سندھ میں ووٹر لسٹوں پر سیاسی جماعتوں کے اعتراضات الیکشن کمیشن کے لیے چیلنج

سندھ کی دو سالہ آفت زدہ صورتحال کے پیش نظر آئندہ انتخابات میں ووٹرز کو ان کی موجودہ رہائش کے پتہ پر ووٹ کا حق دیا جائے

حتمی کمپیوٹرائزڈ فہرست کے تحت پورے سندھ میں ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 84 لاکھ ہے جبکہ 2007 میں یہ تعداد ایک کروڑ 97 لاکھ 52 ہزار 843 تھی. فوٹو: فائل

صوبائی الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ سندھ بھر میں کمپیوٹرائزڈ حتمی ووٹرز لسٹ کے تحت صوبے میں ایک کروڑ84 لاکھ سے زائد ووٹرز کا اندراج ہوا ہے۔ کراچی میں ووٹرز کی تعداد 68 لاکھ 51ہزار 948 ہے۔ غیر تصدیق شدہ اور بوگس ووٹرز کے نام خارج کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کے مطابق جو ووٹر لسٹ جاری کی گئی ہے اس میں صوبے میں 2007 کی ووٹرز لسٹوں کے مقابلے میں 13لاکھ ووٹر کم ہیں جبکہ کراچی میں دو لاکھ سے زائد ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

حتمی کمپیوٹرائزڈ فہرست کے تحت پورے سندھ میں ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 84 لاکھ ہے جبکہ 2007 میں یہ تعداد ایک کروڑ 97 لاکھ 52 ہزار 843 تھی۔خاص طور پر اپر سندھ لاڑکانہ، جیکب آباد، سکھر، خیرپور اور نوابشاہ اضلاع میں دو، دو لاکھ سے زائد ووٹ کم ہوئے ہیں۔ ووٹروں کی اتنی کم تعداد کے باعث سندھ کی نہ صرف قوم پرست جماعتوں بلکہ خود پیپلز پارٹی سندھ نے بھی ان لسٹوں پر شدید اعتراضات کیے ہیں۔

پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کو خط لکھ کر آئندہ انتخابات کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لیے لازمی ہے کہ 1998 کی حلقہ بندیوں کے مطابق ووٹنگ مشین کے ذریعے الیکشن کرائے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1998 کے بعد کی گئی حلقہ بندیوں کو منسوخ کیا جائے کیونکہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی حمایت یافتہ جماعتوں کو الیکشن جتوانے کے لیے یہ حلقہ بندیاں کرائی تھیں۔

ان کا یہ بھی مطالبہ رہا ہے کہ سندھ کی دو سالہ آفت زدہ صورتحال کے پیش نظر آئندہ انتخابات میں ووٹرز کو ان کی موجودہ رہائش کے پتہ پر ووٹ کا حق دیا جائے۔ اپنے خط میں تاج حیدر نے کہا ہے کہ ماضی میں انتخابی عمل میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کے باعث جب تک غیر جمہوری قوتوں کی رکاوٹوں کو ختم نہیں کیا جائے گا آزاد اور شفاف انتخابات ممکن نہیں ہونگے۔ خط میں انھوں نے مزید کہا کہ گو نادرا کے پاس اب بھی نامکمل ڈیٹا موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان کے پاس موجود اس ڈیٹا کے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، وطن کارڈ سمیت دیگر سہولیات فراہم کی گئیں جو کہ کامیابی کے ساتھ جاری ہیں۔


خط میں ان کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے لیے بلاک، چارجز اور سرکلز بنائے جاتے ہیں، ایک سرکل میں کم و بیش 400 گھر ہوتے ہیں۔ انتخابی حلقہ بنانے کے لیے انہی بلاک، چارجز اور سرکلزکو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ 1998 کی مردم شماری کے لیے بھی بلاکس بنائے گئے تھے، لیکن 2008 کی مردم شماری میں نئے بلاکس بنانے کے بجائے کہا گیا کہ پرانے بلاکس سے مردم شماری کی گئی حالانکہ اس دوران کئی نئی آبادیاں بن چکی ہیں اور آبادی بھی بڑھ چکی ہے۔

قانون کے مطابق قائم شدہ سرکلز میں تمام شناختی کارڈ رکھنے والے افراد ووٹ دینے کے لیے اہل ہوتے ہیں۔ اپنے خط میں تاج حیدر نے 1898 کے بعد حلقہ بندیوں میں ترامیم کی شدید الفاظ میں مخالفت کی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (EVMs) کے ذریعے ووٹ دینے کا تجربہ الیکشن کمیشن کے سامنے کیا جا چکا ہے، یہ مشینیں قیمت کے حساب سے ہمارے لیے قابل خرید ہیں جن سے نہ صرف بوگس ووٹ ختم ہو سکیں گے بلکہ ووٹر کا ٹائم بھی بچے گا، اس لیے ہمارے الیکشن کے دو مراحل کو ختم کرکے ایک ہی دن قومی اور صوبائی الیکشن کرائے جائیں جس سے ووٹر اور الیکشن کمیشن کا وقت بچنے کے ساتھ ساتھ اخراجات میں بھی پچاس فیصد کی کمی آئے گی۔

بھارت ہم سے کئی گنا بڑا ملک ہونے کے باوجود EVMs کا کامیاب استعمال کر رہا ہے اس لیے ہمارے ملک میں بھی ان مشینوں کے ذریعے ووٹ کاسٹ کو یقینی بنایا جائے۔ اس سلسلہ میں پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کا بھی اجلاس گزشتہ اتوار کو پیپلز میڈیا سیل میں ہوا جس میں پیپلز پارٹی نے انتخابی فہرستوں میں بے ضابطگیوں کے خلاف چیف الیکشن کمشنر سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کا ایک وفد جلد الیکشن کمشنر سے ملاقات کرے گا۔ اجلاس میں الیکشن کمیشن کی جاری کردہ حتمی انتخابی فہرستوں پر سخت اعتراض اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اجلاس میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو انتخابی فہرستوں میں ہونے والی خامیوں کو دور کرنے کیلیے کام کرے گی اور نئے ووٹرز کا اندراج کرائے گی۔ پیپلز پارٹی نے اس خط کی کاپی اپنی سندھ کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ارسال کی ہے جس میں ان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھی اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن پر اپنا دباؤ بڑھائیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن سندھ سمیت دیگر جماعتیں پہلے ہی ووٹر لسٹوں پر اعتراضات کا اظہار کر چکی ہے اس لیے اب دیکھنا یہ ہے کہ جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم آئندہ انتخابات کو شفاف اور نتائج کو سب کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں؟
Load Next Story