اب کسی تھانیدار کو تلاش کیجیے
آبادی کے لحاظ سے پولیس بھی بڑھا دی گئی ہے لیکن اس پولیس کے اندر پولیس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
KARACHI:
دفتری کاغذوں میں محکمانہ فہرست مکمل کرنے کے لیے ایک تھانیدار ہوتا ہے، یہ اب بھی ہے جسے ترقی دے کر ایس ایچ او یعنی اسٹیشن ہاؤس آفیسر بنا دیا گیا ہے۔ عوام کے لیے اب تھانیدار صرف باہمی گفتگو میں باقی رہ گیا ہے، ان کی زندگیوں میں اب تھانیدار نہیں ہے۔ تھانیدار برطانوی حکومت کا وہ بنیادی پرزہ تھا جس کے ذریعے عوامی امن کی گاڑی چلتی تھی۔ تھانیدار کسی پاکٹ مار کی کارروائی کا بھی ذمے دار تھا کجا کہ کوئی انسان قتل ہو جائے اور علاقے کے تھانیدار کی جان پر بن جائے۔
کسی قتل کی واردات کو روکنا بھی تھانیدار کا فرض ہوتا تھا، اسے ایک تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کون نوجوان اس کے علاقے میں سر نکال رہا ہے اور سرکشی پر اترا ہوا ہے یا کن خاندانوں کے درمیان دشمنی بڑھتی جا رہی ہے اور کسی بڑے فساد کا خطرہ ہے۔ قتل ہو جاتا تو ضلعے کا ایس پی پہلے تو تھانیدار سے پوچھتا کہ بتاؤ یہ قتل کیوں ہوا، کیا تمہیں اس کا خطرہ نہیں تھا؟ کیا تم اتنے ہی بے خبر تھانیدار ہو؟ اب تو آبادی بھی بہت بڑھ گئی اور قتل بھی بڑھ گئے ورنہ قتل کی ہر واردات پر ایس پی خود موقع پر ضرور جاتا تھا۔ رعایا کی جان و مال کی حفاظت تاج برطانیہ کا فرض تھا اور اس کے ملازم اس تاج کی عزت کے ذمے دار تھے۔ تھانے کا مالک یعنی تھانیدار کیا بلا تھا اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے خصوصاً دیہات سے تعلق رکھنے والا یہ کالم نگار تھانیدار کی بادشاہی کے لاتعداد قصے کہانیاں سن چکا ہے۔
ان دنوں ملک میں امن و امان کی جو ابتر اور بدتر حالت ہو چکی ہے اور ہمارے حکمران جس کے لیے بظاہر فکر مند ہیں ایک تو وہ یہ احساس کر لیں کہ یہ سب ان کے پیشرو سیاسی حکمرانوں کا پیدا کردہ ہے جنہوں نے سیاسی ضرورتوں کے تحت پولیس کو معطل کر دیا چنانچہ تھانیدار کا منصب برائے نام رہ گیا جس ملک میں قومی نمایندے اسمبلی میں داخل ہوں اور گاڑی کسی جگہ خلاف ضابطہ کھڑی کرنے کی کوشش کریں اس پر جب پولیس روکنے کی کوشش کرے تو اس گستاخی جسارت اور بے ادبی کی سزا میں علاقے کا ایس پی معطل کر دیا جائے۔
وہاں پولیس خاک کسی مجرم کو پکڑے گی۔ حکومت صوبائی سے لے کر وفاقی سطح تک امن و امان اور اسلحہ برداروں کو پکڑنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ رینجر سے لے کر فوج تک کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ قیام امن اور ناجائز اسلحہ پکڑنے کے لیے فوج کو بلا لیا جائے۔ فوج کی بلا جانے کہ یہ کام کس طرح کیا جاتا ہے، وہ تو باہر کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا جانتی ہے، اس کو اسی کی تربیت ہے نہ کہ گلی کوچوں سے چور اچکے پکڑنے کی۔ یہ کام پولیس کا ہے اگر ہمارے سیاسی حکمران پولیس کو بحال کر دیں اور اس کے ایس ایچ او کو میدان میں لے آئیں تو نہ کوئی ناجائز اسلحہ رہے گا نہ کوئی قانون شکن آزاد پھرے گا۔
گزشتہ دنوں جب اسلام آباد میں آئی جی صاحب سمیت بڑے بڑے افسروں اور ہزاروں پولیس والوں کے سامنے ایک اکیلا آدمی جس کے ساتھ برائے نام بیوی اور دو معصوم بچے تھے، پانچ گھنٹے تک اسلام آباد کی معروف ترین شاہراہ پر قبضہ کر کے بڑھکیں مارتا رہا، دارالحکومت کی پوری پولیس دم سادھے بلکہ دم دبائے اپنے ائر کنڈیشنڈ دفتروں اور بیرکوں میں چھپی رہی تو میں نے اسلام آباد میں ایک افسر کو فون کیا کہ تمہارے پاس کوئی کام کا تجربہ کار تھانیدار نہیں ہے جو چشم زدن میں اس بزدل کو جس کی بہادری صرف اس کے ہاتھوں میں اسلحہ تک محدود ہے قابو کر لے۔ جواب میں وہ چپ رہا۔ ایک طویل قامت پولیس افسر ٹی شرٹ میں ملبوس اس کے ساتھ مسلسل ''مذاکرات'' کرتا رہا۔
معلوم نہیں اس افسر کے خلاف اس کی بزدلی اور نالائقی پر کوئی کارروائی ہوئی ہے یا نہیں لیکن ایک نہتے عام شہری نے اس مسلح شخص پر ہلہ بول دیا اور اس طرح یہ ڈراما ختم ہوا اور ہماری پولیس اپنے آئی جی صاحب کے مرتبے کے افسروں سمیت سکھ کا لمبا اور اونچا سانس لے کر بری ذمے ہو گئی۔ ایک وزیر صاحب نے جو داخلہ امور یعنی کاغذوں میں پولیس وغیرہ کے سربراہ سمجھے جاتے ہیں اس واردات میں اپنا جو مجاہدانہ اور جرات مندانہ کردار ادا کیا اس پر سبحان اللہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
ہم سنتے ہیں کہ دنیا میں اس سے کم اہمیت کے واقعات کی ذمے داری قبول کر کے وزراء مستعفی ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اتنی مشکل سے وزارت ملنے کے بعد ایک ایسے واقعے پر جسے ڈرامہ کہا جانے لگا ہے ،کوئی وزیر وزارت کی نعمت سے دستکش ہو جائے، اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو سکتی ہے جس وزیر کے اہل خاندان بیوی بچے سب امریکی شہری ہوں، اسے پاکستان کے ساتھ کتنی دلچسپی ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ اس واقعے سے پوری قوم کو ہو گیا ہے۔
بات تھانیدار سے شروع ہوئی تھی۔ خضاب زدہ مونچھوں والے ایک تھانیدار سے ملاقات ہوئی اور اس سے پوچھا کہ چاچا جی یہ کیا ہو رہا ہے۔ جواب تھا یہ وہی ہے جو ہمارے نہ ہونے سے ہو سکتا ہے اور جو پورے ملک میں ہو رہا ہے اور اب ہوتا رہے گا، جب مجرم کو پکڑنے والا کوئی نہیں ہو گا جب سزائے موت نہیں ہو گی اور جب لوگ بے فکر ہو کر قتل کرتے رہیں گے تو کیا اسے کوئی رکن اسمبلی صاحب بہادر روکیں گے۔ جرائم تو ہوتے ہی ہیں لیکن ان کی سزا بھی ساتھ ہی ہوتی ہے اور یہی سزا کا خوف جرائم سے روکتا ہے۔ تھانیدار کا خوف کسی قانون شکن کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ علاقے کا تھانیدار اسے زود یا بدیر پکڑ ہی لے گا لیکن اب تو قتل کی واردات کا سراغ بھی نہیں ملتا ، کسی ڈاکے چوری کو کون پکڑے گا۔
ہر تھانیدار کو اپنے تھانے کے علاقے کی خبر ہوتی ہے کہ کون کیا ہے اور وہ ان پر نظر رکھتا ہے، وہ مقامی باشندوں کو خبردار کرتا ہے کہ کسی اجنبی کا دھیان کریں کہ وہ کیوں آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب آبادی بہت بڑھ گئی ہے، آبادی کے لحاظ سے پولیس بھی بڑھا دی گئی ہے لیکن اس پولیس کے اندر پولیس پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہر پولیس والے کو خبر ہو کہ وہ اول و آخر پولیس والا ہے اور اسی میں اس کی عزت اور رعب داب ہے ورنہ وہ ایک عام سا سرکاری ملازم ہے جس سے بڑے ملازم لاتعداد ہیں لیکن اس کے جسم پر جو وردی ہے وہ اسے ایک طاقت اور امتیاز عطا کرتی ہے اور اس کے پاس قانون کا جو اختیار ہے وہ اس کی اصل طاقت ہے۔
گزارش یہ ہے کہ اگر ملک میں امن و امان قائم کرنا ہے تو تھانیدار کو تلاش کریں اور اسے اس کا کام دیں بشرطیکہ خود ہمارے قومی نمایندے کسی تھانیدار کو مطلوب نہ ہوں یا ان کی سیاسی زندگی میں قانون شکنی کا عمل دخل ہو۔ ملک کو کسی فوج اور کسی مارشل لاء کی ضرورت نہیں، صرف ایک تھانیدار کی ضرورت ہے، اس تھانیدار کو ملک بھر میں پھیلا دیں اور ملک کو ایک نارمل ملک بنانے کی فکر کریں، اب کچھ وقت لگے گا کہ بگاڑ بے انداز ہے مگر تھانیدار کا عمل اور اس کی کارکردگی بھی حد سے زیادہ ہے۔
دفتری کاغذوں میں محکمانہ فہرست مکمل کرنے کے لیے ایک تھانیدار ہوتا ہے، یہ اب بھی ہے جسے ترقی دے کر ایس ایچ او یعنی اسٹیشن ہاؤس آفیسر بنا دیا گیا ہے۔ عوام کے لیے اب تھانیدار صرف باہمی گفتگو میں باقی رہ گیا ہے، ان کی زندگیوں میں اب تھانیدار نہیں ہے۔ تھانیدار برطانوی حکومت کا وہ بنیادی پرزہ تھا جس کے ذریعے عوامی امن کی گاڑی چلتی تھی۔ تھانیدار کسی پاکٹ مار کی کارروائی کا بھی ذمے دار تھا کجا کہ کوئی انسان قتل ہو جائے اور علاقے کے تھانیدار کی جان پر بن جائے۔
کسی قتل کی واردات کو روکنا بھی تھانیدار کا فرض ہوتا تھا، اسے ایک تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کون نوجوان اس کے علاقے میں سر نکال رہا ہے اور سرکشی پر اترا ہوا ہے یا کن خاندانوں کے درمیان دشمنی بڑھتی جا رہی ہے اور کسی بڑے فساد کا خطرہ ہے۔ قتل ہو جاتا تو ضلعے کا ایس پی پہلے تو تھانیدار سے پوچھتا کہ بتاؤ یہ قتل کیوں ہوا، کیا تمہیں اس کا خطرہ نہیں تھا؟ کیا تم اتنے ہی بے خبر تھانیدار ہو؟ اب تو آبادی بھی بہت بڑھ گئی اور قتل بھی بڑھ گئے ورنہ قتل کی ہر واردات پر ایس پی خود موقع پر ضرور جاتا تھا۔ رعایا کی جان و مال کی حفاظت تاج برطانیہ کا فرض تھا اور اس کے ملازم اس تاج کی عزت کے ذمے دار تھے۔ تھانے کا مالک یعنی تھانیدار کیا بلا تھا اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے خصوصاً دیہات سے تعلق رکھنے والا یہ کالم نگار تھانیدار کی بادشاہی کے لاتعداد قصے کہانیاں سن چکا ہے۔
ان دنوں ملک میں امن و امان کی جو ابتر اور بدتر حالت ہو چکی ہے اور ہمارے حکمران جس کے لیے بظاہر فکر مند ہیں ایک تو وہ یہ احساس کر لیں کہ یہ سب ان کے پیشرو سیاسی حکمرانوں کا پیدا کردہ ہے جنہوں نے سیاسی ضرورتوں کے تحت پولیس کو معطل کر دیا چنانچہ تھانیدار کا منصب برائے نام رہ گیا جس ملک میں قومی نمایندے اسمبلی میں داخل ہوں اور گاڑی کسی جگہ خلاف ضابطہ کھڑی کرنے کی کوشش کریں اس پر جب پولیس روکنے کی کوشش کرے تو اس گستاخی جسارت اور بے ادبی کی سزا میں علاقے کا ایس پی معطل کر دیا جائے۔
وہاں پولیس خاک کسی مجرم کو پکڑے گی۔ حکومت صوبائی سے لے کر وفاقی سطح تک امن و امان اور اسلحہ برداروں کو پکڑنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ رینجر سے لے کر فوج تک کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ قیام امن اور ناجائز اسلحہ پکڑنے کے لیے فوج کو بلا لیا جائے۔ فوج کی بلا جانے کہ یہ کام کس طرح کیا جاتا ہے، وہ تو باہر کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا جانتی ہے، اس کو اسی کی تربیت ہے نہ کہ گلی کوچوں سے چور اچکے پکڑنے کی۔ یہ کام پولیس کا ہے اگر ہمارے سیاسی حکمران پولیس کو بحال کر دیں اور اس کے ایس ایچ او کو میدان میں لے آئیں تو نہ کوئی ناجائز اسلحہ رہے گا نہ کوئی قانون شکن آزاد پھرے گا۔
گزشتہ دنوں جب اسلام آباد میں آئی جی صاحب سمیت بڑے بڑے افسروں اور ہزاروں پولیس والوں کے سامنے ایک اکیلا آدمی جس کے ساتھ برائے نام بیوی اور دو معصوم بچے تھے، پانچ گھنٹے تک اسلام آباد کی معروف ترین شاہراہ پر قبضہ کر کے بڑھکیں مارتا رہا، دارالحکومت کی پوری پولیس دم سادھے بلکہ دم دبائے اپنے ائر کنڈیشنڈ دفتروں اور بیرکوں میں چھپی رہی تو میں نے اسلام آباد میں ایک افسر کو فون کیا کہ تمہارے پاس کوئی کام کا تجربہ کار تھانیدار نہیں ہے جو چشم زدن میں اس بزدل کو جس کی بہادری صرف اس کے ہاتھوں میں اسلحہ تک محدود ہے قابو کر لے۔ جواب میں وہ چپ رہا۔ ایک طویل قامت پولیس افسر ٹی شرٹ میں ملبوس اس کے ساتھ مسلسل ''مذاکرات'' کرتا رہا۔
معلوم نہیں اس افسر کے خلاف اس کی بزدلی اور نالائقی پر کوئی کارروائی ہوئی ہے یا نہیں لیکن ایک نہتے عام شہری نے اس مسلح شخص پر ہلہ بول دیا اور اس طرح یہ ڈراما ختم ہوا اور ہماری پولیس اپنے آئی جی صاحب کے مرتبے کے افسروں سمیت سکھ کا لمبا اور اونچا سانس لے کر بری ذمے ہو گئی۔ ایک وزیر صاحب نے جو داخلہ امور یعنی کاغذوں میں پولیس وغیرہ کے سربراہ سمجھے جاتے ہیں اس واردات میں اپنا جو مجاہدانہ اور جرات مندانہ کردار ادا کیا اس پر سبحان اللہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
ہم سنتے ہیں کہ دنیا میں اس سے کم اہمیت کے واقعات کی ذمے داری قبول کر کے وزراء مستعفی ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اتنی مشکل سے وزارت ملنے کے بعد ایک ایسے واقعے پر جسے ڈرامہ کہا جانے لگا ہے ،کوئی وزیر وزارت کی نعمت سے دستکش ہو جائے، اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو سکتی ہے جس وزیر کے اہل خاندان بیوی بچے سب امریکی شہری ہوں، اسے پاکستان کے ساتھ کتنی دلچسپی ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ اس واقعے سے پوری قوم کو ہو گیا ہے۔
بات تھانیدار سے شروع ہوئی تھی۔ خضاب زدہ مونچھوں والے ایک تھانیدار سے ملاقات ہوئی اور اس سے پوچھا کہ چاچا جی یہ کیا ہو رہا ہے۔ جواب تھا یہ وہی ہے جو ہمارے نہ ہونے سے ہو سکتا ہے اور جو پورے ملک میں ہو رہا ہے اور اب ہوتا رہے گا، جب مجرم کو پکڑنے والا کوئی نہیں ہو گا جب سزائے موت نہیں ہو گی اور جب لوگ بے فکر ہو کر قتل کرتے رہیں گے تو کیا اسے کوئی رکن اسمبلی صاحب بہادر روکیں گے۔ جرائم تو ہوتے ہی ہیں لیکن ان کی سزا بھی ساتھ ہی ہوتی ہے اور یہی سزا کا خوف جرائم سے روکتا ہے۔ تھانیدار کا خوف کسی قانون شکن کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ علاقے کا تھانیدار اسے زود یا بدیر پکڑ ہی لے گا لیکن اب تو قتل کی واردات کا سراغ بھی نہیں ملتا ، کسی ڈاکے چوری کو کون پکڑے گا۔
ہر تھانیدار کو اپنے تھانے کے علاقے کی خبر ہوتی ہے کہ کون کیا ہے اور وہ ان پر نظر رکھتا ہے، وہ مقامی باشندوں کو خبردار کرتا ہے کہ کسی اجنبی کا دھیان کریں کہ وہ کیوں آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب آبادی بہت بڑھ گئی ہے، آبادی کے لحاظ سے پولیس بھی بڑھا دی گئی ہے لیکن اس پولیس کے اندر پولیس پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہر پولیس والے کو خبر ہو کہ وہ اول و آخر پولیس والا ہے اور اسی میں اس کی عزت اور رعب داب ہے ورنہ وہ ایک عام سا سرکاری ملازم ہے جس سے بڑے ملازم لاتعداد ہیں لیکن اس کے جسم پر جو وردی ہے وہ اسے ایک طاقت اور امتیاز عطا کرتی ہے اور اس کے پاس قانون کا جو اختیار ہے وہ اس کی اصل طاقت ہے۔
گزارش یہ ہے کہ اگر ملک میں امن و امان قائم کرنا ہے تو تھانیدار کو تلاش کریں اور اسے اس کا کام دیں بشرطیکہ خود ہمارے قومی نمایندے کسی تھانیدار کو مطلوب نہ ہوں یا ان کی سیاسی زندگی میں قانون شکنی کا عمل دخل ہو۔ ملک کو کسی فوج اور کسی مارشل لاء کی ضرورت نہیں، صرف ایک تھانیدار کی ضرورت ہے، اس تھانیدار کو ملک بھر میں پھیلا دیں اور ملک کو ایک نارمل ملک بنانے کی فکر کریں، اب کچھ وقت لگے گا کہ بگاڑ بے انداز ہے مگر تھانیدار کا عمل اور اس کی کارکردگی بھی حد سے زیادہ ہے۔