جہاں گشت گلے ملے گی کبھی روشنی دریچوں سے ۔۔۔

اس کے سامنے دریا، ندی، تالاب اور سمندر پکے راستے کی طرح تھے کہ وہ ان پر گام زن رہتا


کیا اب بھی آپ نہیں جان پائے کرامت کسے کہتے ہیں، کیا ابھی آپ نے جس کے بارے میں پڑھا کیا آپ اسے باکرامت نہیں سمجھتے۔ فوٹو: فائل

قسط نمبر 47
[email protected]

سادہ دل اور بھلے لوگ فقیر سے اکثر ایک سوال پوچھتے ہیں اور وہ یہ کہ آپ جن بزرگوں کے پاس رہے، ان کی کرامات کیا تھیں۔۔۔۔؟ بعض سوالات کا سامنا کرتے ہوئے ہنسی آتی ہے، اس بات پر نہیں کہ بھلا یہ بھی کوئی سوال ہوا، سوال تو سوال ہوتا ہے، کسی بھی سوال کو جواب سے محروم نہیں رہنا چاہیے کہ اس سے انتشار پھیلتا ہے لیکن کچھ سوال ایسے ہوتے ہیں کہ سوالی کی سادگی پر رشک آتا ہے، لیکن دیکھیے اس وقت اب کیا یاد آگیا:

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

سوال سارے غلط تھے، جواب کیا دیتے

ہمارے سماج میں سادہ اور بھلے لوگ، چلیے ذہین اور جہاں دیدہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کرامت بس کوئی مافوق الفطرت واقعہ ہوگا، جیسے کوئی ہوا میں اڑ جائے اور نہ جانے کیا کیا۔ ذرا سا دم لیجیے اس پر ہم بات کرتے ہیں اور آج اس گُتھی کو سُلجھانے کی سعی کرتے ہیں اگر سُلجھ گئی تو۔ ایک سوال سامنے ناچ رہا ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی کرامت سے آگے کا واقعہ ہو تو کیا دنیا والے اس انسان کو تسلیم کر لیتے ہیں؟ اب یہ ہے فقیر کا سوال اب آپ اسے سوچیے۔

وہ پالنے میں کلام کرتا ہوا دیکھا اور سنا گیا۔ آج تک دنیا کا اکلوتا بچہ جو پنگھوڑے میں لیٹا ہوا لوگوں سے ہم کلام ہوا، اور کلام بھی ایسا فصیح کہ وہ وحی الہی سے جُڑا ہوا جو تھا، تو کیا خدا جسے کلیم کردے اس کا کوئی ثانی ہوسکتا ہے؟ جنم لیتے ہی کلام کرتا ہوا بچہ اپنی زندگی کی منازل طے کرتا ہوا پانی کو راہ بناتا تھا، اس کے سامنے دریا، ندی، تالاب اور سمندر پکے راستے کی طرح تھے کہ وہ ان پر گام زن رہتا اور سب اسے حیرت سے تکتے تھے۔ پھر وہ بیماروں کی کسی بستی میں جا نکلتا اور بیمار بھی ایسے ویسے نہیں، ایسے کہ جنہیں اپنے خونیں رشتے دار بستی سے باہر پھینک آتے تھے، جن کے اعضاء گل سڑ جاتے، وہ کوڑھی کہلاتے، دور ویرانوں میں پھینک دیے جاتے۔ ہاں ایسوں کی بستی میں وہ جا نکلتا اور پھر وہ سخی ان میں شفا بانٹتا ہوا جب واپس لوٹتا تو وہ مسترد کردیے گئے کوڑھی بالکل چنگے بھلے ہوکر اس کے ساتھ ایسی بستیوں کی طرف لوٹتے جہاں زندگی تھی اور لوگ پھر سے اسے حیرت سے دیکھتے تھے۔

ہاں وہ جو اندھوں کو بینائی دان کرتا تھا۔ اور سننا اور جاننا چاہتے ہیں آپ کہ وہ کیسا تھا؟ جی تو پھر سنیے وہ ایسا جو کسی مرے ہوئے انسان کے سامنے جاکر اسے حکم دیتا کہ چل جی اٹھ اپنے رب کے نام سے! اور پھر دنیادار انگلیاں دانتوں تلے دبائے اس مرے ہوئے کو جیتا ہُوا اپنے سامنے پاتے۔ وہ جو لوگوں کے سامنے مٹی سے پرندے کی مورت بناتا اور پھر ان پر جیسے ہی پھونکتا تو وہ مٹی کا بنا ہوا پرندہ ہوا میں محو پرواز ہوجاتا، ایسا تھا وہ۔ وہ تو مجسم معجزہ تھا، سراپا معجزہ، ابھی تو فقیر نے بہت ہی کم بتایا ہے کہ وہ کیسا تھا، ہاں تو وہ تھا روح اللہ، جان گئے ناں آپ انہیں! عیسیٰ ابن مریمؑ تھا وہ۔ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکالیے اور اس کے جیون کا ذرا بہ غور مطالعہ کیجیے تو شاید آپ اس مسیحا کی زندگی کے بارے میں کچھ جان پائیں۔ اب پیچھے پلٹتے ہیں تو اب فقیر کا سوال آپ کے سامنے ہے کہ اگر کوئی کرامت سے آگے کا واقعہ ہو تو کیا دنیا والے اس انسان کو تسلیم کر لیتے ہیں؟

تو پھر کیا عیسیٰ ابن مریمؑ کے جیون کا ہر پل معجزہ نہیں تھا۔۔۔۔ ؟ وہ مسیحا جسے دنیاداروں نے ہر پل دُکھ دیے اور دُکھ بھی ایسے کہ بیان کرتے ہوئے دل کی دھک دھک بند ہونے لگے، اور پھر آخر میں کیسا سلوک کیا گیا اس روح اللہ کے ساتھ، دنیا داروں نے تو اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسیحا کو سولی پر چڑھایا جو ان سب کے سامنے ہر وقت معجزے کرتا رہتا تھا، یہ اور بات کہ اسے رب تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا۔

انسان بہت عجیب واقع ہوا ہے، یہ کبھی اتنا سفاک اور کم ظرف ہوجاتا ہے کہ سفاکی و کم ظرفی کے الفاظ بھی اس کی حالت کی عکاسی نہیں کرسکتے۔ کسی کی شعبدہ گری پر بھی اتنا فدا کہ مت پوچھیے اور کسی کے معجزے کا بھی منکر، ایسا ہے یہ انسان۔ کرامت کیا ہوتی ہے، کیا صرف یہ کہ وہ کوئی ایسی بات بتا دیں جو آپ خود سے بھی چھپائے ہوئے ہیں یا وہ کوئی کرتب دکھائیں جسے آپ کرامت سمجھ بیٹھیں، ایسا ہی تو ہمارے آس پاس ہورہا ہے یہ جو نوسرباز جو خود کو بابے اور عامل کامل کہتے ہیں، کیسے لُوٹ رہے ہیں لوگوں کو، اس لُوٹ پر ذرا دھیاں دیجیے اور اس لفظ کو وسیع کینوس پر پھیلائیے تو آپ ان جعلی لوگوں کی بدذاتی کو شاید جان پائیں گے۔

اب فقیر آپ کو آگاہ کرتا ہے کہ کرامت کیا ہے۔۔۔۔؟ فقیر جن بزرگوں کے پاس اور ساتھ رہا ہے الحمدﷲ وہ سب کے سب صاحب کرامت تھے اور وہ ایسے کہ سب کے سب اکل حلال کماتے تھے، کوئی نذرانہ شکرانہ قبول نہیں کرتے تھے، اپنی ضروریات خود محنت کی کمائی سے پورا کرتے اور اپنے زیرتربیت اور آس پاس کے لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ وہ نام و نمود سے یک سر عاری تھے، اتنے کہ کبھی ایسا لگتا کہ وہ تو خود سے بھی حجاب کیے ہوئے ہیں۔ کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا کہ جو لوگوں کی خیر خیرات پر پل رہا ہو، ہاں ایک بھی نہیں، انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کی ہوئی تھی کہ وہ زندوں میں تھے۔ کیا آپ حصول اکل حلال کو کرامت نہیں سمجھتے، جی اکل حلال کا حصول سب سے بڑی کرامت ہے۔ کرامات تو اور بھی ہیں جیسے حقوق اللہ کے ساتھ بندوں کے حقوق ادا کرنا بھی کرامت ہے۔ اپنے اہل خانہ کی تربیت و پرورش بھی کرامت ہے، اب آپ سوچتے چلے جائیے آپ پر کرامت کا در کھلتا چلا جائے گا۔ دیکھیے اب یہ کیا یاد آگیا۔ پہلے آپ ایک واقعہ سن لیجیے تو پھر ہم کرامت پر اور بات کرتے ہیں۔

مجھے اُس کی روز شکایتیں ملتی تھیں۔ آج اسکول سے بھاگ گیا، گلیوں میں آوارہ گردی کرتا ہے۔ روز جھگڑا، روز دنگا فساد، ہر وقت کا آزار۔ کبھی میں اُس کے اسکول جاتا، کبھی اُس کے جھگڑے نمٹاتا۔ ایک دن تو اُس نے حد ہی کردی۔ ماں باپ سے لڑ کر چلا گیا۔ ایسا تو وہ اکثر کرتا تھا، لیکن جب دوسرا دن آیا تو ماں فکر مند ہوئی، رات ہوتے ہوتے نڈھال ہوگئی تھی۔ ہر اسپتال چھان مارا میں نے، تھانوں سے رابطہ کیا، دوستوں سے پوچھا، اُس کے تمام ٹھکانے کھنگال ڈالے۔ نہیں، اُس کا کہیں سراغ نہیں ملا۔ ایک ہفتے بعد میں بھی نڈھال ہوگیا۔ کہاں چلا گیا؟ بس ایک امید تھی کہ مل جائے گا۔ میں نے اُس کی سلامتی کی دعا کی اور رب نے اسے سلامت رکھا۔ عمر ہی کیا تھی اُس کی۔ چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ آخر اٹھارہویں دن مجھے ایک دوست نے لاہور سے فون کیا: یار وہ تمہارا بندہ مل گیا ہے۔ میں نے اس سے کہا میری بات کراؤ۔ ہاں وہی تھا۔

میں لاہور پہنچا، اور اُسے لے کر کراچی آیا۔ وہ سمجھ رہا تھا اب اس کی خیر نہیں، لیکن میں نے صرف اتنا ہی کہا: تم نے یہ کیا کیا! مجھے بھی نہیں بتایا! وہ سر جھکا کر بولا: خان لالہ! بس اب آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوگی، جیسے آپ کہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ ہاں پھر اس نے اپنا وعدہ نبھایا۔ وہ پڑھنا نہیں چاہتا تھا تو میں نے اسے ایک موٹر ورک شاپ میں کام سیکھنے پر لگا دیا۔ گیارہ سالہ بچہ اور اتنا کٹھن کام۔۔۔۔ لیکن وہ ڈٹا رہا اور پھر وہ تین سال میں ایک مناسب موٹر مکینک تھا اور تن خواہ لیتا تھا۔ اٹھارہ سال کا ہوا تو میں نے اُسے اپنا ورک شاپ بنانے کا کہا، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ورک شاپ کا مالک تھا۔ میں نے وہ دن بھی دیکھا ہے جب اُس کے ماں باپ مجھے کہہ رہے تھے: ''کیا پھونکا ہے اس پر؟ ہر وقت ہنستا رہتا ہے، غصہ تو اسے آتا ہی نہیں ہے، رحمت ہی رحمت، اللہ سلامت رکھے اسے۔ سارے گھر کو سنبھالا ہوا ہے اس نے۔

چھوڑیے بہت لمبی داستان ہے۔ والد کے انتقال کے بعد بہنوں کی شادی اور پھر اپنی۔ اب وہ تین بچوں کا باپ ہے۔ پچاس سے زاید بچوں کو اس نے کام سکھایا ہے۔ بہت مطمئن، بہت پُرسکون۔ لیکن وہ اب تک بالکل معصوم بچہ ہے۔ ہر وقت مسکرانے والا۔ عام مکینک کی طرح اپنے شاگردوں کو کبھی گالیاں نہیں دیتا۔ ان کا خیال رکھتا ہے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ سارے کام چھوڑ کر دوڑا: خان لالہ آپ! کیوں میں نہیں آسکتا؟ نہیں نہیں آپ سر آنکھوں پر، لیکن آپ مصروف بہت ہوتے ہیں ناں اس لیے کہہ رہا ہوں۔ وہ میرے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہوگیا تو میں نے اسے پیار کیا۔ اس نے کپڑے سے بینچ صاف کی اور چائے والے کو چائے کا کہہ کر میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے کام کے بارے میں پوچھا: ''خان لالہ! فرصت ہی نہیں ہے، کام کرنے والا ہو کام بہت۔۔۔۔ اللہ کا کرم ہے بہت کرم ہے، شکر ہے۔

پھر وہ اپنے مخصوص انداز میں گفت گو کرنے لگا۔ مسکراتے ہوئے، ہنستے ہوئے ۔۔۔۔۔ اور درمیان میں تھوڑی دیر کے لیے سنجیدہ۔

خان لالہ! آپ تو لکھتے رہتے ہیں، کتنی اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، ہمارے شہر کے لوگ اتنے پڑھے لکھے ہیں، ہم تو جاہل ہیں، لیکن اتنا تو جانتے ہیں انسانوں کو خدا نے کیا اس لیے بنایا ہے کہ ہنگامہ کریں، گولیاں چلائیں، انسان کو زندہ جلادیں! کیا ہوگیا ہے ہمیں۔ یہ تو میں تم سے سننے آیا ہوں اور تم مجھ سے پوچھ رہے ہو۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ خان لالہ! میں تو آپ کا بچہ ہوں میں کیا بتاؤں۔ لیکن بہت بُرا ہو رہا ہے۔ ہر گلی میں دو دو مسجدیں ہیں، اذان ہو رہی ہے، تقریریں ہو رہی ہیں، کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ لگتا ہے ہمارا دل ہی کالا ہوگیا ہے۔ جتنی تعلیم بڑھ رہی ہے اتنا ہی آدمی جاہل ہو رہا ہے۔ یار! تم تو زبردست باتیں کرنے لگے ہو۔ میں نے اس کے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا: آپ ہی تو کہتے ہیں مصیبتوں کا مقابلہ کرو، مسکراؤ، رب پر بھروسا رکھو۔ تو بس میں یہی کرتا ہوں۔ اب آپ دیکھیں ناں، ہر گھر تباہ ہوگیا۔ رشتے ہیں خلوص نہیں ہے۔

ایک بھائی مصیبت میں پھنس جاتا ہے تو دوسرے بھائی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ اب آپ ہی دیکھیں میرے سارے بھائی پڑھے لکھے ہیں، لیکن سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ امی اکیلی ہیں بھرے پُرے گھر میں۔ شام کو جب وہ آتے ہیں تو اپنے اپنے کمروں میں گھس جاتے ہیں، ماں کو پوچھتے ہی نہیں ہیں۔ اور تم کیا کرتے ہو؟ میں نے دریافت کیا۔ سچ بتاؤں یا چھوڑیں، آپ ماں سے جاکر پوچھ لیں۔ وہ تو میں پوچھ ہی لوں گا، پہلے تم بتاؤ۔ میں نے کہا۔ تب وہ بتانے لگا: خان لالہ! میں نے نیا فریج خریدا ہے ماں کے لیے۔ نیا ٹی وی لیا ہے۔ جب میں رات کو گھر جاتا ہوں تو ان کی پسند کے پھل لے کر جاتا ہوں، ان کی دوائیں خریدتا ہوں، ان کے پاس بیٹھتا ہوں، پھر اپنے کمرے میں جاتا ہوں۔

صبح آتے ہوئے ان سے باتیں کرتا ہوں۔ وہ کیا کھائیں گی، انھیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ میں ان کا خیال رکھتا ہوں۔ وہ مجھے بہت منع کرتی ہیں کہ اتنا خرچہ نہ کروں، میں کہتا ہوں یہ بہار آپ کے دم سے ہے۔ آپ کی دعاؤں کا صدقہ ہے ماں۔ مجھے مت منع کیا کریں۔ ابھی پچھلے ہفتے میں جب رات کو گھر گیا تو دیکھا وہ پریشان بیٹھی ہیں، تو میں ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ میں نے پوچھا آپ کیوں اُداس ہیں؟ تو ٹال گئیں۔ میں نے اصرار کیا۔ پھر بہت مشکل سے بتایا بیٹا! میری ایک سہیلی آئی تھی پانچ ہزار روپے ادھار مانگنے، وہ بہت مجبور ہے۔ میں نے اسے ٹال دیا، لیکن پریشان تو میں ہوں، میں اس کی مدد نہ کرسکی۔ تو تم نے کیا کیا پھر؟ میں نے اس سے پوچھا۔ میں نے کیا کرنا تھا، اسی وقت ماں کو گاڑی میں بٹھایا، انھیں پانچ ہزار روپے دیے اور ان کی سہیلی کے گھر پہنچا۔ پھر ماں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں : ہو سکتا ہے یہ پیسے واپس نہ ملیں۔ تو میں نے کہا: میری پیاری ماں! اگر ساری دنیا کی دولت وار دینا پڑی تو میں آپ پر قربان کردوں گا۔ وہ بہت خوش ہوئیں۔

تمہیں کیسا لگ رہا تھا؟ میں نے پوچھا۔

خان لالہ! پتا نہیں مجھے کیا ہوگیا تھا۔ ماں تو اپنی سہیلی کے گھر چلی گئیں، میں گاڑی میں بیٹھ کر روتا رہا۔

وہ کیوں؟

''مجھے لگ رہا تھا کہ اللہ بھی مجھ سے راضی ہوگیا ہے۔ ماں راضی ہے ناں تو اللہ راضی ہے۔ میں نے تو آپ سے یہی سنا ہے۔ ماں کا حکم تو اللہ کا حکم ہے۔ ماں گھر میں رحمت ہوتی ہے، ہم اس کو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔

کمال کردیا تُو نے یار! میں نے اسے داد دی توکہنے لگا: میں نے کیا کمال کرنا ہے خان لالہ! سارا کرم اللہ کا ہے، وہ جسے توفیق دے۔ اب آپ دیکھیں ناں، ہمارے گھر میں کوئی بہن بیٹی ہو، ہم اسے بوجھ سمجھتے ہیں۔ ذرا سی دیر ہو جائے رشتہ نہ آئے تو بس اس کی زندگی عذاب کردیتے ہیں۔ اس میں اُس بے چاری کا کیا قصور! اگر بندہ ذرا سوچے تو بہن، بیٹیاں فرشتوں کا انسانی روپ ہوتی ہیں۔ بس سمجھ لو کہ وہ انسانی فرشتہ ہے گھر میں۔ اس کی وجہ سے رونق ہے۔ اس کی جب شادی ہو جاتی ہے تو گھر کتنا ویران ہو جاتا ہے۔ ایک فرشتہ گھر سے چلا گیا ناں۔۔۔۔۔ اس لیے۔

اور تمہارے بیوی بچے کیسے ہیں؟ میں نے اس سے معلوم کیا۔

بیوی بچے ٹھیک ہیں خان لالہ! وہ جو میری بیوی ہے وہ بھی تو کسی کی بہن بیٹی ہے۔ میں نے اگر اسے تنگ کیا تو یہی دن میری بیٹی، بہن کو دیکھنا پڑے گا۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ سب خوش رہیں اور سب خوش ہیں بھی۔ مجھے اللہ میاں بھی بتاتا رہتا ہے ایسا کرنا ہے یہ نہیں کرنا۔

اللہ میاں تمہیں بتاتا ہے۔ وہ کیسے؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔

پھر وہ بتانے لگا: خان لالہ! جب بندے کا دل اچھا اچھا سوچے، بُرا سوچے ہی نہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ میاں یہ بتا رہا ہے۔

میں رات گئے تک اُس کے ساتھ رہا۔ کیسی عجیب باتیں کر رہا تھا وہ۔ اس کے چہرے پر اب بھی بچوں جیسی معصومیت ہے، باتوں میں اثر، بالکل بچہ معصوم سا۔ میں سوچنے لگا: یہ جو ہر جملے کے بعد کہتا ہے: ''ہم تو جاہل ہیں'' کاش ہم سب ایسے جاہل ہوجائیں۔ لکھے پڑھے درندوں، بے حسوں سے تو یہ جاہل ہی اچھا ہے۔ رحمت ہے، عنایت ہے رب کی اس پر۔

کیا اب بھی آپ نہیں جان پائے کرامت کسے کہتے ہیں، کیا ابھی آپ نے جس کے بارے میں پڑھا کیا آپ اسے باکرامت نہیں سمجھتے۔ بس ذرا غور کیجیے آپ پر بھی مختلف لوگوں کی کرامتیں آشکار ہوجائیں گی۔ لیکن فقیر چاہتا ہے کہ کسی اور کی کرامتیں دیکھنے اور پڑھنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ خود باکرامت بنیں اور یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ نہ سمجھ آئے تو اوپر واقعے کو دوبارہ پڑھیے شاید آپ پر کوئی نیا در وا ہوجائے۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گا یارو! بس نام رہے گا اللہ کا۔

میں جل رہا ہوں کسی تیرگی کے منظر میں

بلا رہی ہے مجھے روشنی دریچوں سے

ثباتِ عرصۂ تیرہ شبی کا ذکر نہ کر

گلے ملے گی کبھی روشنی دریچوں سے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔