سردار ذوالفقار کھوسہ کی مسلم لیگ ن میں واپسی دوستی کی بحالی یا سیاسی مفاہمت

سردار ذوالفقار کھوسہ سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ سے نکل کر ان کے لئے اور کوئی موثر اور محفوظ سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہوگا


Amjad Bukhari August 28, 2012
سردار ذوالفقار کھوسہ کے نواذ شریف سے گلے شکوے دور کرانے میں بنیادی اور اہم کردار اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے ادا کیا ہے۔ فوٹو: آن لائن

سردار کے مان جانے پر سب خوش ہیں ڈیرہ غازیخان میں تو جشن منایا گیا ڈھول کی تھاپ پر ناچنے والے مٹھائیاں بھی بانٹتے رہے' کچھ کہتے ہیں صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آیا تو پھر کیا گلہ اور کیا شکوہ' لیکن بہت ساروں کو یہ سیاسی صلح ہضم نہیں ہوپارہی، خود سردار ذوالفقار خان کھوسہ نے بھی باامر مجبوری یہ صلح قبول کرلی ہے۔ مطالبہ تو یہ تھا کہ میاں نواز شریف خود چل کر سردار ذوالفقار خان کھوسہ کی رہائش گاہ پر آئیں اور انہیں منائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ سردار پہلے تو انتظار کرتا رہا اور پھر ثالثی کی کوششیں رنگ لائیں اور سردار خود چل کر میاں نواز شریف کے پاس آگیا۔

کہتے ہیں گلے شکوے دور ہوگئے ہیں اور سردار ذوالفقار کھوسہ کی پرانی حیثیت بحال ہوجائے گی اور انہیں سرکاری حیثیت بھی پہلے والی ملے گی۔ ثالثی میں بنیادی اور اہم کردار اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے ادا کیا ہے جبکہ ملتان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ملک رفیق رجوانہ بھی دونوں طرف کی قربت رکھنے کے باعث ثالثی کا کردار نبھاتے رہے ۔ سردار کے خود چل کر جانے پر ان کے کچھ ساتھی نالاں بھی ہوئے لیکن پھر اسے سیاسی مجبوری سمجھ کر قبول کرلیا گیا اور وہ بھی جشن منانے والوں میں شامل ہوگئے۔

معاملہ حل ہوجانے کے باوجود میاں صاحبان کے مزاج اور انداز سیاست کو سمجھنے والے یہ کہتے ہیں کہ شیشے میں دراڑ آگئی ہے اور جو میاں صاحب کے دل سے اتر جائے وہ پہلے والی پوزیشن اور حیثیت پر بحال نہیں ہوپاتا جبکہ لڑائی کی وجہ بھی فی الحال برقرار ہے اس لئے اس صلح کو سیاسی مفاہمت قرار دیا جاسکتا ہے، دوستی کی بحالی نہیں، کیونکہ دونوں فریقین علیحدگی کے نقصانات سے بخوبی واقف تھے۔ سردار ذوالفقار کھوسہ سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ سے نکل کر ان کے لئے اور کوئی موثر اور محفوظ سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہوگا جبکہ ساری زندگی جن سیاسی قوتوں کی مخالفت کی ان کے ساتھ اچانک شیر و شکر ہوجانا بھی ممکن نہیں ہوگا ۔

دوسری طرف ڈیرہ غازیخان میں مسلم لیگ (ن) کے اندر اس سیاسی خلا کو پر کرنے کے لئے بہت ساری قوتیں متحرک ہوگئیں ادھر مسلم لیگ (ن) پہلے ہی جنوبی پنجاب میں مشکل حالات کا شکار ہے اور جاوید ہاشمی کی علیحدگی کے اثرات زائل نہیں ہوئے تھے کہ سردار ذوالفقار کھوسہ پارٹی سے لاتعلق ہوگئے ان حالات میں جب انتخابات سر پر ہوں اور پارٹی کے اہم اور پرانے رہنما ساتھ چھوڑتے جائیں تو اس کے انتخابی نتائج پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے تھے جبکہ ٹکٹوں کی تقسیم اور امیدواروں کے تعین کے مرحلے پر بھی سینئر عہدیداروں کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور ایسے حالات میں جب پارٹی کے اندر کھوسہ گروپ کی صورت میں ان کے حامیوں کاایک پورا نیٹ ورک موجود تھا مسلم لیگ (ن) کے لئے مشکلات بڑھ سکتی تھیں، دونوں طرف سے سنجیدہ سیاسی رویے کا مظاہرہ کیا گیا اور معاملات مفاہمت کی صورت میں سلجھا لئے گئے خدشات مدنظر رکھ کر حالات سے سمجھوتہ کرلیا گیا لیکن ان حالات کا کیا ہوگا جو اختلافات کا سبب بنے،

سب سے بڑی وجہ سردار ذوالفقار خان کھوسہ کے صاحبزادے دوست محمد کھوسہ تھے، بڑے سردار صاحب کو بھی یہ گلہ تھا کہ بیورو کریسی ان کے بیٹے کی بات نہیں مانتی جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے بھی دوست محمد خان کھوسہ کے بارے میں شدید تحفظات تھے اور یہی معاملات کشیدگی بڑھاتے قطع تعلقی پر منتج ہوئے لیکن اس صلح میں زبانی کلامی تو سردار ذوالفقار کھوسہ کو مطمئن کردیا گیا لیکن مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔ صلح کے معاملات سے دور رہنے کے لئے دوست محمد خان کھوسہ جان بوجھ کر ملک سے باہر چلے گئے اور اب بھی اس صلح پر کسی مثبت ردعمل کا اظہار نہیں کررہے۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہ اس بات پر بھی ناخوش ہیں کہ میاں نواز شریف منانے کے لئے خود ان کے گھر نہیں آئے بلکہ سردار کو بلوا لیا گیا' صلح کے لئے سردار کا چل کر جانا شاید شہری سیاست میں کسی اہمیت کا حامل نہیں لیکن سرداری نظام اور دیہی سیاست میں اس کا ردعمل گہرا اور سخت ہوتا ہے اس لئے اس پر ردعمل کا بھی امکان ہے جبکہ دوست محمد خان کھوسہ کی ناراضگی ان کی پارٹی قیادت سے صلح اور آئندہ سیاست میں ان کے کردار کا معاملہ اب بھی حل طلب ہے ۔

سردار ذوالفقار کھوسہ کے دوسرے صاحبزادے سیف الدین خان کھوسہ کی ناراضگی اور ان کا سیاست میں نئے رستے ڈھونڈنا بھی کھوسہ خاندان کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے، ویسے 2 دہائیاں اقتدار کے بھرپور مزے لوٹنے والے کھوسہ خاندان نے صرف چند روز اقتدار سے دوری دیکھی ہے تو لوگوں کا رویہ بھی دیکھ لیا وہ کھوسہ ہائوس جو گہما گہمی کا مرکز تھا چند دنوں میں ویران ہوگیا اور لوگوں نے اقتدار کے نئے مراکز کی طرف رخ کیا اب وہ جو سردار ذوالفقار کھوسہ کی مسلم لیگ (ن) سے ناراضگی کو اہم موقع تصور کرتے ہوئے اپنے سیاسی قبلے بدلنے لگے تھے پھر پریشان ہوگئے ہیں کہ وہ اب کیا کریں اور آئندہ کیا حکمت عملی اپنائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔