ریاست مدینہ اور انصاف کے تقاضے
وزیر اعظم عمران خان نے جوکہا تھا وہ کردکھایا۔
سیاسی سرگرمیاں اگر عروج پر ہیں تو موسم کی سنگینی بھی آگ برسا رہی ہے۔ گویا ہر طرف گرما گرمی ہے، موسم کے آثار اور حالات بتا رہے تھے گرمی کا پارہ مزید بڑھے گا اور سزاؤں کا نقارہ گونجے گا ملک کے غدار بھی گرفت میں آئے اور ملک کی بنیادوں میں شگاف ڈالنے والے بھی اپنے انجام کو پہنچے فی الحال تو کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
وزیر اعظم عمران خان نے جوکہا تھا وہ کردکھایا، سزائیں عدالت عظمیٰ کی طرف سے دی گئی ہیں مکمل چھان بین کے بعد ثبوت سامنے آئے، غربا و نادار لوگوں کے اکاؤنٹ سے لاکھوں،کروڑوں روپے منظرعام پر آئے ان بے چاروں نے تو خواب میں بھی نہیں دیکھے ہوں گے اور انھیں اس بات کا بھی علم نہیں ہوسکا کہ وہ کروڑ پتی ہونے کے باوجود فٹ پاتھ پر دھوپ میں کھڑے ہوکر روزی حاصل کر رہے ہیں، بے شمار دولت مختلف حضرات کے اکاؤنٹ سے برآمد ہوئی، جمع کرانے والوں کی بھی تصدیق ہوگئی بالکل اسی طرح جس طرح شرجیل میمن کے گھر سے اربوں روپے برآمد ہوئے تھے اور آغا سراج درانی اسپیکر سندھ اسمبلی کے گھر سے سونے کے بھاری بھرکم زیورات برآمد ہوئے تھے۔ پھر بچت کی گنجائش تشنہ۔
وزیر اعظم عمران خان نے کمیشن بنانے کا بھی اعلان کردیا ہے جو اس بات کی تحقیقات کرے گا کہ 10 سال میں 24 ہزار ارب کا قرض کس طرح چڑھا، بجٹ کے بعد سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ اس کمیشن میں آئی ایس آئی، آئی بی، ایف آئی اے، ایف بی آر، ایس ای سی پی کے نمایندے شامل ہوں گے، انھوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ نیا پاکستان ریاست مدینہ کے اصولوں پر عظیم ملک بننے جا رہا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو اور انصاف و عدل مدینے کی ریاست میں سستا اور ہر شخص کے لیے مساوی ہو، جس طرح حضرت عمرؓ نے انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے صحابی رسول حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے جری، بہادر، اسلام کے سپہ سالارکو سرزنش کی تھی، شام کی فتوحات اور 17ہجری کے واقعات میں سب سے اہم واقعہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی معزولی کا ہے۔
ہمارا معاشرتی نظام سالہا سال سے بگڑا ہوا ہے نہ قانون اور نہ اس کے رکھوالے اور عدالتیں بھی انصاف کرنے سے قاصر ہیں۔اس کی وجہ دولت کی کشش نے ان منصفین کے ایمان پر ضرب لگائی ہے، اسی طرح دوسرے اہم ذمے داران نے قانون شکنی کے نتیجے میں روپوں اور ڈالر سے بھرے ہوئے بریف کیس وصول کیے ہیں، رسول پاکؐ نے فرمایا کہ اس امت میں کوئی برکت نہیں ہوسکتی، جس میں عادلانہ فیصلے نہ ہوتے ہوں اور کمزور و بے بس شخص کوئی پریشانی اٹھائے بغیر اپنا حق حاصل کرلے'' ہمارے وطن عزیز میں تو غربا و مساکین پر اتنا تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ غریب اپنی جان سے چلا جاتا ہے اور بااختیار ادارہ پولیس ڈپارٹمنٹ ورثا کو لاش دینے میں بھی تنگ کرنے اور رشوت لینے میں اپنی مثال آپ ہے۔
2019-20 کا بجٹ بھی آگیا ہے، کچھ چیزیں سستی اور کچھ مہنگی ہوگئی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات اچھی لگی اور اللہ کرے اچھی اور سچی ثابت ہو، وہ یہ کہ ڈیڑھ کروڑ غریبوں کے لیے صحت کارڈ اور 10 لاکھ کے لیے راشن کارڈ اس کے ساتھ 80 ہزار نوجوانوں کے لیے بلاسود قرضے دیے جائیں گے، حکومت کو اپنے بیانات میں صداقت پیدا کرنے کے لیے عمل کی ضرورت ہے، ہمارے ملک کے بے شمار افراد غربت کی لکیر سے نیچے رہ کر زندگی بسر کر رہے ہیں، کتنے گھرانے ایسے ہیں جن کا کمانے والا اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہے۔
ٹریفک پولیس کے اہلکار بھی افلاس زدہ لوگوں میں شامل ہیں، ان کی تنخواہیں محدود اور رہنے کے لیے گھر میسر نہیں، کچھ لوگوں کو سرکاری فلیٹس ملے ہوئے ہیں، لیکن وہ اتنے چھوٹے ہیں کہ پورا گھرانہ اس میں سما نہیں سکتا ہے۔ اگر کوئی اہلکار طبعی طور پر یا فائرنگ سے فوت ہوگیا ہے تو اس کی بیوہ اور یتیم بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں، یہ تمام حقائق تھانے میں بیٹھے ایک سارجنٹ نے اس وقت بتائے جب غلط پارکنگ کی وجہ سے گاڑی تھانے میں پہنچ گئی تھی، ہمارے صاحبزادے کو گاڑی کسی شرط یا رشوت لیے بغیر حوالے کردی اور ہمیں دکھ بھری کتھا سنائی کہ ہمارے مسائل کی ضرور نشاندہی کریں۔
تو ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ان تمام ملازمین کے مسائل کو حل کرنا حکومت وقت کی ذمے داری ہے جو چھوٹے عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور معاشی طور پر غیر مستحکم ہیں گزشتہ دنوں عمران خان نے تھر میں بھی خوشحالی لانے کا عزم کیا تھا، پانی اور علاج و معالجہ کی سہولتوں کی بھی بات کی اور کراچی کے بڑے اسپتالوں کی ذمے داری اور بہتر سے بہتر کام کرنے، جدید مشینری کے ذریعے علاج کو یقینی بنانے کے لیے یقین دہانی کرائی تھی۔
ہم نے پہلے بھی اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ نیا پاکستان بننے کے بعد بھی کراچی کا حال جوں کا توں ہے ترقیاتی کاموں میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہوئی کچرے کا ڈھیر اور منہ کھولے نالے، ہر دن بچوں کو بڑی آسانی سے نگل جاتے ہیں کوئی انھیں پاٹنے کے لیے تیار نہیں بلدیہ کا ادارہ اور نہ کنٹونمنٹ بورڈ ذمے داری اٹھانا نہیں چاہتے ہیں، ارباب اختیار کا اس مسئلے پر توجہ دینا ناگزیر ہوچکا ہے۔ ملک اسی وقت ترقی کرسکے گا جب ہر شخص اپنی ذمے داری کو پورا کرنا اپنا فرض اولین سمجھے گا تب ہی اس ملک میں ریاست مدینہ کی جھلکیاں نظر آسکتی ہیں۔