ڈی ایٹ تنظیم کو مزید فعال بنانے کی ضرورت
اس تنظیم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے آٹھ رکن ممالک مسلمان ہیں اور بھرپور وسائل کے مالک ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و امور خارجہ سرتاج عزیز نے پیر کو اسلام آباد میں آٹھ ترقی پذیر ممالک کی تنظیم ڈی ایٹ کے رکن ممالک کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی ایٹ ممالک کو توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔
انھوں نے کہا کہ توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے پاکستان مختلف ممالک کے ساتھ سمجھوتے اور معاہدے کرنے کے ساتھ ساتھ ڈی ایٹ انرجی فورم کے انعقاد کی تیاریوں میں بھی مصروف ہے، تاہم اس حوالے سے وقت کا تعین اور تاریخ کے اعلان کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ ڈی ایٹ کا یہ 33ویں اجلاس ہے' اس تنظیم میں پاکستان' ایران' ترکی' بنگلہ دیش' مصر' نائیجیریا' انڈونیشیا اور ملائیشیا شامل ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے 15 سال قبل اس تنظیم میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا اور جون 1997 میں استنبول میں ہونے والے پہلے تاریخی اجلاس میں شرکت کی تھی۔
اس تنظیم کے قیام مقصد یہ ہے کہ اس تنظیم کے رکن ممالک اپنے وسائل کو استعمال کریں اور ایک دوسرے کے تعاون سے ترقی کی منازل طے کریں۔ اس تنظیم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے آٹھ رکن ممالک مسلمان ہیں اور بھرپور وسائل کے مالک ہیں' نائجیریا، افریقہ کا انتہائی اہم اور تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے، ترکی اور ملائیشیا صنعتی ترقی میں خاصا آگے ہیں، اگر یہ ممالک ایک دوسرے سے تعاون کریں تو تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں۔
سرتاج عزیز نے رکن ممالک کے درمیان معنی خیز تعاون کے لیے مشترکہ اقتصادی و تجارتی تعاون اور رابطوں میں حائل رکاوٹیں دور کرنے سے متعلق معاہدوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان کو اس وقت توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ڈی ایٹ تنظیم میں ایران بھی شامل ہے جو گیس اور تیل پیدا کرنے والا اہم ترین ملک ہے۔
ایران اور پاکستان کے مابین گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ ہے۔ ڈی ایٹ کے دوسرے ممالک سے بھی اس معاملے میں پیش رفت کی جاسکتی ہے۔ اصل بات وہی ہے کہ ڈی ایٹ کو فعال ہونا چاہیے۔ سرتاج عزیز نے جس مجوزہ توانائی فورم کی بات کی ہے ، اس کا انعقاد جلد ہونا چاہیے تاکہ توانائی کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوسکے۔ ڈی ایٹ ممالک کے وسائل بھی ہیں اور ہنرمندی بھی، ضرورت صرف اس تنظیم کو مزید فعال بنانے کی ہے تاکہ ترقی کے جو بھی منصوبے بنیں ، ان پر فوری کام شروع ہوسکے۔
انھوں نے کہا کہ توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے پاکستان مختلف ممالک کے ساتھ سمجھوتے اور معاہدے کرنے کے ساتھ ساتھ ڈی ایٹ انرجی فورم کے انعقاد کی تیاریوں میں بھی مصروف ہے، تاہم اس حوالے سے وقت کا تعین اور تاریخ کے اعلان کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ ڈی ایٹ کا یہ 33ویں اجلاس ہے' اس تنظیم میں پاکستان' ایران' ترکی' بنگلہ دیش' مصر' نائیجیریا' انڈونیشیا اور ملائیشیا شامل ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے 15 سال قبل اس تنظیم میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا اور جون 1997 میں استنبول میں ہونے والے پہلے تاریخی اجلاس میں شرکت کی تھی۔
اس تنظیم کے قیام مقصد یہ ہے کہ اس تنظیم کے رکن ممالک اپنے وسائل کو استعمال کریں اور ایک دوسرے کے تعاون سے ترقی کی منازل طے کریں۔ اس تنظیم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے آٹھ رکن ممالک مسلمان ہیں اور بھرپور وسائل کے مالک ہیں' نائجیریا، افریقہ کا انتہائی اہم اور تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے، ترکی اور ملائیشیا صنعتی ترقی میں خاصا آگے ہیں، اگر یہ ممالک ایک دوسرے سے تعاون کریں تو تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں۔
سرتاج عزیز نے رکن ممالک کے درمیان معنی خیز تعاون کے لیے مشترکہ اقتصادی و تجارتی تعاون اور رابطوں میں حائل رکاوٹیں دور کرنے سے متعلق معاہدوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان کو اس وقت توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ڈی ایٹ تنظیم میں ایران بھی شامل ہے جو گیس اور تیل پیدا کرنے والا اہم ترین ملک ہے۔
ایران اور پاکستان کے مابین گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ ہے۔ ڈی ایٹ کے دوسرے ممالک سے بھی اس معاملے میں پیش رفت کی جاسکتی ہے۔ اصل بات وہی ہے کہ ڈی ایٹ کو فعال ہونا چاہیے۔ سرتاج عزیز نے جس مجوزہ توانائی فورم کی بات کی ہے ، اس کا انعقاد جلد ہونا چاہیے تاکہ توانائی کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوسکے۔ ڈی ایٹ ممالک کے وسائل بھی ہیں اور ہنرمندی بھی، ضرورت صرف اس تنظیم کو مزید فعال بنانے کی ہے تاکہ ترقی کے جو بھی منصوبے بنیں ، ان پر فوری کام شروع ہوسکے۔