جہاں گشت رزق حلال کمانے والا ایک دن ضرور راہ حق و صدق کا راہی بن جاتا ہے
اُن کی آنکھیں نم رہتیں، چہرے پر عجیب سی اداسی رہتی اور وہ ہر ایک سے معافی مانگتے رہتے
قسط نمبر48
فقیر آپ کو بتا رہا تھا کہ اس کی نظر میں کرامت کیا ہوتی ہے۔ اس سے پہلے آپ نے اس بچے کی کتھا پڑھی جو اپنی ماں کا ازحد احترام و خیال رکھتا ہے تو آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ کرامت کسے کہتے ہیں۔ فقیر کو رب تعالٰی نے اپنے جن دانش مند اور برگزیدہ بندوں میں رہنے کا شرف عنایت فرمایا اور انہوں نے جو کچھ فقیر کو بتایا وہ آپ کو بتائے دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ آپ پر قطعی لازم نہیں کہ آپ فقیر کی رائے سے متفق بھی ہوں، آپ اس سے یک سر مختلف رائے رکھنے کا حق رکھتے ہیں، اور وہ اس لیے کہ کسی کی بھی رائے حتمی نہیں ہے سوائے رب اور اس کے پیغمبروں کے۔
فقیر کو بتایا گیا ہے کہ سب سے بڑی کرامت رزق حلال کو حصول ہے۔ رزق حلال کے لیے تگ و دو کرنا کرامت ہے اور یہ کرامت رب تعالٰی اپنے برگزیدہ بندوں کو عنایت فرماتا ہے۔ اگر کوئی بھی رزق حلال سے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی بُودوباش کرتا ہے اور وہ دنیاوی آلائشوں میں بھی گھرا ہوا ہے تو قوی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک دن ضرور راہ حق و سچ پر آجاتا ہے۔
اب ذرا تلخ بات بھی کہ ہمارے ہاں کے سادہ لوح انسانوں کو اکثر شعبدہ بازوں نے ایسا گھیرا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ وہ نہ صرف اپنے شعبدے دکھا کر ان کے مال و اسباب پر قابض ہوتے جاتے ہیں بل کہ ان کی عزت و ناموس کو بھی پامال کرنے سے نہیں چُوکتے۔ لیکن فقیر انتہائی ادب و معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اس میں ان شعبدہ بازوں کے ساتھ ان لوگوں کو بھی قصور ہے جو بلا سوچے سمجھے انہیں خدا کا برگزیدہ بندے سمجھنے لگتے اور ان کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ دیکھیے انسان کو رب تعالٰی نے عقل سلیم عطا ہی اس لیے کی ہے کہ وہ نیک و بد میں امتیاز پیدا کرے۔ اسلام دین فطرت ہے، انتہائی آسان، اس نے پورے جیون کے ہر گوشے کے لیے راہ نمائی فرمائی ہے۔
کیا آپ نے کبھی اس پر سوچا ہے کہ جس دین نے کھانے پینے، نہانے دھونے حتٰی کہ چھینکنے کے بھی آداب بتائے ہوں، ان کے متعلق بھی راہ نمائی فرمائی ہو، وہ آپ کو نیک و بد میں تمیز سکھاتا ہو، اور آپ ان سب سے صرف نظر کرتے ہوئے پھر بھی شعبدہ بازوں کا شکار ہوجائیں تو مقام سوچ و فکر ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ اگر آپ اسلام کی روشن تعلیمات پر جو انتہائی سادہ ہیں پر عمل کرنا شروع کردیں تو رب تعالٰی آپ کو روشن راہوں پر گام زن فرما دیتا ہے۔ تو حاصل کلام یہ کہ ہر شعبدہ باز کی بکواس پر کان مت دھریں اور اپنی حفاظت فرمائیں۔ تو رزق حلال کمانا کرامت ہے۔ سچائی کو اختیار کرنا اور جھوٹ سے بچنا کرامت ہے۔ انسانوں کو بے لوث خدمت کرنا کرامت ہے۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرنا کرامت ہے۔ والدین کی خدمت کرنا کرامت ہے۔ اب آپ اسے وسیع کینوس پر پھیلاتے چلے جائیں آپ پر کرامات واضح ہوتی چلی جائیں گی۔
فقیر نے آپ کو اوپر یہ بتایا تھا کہ کوئی رزق حلال کمائے اور دنیاوی آلائشوں میں بھی مبتلا ہو تو قوی امید ہے کہ وہ ایک دن ضرور راہ حق و صدق کا راہی بن ہی جاتا ہے۔ دیکھیے اس وقت وہ مجھے یاد آئے، وہ ایسے ہی تھے فقیر انہیں چاچا بُوٹا کہتا تھا۔ کیسے تھے وہ دیکھیے۔ تلخ تھے بہت تلخ، بل کہ کڑوے کسیلے، چاچا انصاری تو کہتے تھے کہ وہ کریلے ہی نہیں، نیم چڑھے بھی ہیں، اور چاچا بُوٹا ان کا لحاظ اس لیے کرتے تھے کہ چاچا انصاری بہت نیک، ہم درد، پاک باز اور متقی تھے۔ ہر ایک کے کام آنے والے بہت دھیمے، مسکراتے ہوئے پُرنور، جن کی باتوں میں خوش بُو بسی ہوئی تھی۔ ہاں تو بس وہ ان کا احترام کرتے تھے، ڈرتے ورتے تو وہ کسی سے نہیں تھے۔ اپنے لیے کہتے کہ جس دن ڈر تقسیم ہوا تھا اس دن تو میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ سارا محلہ ان سے خائف تھا، بہت خوف زدہ، وہ تھے ہی ایسے، مجال ہے کوئی آوارہ ان کی گلی سے بھی گزر جائے۔
وہ تھے تو بڑھئی، لیکن بہت محنت کی تھی انہوں نے، دن رات محنت اور کہتے تھے اور سچ کہتے تھے کہ انہوں نے رزق حلال کمایا ہے اور پھر اپنا فرنیچر کا کارخانہ بنا لیا تھا جس میں درجن بھر سے زیادہ کاری گر اور اتنے ہی مزدوری کرتے تھے، کام سیکھنے والے نو جوان الگ سے تھے اور وہ بھی صرف اپنے خاندان کے، مجال ہے کسی اور کو کام سکھا دیں۔ تو کہتے یہ سب رزق حلال کی برکت ہے بس۔ پڑھے لکھے بالکل بھی نہیں تھے، لیکن صاحب کیا جادُو تھا ان کے ہاتھ میں، سپاٹ لکڑی کو سونے جیسا منہگا بنا دیتے تھے وہ۔ کام ایسا کہ عقل دنگ اور انسان مبہوت ہو کر رہ جائے، بڑی بڑی کمپنیوں کے دفاتر کا فرنیچر اور ان کی تزئین و آرائش کا کام کرتے تو معاوضہ منہ مانگا طلب کرتے، جو کہہ دیا بس پتھر پر لکیر، کوئی رُو رعایت نہیں، رب نے ان کا رزق فراواں کردیا تھا۔ صبح سویرے اپنے کارخانے کے باہر کرسی پر بیٹھ جاتے اور ہر ایک سے اٹکھیلیاں کرتے رہتے، کوئی بچ کے نہیں نکل سکتا تھا ان سے۔ گلی سے گزرنے والا ہر راہ گیر سر جھکا کے اور نظریں بچا کے گزرتا، لیکن کوئی ان کی عقابی نگاہوں سے کیسے بچ سکتا تھا، کوئی بھی نہیں۔ لڑائی مار کٹائی تو ان کی گُھٹی میں پڑی ہوئی تھی، دن میں دو چار لوگوں کو مارنا پیٹنا تو کوئی بات ہی نہیں تھی، ہر پل لڑائی پر آمادہ، تند خُو، بَدزبان، گالیاں، آزار اور طعنے دینے میں بے مثال اور یکتا۔
چاچا انصاری کی ان سے دوستی تھی، نہ جانے کیوں، آگ پانی کا ملن کیسے ہو سکتا ہے بھلا ۔۔۔ ؟ لیکن دوستی تھی اور بہت پکی۔ اذان کی آواز کے ساتھ ہی چاچا انصاری اپنا جنرل اسٹور چھوڑ کر مسجد کی راہ لیتے، لیکن انہیں کبھی نہیں دیکھا مسجد میں، ان کا کیا کام تھا وہاں۔ کارخانے میں تیز آواز میں پرانے وقتوں کے گانے سنتے، فلمیں دیکھتے، اس زمانے میں جب وی سی آر آیا تھا وہ اس کے بھی اسیر ہوگئے تھے۔ یہ نہیں تھا کہ چاچا انصاری نے انہیں کبھی نیکی پر آمادہ نہیں کیا تھا، بہت کیا تھا، لیکن پھر وہ تھک ہار کے ہمت ہار بیٹھے تھے اور وہ جیسے بھی تھے انہیں قبول کرلیا تھا۔ محلے اور آس پاس کے لوگ بھی عادی ہو گئے تھے اور ان کی بدزبانی، آزار، مار پٹائی کو قہر الٰہی سمجھ کے قبول کر چکے تھے۔ چاچا انصاری حج کے لیے بہت تڑپتے رہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے حج کی درخواست جمع کرائی اور انتظار کرنے لگے، پھر نہ جانے کیا ہوا ایک دن وہ چاچا انصاری کے سر ہوگئے، گالم گلوچ سے بات شروع ہوئی اور گریبان تک پہنچ گئی۔
اتنے اچھے دوست کیسے باہم دست بہ گریباں ہوگئے۔ سب ہی حیران تھے، سارا محلہ جمع تھا، وہ چاچا انصاری کا گریبان پکڑے ہوئے تھے اور چاچا انصاری سر جھکائے کھڑے تھے۔ آخر وجہ تنازع سامنے آئی اور وہ یہ کہ چاچا انصاری نے اکیلے حج کی درخواست کیوں دی، ان کی درخواست کیوں نہیں دی۔ آخر طے پایا کہ صبح بینک جاکر ان کی حج درخواست جمع کرائی جائے گی۔ اس طرح معاملہ صبح تک ٹل گیا، لیکن رات کو انہوں نے پھر ایک مسئلہ کھڑا کردیا کہ اگر ان کی درخواست نہیں منظور ہوئی تو چاچا انصاری بھی حج کے لیے نہیں جائیں گے۔ آخر چاچا انصاری نے ہار مان لی۔ صبح فجر کے بعد ہی وہ چاچا انصاری کے گھر پیسے لے کر پہنچ گئے اور بینک کھلنے کا انتظار کرنے لگے، پھر آخر ان کی درخواست جمع ہوگئی، بینک سے نکلتے ہوئے بھی انہوں نے منیجر کو دھمکی دی کہ اگر ان کی درخواست منظور نہیں ہوئی تو وہ اس سے نبٹ لیں گے۔
دن گزرنے لگے اور ایک دن قرعہ اندازی ہوگئی، چاچا انصاری ڈرتے ڈرتے بینک پہنچے، وہ ان کے ساتھ تھے، پورا محلہ سراپا انتظار تھا۔ آخر مبارک ساعت آہی گئی اور دونوں کا نام قرعہ میں حج کی سعادت کے لیے نکل آیا۔ سارے محلے میں خوشی کی برسات ہونے لگی۔ انہوں نے راستے میں مٹھائی کی دکان پر جو کچھ تھا وہیں سب میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ ان کی خوشی دیدنی تھی، لیکن صاحب ان کی عادات و اطوار میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی مار دھاڑ وہی گالم گلوچ وہی خلق خدا کو آزار دینا، سارے ہی ان سے نالاں ہی نہیں بے زار تھے۔
ایک دن محلے میں کسی کے گھر ایک مہمان آگیا اور انہیں ان کے بدخصلت اور بدزبان ہونے کا معلوم ہوا تو وہ ان سے ملنے پہنچ گئے۔ انہیں حج پر جانے کی مبارک باد دی اور کہا آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کا دیار حرم سے بلاوا آیا لیکن آپ کا حج اس وقت قبول و منظور ہوگا جب آپ ان تمام لوگوں سے معافی مانگیں جن کے آپ نے دل دکھائے ہیں اور وہ آپ کو دل سے معاف کردیں، ورنہ آپ کا سفر حج بس سیر سپاٹا رہ جائے گا اور اللہ قبول نہیں فرمائے گا اور جب آپ مدینہ طیبہ جائیں گے تو اﷲ کے حبیب جناب رسول کریمؐ آپ سے اس لیے منہ موڑ لیں گے کہ آپ نے سرکاردوعالمؐ کے پیارے امتیوں کو آزار، دکھ اور تکلیفیں پہنچائی ہیں۔
وہ سر جھکا کے سُن رہے تھے۔ پھر انہوں نے سر اٹھایا اور مہمان سے پوچھا: کیا جناب سرکارؐ میری طرف نہیں دیکھیں گے۔۔۔ ؟ تو مہمان نے کہا ہاں میں سچ کہہ رہا ہوں۔ پھر ایک عجیب منظر لوگوں نے دیکھا کہ وہ دھاڑیں مار مار کے رو رہے تھے، وہاں موجود لوگوں کے پاؤں پکڑ کر ان سے معافی مانگ رہے تھے۔ ان کی تو حالت ہی غیر ہوگئی تھی۔ پھر تو لوگوں نے ان کا عجیب رنگ دیکھا۔ وہ محلے کے ہر گھر کے سامنے کھڑے ہوجاتے اور بھکاری کی طرح چیخ چیخ کر التجا کرتے، خدا اور اس کے پیارے حبیبؐ کے واسطے مجھے معاف کردو ورنہ میں مر جاؤں گا۔ سرکارمدینہؐ میری طرف دیکھیں گے نہیں، میں مارا جاؤں گا، مجھے دل سے معاف کردیں، خدا کے لیے مجھے معاف کردیں، میں مارا جاؤں گا، آپ سب مجھے مارلیں، گالیاں دے لیں، مجھ سے جرمانہ لے لیں، بس مجھے معاف کردو خدا اور اس کے حبیب پاکؐ کے لیے مجھے معاف کردو۔
انہوں نے چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک اور معصوم بچیوں سے لے کر خواتین سب سے نہ جانے کتنی ہی مرتبہ معافی مانگی۔ وہ سارا دن بس یہی کرتے رہتے، اس سے پہلے وہ مسجد نہیں گئے تھے، پھر مسجد جانے لگے اور وہاں ہر نمازی سے معافی مانگتے اور تو اور انہوں نے گھر میں بھینس، بکریاں، بکرے اور مرغیاں پالی ہوئی تھیں وہ ان سے بھی معافی مانگتے تھے۔ عجیب حا لت ہوگئی تھی ان کی، وہ بہت صحت مند اور ہشاش بشاش تھے، لیکن بالکل مرجھا گئے تھے، جس دن انہوں نے حج کے لیے جانا تھا۔ اس رات کو انہوں نے سارے محلے کی دعوت کی، شان دار دعوت جس میں انواع و اقسام کے کھانے تھے، لوگوں نے سیر ہوکر کھایا اور ایک مرتبہ پھر انہوں نے رو رو کر سب سے معافی مانگی۔
سب لوگوں کے سامنے انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کو بہت نصیحتیں کیں اور کہا، ہوسکتا ہے میں وہاں مرجاؤں تم ان سب کا خیال رکھنا اور میں نے انہیں جو تکلیفیں دی ہیں ان کا مداوا کرنا، میں نے کسی کا قرض نہیں دینا لیکن پھر بھی کوئی کہے کہ اس کے میرے ذمے پیسے ہیں تو اسے ادا کردینا، میں نے جن کاموں کے پیسے پیشگی لیے ہیں انہیں اسی معیار اور مقررہ وقت پر پورا کردینا اور ہاں زندگی بھر سب سے اخلاق سے رہنا ، کسی کا بھی دل مت دکھانا، اپنا حق چھوڑدینا، لیکن کسی کا بھی حق مت دبانا، ہمیشہ رزق حلال کمانا، میری ان سب باتوں کو میری وصیت سمجھنا۔
سب لوگ ان کا نیا روپ دیکھ کر بہت حیران تھے۔ بعض کا تو خیال تھا کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں، اور کچھ ان کی اس حالت کو خدا کا ان پر عذاب بھی سمجھنے لگے تھے۔ دعوت کے بعد جب سب لوگ جاچکے تو انہوں نے مسجد کی راہ لی اور رات بھر آہ و و زاری کرتے رہے۔ صبح نماز فجر کے بعد انہوں نے پھر سب سے معافی مانگی اور اپنے لیے دعا کی اپیل کی۔ پھر وہ ساعت آہی گئی جب وہ عازم حج ہوئے۔ سارے محلے نے انہیں پھولوں سے لاد دیا اور وہ روتے رہے اور کہتے رہے کہ وہ اس قابل نہیں ہیں، جن کے پاس گاڑیاں تھیں وہ ان کے ساتھ ایئر پورٹ تک گئے اور انہیں رخصت کیا۔
دن گزرتے چلے گئے اور حج ہوگیا اور حاجی واپس آنے لگے۔ ان کے آنے کی خوشی میں نوجوانوں نے پورے محلے کو دلہن کی طرح سجایا اور پھر سب ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پہنچے۔ جب وہ جلوس کی شکل میں گھر پہنچے تو ان کے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ مبارک سلامت کا شور تھا اور وہ سر جھکائے بیٹھے تھے۔ پھر انہوں نے سب میں تبرکات تقسیم کیے۔ عشاء کے بعد مسجد کچھاکھچ بھری ہوئی تھی اور وہ اپنے سفر حج کی روداد سنا رہے تھے۔ پھر انہوں نے عجیب سا اعلان کردیا، آج کے بعد سارے محلے کی بچیاں میری بیٹیاں ہیں۔ ان سب کی شادیوں کے سارے اخراجات میں ادا کروں گا، جو بچے اور بچیاں پڑھ رہی ہیں ان کے بھی اور جو بھی بیمار ہوگا اس کے علاج کے اخراجات بھی میں ادا کروں گا۔
حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد ان کی زندگی یک سر بدل گئی تھی۔ اب وہ سب کے لیے رحمت تھے، وہ لوگوں کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے تیار رہتے۔ دن ہو رات، کسی بھی پہر لوگ ان سے مل سکتے اور اپنی ضرورت بیان کر سکتے تھے۔ سب نے انہیں بابا کہنا شروع کردیا تھا، جو لوگ ان کے پاس نہیں آتے وہ خود ان کے گھر پہنچ جاتے۔ وہ لوگوں کی ضرورتیں انتہائی رازداری سے پوری کرتے، بچیوں کی شادیاں کرانا، طالب علموں کی فیس ادا کرنا بیماروں کے لیے دواؤں کا انتظام اور تو اور وہ محلے کے بچوں کے لیے کھلونے بھی لاتے تھے۔ ان میں ٹافیاں اور پھل بانٹتے، ہر وقت ان کے گرد بچوں کا ہجوم رہتا۔ وہ مجسم رحمت بن گئے تھے۔ ہاں ایک ایسا انسان جو سراپا خیر تھا۔ لوگ انہیں اپنی ضروریات بتا کر مطمئن ہوجاتے۔ اب ان کا ہونا ہی تو اصل ہونا تھا۔ دن گزرتے گئے، سال بیت گئے اور وہ لوگوں کے دل کا چین بنتے چلے گئے۔ وہ ہر دکھ کا سُکھ، ہر درد کی دوا، ہر زخم کا مرہم ہو گئے تھے۔
بے ریا، بے غرض اور بے نیاز، ہر ایک کے لیے چشم بہ راہ۔ رات ہو یا دن، آندھی ہو یا طوفان، سردی ہو یا گرمی وہ لوگوں کے کاموں میں دیر تک لگے رہے۔ لیکن عجیب بات تھی ان کی آنکھیں ہمیشہ نم رہتیں، چہرے پر عجیب سی اداسی رہتی اور ہر ایک سے معافی مانگتے رہتے۔ اکثر یہ کہتے ہوئے رونے لگتے کہ اگر کسی نے آقا جی ﷺ کے کسی بھی امتی کا دل دکھایا تو آقا جی کریمؐ اس سے نظریں پھیر لیں گے، اور اگر آقاجیؐ نے اپنا چہرۂ انور کسی سے پھیر لیا تو سمجھو سب کچھ برباد ہوگیا، وہ ہلاک ہوگیا۔ وہ بہت پُھرتیلے تھے قابل رشک صحت تھی ان کی، رات کو دیر تک لوگوں سے گپ شپ بھی کرتے رہتے۔ لیکن اس رات انہوں نے سب کے سامنے اپنے بڑے بیٹے کو بلایا اور کہا، دیکھو ان سب کی دیکھ بھال کرنا، یہ جو کچھ بھی رونق میلہ لگا ہوا ہے ناں یہ سب ان سب ہی کی دعاؤں کا صدقہ ہے۔
یہ سب ہمارے ہیں، ہم سب کا دکھ سکھ سانجھا ہے، میرے بعد تم بھی سب کا خیال رکھنا۔ بس اتنا کہا اور سونے چلے گئے۔ نصف شب کو جب وہ بے دار نہیں ہوئے تو گھر والوں کو تشویش ہوئی۔ اس لیے کہ وہ حج کے بعد شب بیدار تھے۔ تہجد گزار، لیکن وہ خاموشی سے، کسی کو بھی زحمت دیے بِنا، اپنے رب کے حضور جاچکے تھے۔ ان کی رخصتی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو دھاڑیں مار کر نہ رو رہا ہو، ہاں معصوم بچے بھی، سب بس یہی کہے جا رہے تھے۔ ہم سب یتیم ہوگئے، ہم بے آسرا ہوگئے، ہم سب کا سائباں چلا گیا، ہم سب تنہا رہ گئے۔
خلق خدا کا سائبان چلا گیا تھا۔ لوگوں نے انہیں آنسوؤں کی برسات میں مٹی کے سپرد کردیا۔ پھر ان کے بعد تو یوں لگتا تھا، جیسے سب لوگ خود خاک بسر ہوگئے۔
ہاں یہ تھے ہمارے چاچا بوٹا، ہاں پھر سب انہیں بابا بوٹا کہنے لگے تھے۔ کیا بات تھی ان کی۔ وہ واقعی سائبان تھے۔ سب کے لیے گھنا چھتنار، سایہ دار اور پھل دار شجر جو جھکا ہوا تھا، ہر ایک ان سے فیض پاتا، ہاں وہ بابا بوٹا تھے، سب کے بابا بوٹا۔ حج کرنے سے پہلے تو وہ کسی کو کام کیا سکھاتے وہ تو اپنے اوزاروں کو چُھونے بھی نہیں دیتے تھے اور حج کے بعد انہوں نے اپنا ہنر بے روزگار جوانوں کو سکھایا بلکہ عام اعلان کیا کہ بے کار مت گھومو ہنر سیکھو، چاہے کوئی سا بھی، اس وقت تک ان کے مصارف وہ خود ادا کریں گے۔ نہ جانے کتنے ہی جوانوں کو انہوں نے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا اور باعزت رزق کمانے میں ان کی مدد کی۔
دیکھ لی آپ نے رزق حلال کی کرامت تو صاحبو! اگر کسی کا جیون حج بھی نہ بدل سکے تو کیسا حج اور کسے کہتے ہیں حجِ مقبول اور کسے کہتے ہیں خدا کا بر گزیدہ بندہ۔ ہاں بابا بوٹا جیسوں کو ہی تو کہتے ہیں خدا کا برگزیدہ بندہ۔
کیا اب بھی فقیر آپ کو بتائے کہ کرامت کسے کہتے ہیں۔۔۔۔۔؟
فقیر آپ کو بتا رہا تھا کہ اس کی نظر میں کرامت کیا ہوتی ہے۔ اس سے پہلے آپ نے اس بچے کی کتھا پڑھی جو اپنی ماں کا ازحد احترام و خیال رکھتا ہے تو آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ کرامت کسے کہتے ہیں۔ فقیر کو رب تعالٰی نے اپنے جن دانش مند اور برگزیدہ بندوں میں رہنے کا شرف عنایت فرمایا اور انہوں نے جو کچھ فقیر کو بتایا وہ آپ کو بتائے دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ آپ پر قطعی لازم نہیں کہ آپ فقیر کی رائے سے متفق بھی ہوں، آپ اس سے یک سر مختلف رائے رکھنے کا حق رکھتے ہیں، اور وہ اس لیے کہ کسی کی بھی رائے حتمی نہیں ہے سوائے رب اور اس کے پیغمبروں کے۔
فقیر کو بتایا گیا ہے کہ سب سے بڑی کرامت رزق حلال کو حصول ہے۔ رزق حلال کے لیے تگ و دو کرنا کرامت ہے اور یہ کرامت رب تعالٰی اپنے برگزیدہ بندوں کو عنایت فرماتا ہے۔ اگر کوئی بھی رزق حلال سے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی بُودوباش کرتا ہے اور وہ دنیاوی آلائشوں میں بھی گھرا ہوا ہے تو قوی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک دن ضرور راہ حق و سچ پر آجاتا ہے۔
اب ذرا تلخ بات بھی کہ ہمارے ہاں کے سادہ لوح انسانوں کو اکثر شعبدہ بازوں نے ایسا گھیرا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ وہ نہ صرف اپنے شعبدے دکھا کر ان کے مال و اسباب پر قابض ہوتے جاتے ہیں بل کہ ان کی عزت و ناموس کو بھی پامال کرنے سے نہیں چُوکتے۔ لیکن فقیر انتہائی ادب و معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اس میں ان شعبدہ بازوں کے ساتھ ان لوگوں کو بھی قصور ہے جو بلا سوچے سمجھے انہیں خدا کا برگزیدہ بندے سمجھنے لگتے اور ان کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ دیکھیے انسان کو رب تعالٰی نے عقل سلیم عطا ہی اس لیے کی ہے کہ وہ نیک و بد میں امتیاز پیدا کرے۔ اسلام دین فطرت ہے، انتہائی آسان، اس نے پورے جیون کے ہر گوشے کے لیے راہ نمائی فرمائی ہے۔
کیا آپ نے کبھی اس پر سوچا ہے کہ جس دین نے کھانے پینے، نہانے دھونے حتٰی کہ چھینکنے کے بھی آداب بتائے ہوں، ان کے متعلق بھی راہ نمائی فرمائی ہو، وہ آپ کو نیک و بد میں تمیز سکھاتا ہو، اور آپ ان سب سے صرف نظر کرتے ہوئے پھر بھی شعبدہ بازوں کا شکار ہوجائیں تو مقام سوچ و فکر ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ اگر آپ اسلام کی روشن تعلیمات پر جو انتہائی سادہ ہیں پر عمل کرنا شروع کردیں تو رب تعالٰی آپ کو روشن راہوں پر گام زن فرما دیتا ہے۔ تو حاصل کلام یہ کہ ہر شعبدہ باز کی بکواس پر کان مت دھریں اور اپنی حفاظت فرمائیں۔ تو رزق حلال کمانا کرامت ہے۔ سچائی کو اختیار کرنا اور جھوٹ سے بچنا کرامت ہے۔ انسانوں کو بے لوث خدمت کرنا کرامت ہے۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرنا کرامت ہے۔ والدین کی خدمت کرنا کرامت ہے۔ اب آپ اسے وسیع کینوس پر پھیلاتے چلے جائیں آپ پر کرامات واضح ہوتی چلی جائیں گی۔
فقیر نے آپ کو اوپر یہ بتایا تھا کہ کوئی رزق حلال کمائے اور دنیاوی آلائشوں میں بھی مبتلا ہو تو قوی امید ہے کہ وہ ایک دن ضرور راہ حق و صدق کا راہی بن ہی جاتا ہے۔ دیکھیے اس وقت وہ مجھے یاد آئے، وہ ایسے ہی تھے فقیر انہیں چاچا بُوٹا کہتا تھا۔ کیسے تھے وہ دیکھیے۔ تلخ تھے بہت تلخ، بل کہ کڑوے کسیلے، چاچا انصاری تو کہتے تھے کہ وہ کریلے ہی نہیں، نیم چڑھے بھی ہیں، اور چاچا بُوٹا ان کا لحاظ اس لیے کرتے تھے کہ چاچا انصاری بہت نیک، ہم درد، پاک باز اور متقی تھے۔ ہر ایک کے کام آنے والے بہت دھیمے، مسکراتے ہوئے پُرنور، جن کی باتوں میں خوش بُو بسی ہوئی تھی۔ ہاں تو بس وہ ان کا احترام کرتے تھے، ڈرتے ورتے تو وہ کسی سے نہیں تھے۔ اپنے لیے کہتے کہ جس دن ڈر تقسیم ہوا تھا اس دن تو میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ سارا محلہ ان سے خائف تھا، بہت خوف زدہ، وہ تھے ہی ایسے، مجال ہے کوئی آوارہ ان کی گلی سے بھی گزر جائے۔
وہ تھے تو بڑھئی، لیکن بہت محنت کی تھی انہوں نے، دن رات محنت اور کہتے تھے اور سچ کہتے تھے کہ انہوں نے رزق حلال کمایا ہے اور پھر اپنا فرنیچر کا کارخانہ بنا لیا تھا جس میں درجن بھر سے زیادہ کاری گر اور اتنے ہی مزدوری کرتے تھے، کام سیکھنے والے نو جوان الگ سے تھے اور وہ بھی صرف اپنے خاندان کے، مجال ہے کسی اور کو کام سکھا دیں۔ تو کہتے یہ سب رزق حلال کی برکت ہے بس۔ پڑھے لکھے بالکل بھی نہیں تھے، لیکن صاحب کیا جادُو تھا ان کے ہاتھ میں، سپاٹ لکڑی کو سونے جیسا منہگا بنا دیتے تھے وہ۔ کام ایسا کہ عقل دنگ اور انسان مبہوت ہو کر رہ جائے، بڑی بڑی کمپنیوں کے دفاتر کا فرنیچر اور ان کی تزئین و آرائش کا کام کرتے تو معاوضہ منہ مانگا طلب کرتے، جو کہہ دیا بس پتھر پر لکیر، کوئی رُو رعایت نہیں، رب نے ان کا رزق فراواں کردیا تھا۔ صبح سویرے اپنے کارخانے کے باہر کرسی پر بیٹھ جاتے اور ہر ایک سے اٹکھیلیاں کرتے رہتے، کوئی بچ کے نہیں نکل سکتا تھا ان سے۔ گلی سے گزرنے والا ہر راہ گیر سر جھکا کے اور نظریں بچا کے گزرتا، لیکن کوئی ان کی عقابی نگاہوں سے کیسے بچ سکتا تھا، کوئی بھی نہیں۔ لڑائی مار کٹائی تو ان کی گُھٹی میں پڑی ہوئی تھی، دن میں دو چار لوگوں کو مارنا پیٹنا تو کوئی بات ہی نہیں تھی، ہر پل لڑائی پر آمادہ، تند خُو، بَدزبان، گالیاں، آزار اور طعنے دینے میں بے مثال اور یکتا۔
چاچا انصاری کی ان سے دوستی تھی، نہ جانے کیوں، آگ پانی کا ملن کیسے ہو سکتا ہے بھلا ۔۔۔ ؟ لیکن دوستی تھی اور بہت پکی۔ اذان کی آواز کے ساتھ ہی چاچا انصاری اپنا جنرل اسٹور چھوڑ کر مسجد کی راہ لیتے، لیکن انہیں کبھی نہیں دیکھا مسجد میں، ان کا کیا کام تھا وہاں۔ کارخانے میں تیز آواز میں پرانے وقتوں کے گانے سنتے، فلمیں دیکھتے، اس زمانے میں جب وی سی آر آیا تھا وہ اس کے بھی اسیر ہوگئے تھے۔ یہ نہیں تھا کہ چاچا انصاری نے انہیں کبھی نیکی پر آمادہ نہیں کیا تھا، بہت کیا تھا، لیکن پھر وہ تھک ہار کے ہمت ہار بیٹھے تھے اور وہ جیسے بھی تھے انہیں قبول کرلیا تھا۔ محلے اور آس پاس کے لوگ بھی عادی ہو گئے تھے اور ان کی بدزبانی، آزار، مار پٹائی کو قہر الٰہی سمجھ کے قبول کر چکے تھے۔ چاچا انصاری حج کے لیے بہت تڑپتے رہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے حج کی درخواست جمع کرائی اور انتظار کرنے لگے، پھر نہ جانے کیا ہوا ایک دن وہ چاچا انصاری کے سر ہوگئے، گالم گلوچ سے بات شروع ہوئی اور گریبان تک پہنچ گئی۔
اتنے اچھے دوست کیسے باہم دست بہ گریباں ہوگئے۔ سب ہی حیران تھے، سارا محلہ جمع تھا، وہ چاچا انصاری کا گریبان پکڑے ہوئے تھے اور چاچا انصاری سر جھکائے کھڑے تھے۔ آخر وجہ تنازع سامنے آئی اور وہ یہ کہ چاچا انصاری نے اکیلے حج کی درخواست کیوں دی، ان کی درخواست کیوں نہیں دی۔ آخر طے پایا کہ صبح بینک جاکر ان کی حج درخواست جمع کرائی جائے گی۔ اس طرح معاملہ صبح تک ٹل گیا، لیکن رات کو انہوں نے پھر ایک مسئلہ کھڑا کردیا کہ اگر ان کی درخواست نہیں منظور ہوئی تو چاچا انصاری بھی حج کے لیے نہیں جائیں گے۔ آخر چاچا انصاری نے ہار مان لی۔ صبح فجر کے بعد ہی وہ چاچا انصاری کے گھر پیسے لے کر پہنچ گئے اور بینک کھلنے کا انتظار کرنے لگے، پھر آخر ان کی درخواست جمع ہوگئی، بینک سے نکلتے ہوئے بھی انہوں نے منیجر کو دھمکی دی کہ اگر ان کی درخواست منظور نہیں ہوئی تو وہ اس سے نبٹ لیں گے۔
دن گزرنے لگے اور ایک دن قرعہ اندازی ہوگئی، چاچا انصاری ڈرتے ڈرتے بینک پہنچے، وہ ان کے ساتھ تھے، پورا محلہ سراپا انتظار تھا۔ آخر مبارک ساعت آہی گئی اور دونوں کا نام قرعہ میں حج کی سعادت کے لیے نکل آیا۔ سارے محلے میں خوشی کی برسات ہونے لگی۔ انہوں نے راستے میں مٹھائی کی دکان پر جو کچھ تھا وہیں سب میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ ان کی خوشی دیدنی تھی، لیکن صاحب ان کی عادات و اطوار میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی مار دھاڑ وہی گالم گلوچ وہی خلق خدا کو آزار دینا، سارے ہی ان سے نالاں ہی نہیں بے زار تھے۔
ایک دن محلے میں کسی کے گھر ایک مہمان آگیا اور انہیں ان کے بدخصلت اور بدزبان ہونے کا معلوم ہوا تو وہ ان سے ملنے پہنچ گئے۔ انہیں حج پر جانے کی مبارک باد دی اور کہا آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کا دیار حرم سے بلاوا آیا لیکن آپ کا حج اس وقت قبول و منظور ہوگا جب آپ ان تمام لوگوں سے معافی مانگیں جن کے آپ نے دل دکھائے ہیں اور وہ آپ کو دل سے معاف کردیں، ورنہ آپ کا سفر حج بس سیر سپاٹا رہ جائے گا اور اللہ قبول نہیں فرمائے گا اور جب آپ مدینہ طیبہ جائیں گے تو اﷲ کے حبیب جناب رسول کریمؐ آپ سے اس لیے منہ موڑ لیں گے کہ آپ نے سرکاردوعالمؐ کے پیارے امتیوں کو آزار، دکھ اور تکلیفیں پہنچائی ہیں۔
وہ سر جھکا کے سُن رہے تھے۔ پھر انہوں نے سر اٹھایا اور مہمان سے پوچھا: کیا جناب سرکارؐ میری طرف نہیں دیکھیں گے۔۔۔ ؟ تو مہمان نے کہا ہاں میں سچ کہہ رہا ہوں۔ پھر ایک عجیب منظر لوگوں نے دیکھا کہ وہ دھاڑیں مار مار کے رو رہے تھے، وہاں موجود لوگوں کے پاؤں پکڑ کر ان سے معافی مانگ رہے تھے۔ ان کی تو حالت ہی غیر ہوگئی تھی۔ پھر تو لوگوں نے ان کا عجیب رنگ دیکھا۔ وہ محلے کے ہر گھر کے سامنے کھڑے ہوجاتے اور بھکاری کی طرح چیخ چیخ کر التجا کرتے، خدا اور اس کے پیارے حبیبؐ کے واسطے مجھے معاف کردو ورنہ میں مر جاؤں گا۔ سرکارمدینہؐ میری طرف دیکھیں گے نہیں، میں مارا جاؤں گا، مجھے دل سے معاف کردیں، خدا کے لیے مجھے معاف کردیں، میں مارا جاؤں گا، آپ سب مجھے مارلیں، گالیاں دے لیں، مجھ سے جرمانہ لے لیں، بس مجھے معاف کردو خدا اور اس کے حبیب پاکؐ کے لیے مجھے معاف کردو۔
انہوں نے چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک اور معصوم بچیوں سے لے کر خواتین سب سے نہ جانے کتنی ہی مرتبہ معافی مانگی۔ وہ سارا دن بس یہی کرتے رہتے، اس سے پہلے وہ مسجد نہیں گئے تھے، پھر مسجد جانے لگے اور وہاں ہر نمازی سے معافی مانگتے اور تو اور انہوں نے گھر میں بھینس، بکریاں، بکرے اور مرغیاں پالی ہوئی تھیں وہ ان سے بھی معافی مانگتے تھے۔ عجیب حا لت ہوگئی تھی ان کی، وہ بہت صحت مند اور ہشاش بشاش تھے، لیکن بالکل مرجھا گئے تھے، جس دن انہوں نے حج کے لیے جانا تھا۔ اس رات کو انہوں نے سارے محلے کی دعوت کی، شان دار دعوت جس میں انواع و اقسام کے کھانے تھے، لوگوں نے سیر ہوکر کھایا اور ایک مرتبہ پھر انہوں نے رو رو کر سب سے معافی مانگی۔
سب لوگوں کے سامنے انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کو بہت نصیحتیں کیں اور کہا، ہوسکتا ہے میں وہاں مرجاؤں تم ان سب کا خیال رکھنا اور میں نے انہیں جو تکلیفیں دی ہیں ان کا مداوا کرنا، میں نے کسی کا قرض نہیں دینا لیکن پھر بھی کوئی کہے کہ اس کے میرے ذمے پیسے ہیں تو اسے ادا کردینا، میں نے جن کاموں کے پیسے پیشگی لیے ہیں انہیں اسی معیار اور مقررہ وقت پر پورا کردینا اور ہاں زندگی بھر سب سے اخلاق سے رہنا ، کسی کا بھی دل مت دکھانا، اپنا حق چھوڑدینا، لیکن کسی کا بھی حق مت دبانا، ہمیشہ رزق حلال کمانا، میری ان سب باتوں کو میری وصیت سمجھنا۔
سب لوگ ان کا نیا روپ دیکھ کر بہت حیران تھے۔ بعض کا تو خیال تھا کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں، اور کچھ ان کی اس حالت کو خدا کا ان پر عذاب بھی سمجھنے لگے تھے۔ دعوت کے بعد جب سب لوگ جاچکے تو انہوں نے مسجد کی راہ لی اور رات بھر آہ و و زاری کرتے رہے۔ صبح نماز فجر کے بعد انہوں نے پھر سب سے معافی مانگی اور اپنے لیے دعا کی اپیل کی۔ پھر وہ ساعت آہی گئی جب وہ عازم حج ہوئے۔ سارے محلے نے انہیں پھولوں سے لاد دیا اور وہ روتے رہے اور کہتے رہے کہ وہ اس قابل نہیں ہیں، جن کے پاس گاڑیاں تھیں وہ ان کے ساتھ ایئر پورٹ تک گئے اور انہیں رخصت کیا۔
دن گزرتے چلے گئے اور حج ہوگیا اور حاجی واپس آنے لگے۔ ان کے آنے کی خوشی میں نوجوانوں نے پورے محلے کو دلہن کی طرح سجایا اور پھر سب ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پہنچے۔ جب وہ جلوس کی شکل میں گھر پہنچے تو ان کے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ مبارک سلامت کا شور تھا اور وہ سر جھکائے بیٹھے تھے۔ پھر انہوں نے سب میں تبرکات تقسیم کیے۔ عشاء کے بعد مسجد کچھاکھچ بھری ہوئی تھی اور وہ اپنے سفر حج کی روداد سنا رہے تھے۔ پھر انہوں نے عجیب سا اعلان کردیا، آج کے بعد سارے محلے کی بچیاں میری بیٹیاں ہیں۔ ان سب کی شادیوں کے سارے اخراجات میں ادا کروں گا، جو بچے اور بچیاں پڑھ رہی ہیں ان کے بھی اور جو بھی بیمار ہوگا اس کے علاج کے اخراجات بھی میں ادا کروں گا۔
حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد ان کی زندگی یک سر بدل گئی تھی۔ اب وہ سب کے لیے رحمت تھے، وہ لوگوں کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے تیار رہتے۔ دن ہو رات، کسی بھی پہر لوگ ان سے مل سکتے اور اپنی ضرورت بیان کر سکتے تھے۔ سب نے انہیں بابا کہنا شروع کردیا تھا، جو لوگ ان کے پاس نہیں آتے وہ خود ان کے گھر پہنچ جاتے۔ وہ لوگوں کی ضرورتیں انتہائی رازداری سے پوری کرتے، بچیوں کی شادیاں کرانا، طالب علموں کی فیس ادا کرنا بیماروں کے لیے دواؤں کا انتظام اور تو اور وہ محلے کے بچوں کے لیے کھلونے بھی لاتے تھے۔ ان میں ٹافیاں اور پھل بانٹتے، ہر وقت ان کے گرد بچوں کا ہجوم رہتا۔ وہ مجسم رحمت بن گئے تھے۔ ہاں ایک ایسا انسان جو سراپا خیر تھا۔ لوگ انہیں اپنی ضروریات بتا کر مطمئن ہوجاتے۔ اب ان کا ہونا ہی تو اصل ہونا تھا۔ دن گزرتے گئے، سال بیت گئے اور وہ لوگوں کے دل کا چین بنتے چلے گئے۔ وہ ہر دکھ کا سُکھ، ہر درد کی دوا، ہر زخم کا مرہم ہو گئے تھے۔
بے ریا، بے غرض اور بے نیاز، ہر ایک کے لیے چشم بہ راہ۔ رات ہو یا دن، آندھی ہو یا طوفان، سردی ہو یا گرمی وہ لوگوں کے کاموں میں دیر تک لگے رہے۔ لیکن عجیب بات تھی ان کی آنکھیں ہمیشہ نم رہتیں، چہرے پر عجیب سی اداسی رہتی اور ہر ایک سے معافی مانگتے رہتے۔ اکثر یہ کہتے ہوئے رونے لگتے کہ اگر کسی نے آقا جی ﷺ کے کسی بھی امتی کا دل دکھایا تو آقا جی کریمؐ اس سے نظریں پھیر لیں گے، اور اگر آقاجیؐ نے اپنا چہرۂ انور کسی سے پھیر لیا تو سمجھو سب کچھ برباد ہوگیا، وہ ہلاک ہوگیا۔ وہ بہت پُھرتیلے تھے قابل رشک صحت تھی ان کی، رات کو دیر تک لوگوں سے گپ شپ بھی کرتے رہتے۔ لیکن اس رات انہوں نے سب کے سامنے اپنے بڑے بیٹے کو بلایا اور کہا، دیکھو ان سب کی دیکھ بھال کرنا، یہ جو کچھ بھی رونق میلہ لگا ہوا ہے ناں یہ سب ان سب ہی کی دعاؤں کا صدقہ ہے۔
یہ سب ہمارے ہیں، ہم سب کا دکھ سکھ سانجھا ہے، میرے بعد تم بھی سب کا خیال رکھنا۔ بس اتنا کہا اور سونے چلے گئے۔ نصف شب کو جب وہ بے دار نہیں ہوئے تو گھر والوں کو تشویش ہوئی۔ اس لیے کہ وہ حج کے بعد شب بیدار تھے۔ تہجد گزار، لیکن وہ خاموشی سے، کسی کو بھی زحمت دیے بِنا، اپنے رب کے حضور جاچکے تھے۔ ان کی رخصتی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو دھاڑیں مار کر نہ رو رہا ہو، ہاں معصوم بچے بھی، سب بس یہی کہے جا رہے تھے۔ ہم سب یتیم ہوگئے، ہم بے آسرا ہوگئے، ہم سب کا سائباں چلا گیا، ہم سب تنہا رہ گئے۔
خلق خدا کا سائبان چلا گیا تھا۔ لوگوں نے انہیں آنسوؤں کی برسات میں مٹی کے سپرد کردیا۔ پھر ان کے بعد تو یوں لگتا تھا، جیسے سب لوگ خود خاک بسر ہوگئے۔
ہاں یہ تھے ہمارے چاچا بوٹا، ہاں پھر سب انہیں بابا بوٹا کہنے لگے تھے۔ کیا بات تھی ان کی۔ وہ واقعی سائبان تھے۔ سب کے لیے گھنا چھتنار، سایہ دار اور پھل دار شجر جو جھکا ہوا تھا، ہر ایک ان سے فیض پاتا، ہاں وہ بابا بوٹا تھے، سب کے بابا بوٹا۔ حج کرنے سے پہلے تو وہ کسی کو کام کیا سکھاتے وہ تو اپنے اوزاروں کو چُھونے بھی نہیں دیتے تھے اور حج کے بعد انہوں نے اپنا ہنر بے روزگار جوانوں کو سکھایا بلکہ عام اعلان کیا کہ بے کار مت گھومو ہنر سیکھو، چاہے کوئی سا بھی، اس وقت تک ان کے مصارف وہ خود ادا کریں گے۔ نہ جانے کتنے ہی جوانوں کو انہوں نے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا اور باعزت رزق کمانے میں ان کی مدد کی۔
دیکھ لی آپ نے رزق حلال کی کرامت تو صاحبو! اگر کسی کا جیون حج بھی نہ بدل سکے تو کیسا حج اور کسے کہتے ہیں حجِ مقبول اور کسے کہتے ہیں خدا کا بر گزیدہ بندہ۔ ہاں بابا بوٹا جیسوں کو ہی تو کہتے ہیں خدا کا برگزیدہ بندہ۔
کیا اب بھی فقیر آپ کو بتائے کہ کرامت کسے کہتے ہیں۔۔۔۔۔؟