عمران خان حکومت اور آئی ایم ایف
تاریخ کی کتابوں میں ابھی تک کوئی ایسا ملک دریافت نہیں ہوا، جو آئی ایم ایف کے قرضہ سے معاشی گردات سے نکلا ہو۔
عمران خان نے انتخابی مہم میں جو بلند بانگ دعوے کیے ان میں سے ایک دعویٰ یہ تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائینگے، لیکن یہ دعویٰ بھی محض دعویٰ ہی ثابت ہوا۔ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے، آئی ایم ایف کے انتظامی بورڈ کی منظوری کے بعد اس پر جون کے آخر تک عمل درآمد شروع ہو جائے گا اور حکومت وقتی طور پر اس دباو سے باہر نکل آئے گی، جس نے اول روز سے اس کی قوت کار کو مفلوج کر رکھا تھا۔
آئی ایم ایف ( انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ) دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آیا اور اس کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ رکن ملکوں میں سے اگر کسی ملک کی بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو بعض شرائط پر قرضہ کی صورت میں اس کی مدد کی جائے گی تاکہ باقی رکن ملک محفوظ رہیں تاہم اس سے پہلے ان عوامل کا جائزہ لیا جائے گا جن سے مذکورہ ملک کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور اصلاح کے لیے ''سفارشات'' بھی تجویز کی جائیں گی جن پر درخواست گزار عمل کرنے کا پابند ہو گا۔
بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ ایک ملک اپنی برآمدات سے کہیں زیادہ درآمدات کر رہا ہوتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر اس درمیانی فرق کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور کوئی اس کو مزید قرضہ دینے پر رضامند ہوتا ہے۔، غیرملکی کرنسی کے مقابلہ میں ملکی کرنسی کو نیچے لے آیا جاتا ہے۔ درآمدات کی مانگ میں کمی کے لیے حکومتی اخراجات کو کم سے کم سطح پر رکھا جائے۔۔ آئی ایم ایف جو بھی مدد مہیا کرتا ہے، مشروط طور پر کرتا ہے اور اس کا مقصد محض عارضی ریلیف مہیا کرنا ہوتا ہے۔
عمران خان حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان کیا شرائط طے پائی ہیں، اس کی مکمل تفصیلات تو سامنے نہیں آ سکیں، لیکن کچھ چیزیں بڑی واضح ہیں۔ حکومت کو بجٹ خسارہ کم کرنا اور پانچ اعشاریہ پانچ فی صد تک نیچے لانا ہوگا۔ یہ ہدف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا، جب حکومت بارہ سو ارب کے مزید ٹیکس لگائے، یا پھر اتنی مقدار میں حکومتی اخراجات کم کرے۔ حکومت اپنے اخراجات کم کرتی نظر نہیں آ رہی، لہٰذایہ سارا اضافی بوجھ عوام کی کمر پر ہی لادا جائے گا۔ وزیراعظم اور مشیر خزانہ یہ فرما چکے ہیں کہ عوام کو یہ اضافی بوجھ بہرحال برداشت کرنا پڑے گا۔
آئی ایم ایف یہ بھی چاہے گی کہ حکومت کے مرکزی بینک سے قرضہ لینے پر کچھ پابندیاں عائد کر دے۔ مرکزی بینک سے قرضہ لینے کا مطلب نوٹ چھاپنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں نوٹ چھاپنے کے عمل میں جو تیزی جون2016 کے بعد دیکھنے میں آئی، حقیقتاً اس نے ملکی معیشت کو بہت کھوکھلا کر دیا ہے۔ جون 2016 میں مرکزی بینک سے حاصل کردہ قرضہ صرف 14 سو ارب تھا، جو آج 7 ہزار 6 سو ارب تک پہنچ چکا۔
اگر آئی ایم ایف مرکزی بینک سے قرضہ لینے پر بعض پابندیاں عائد کر دیتا ہے تو یہ حکومت کے لیے بہت تکلیف دہ صورتحال ہو گی۔ غٖیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کی شرط بھی یقینی طورپر شامل ہوگی، کیونکہ یہی شرط آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرے گی، لیکن یہ تب ہی ہو گا، جب ملکی برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہو، جو ماضی کی طرح موجودہ حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
پچھلے ایک سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا نتیجہ اب تک افراط زر اور مہنگائی کی شکل میں ہی نکلا ہے، بلکہ معاہدہ ہو جانے کے باوجود مارکیٹ میں گرمجوشی دیکھنے میں نہیں آ رہی او ریہ جو کہا جا رہا تھا کہ پیکیج ملتے ہی بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے گا، فی الحال اس کے کوئی آثار نہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ حکومتی معاہدہ کے نتیجہ میں حکومت کی ادائیگیوں کا توازن بھلے وقتی طور پر درست ہو جائے لیکن عوام کی چیخیں نکل جائیں گی کیونکہ آئی ایم ایف مسلسل یہ تقاضا بھی کر رہا ہے کہ ترقیاتی اخراجات پر کٹ لگانے کے بجائے بجلی گیس اور روزمرہ ضرورت کی دیگر اشیا پر دی جانیوالی تمام تر مالی رعایتوں کو یکسر ختم کیا جائے اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں جو پہلے ہی عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، ان مزید اضافہ کیا جائے۔
ان حالات میں جب کہ پیٹرول کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے اور روپیہ ٹکے ٹوکری ہو چکا، عام آدمی کے لیے جینا پہلے سے بھی زیادہ دشوار ہو جائے گا۔ ستم یہ ہے کہ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا عمران خان کو اس بارے میں علم نہیں کیونکہ وزیراعظم بننے سے پہلے وہ خود بھی آئی ایم ایف امداد کی ان تباہ کاریوں سے قوم کو خبردار کر چکے ہیں اورکہتے رہے ہیں کہ کچھ بھی ہو، وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن تھا جو ناخوب وہی بتدریج خوب ہوا، آج ان کی حکومت اور اس کے عہدے دار آئی ایم ایف کے امدادی پیکیج کی برکات بیان کرتے ہوئے یہ کہتے بھی پائے جاتے ہیں کہ عوام کے مفاد میں ہی آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ بھی کہ اس کے نتیجہ میں موجودہ مہنگائی کی شدت کم ہو جائے گی۔
حیرت ہے کہ ایک طرف آئی ایم ایف کو مزید مہنگائی کرنے کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے اور دوسری طرف عوام کو مہنگائی ختم کرنے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ ملکی معیشت کے بارے میں معمولی معلومات رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ مزید مہنگائی کرنا، آئی ایم ایف کے امدادی پیکیج کی شرط اول ہوتی ہے کیونکہ عالمی ساہوکارکے نقطہ ء نظر سے یہی اقدام اس کے قرضہ کی محفوظ واپسی کی ضمانت ہوتا ہے۔
قصہ کوتاہ یہ کہ پاکستان کی حکومتوں سے آئی ایم ایف کا یہ کوئی پہلا معاہدہ نہیں، اس سے پہلے بھی21 معاہدے ہو چکے۔ ہر حکومت نے یہی راگ الاپا کہ ''مجبوری ہے، اس کے بغیر گزارا نہیں، یہ آخری قرضہ ہو گا، اس کے بعد آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔'' عمران خان بھی یہی کہہ رہے ہیں۔
یہاں یہ ذکر کیے بغیر چارہ نہیں کہ جنرل مشرف جیسے بھی تھے، لیکن ایشیا کے واحد حکمران تھے، جنہوں نے اپنے دور میں آئی ایم ایف کا حساب چکتا کیااور اس کو الوداع کہہ دیا۔ان کے جانے کی دیر تھی کہ زرداری صاحب پھر کشکول لے کر آئی ایم ایف کے دردولت پر سربسجود ہو گئے۔ ان کے بعد نوازشریف اور اب عمران خان بھی اس کوچہ میں انھی کے پیروکار ثابت ہوئے ہیں، حالانکہ تاریخ کی کتابوں میں ابھی تک کوئی ایسا ملک دریافت نہیں ہوا، جو آئی ایم ایف کے قرضہ سے معاشی گردات سے نکلا ہو اور اپنے پاوں پرکھڑا ہوا ہو۔
ایں خیال است و محال است و جنوں
آئی ایم ایف ( انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ) دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آیا اور اس کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ رکن ملکوں میں سے اگر کسی ملک کی بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو بعض شرائط پر قرضہ کی صورت میں اس کی مدد کی جائے گی تاکہ باقی رکن ملک محفوظ رہیں تاہم اس سے پہلے ان عوامل کا جائزہ لیا جائے گا جن سے مذکورہ ملک کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور اصلاح کے لیے ''سفارشات'' بھی تجویز کی جائیں گی جن پر درخواست گزار عمل کرنے کا پابند ہو گا۔
بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ ایک ملک اپنی برآمدات سے کہیں زیادہ درآمدات کر رہا ہوتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر اس درمیانی فرق کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور کوئی اس کو مزید قرضہ دینے پر رضامند ہوتا ہے۔، غیرملکی کرنسی کے مقابلہ میں ملکی کرنسی کو نیچے لے آیا جاتا ہے۔ درآمدات کی مانگ میں کمی کے لیے حکومتی اخراجات کو کم سے کم سطح پر رکھا جائے۔۔ آئی ایم ایف جو بھی مدد مہیا کرتا ہے، مشروط طور پر کرتا ہے اور اس کا مقصد محض عارضی ریلیف مہیا کرنا ہوتا ہے۔
عمران خان حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان کیا شرائط طے پائی ہیں، اس کی مکمل تفصیلات تو سامنے نہیں آ سکیں، لیکن کچھ چیزیں بڑی واضح ہیں۔ حکومت کو بجٹ خسارہ کم کرنا اور پانچ اعشاریہ پانچ فی صد تک نیچے لانا ہوگا۔ یہ ہدف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا، جب حکومت بارہ سو ارب کے مزید ٹیکس لگائے، یا پھر اتنی مقدار میں حکومتی اخراجات کم کرے۔ حکومت اپنے اخراجات کم کرتی نظر نہیں آ رہی، لہٰذایہ سارا اضافی بوجھ عوام کی کمر پر ہی لادا جائے گا۔ وزیراعظم اور مشیر خزانہ یہ فرما چکے ہیں کہ عوام کو یہ اضافی بوجھ بہرحال برداشت کرنا پڑے گا۔
آئی ایم ایف یہ بھی چاہے گی کہ حکومت کے مرکزی بینک سے قرضہ لینے پر کچھ پابندیاں عائد کر دے۔ مرکزی بینک سے قرضہ لینے کا مطلب نوٹ چھاپنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں نوٹ چھاپنے کے عمل میں جو تیزی جون2016 کے بعد دیکھنے میں آئی، حقیقتاً اس نے ملکی معیشت کو بہت کھوکھلا کر دیا ہے۔ جون 2016 میں مرکزی بینک سے حاصل کردہ قرضہ صرف 14 سو ارب تھا، جو آج 7 ہزار 6 سو ارب تک پہنچ چکا۔
اگر آئی ایم ایف مرکزی بینک سے قرضہ لینے پر بعض پابندیاں عائد کر دیتا ہے تو یہ حکومت کے لیے بہت تکلیف دہ صورتحال ہو گی۔ غٖیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کی شرط بھی یقینی طورپر شامل ہوگی، کیونکہ یہی شرط آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرے گی، لیکن یہ تب ہی ہو گا، جب ملکی برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہو، جو ماضی کی طرح موجودہ حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
پچھلے ایک سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا نتیجہ اب تک افراط زر اور مہنگائی کی شکل میں ہی نکلا ہے، بلکہ معاہدہ ہو جانے کے باوجود مارکیٹ میں گرمجوشی دیکھنے میں نہیں آ رہی او ریہ جو کہا جا رہا تھا کہ پیکیج ملتے ہی بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے گا، فی الحال اس کے کوئی آثار نہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ حکومتی معاہدہ کے نتیجہ میں حکومت کی ادائیگیوں کا توازن بھلے وقتی طور پر درست ہو جائے لیکن عوام کی چیخیں نکل جائیں گی کیونکہ آئی ایم ایف مسلسل یہ تقاضا بھی کر رہا ہے کہ ترقیاتی اخراجات پر کٹ لگانے کے بجائے بجلی گیس اور روزمرہ ضرورت کی دیگر اشیا پر دی جانیوالی تمام تر مالی رعایتوں کو یکسر ختم کیا جائے اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں جو پہلے ہی عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، ان مزید اضافہ کیا جائے۔
ان حالات میں جب کہ پیٹرول کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے اور روپیہ ٹکے ٹوکری ہو چکا، عام آدمی کے لیے جینا پہلے سے بھی زیادہ دشوار ہو جائے گا۔ ستم یہ ہے کہ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا عمران خان کو اس بارے میں علم نہیں کیونکہ وزیراعظم بننے سے پہلے وہ خود بھی آئی ایم ایف امداد کی ان تباہ کاریوں سے قوم کو خبردار کر چکے ہیں اورکہتے رہے ہیں کہ کچھ بھی ہو، وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن تھا جو ناخوب وہی بتدریج خوب ہوا، آج ان کی حکومت اور اس کے عہدے دار آئی ایم ایف کے امدادی پیکیج کی برکات بیان کرتے ہوئے یہ کہتے بھی پائے جاتے ہیں کہ عوام کے مفاد میں ہی آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ بھی کہ اس کے نتیجہ میں موجودہ مہنگائی کی شدت کم ہو جائے گی۔
حیرت ہے کہ ایک طرف آئی ایم ایف کو مزید مہنگائی کرنے کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے اور دوسری طرف عوام کو مہنگائی ختم کرنے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ ملکی معیشت کے بارے میں معمولی معلومات رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ مزید مہنگائی کرنا، آئی ایم ایف کے امدادی پیکیج کی شرط اول ہوتی ہے کیونکہ عالمی ساہوکارکے نقطہ ء نظر سے یہی اقدام اس کے قرضہ کی محفوظ واپسی کی ضمانت ہوتا ہے۔
قصہ کوتاہ یہ کہ پاکستان کی حکومتوں سے آئی ایم ایف کا یہ کوئی پہلا معاہدہ نہیں، اس سے پہلے بھی21 معاہدے ہو چکے۔ ہر حکومت نے یہی راگ الاپا کہ ''مجبوری ہے، اس کے بغیر گزارا نہیں، یہ آخری قرضہ ہو گا، اس کے بعد آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔'' عمران خان بھی یہی کہہ رہے ہیں۔
یہاں یہ ذکر کیے بغیر چارہ نہیں کہ جنرل مشرف جیسے بھی تھے، لیکن ایشیا کے واحد حکمران تھے، جنہوں نے اپنے دور میں آئی ایم ایف کا حساب چکتا کیااور اس کو الوداع کہہ دیا۔ان کے جانے کی دیر تھی کہ زرداری صاحب پھر کشکول لے کر آئی ایم ایف کے دردولت پر سربسجود ہو گئے۔ ان کے بعد نوازشریف اور اب عمران خان بھی اس کوچہ میں انھی کے پیروکار ثابت ہوئے ہیں، حالانکہ تاریخ کی کتابوں میں ابھی تک کوئی ایسا ملک دریافت نہیں ہوا، جو آئی ایم ایف کے قرضہ سے معاشی گردات سے نکلا ہو اور اپنے پاوں پرکھڑا ہوا ہو۔
ایں خیال است و محال است و جنوں