالعلوم دیوبند جاکر علم دین سیکھو۔ عبیداللہ سندھی نے دارالعلوم دیوبند جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ تین چار ماہ بعد میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے طالب علمی کے لیے رخصت ہوئے۔ ان کے مرشد نے جاتے وقت عبیداللہ سندھی کو دعا دی کہ ''خدا کرے کہ عبیداللہ کا کسی راسخ عالم سے پالا پڑے'' خدا نے مرشد کی دعا سن لی اور انہیں حضرت مولانا شیخ الہند کی خدمت میں پہنچادیا۔ بھرچونڈی سندھ اپنے مرشد حافظ محمد صدیق سے رخصت ہوکر ریاست بہاولپور کی دیہاتی مسجد پہنچے۔ وہاں پہنچ کر ابتدائی کتابیں پڑھیں۔

اسی نقل و حرکت میں دین پور سیدالعارفین کے خلیفۂ اول ابوالسراج غلام محمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہاں پہنچ کر ہدایتہ النحو تک کتابیں مولوی عبدالقادر صاحب سے پڑھیں۔ اس دوران حضرت خلیفہ صاحب نے عبیداللہ کی والدہ کو خط لکھوایا۔ وہ وہاں پہنچ گئیں اور عبیداللہ کو واپس جانے کے لیے بہت زور لگایا مگر مولانا ثابت قدم رہے۔ شوال 1305ھ میں دین پور متصل خان پور سے کوٹلہ رحم شاہ پہنچے اور مولوی خدابخش صاحب سے کافیہ پڑھا۔ یہیں مولانا عبیداللہ کو ایک نووارد طالب علم سے ہندوستانی مدارس عربیہ کا حاصل معلوم ہوا۔ اس کے بعد عبیداللہ اسٹیشن مظفر گڑھ سے ریل پر سوار ہوکر سیدھے دیوبند پہنچ گئے۔

اس طرح مولانا عبیداللہ صفر 1306ھ کو دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوگئے ۔ تقریباً پانچ مہینے منطق کے رسائل متفرق اساتذہ اور شرح جامی مولانا حکیم محمد حسن صاحب سے پڑھی۔ ایک فاضل استاد کی مہربانی سے طریقۂ مطالعہ سیکھ لیا۔ یوں مولانا عبیداللہ محنت و لگن سے ترقی کا راستہ کھل گیا۔ حکمت و منطق کی کتابیں جلدی ختم کرنے کے لیے چند ماہ کے لیے مولانا احمد حسن کانپوری کے مدرسے میں چلے گئے اور پھر چند ماہ مدرسہ عالیہ رام پور میں رہ کر مولوی ناظر الدین صاحب سے کتابیں پڑھ لیں۔ اس طرح صفر 1307ھ کو پھر دیوبند واپس آگئے۔ دیوبند میں دو تین مہینے تک مولانا حافظ احمد صاحب سے پڑھتے رہے۔ اس کے بعد مولانا شیخ الہند ؒ کے درس میں شامل ہوگئے۔ 1307ھ میں ہدایہ، تلویح، مطول ، شرح عقائد، مسلم الثبوت میں امتحان دیا اور امتیازی نمبروں سے کام یاب ہوئے۔ مولانا سید احمد صاحب دہلوی مدرس اول نے مولانا عبیداللہ کے جوابات کی بہت تعریف کی۔ فرمایا ''اگر اس کو کتابیں ملیں تو یہ شاہ عبدالعزیز ثانی ہوگا۔''

مولانا عبیداللہ سندھی کو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی اور امام ابوحنیفہ ؒ کو بھی خواب میں دیکھا۔ رمضان شریف میں اصول فقہ کا ایک رسالہ لکھا، جسے شیخ الہند نے پسند فرمایا۔ اس میں بعض مسائل اس طرح تحریر کیے جن میں جمہور اہل علم کے خلاف محققین کی رائے کو ترجیح دی تھی۔ مثلا تاویل المتشابہات ناممکن الحصول نہیں، بلکہ راسخین فی العلم و ہبی علم سے جانتے ہیں۔ جامع ترمذی مولانا شیخ الہندؒ سے پڑھی اور سنن پہنچے۔ عبیداللہ بیمار ہوکر گنگوہ سے دہلی چلے آئے۔ حکیم محمود خان کے علاج سے فائدہ ہوا۔ حدیث کی باقی کتابیں مولوی عبدالکریم صاحب پنجابی دیوبندی سے جلدی جلدی ختم کرلیں۔ مولانا عبیداللہ نے سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ چار چار دن میں پڑھ لیں۔ مولوی عبدالکریم صاحب، حضرت مولانا قاسم اور حضرت مولانا رشیداحمد کے غیر معروف محقق شاگرد تھے۔ دہلی میں قیام کے دوران دو دفعہ مولانانذیر حسین صاحب کی خدمت میں گئے۔

صحیح بخاری اور جامع ترمذی میں دو سبق بھی سنے۔ مولانا عبیداللہ سندھی 20جمادی الثانیہ1308ھ کو دہلی سے سیدھے بھرچونڈی سندھ ضلع سکھر پہنچے۔ مولانا عبیداللہ کے مرشد ان کے آنے سے دس دن قبل وفات پاچکے تھے۔ رجب 1308ھ میں حضرت شیخ الہندؒ مولانا محمود الحسنؒ نے مولانا کو اجازت نامہ تحریر فرماکر بھیج دیا۔ شوال 1308ھ سے سیدالعارفین بھرچونڈی سندھ کے دوسرے خلیفہ مولانا ابوالحسن تاج محمود صاحب کے پاس امروٹ ضلع سکھر پہنچے۔ انہوں نے اپنے مرشد کا وعدہ پورا کیا۔ ان کا نکاح سکھر کے اسلامیہ اسکول کے ماسٹر مولوی محمد عظیم خاں یوسف زئی کی لڑکی سے کرادیا۔ ان کی والدہ کو بھی بلایا۔ ان کی والدہ آخر تک مولانا کے طرز زندگی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتی رہیں۔ امروٹ میں کتب حدیث و تفسیر کی درس و تدریس اور مطالعہ کتب میں مصروف رہے۔


گوٹھ پیر جھنڈا ضلع حیدرآباد میں راشدی طریقے کے پیر صاحب العلم الثالث پیر رشیدالدین کے پاس علوم دینیہ کا کتب خانہ تھا۔ مولانا دوران مطالعہ یہاں جاتے رہے اور کتابیں مستعار بھی لاتے رہے۔ مولانا کے تکمیل مطالعہ میں اس کتب خانہ کے فیض کا بڑا دخل تھا۔ اس کے علاوہ عبیداللہ مولانا رشید الدین صاحب العلم الثالث کی صحبت سے مستفید ہوئے۔ عبیداللہ نے ان سے ذکر اسماء الحسنٰی سیکھا۔ پیر رشیدالدین دعوت توحیدوجہاد کے ایک مجدد تھے۔ پھر حضرت مولانا ابوالتراب رشیداللہ صاحب العلم الرابع سے علمی صحبتیں رہیں۔ یہ علم حدیث کے بڑے جید عالم اور صاحب تصنیف تھے۔

ان کے ساتھ قاضی فتح محمد صاحب کی علمی صحبت بھی ہمیشہ رہی۔ مولانا عبیداللہ فقہ و حدیث کی تحقیق میں اور قرآن کی تفسیر میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب دیوبندی سے شروع کرکے امام ولی اللہ دہلوی تک سلسلۂ علماء ان کے رہبر بنے۔ ان کو اپنا امام بنایا۔ مولانا عبیداللہ اسلان کی فلاسفی کو اچھی طرح سمجھنے لگے۔ مولانا نے دہلی میں قبلہ نما کا مطالعہ کیا تھا۔ حدیث کی تحقیق میں حتجہ اللہ البالغہ کا تعارف مولانا شیخ الہندؒ نے کرایا۔ مولانا عبیداللہ میں سیاسی میلان دوران مطالعہ مولانا اسماعیل شہید کی سوانح عمری پڑھ کر پیدا ہوگیا تھا۔ اسلامی مطالعے کی ابتدا سے عبیداللہ کا قلبی تعلق مولانا اسماعیل شہید سے پیدا ہوچکا تھا۔ دیوبند کی طالب علمی نے بہت سے واقعات اور حکایات سے عبیداللہ سندھی کو آشنا کردیا تھا۔ مولانا عبدالکریم دیوبندی نے سقوط دہلی کی تاریخ آنکھوں دیکھی بتادی تھی۔

مولانا اسماعیل شہید کے مکتوبات میں سے ایک مضمون لے کر انہوں نے اپنا مختصر سیاسی پروگرام بنایا۔ وہ اسلامی اور انقلابی تھا۔ مولانا عبیداللہ نے حجتہ اللہ پڑھنے والی جماعت کو اس میں شامل کرلیا اور اس طرح اپنے خیال کے موافق آہستہ آہستہ کام کرنا شروع کردیا۔ 1315ھ میں عبیداللہ دیوبند پہنچے۔ اپنے ساتھ اپنے مطالعہ کا نمونہ دو رسالے لکھ کر ساتھ لے گئے۔ ایک علم حدیث پر اور دوسرا فقہ حنفی پر۔ مولانا عبیداللہ کے تعلیمی اور سیاسی تمام مشاغل حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ سے وابستہ رہے۔ امروٹ واپس آکر مطبع قائم کیا اور دو سال تک درس و تدریس چلایا۔ یہاں عبیداللہ سندھی نے بعض عربی و سندھی نایاب کتابیں طبع کیں اور ایک ماہوار رسالہ ہدایت الاخوان نکالا۔1327ھ 1909ء میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ نے دیوبند طلب فرمایا اور مفصل حالات سن کر دیوبند میں رہ کر کام کرنے کا حکم دیا۔

آپ نے ''جمعیت الاانصار'' قائم کی جس میں دارالعلوم دیوبند کے فاضلیں کی تعلیم و تربیت کا نظام اور تحریک حریت پیدا کرنے کے لیے اجلاسات منعقد کیے گئے۔ اس جمعیت کی تحریک تاسیس میں مولانا محمد صادق صاحب سندھی اور مولانا ابو محمد احمد لاہوری اور مولوی احمد علی عبیداللہ کے ساتھ رہے۔ شیخ الہند ؒ کے کہنے پر آپ دیوبند سے دہلی منتقل ہوگئے۔1331ھ ،1913ء میں آپ نے قرآن حکیم کی تفسیر ''الفوزالکبیر'' کے اصولوں کی روشنی میں سمجھانے کے لیے دہلی میں ''نظارۃ المعاوف القرآنیہ'' کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کی سر پرستی حضرت شیخ الہند حکیم اجمل خاں اور نواب وقار الملک نے کی۔

شیخ الہند نے دہلی پہنچ کر مولانا عبیداللہ سندھی کو نوجوان طاقت سے ملایا۔ یہاں ان کا تعارف ڈاکٹر انصاری سے کرایا اور ڈاکٹر انصاری نے عبیداللہ سندھی کو مولانا ابوالکلام آزاد اور محمد علی مرحوم سے ملایا۔ 1333ھ، 1915ء میں عبیداللہ حضرت شیخ الہند کے حکم سے کابل جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ سات سال کابل میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران آپ نے ایک جماعت ''جنوداللہ الربانیہ'' کے نام سے قائم کی جو ہندوستان، افغانستان کی آزادی کے لیے جدوجہد اور کوشش کرتی رہی۔ 1916ء میں کابل میں ''عبوری حکومت ہند'' قائم کی اور اس کے وزیرخارجہ کے طور پر کام کرتے رہے۔

1922ء میں آپ نے ''کانگریس کمیٹی کابل'' بنائی اور اس کے صدر مقرر ہوئے جس کا الحاق انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے اجلاس منعقدہ ''گیا'' میں منظور کیا۔ 1923ء میں ترکی جانے کے لیے براستہ روس روانہ ہوئے۔ اس دوران سوشلزم کا مطالعہ اپنے نوجوان رفیقوں کی مدد سے کرتے رہے۔ سوویت روس نے آپ کو اپنا معزز مہمان بنایا اور مطالعے کے لیے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائیں۔ اس دوران ماسکو میں سات ماہ قیام فرمایا اور عصمت پاشا، رئوف بک وغیرہ انقلابی راہ نمائوں، نیز شیخ عبدالعزیز جاویش سے ملاقاتیں ہوئیں۔ استنبول میں تین سال قیام فرماکر یورپ کی تاریخ کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ فرمایا۔ 1924ء میں ہندوستان کے مستقبل کے سیاسی اور معاشی امور کو حل کرنے کے لیے ''آزاد برصغیر کا دستوری خاکہ'' جاری فرمایا۔ استنبول سے اٹلی اور سوئٹزر لینڈ تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ جدید اٹلی اور یورپ کی سیاسیات کا مطالعہ کیا۔

1344ھ ، 1926ء میں مکۃ المکرمہ تشریف لے گئے اور دینی تعلیمات کی روشنی میں قومی جمہوری دور کے تقاضوں کے مطابق ایک پروگرام ترتیب دیا۔ انڈین نیشنل کانگریس، جمعیت علمائے ہند، مسلم لیگ اور دیگر قومی جماعتوں نے حضرت عبیداللہ سندھی کی ہندوستان واپسی کے لیے کوششیں شروع کیں۔ مارچ 1939ء میں ہندوستان کے ساحل پر عبیداللہ سندھی اترے۔ کراچی، لاہور، دیوبند اور دہلی میں ان کا شان دار استقبال کیا گیا۔ قوم کو ان سے اور ان کو قوم سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔ سرزمین حجاز کو چھوڑنے سے پیشتر ہی مولانا نے ہندوستانی پروگرام کے تین حصے کرلیے تھے۔ کانگریس کی ممبری، شاہ ولی اللہ کے فلسفہ کی تلقین اور کانگریس میں اپنی پارٹی کا قیام۔ ہندوستان پہنچنے پر مولانا نے اپنے پروگرام کے تیسرے جزو کو جمنا نربدا سندھ ساگر پارٹی کے نام سے روشناس کیا۔

مولانا عبیداللہ سندھی کی تحریکی زندگی کا اصل رخ اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب دیوبند میں آپ کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ کی صحبت حاصل ہوئی۔ مولانا محمود الحسن ؒ تحریک آزادی کے سرخیل تھے۔ ان کو برصغیر میں انگریزوں کا تسلط قطعاً پسند نہ تھا۔ انہوں نے یہی تڑپ اپنے شاگرد عبیداللہ میں پیدا کی۔ عبیداللہ سندھی کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا اور ان کی زندگی میں بڑے اتار چڑھائو آئے۔ مولانا عبیداللہ سندھی متحدہ ہندوستان میں انگریز سامراج کا تسلط کسی طور پر پسند نہیں کرتے تھے وہ آخری سانس تک اس بات کے لیے کوشاں رہے کہ برصغیر کو انگریزوں سے نجات دلائی جائے۔ مولانا سندھی کا شمار تحریک ریشمی رومال کے مجاہدین اول میں سے ہوتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے ایک زبردست تحریک کا آغاز ہوا جو تاریخ میں تحریک ریشمی رومال کے نام سے موسوم ہے۔ تحریک ریشمی رومال کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ کا نام سرفہرست ہے۔ وہ اپنی تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے لیے ہمہ تن متحرک اور اس کے لیے مستقل منصوبہ بندی کرتے رہتے تھے۔

اس تحریک میں محمود الحسن کے علاوہ مولانا شاہ رحیم رائے پوری، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا محمد صادق ، مولانا محمد میاں منصور انصاری بھی اس تحریک کے بانیوں میں سے تھے۔ ریشمی رومال تحریک دیوبند کی 1913ء سے 1920ء کے درمیان شروع کی گئی۔ اس کا مقصد جرمنی، ترقی اور افغانستان کی مدد سے ہندوستان کو آزاد کرانا تھا۔ مولانا عبیداللہ کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے ایک فورس جنود ربانیہ تشکیل دی تھی جس میں سندھ سے مولانا تاج محمد امروٹی، مولانا محمد صادق کھڈے وارو، شیخ عبدالرحیم سندھی ، علامہ اسد اللہ شاہ ٹھکرالی شامل تھے جنہیں مختلف ذمے داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ ایک دوسرے کو معلومات لکھ کر بھیجی جاتی تھیں۔ رومال پر لکھی تحریر ایک دوسرے تک پہنچانے کے لیے خاص اعتماد کے لوگوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔

اب جمعیت الانصار کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ انگریزوں کے خلاف انقلابی تحریک شروع کردی جائے اور دوسری طرف افغانستان اور ترکی کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ انقلابی تحریک کے دوران ہندوستان پر حملہ کریں جس کے دبائو سے انگریز ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں۔ آپ کے ذمے شیخ الہند کی جانب سے افغانستان لگایا گیا، لہٰذا1915ء میں آپ شیخ الہند کے کہنے پر ہجرت کرکے افغانستان چلے گئے تاکہ جو پلان بنایا گیا ہے اس پر عمل شروع ہوسکے۔ افغانستان اس وقت حکومتوں کو تبدیل کرنے کا مرکز بنا ہوا تھا۔ عبیداللہ سندھی نے وہاں پر حکومت کے اہم اور طاقتور لوگوں سے اور فوج سے اجلاس کرنا شروع کیے۔ اس دوران انہوں نے آزاد ہند جلاوطن حکومت کا اعلان کردیا۔ مولانا عبیداللہ نے ہندوستان پر حملے کرنے کے لیے نقشے تیار کروائے اور سندھ میں انقلابی مراکز قائم کروائے جو ہند تک پھیلے ہوئے تھے۔

مولانا عبیداللہ سندھی نے سعودی عرب میں مقیم حضرت شیخ الہند کے نام ایک خط لال رومال پر لکھا جس میں کابل میں جاری سرگرمیوں اور آزادی کی جدوجہد کا تفصیلی خاکہ اور ان افراد کے نام بھی درج تھے جو ہندوستان میں انگریز حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی قیادت کرنے والے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ ملک کے ہر خطے سے عوامی شورش کے ساتھ مسلح جدوجہد کی جائے۔ اس خط کے ساتھ مولانا محمد میاں انصاری نے بھی ایک خط لگادیا جس میں جلاوطن حکومت کے عہدے داروں کے نام کے ساتھ ساتھ جنود ربانیہ کے آئندہ منصوبوں کا ذکر تھا۔ یہ رومال انہوں نے عبدالخالق نامی شخص کو دے کر روانہ کیا اور حیدرآباد خطوط شیخ عبدالرحیم کے حوالے کیے تاکہ مدینہ منورہ روزانہ کردیے جائیں جب یہ رومال کا پیغام لے کر بندہ ملتان پہنچا تو یہ رومال بدقسمتی سے یہ خطوط رب نواز نامی ایک نومسلم کے ہاتھ لگ گئے جو درحقیقت شیخ الہند کے نو مسلم عقیدت مند کے روپ میں برطانوی حکومت کا جاسوس تھا۔ بعدازاں یہ خطوط ملتان کے برطانوی کمشنر کے پاس بھیج دیے گئے۔

اس سازش کی وجہ سے انگریز سرکار خبردار ہوگئی۔ ریشمی رومال پر مرقوم خط کے پکڑے جانے کے نتیجے میں برطانوی ریکارڈ کے مطابق برطانوی سلطنت کے خلاف بغاوت اور شورش کے جرم میں ملک بھر سے 222 قائد علماء گرفتار کیے گئے، جس کی وجہ سے افغانستان ہندوستان پر حملہ نہیں کرسکا اور پلان ناکام ہوگیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی کو کئی برس تک جلا وطن رہنا پڑا۔ مولانا سندھی کی زندگی الف لیلیٰ سے کم نہیں ہے ان کے کمالات بے شمار ہیں اور ان کی شخصیت طلسماتی تھی۔ ساری زندگی قائد حریت کی حیثیت سے اسلامی اور سیاسی خدمات انجام دیتے رہے۔ آج ہمارے نوجوان اور میڈیا مولانا عبیداللہ کی لازوال قربانیوں کی داستان فراموش کرچکے ہیں لیکن یہ سنہرے لوگ تاریخ میں ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔

مولانا کی زندگی کے آخری پانچ سال اس جدوجہد اور کشمکش میں گزرے۔ 1944ء میں بیماری کے باوجود مولانا عبیداللہ سندھی کراچی سے حیدرآباد، میرپور خاص اور نواب شاہ ہوتے ہوئے گوٹھ پیر جھنڈ مدرسہ دارالرشاد میں قیام فرما ہوئے اور اپنے نامور شاگردوں کو تاریخ، سیاست اور قرآنی علوم و معارف سے آراستہ کرتے رہے۔ انتقال سے دور روز قبل دین پور ریاست بہاولپور تشریف لائے اور پیر دو رمضان المبارک 1363ء ھ21اگست 1944کو وصال فرمایا۔ اللہ تعالیٰ انہیں فردوس بریں میں اپنے الطاف مخصوصہ کی نعمتوں سے مالامال فرمائے آمین۔ مولانا کے ابتدائی زمانے کے رسالے اور تصانیف اب ناپید ہیں۔

ہندوستان میں اپنے آخری قیام میں انہوں نے ''شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک'' اور ''شاہ ولی اللہ اور ان کا فلسفہ '' دو کتابیں لکھ کر شائع کیں۔ ایک اور کتاب '' محمودیہ'' ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ ان کے خطابات چھپے ہیں اور ان کے افکار پر ایک بسیط کتاب '' مولانا عبیداللہ سندھی'' کے نام سے پروفیسر محمد سرور صاحب نے لکھی ہے۔ ان کی ایک تصنیف قرآن کی ضخیم تفسیر بھی ہے۔

مولانا عبیداللہ سندھی کی سرگزشت کابل مولانا عبیداللہ لغاری نے لکھی اور اسے مرتب ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صاحب نے کیا۔ مکاتیب مولانا عبیداللہ سندھی کو ڈاکٹر ابوسلمان نے مرتب کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی ہندوستان (پاک و ہند) میں یورپ کی قسم کا مادی انقلاب چاہتے تھے۔ اس سے ان کا مقصود علم اور سائنس کی وہ برکات ہیں جن سے آج کل یورپ مستفید ہورہا ہے۔ وہ اسے اپنے ملک میں رائج کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی نظر صرف اس مادی انقلاب تک محدود نہیں تھی۔ تاہم ان کے نزدیک جب تک انسان مادی دنیا پر قابو نہ پالے اور علم و سائنس کی برکات ہر شخص کے لیے عام نہ ہوجائیں، انسانیت بحیثیت مجموعی اسلام کے قریب نہیں آسکتی۔
Load Next Story