اُستاد صاحب کی پیشکش

اُس وقت ہوا ایسی بنا دی گئی تھی کہ افغان مجاہدین افغانستان ہی کے نہیں، سارے عالم اسلام کے محسن اور ہیرو ہیں۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

کئی برس قبل وطنِ عزیز کے ممتاز عالمِ دین حضرت مولانا سمیع الحق سے میری اوّلین ملاقات لاہور میں ہوئی تھی۔ نیلا گنبد والی مسجد میں، جو نئی انارکلی سے متصل ہے۔ اِس ملاقات میں گوجرانوالہ کے معروف عالمِ دین مولانا زاہد الراشدی صاحب بھی شریک تھے۔ اُس وقت طالبان کا ظہور نہیں ہوا تھا لیکن افغانستان میں بروئے کار افغان مہاجرین کا غلغلہ ہر سُو تھا۔

اُس وقت ہوا ایسی بنا دی گئی تھی کہ افغان مجاہدین افغانستان ہی کے نہیں، سارے عالم اسلام کے محسن اور ہیرو ہیں۔ یہ پروپیگنڈہ، جس میں پاکستان سمیت امریکا اور عرب ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی شامل تھیں، دراصل ہمارا ذہنی غسل تھا جس نے آگے چل کر ایک بھیانک شکل اختیار کرنا تھی۔ مجھے بخوبی یاد ہے حضرت مولانا سمیع الحق سے نیلا گنبد مسجد میں تفصیلی ملاقات ہوئی تو اُن کی خواہش پر میں نے ایک مشہور سیاسی ہفت روزہ جریدے کے سرِ ورق پر وہ تصویر شایع کی جس میں مولانا صاحب نے ایک ہاتھ میں قرآنِ مجید اور دوسرے ہاتھ میں کلاشنکوف تھام کر دونوں بازو فضا میں بلند کر رکھے ہیں۔

اِس انٹرویو سے صاف عیاں ہو رہا تھا کہ مولانا صاحب افغانستان کی جہادی قیادت، جس میں دس افراد خاصے نمایاں تھے، کے نہایت قریب بھی ہیں اور انھیں جنرل ضیاء الحق کی آشیرواد بھی حاصل ہے۔ وہ میاں محمد نواز شریف کا اعتبار اور اعتماد بھی حاصل کر چکے تھے۔

جنرل ضیاء الحق کے اچانک مرنے کے بعد سارا منظر ہی بدل گیا لیکن ملک میں جہادیوں، اُن کے سرپرستوں اور جہادی مولوی صاحبان کا اثر و رسوخ کم نہ ہوا۔ ان میں حضرت مولانا سمیع الحق، جو کہ ممتاز ترین عالم دین اور سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالحق مرحوم کے فرزندِ ارجمند اور اکوڑہ خٹک کی مستند دینی درسگاہ کے منتظمِ اعلیٰ بھی ہیں، سرِ فہرست تھے۔ میاں صاحب کے توسط اور سفارش سے سینیٹر بھی بنے اور پھر وہ اسلام آباد، لاہور اور پشاور میں اپنی نیلگوں پجارو میں بڑے ٹھاٹھ سے گھومتے پھرتے بھی نظر آتے تھے۔

پاکستان اور افغانستان کے دیو بندی مکتبِ فکر کے دینی مدارس اور جہادیوں میں مولانا سمیع صاحب ''استاد'' کے محترم نام سے جانے، مانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ لاریب طالبان تحریک کے بانی مبانی اور سابق امارتِ اسلامی افغانستان کے سپریم کمانڈر ملا محمد عمر صاحب اُن کے فرمانبردار شاگرد رہے ہیں۔ افغان جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان جن طالبان کی گرفت میں آیا، ان کے کئی اہم ترین افراد مولانا صاحب کے شاگردوں میں شامل اور جامعہ اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل طلباء تھے۔ اِس پس منظر میں ہم بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان کے طالبان ہوں یا ''تحریکِ طالبان پاکستان'' (ٹی ٹی پی) کے وابستگان، سبھی استاد سمیع الحق کا احترام و اکرام بھی کرتے ہیں اور اُن کی آنکھوں میں استاد کے لیے شرم و حیا بھی ہے۔

ایسے میں اگر مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہ العالی از خود اور ملک و قوم کے مستقبل کے تحفظ کے لیے یہ پیشکش کرتے ہیں کہ میں ان طالبان جو ریاستِ پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اورپاکستان کے (نئے) حکمرانوں کے درمیان صلح صفائی بھی کرا سکتا ہوں اور انھیں مذاکرات کی میز پر بھی لا سکتا ہوں تو اس سے ہمارے وزیراعظم، وزیرِ داخلہ اور دوسرے متعلقہ حکام کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں جنگ جُو طالبان سے مصافحہ اور معانقہ کرنے کے حوالے سے واضح اشارہ بھی دے دیا تھا۔

اِس بارے میں طالبان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے بعض مثبت اشارے بھی ملے۔ چند روز قبل ایسی خبریں بھی شایع اور نشر ہوئیں جن میں بین السطور یہ پیغام نظر آتا تھا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان سلسلۂ جنبانی کا آغاز ہو چکا ہے۔ پاکستان میں اگرچہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو شدت پسند طالبان سے مذاکرات کے حامی نہیں۔ ایسے افراد کا استدلال ہے کہ قاتلوں اور خون بہانے والوں، جن پر 55 ہزار بے گناہوں کے قتل کا الزام بھی عائد ہے، سے مصافحہ اور معانقہ کرنا شکست کے مترادف ہو گا اور یہ بھی کہ طالبان سے مذاکرات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُنہیں ایک بالادست اور فاتح قوت تسلیم کر لیا جائے۔


اِس دلیل اور استدلال کو بے معنی بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن وزیراعظم کا یہ کہنا کہ ہم (طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والے) اپنے بچوں کی لاشیں کب تک اٹھاتے رہیں گے، بھی نہایت وزن رکھتا ہے۔ یعنی مولانا سمیع الحق صاحب ایسے موثر درمیان دار (Mediator) کی خدمات اور پیشکش سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے لیکن اب محسوس ہونے لگا ہے کہ اِس مثبت پیشکش سے نظریں اور توجہ ہٹ سی گئی ہے۔ حضرت مولانا بھی شاکی نظر آ رہے ہیں۔ اُن کا یہ بیان شایع ہوا ہے: ''حکومت طالبان سے مذاکرات کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے۔''

غالباً اِسی وجہ سے طالبان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان شاہد اللہ شاہد سے منسوب یہ بیان بھی شایع ہوا ہے کہ ہم حکومتِ پاکستان سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کر رہے۔ ایسے بیانات نے صورتحال کو مزید بھیانک اور گمبھیر بنا دیا ہے۔ رواں لمحات میں جب کہ طالبان سے مذاکرات کے مسئلے میں مرکزی سویلین حکومت اور عسکری قیادت ایک ہی ''پیچ'' پر نظر آ رہے ہیں، مولانا صاحب کی پیشکش کو سنجیدگی سے لے کر اِس سے استفادہ کرنا چاہیے تھا۔

تو کیا واقعتاً حکومت طالبان مذاکرات کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے؟ جیسا کہ ممتاز اخبار نویس اور مصنف جناب عامر میر نے بھی دعویٰ کیا ہے۔ اِس دعوے کو نخوت و تکبر سے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اِس کے عنوانات تیزی سے ظاہر ہو رہے ہیں۔

مثال کے طور پر 31 اگست 2013 کو سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک صاحب کی گفتگو۔ اکتیس اگست کی شام راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے آرمی آڈیٹوریم میں یومِ دفاع کے حوالے سے ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں دیگر حکام کے ساتھ سپہ سالارِ پاکستان جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب بھی موجود تھے اور سیکریٹری دفاع بھی۔تقریب کے اختتام پر جنرل (ر) آصف یاسین نے اخبار نویسوں کے چند ایک سوالات کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہا: ''حکومت اور طالبان کے درمیان اگر مذاکرات کا عمل جاری ہے یا جاری ہونے والا بھی ہے تو اِس میں فریقین کے ذہنوں میں بہت زیادہ ابہام موجود ہے۔

طالبان کے صاف مطالبات سامنے آئے ہیں نہ حکومت کے پاس اُن سے مذاکرات کے لیے کوئی شفاف ایجنڈا موجود ہے۔'' سننے والوں کے لیے یہ حیرت انگیز بات تھی۔ اور اِس سے بھی حیرت انگیز ایک بیان گزشتہ روز، 2 ستمبر 2013کو اخبارات کی زینت بنا ہے۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان سے منسوب ایک بیان یوں شایع ہوا ہے: ''طالبان سے فی الوقت مذاکرات نہیں ہو رہے لیکن حکمتِ عملی تیار کرلی گئی ہے''۔ یہ درست ہے کہ طالبان سے مذاکرات پیچیدہ عمل ہے۔ اِس اُلجھی ہوئی گتھی کو سلجھانا اتنا آسان بھی نہیں اور اُن لوگوں کو مطمئن کرنا بھی مشکل ہے جن کا موقف ہے کہ طالبان سے مذاکرات سے قبل انھیں ریاست کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہوں گے، پاکستانی آئین اور پاکستان کی عدلیہ کو تسلیم کرنا ہوگا اور القاعدہ سے مبینہ تعلقات منقطع کرنا ہوں گے۔

جو لوگ بندوق کی زبان میں بات کرنے اور اپنے مطالبات منوانے کے خُوگر ہو چکے ہوں، فی الوقت غالباً اُن کے لیے مشکل ہو گا کہ وہ پاکستان کے آئین و عدلیہ کی حاکمیت کو برسرِ مجلس تسلیم کرنے کا مظاہرہ کر سکیں۔ تو کیا حکومتی کہہ مکرینوں اور طالبان کی ضد کا یہ شاخسانہ ہے کہ یکم ستمبر 2013کو طالبان نے ایک بار پھر ہماری سیکیورٹی فورسز پر حملہ کرکے ایک درجن کے قریب جوانوں کو شہید کر دیا ہے؟ سیکیورٹی فورسز کا ایک قافلہ گزشتہ سے پیوستہ روز شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل سے میرانشاہ آ رہا تھا کہ دشمن طالبان کا ہدف بن گیا۔

کیا یہ خون بھی ماضی میں بہت سے بہائے گئے خون کی طرح رائیگاں ہی جائے گا؟ ملک و قوم اور دین کے تحفظ کے لیے بہنے والا خون کبھی رائیگاں تو نہیں جاتا لیکن سوال یہ ہے کہ خون کی یہ بہتی ندی مزید کتنے عرصے تک بہتی رہے گی؟ مکالمے کی بساط بچھنے میں ابھی کتنی دیر باقی ہے؟ اگر حکومت نے شدت پسندوں سے مکالمہ و معانقہ نہیں کرنا تو پھرفوج کو بھرپور اختیارات دے دیے جائیں تاکہ ایک بار پوری اسٹرٹیجی کے ساتھ خون بہانے اور ملک کا امن لوٹنے والوں کے ساتھ دو دو ہاتھ ہو ہی جائیں۔
Load Next Story