غزل
بدن خیال ہوئے، رہ گئے فقط سائے
اب ایسے حال میں جو بچ گیا، کدھر جائے
ہجوم بڑھنے لگا تھا سو میں نے کوشش کی
کسی کا کاندھا لگے اور سَر میں چوٹ آئے
وہ کائنات کی سب سے حسین لڑکی ہے
یہی ہے اس کی محبت میں دی گئی رائے
وہ میرا بکھرا ہوا دن سمیٹ دے آ کر
وہ میری الجھی شام آ کے سلجھائے
میں چاہتا ہوں تسلی کا کوئی مرہم ہو
میں چاہتا ہوں سماعت کا زخم بھر جائے
میں ایک آخری سجدہ کروں گا وقتِ سحر
مگر یہ جسم عبادت کی تاب تو لائے
ذرا سی بات پہ ہم اٹھ گئے وہاں سے سیف
اور ایک میز پہ پھر رکھی رہ گئی چائے
(سیف ریاض۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
خود کب بنا، کسی نے ہے چھو کر بنا دیا
مٹی سے مجھ کو بولتا پیکر بنا دیا
اس آئینہ بدن نے یوں لوٹا ہے شہر کو
حیرت نے سارے شہر کو پتھر بنا دیا
اگتا نہیں ہے درد بھی سانسوں کی بیل پر
کس نے مری زمین کو بنجر بنا دیا
رک رک کے دیکھتا ہے سمندر ہمارا نام
کیسا یہ تُو نے ریت پہ منظر بنا دیا
دونوں طرف بنایا مجھے اس نے ایک سا
باہر تھا جو بنا ہوا اندر بنا دیا
یہ تو ندیم ایک نظر کا کمال ہے
جس پر پڑی اسی کو قلندر بنا دیا
(ندیم احمد شہزاد ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
اس جگہ اس جگہ نہیں آیا
خط مرے یار کا نہیں آیا
جاؤ اس کا پتا کرو جا کر
اس کا کوئی پتا نہیں آیا
میں ہی میں کام آیا ہوں میرے
دوسرا تیسرا نہیں آیا
میں نے جنت میں دیکھا میرے ساتھ
کوئی بھی پارسا نہیں آیا
تیرے جانے کا اس قدر غم ہے
ابھی تک حوصلہ نہیں آیا
مجھ کو بھیجا گیا ہے تیرے لیے
میں یہاں بے وجہ نہیں آیا
آؤ اس کا پتا کریں جا کر
اس کا کوئی پتا نہیں آیا
میں نے آواز دی خدا کو کلیم
میری سننے خدا نہیں آیا
(مرزا کلیم یونس۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
وہی فریب میں لا کر پھنسا گیا مجھ کو
لگا جو شخص حقیقت میں پارسا مجھ کو
بچھڑ گیا ہے پر اچھی طرح نہیں بچھڑا
وہ کہہ رہا ہے ابھی تک برا بھلا مجھ کو
اتارا جاؤں گا انسانیت کے درجے سے
اگر ضمیر ملامت نہ کر سکا مجھ کو
میں دل لگی پہ تو ایمان لانے والا نہیں
ہے پیار اگر تو مجازی خدا بنا مجھ کو
میں پوچھ لوں گا مجھے کس لیے تباہ کیا
ملا اگر کبھی میرا اتا پتا مجھ کو
وہ ہنس کے بول پڑا تھا تو میں نے جانے دیا
وگرنہ پیاری بڑی تھی مری انا مجھ کو
میں آسماں سے گرا تھا جسے اٹھانے رضیؔ
سمجھ رہا ہے وہی اب گرا ہوا مجھ کو
(رضی رضوی، دینہ۔ جہلم)
۔۔۔
غزل
راہ ایسی کہ طوالت کا پتہ ہے ہی نہیں
کاروانوں کی سہولت کا پتہ ہے ہی نہیں
جسم کا لمس جو پانے کو مرے جاتے ہیں
ایسے لوگوں کو محبت کا پتہ ہے ہی نہیں
آتشِ ہجر تو روحوں کو نگل لیتی ہے
تجھ کو اس آگ کی حدت کا پتہ ہے ہی نہیں
انگلیاں پھیر کے بالوں میں منا لوں گا تجھے
تُو سمجھتا ہے کہ عادت کا پتہ ہے ہی نہیں
بے تکے پن کو جو اسلوب سمجھ بیٹھے ہیں
مان جاؤ انہیں جدت کا پتہ ہے ہی نہیں
دھوپ اوڑھے ہوئے رہتے ہیں درختوں کی طرح
ہم فقیروں کو تو راحت کا پتہ ہے ہی نہیں
بس میاں قیس کی سنت پہ چلے ہیں ارشد
مذہبِ عشق میں بدعت کا پتہ ہے ہی نہیں
(ارشد محمود ارشد۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
زندگی کی ہے بسر عالمِ فانی کے لیے
کوئی تیاری نہ کی نقل مکانی کے لیے
کوئی لمحہ کبھی پلکوں کو بھگو دیتا ہے
درد لازم تو نہیں اشک فشانی کے لیے
جانتی تھی کہ سمندر میں ہے گرنا پھر بھی
موج چلتی رہی دریا کی روانی کے لیے
اب سہارا نہیں دیتا وہی بیٹا ان کو
بوڑھے ماں باپ ہوئے جس کی جوانی کے لیے
اُس کے آنے پہ کبھی میں نے جلائے تھے چراغ
دل جلا لیتا ہوں اب یاد دہانی کے لیے
جب بھی دیکھوں اِنہیں روئے ہوئے لگتے ہیں شجر
کون آتا ہے یہاں مرثیہ خوانی کے لیے
حرمتِ دینِ محمد کے لیے جنگ تھی وہ
جان سیّد نے رضا دی نہیں پانی کے لیے
(احمد رضا، گکھڑ منڈی۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
مکینِ دل ہے جو وہ دوسرا نہیں لگتا
وہ شخص خود سے مجھے اب جدا نہیں لگتا
گرا ہے جو مرے دامن پہ بے خیالی میں
مجھے وہ اشک مری آنکھ کا نہیں لگتا
بنامِ عشق میں گھائل ہوں ایک مدت سے
مگر جنوں یہ مرا دیرپا نہیں لگتا
غبارِ دشت کیے ہم نے جان و دل اپنے
وصال و عشق کی دنیا میں کیا نہیں لگتا
اگرچہ اس سے کوئی رابطہ نہیں میرا
مسافتیں ہیں مگر فاصلہ نہیں لگتا
کچھ اس مقام پر پہنچا ہوں آج میں عازم
کہ مجھ کو درد بھی اب درد سا نہیں لگتا
(عبدالسلام عازم۔ اٹک)
۔۔۔
غزل
اس کا نعم البدل ملا مجھ کو
یعنی اذنِ غزل ملا مجھ کو
صبر جتنا کیا تھا مشکل میں
اس کا اتنا ہی پھل ملا مجھ کو
غور خود پر کیا جو تھوڑا سا
سب مسائل کا حل ملا مجھ کو
ہاں محبت کی بات کی میں نے
جب بھی موقع محل ملا مجھ کو
بوجھ دل سے اتر گیا سارا
خواب اندر وہ کل ملا مجھ کو
(سبحان خالد، تلہ گنگ۔ چکوال)
۔۔۔
غزل
ہمہ تن گوش ہیں لیکن کہانی سے خوش نہیں
صریحاً لوگ میری میزبانی سے خوش نہیں
مجھے اب سُنتِ سجاد ہی کرنی ہے ادا
مرے رخسار بھی ہر بار پانی سے خوش نہیں
اذانِ صور کی عجلت ہے سب اہلِ قبر کو
رہینِ خاک کوئی خاک دانی سے خوش نہیں
انہیں اک موج نے یوں بے توکل ہے کر دیا
سفینہ ور ہوا کی مہربانی سے خوش نہیں
ہمیں عادت ہے گھنٹوں بیٹھ کر روتے رہنے کی
عدو کیا تو ہماری رائگانی سے خوش نہیں
تبھی تو عمر بچپن سے نکل نہ پائی کبھی
اسے معلوم ہے ساگر جوانی سے خوش نہیں
(ساگر حضور پوری ۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
دیکھ تیرے عشق میں اب ولولہ ہوتا نہیں
اس لیے شاید ہمارا رابطہ ہوتا نہیں
''دل کو دل سے راہ ہوتی ہے'' سنا تھا یار پھر
تیرے دل تک کیوں ہمارا راستہ ہوتا نہیں
ہم بہت مصروف رہتے ہیں تمہارے واسطے
اس لیے اوروں سے شاید واسطہ ہوتا نہیں
کھول دے کھڑکی ذرا پوری غزل ہو جائے گی
ورنہ مجھ سے تیرے بن اک قافیہ ہوتا نہیں
سانحوں کی زندگی سے دوستی بھی ہے مگر
پھر شبِ فرقت کے جیسا سانحہ ہوتا نہیں
تم ذرا سی بات پر جب روٹھ جاتے ہو کمال
میں بکھر جاتا ہوں لیکن زلزلہ ہوتا نہیں
(مبشر آخوندی۔ گلگت بلتستان)
۔۔۔
غزل
مجھے نہیں تھی کسی چیز کی کمی، جاناں!
مگر ہمیشہ ضرورت رہی تری، جاناں!
میں طوقِ گردشِ ایام سے بندھا ہوا ہوں
کہ خود پہ روتا ہوں ایسی ہے بے بسی، جاناں!
کبھی جو کانچ کے ٹکڑے کہیں نظر آئے
تو یاد کرنا ہماری شکستگی، جاناں!
میں روز خواب میں تم سے بچھڑ کے مرتا ہوں
میں کتنی بار کروں؟ ایسی خودکشی، جاناں!
جو لڑتے لڑتے کبھی زندگی سے، مر جاؤں
تو پھر وداع مجھے کرنا ہنسی خوشی، جاناں!
ثواب کے لیے میّت تلے ہیں سارے لوگ
ہر ایک شخص کا کاندھا ہے مطلبی، جاناں!
میں گرتے پڑتے جو پہنچا چراغ تک یاسر
تو ساتھ چھوڑ گئی اس کی روشنی، جاناں!
( یاسر پاروی۔ اسکردو)
۔۔۔
غزل
ظلم دل پر ہزار کرتے ہیں
اُن کا ہم انتظار کرتے ہیں
مشکلوں نے بتا دیا مجھ کو
بے وفائی تو یار کرتے ہیں
میرے آنسو ہی سب پہ محفل میں
حالِ دل آشکار کرتے ہیں
ہنس کے زلفیں سنوار لیتے ہیں
جب شکاری شکار کرتے ہیں
بازیِ عشق جیت کر صاعق
خود سے منسوب ہار کرتے ہیں
(صاحبزادہ ظلِّ علی صاعق، سمبڑیال۔ سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
چپ تھے آج وہ جانے کیوں
زلف نہ دی سلجھانے کیوں
جن کے لیے اب روتے ہو
چھوڑے وہ کاشانے کیوں؟
دیکھو چیخ رہے ہیں رند
بند ہیں سب میخانے کیوں
پیار جو کرتے ہیں اُن کے
بنتے ہیں افسانے کیوں
دو ہی گھونٹ پلا کر آپ
لگتے ہیں ترسانے کیوں
بتلا دو اب تم ہی عزیزؔ
ٹوٹے ہیں پیمانے کیوں
(عزیز الرحمٰن عزیز۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
اپنوں نے گھر جلایا، دل تھا ہزار ٹکڑے
جب ظلم تھا یہ ڈھایا، دل تھا ہزار ٹکڑے
بچپن تھا دفن اس میں، اس میں مری جوانی
جب گھر مرا گرایا، دل تھا ہزار ٹکڑے
تھمتے نہیں تھے آنسو، زوروں پہ ہچکیاں تھیں
سامان جب اٹھایا، دل تھا ہزار ٹکڑے
گھر میرا چھن گیا تھا، سکھ میرا چھن گیا تھا
اور سر پہ تھا نہ سایہ، دل تھا ہزار ٹکڑے
یاسین ماں کو دیکھا غمگین جس گھڑی تو
جبراً میں مسکرایا، دل تھا ہزار ٹکڑے
(ایم یاسین آرزو۔ لاہور)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]