چوری شدہ موبائل فون کی شناخت بدل کر فروخت عروج پر پہنچ گئی

موبائل فون بلاک کرنے کی سہولت بھی غیرفعال ہونے لگی، پولیس خاموش، شہری پریشان


اعجاز انصاری June 16, 2019
موبائل فون بلاک کرنے کی سہولت بھی غیرفعال ہونے لگی، پولیس خاموش، شہری پریشان۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گمشدہ، چوری اورچھینے گئے موبائل فون عارضی طور پر غیر فعال یا بلاک کرنے کے لئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے )کی جانب سے موبائل بلاکنگ کی مفت سروس متعارف کرائی گئی، جس کے تحت متاثرین کی شکایات پر پندرہ ہندسوں پرمشتمل ''آئی ایم ای آئی (International Mobile Equipment Identity) کوڈکی فراہمی پر ایسے موبائل فون واپس ملنے تک غیرفعال بنادیئے جاتے ہیں۔

فیصل آباد میں یہ سہولت 2007ء میں سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی )کے پلیٹ فارم سے بہم پہنچائی گئی، جہاں متاثرین کی شکایات پر ایسے موبائل فون پی ٹی اے کے توسط سے ناکارہ بنائے جاتے رہے۔ 2012ء میں یہ سسٹم فیصل آباد پولیس کی دسترس میں چلاگیا، جس کے بعد شہریوں کی سہولت کے لئے مفت کی اس خدمت پر پولیس کی جانب سے پچاس روپے بلاکنگ فیس مقررکردی گئی، جو پولیس خدمت مرکز کے کاونٹرز سے اب بھی وصول کی جاتی ہے۔

متاثرہ شہریوں کی شکایات پرآٹھ سال کے عرصہ میں فیصل آباد سے گم، چوری اورچھینے گئے 68 ہزارسے زائد موبائل فون بلاک کروائے گئے لیکن پولیس کی طرف سے برآمدکئے جانے پر ایکٹیویٹ یعنی دوبارہ فعال کرائے گئے موبائل فونزکی تعداد سینکڑوں سے تجاوزنہ کرسکی۔

یہ امرقابل ذکرہے کہ کسی عورت یا مرد کاملکیتی موبائل فون اس کی پرسنل ڈائری سے کم نہیں ہوتا، اسی لئے چوری اورچھینے جانے کی صورت میں متاثرین قیمت کے بجائے اس میں محفوظ فیملی فوٹوز اور وڈیوزکے پیش نظر فکر مند رہتے ہیں کہ انہیں اڑانے والے جرائم پیشہ عناصر یا ٹیکنیشن کہیں ان کاغلط استعمال کرتے ہوئے مسائل کھڑے نہ کردیں، اسی بناء پر موبائل فون سے محروم ہونے والے بیشتر شہری یہی تصورکرتے ہیں کہ موبائل بلاکنگ کا وضع کردہ طریقہ کار اپنانے سے ان کے گمشدہ یا مسروقہ موبائل فون انہیں واپس ملنے تک غیرفعال یا ناکارہ ہی رہیں تو بہتر ہے۔

تھانہ کلچرکی تبدیلی کے لئے کوشاں پولیس حکام کی جانب سے تھانہ محرروں کاکردار ختم کرنے کے لئے ہر پولیس اسٹیشن میں فرنٹ ڈیسکوں کاقیام عمل میںلایاگیا لیکن اس کے باوجود متاثرہ شہریوں کو مقدمات کے اندارج کے لئے تھانوں کے کئی کئی چکر لگانا پڑتے ہیں اور بعض اوقات تو سرراہ لٹنے والوں کی شکایات مشکوک قراردے کرنظراندازکردی جاتی ہیں، یوں پولیس کے عدم تعاون کا فائدہ بھی کسی حد تک جرائم پیشہ افراد کو پہنچتا ہے۔

یہاں یہ کہنا بھی مناسب نہیں کہ پولیس اورقانون نافذکرنے والے ادارے سرے سے کچھ کرتے ہی نہیں، دستیاب وسائل بروئے کارلاتے ہوئے یہ ادارے کال ڈیٹا اور موبائل لوکیٹرزکی مدد سے سنگین جرائم میں ملوث عناصرکی گرفتاریاں بھی عمل میں لاتے ہیں، تاہم مسروقہ موبائل کی بڑی تعدادکے پیش نظر ان کے لئے ہرکیس پرتوجہ مرکوزکرنا ممکن نہیں ہوتا، جس کافائدہ اٹھاتے ہوئے جرائم کا ارتکاب کرنے والے عناصر ایک عرصہ تک اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں۔

یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ منفی ذہنیت رکھنے والوں سے لے کرجرم کی آخری حد کو چھونے والے عناصر بھی ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں، ایسے افراد اپنے مفادکی خاطر دوسروںکوناقابل تلافی نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ہمارے ہاں کی موبائل فون مارکیٹوں میں تجارت کودیانت کے اصولوں کے مطابق کرنے والوں کے ساتھ ساتھ جھوٹ و فریب سمیت دونمبری کاسہارالینے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ ایسی ذہنیت کے حامل عناصرکے گٹھ جوڑسے مسروقہ موبائل فونز کی خریدوفروخت عام ہوچکی ہے۔

شادی بیاہ کی تقریبات اور پُرہجوم جنازوں میں شہریوں کے موبائل فون چوری کرنے اورگن پوائنٹ پرکی جانے والی وارداتوں میں اڑایاجانے والا مال اونے پونے داموں ہی سہی بکتا ضرورہے، ایسے مال کے خریدارکون ہوسکتے ہیں؟

اس دھندے میں کون کون سی پارٹیاں ملوث ہیں؟ کہتے ہیں کہ کوئی جانے نہ جانے پولیس توجانتی ہوگی۔ موبائل فونزسے محروم ہونے کے بعد بلاکنگ یونٹ سے رجوع کرنے والے بے چارے عام شہری کیا جانیں کہ ہمارے دیسی کاریگر ترقی کی کن بلندیوں کوچھورہے ہیں،کسی نے خوب ہی کہا ہے کہ نقل بنانے والوں میں ہمارا کوئی ثانی نہیں، اسی طرح ہرچیزکاتوڑکرنے والوں کی بھی یہاں کوئی کمی نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ موبائل مارکیٹ کے کاریگراپنی مہارت کے بل بوتے پر موبائل بلاکنگ یونٹ کی طرف سے غیرفعال بنائے گئے مسروقہ موبائل فون ای آئی ایم ای آئی نمبروں کی تبدیلی سے نہ صرف کارآمدبلکہ قابل فروخت بنانے میں بھی کامیاب رہے۔

اگرکہاجائے کہ اس طریقہ کارکے تحت چوری ہونے اورچھینے گئے موبائل فون سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں کارآمد بنائے جاچکے ہیں تویہ غلط نہ ہوگا۔یہ گورکھ دھندہ فیصل آبادہی نہیں تمام بڑے شہروں کی موبائل مارکیٹوں کے اطراف میں جاری ہے ۔ایسی صورتحال میں پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے کیا اس دھندے سے بے خبرہوسکتے ہیں؟ شائدکوئی بھی اس بات کوتسلیم کرنے پر تیار نہ ہو۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی موبائل مارکیٹوں اور ان کے اطراف میں ڈیرے ڈالنے والے کئی ایک ٹیکنیشن قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے کباڑی حضرات کی طرح مسروقہ موبائل فون آتے ہی پرزے پرزے کر دیتے ہیں، ایسے میں مدربورڈ غائب کرکے موبائل فون کی بیٹری، کیمرہ، ایل سی ڈی، ٹچ پینل، باڈی کور اور پیک کورسمیت مختلف پارٹس دکانداروں کی وساطت سے رپیئرنگ کے لئے آنے والے موبائل فونز میں نصب کردیئے جاتے ہیں۔

مسروقہ موبائل فونز کے پرزہ جات کی باآسان دستیابی کے تناظرمیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سمگل شدہ اور مسروقہ گاڑیوں کے پرزہ جات کی کھلے عام فروخت میں نام رکھنے والی لاہور اور فیصل آبادکی بلال گنج مارکیٹس کی طرح مستقبل قریب میں موبائل مارکیٹوں میں مسروقہ اورسمگل شدہ موبائل پارٹس کی دھڑے سے فروخت بھی ممکن ہوجائے گی۔

فیصل آبادکی موبائل فون مارکیٹ کے اطراف میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی زیادہ ترشکایات کوتوالی اورریل بازارتھانہ میں ہوتی ہیں، اسی وجہ سے غیرقانونی دھندہ میں ملوث عناصرکودونوں تھانوںکی پولیس سے بنا کر رکھنا پڑتی ہے۔

مقامی سطح پر سامنے آنے والی شکایات میں کئی ایک کاپی (نقلی) موبائل کی فروخت سے متعلق بھی ہوتی ہیں، بین الاقوامی کمپنیوںکے معروف ماڈلز سے مشابہت پر تیارکردہ نقلی موبائل فون کی فروخت میں بری شہرت رکھنے والے دکاندار اور چل پھر کر مال بیچنے والے سیل مین ملوث ہوتے ہیں، ان کے ہتھے چڑھنے والے بیشتر متاثرین کے سادہ لوح ہونے کے سبب متعلقہ تھانوں میںبھی ان کی شنوائی نہیں ہوپاتی۔

یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ قانون نافذکرنیوالے اداروں کے انتباہ کے باوجود بہت سے دکاندار استعمال شدہ موبائل فون کے لین دین کاجامع ریکارڈ مرتب نہیں کرتے، مسروقہ اور سمگل شدہ سستے موبائل فونزکے سب سے زیادہ خریدار پشاوراور علاقہ غیر سے آنے والی پارٹیاں ہوتی ہیں، جو لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان سے بڑی تعداد میں خریدا گیا مال افغانستان سمگل کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پولیس اور قانون نافذکرنے والے اداروں کو بلاک کرائے جانے والے بیشتر موبائل فونزکاکبھی بھی سراغ نہیں مل پاتا۔ایسے جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ قانون میں ترمیم عمل میں لاتے ہوئے آئی ایم ای آئی نمبروں کی تبدیلی سے موبائل کی شناخت ختم کرنے والے عناصرکو سخت ترین سزائیں دلوانے کے لئے قانون میں ضروری ترمیم عمل میں لائی جانی چاہیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں