کراچی کنارِ آب سے شرارِ نار تک

کراچی… ہر دن جلتا ہوا کراچی، آخر کیسے اسے بارود کے دہانے سے اتارا جائے.

ساحلِ سمندر پر آباد کراچی پچھلے کئی برسوں سے بارود کے ڈھیر پرکھڑا ہے۔ سمندر کنارے پر رہنے بسنے والے لوگوں کا مزاج تو آبی ہونا چاہیے تھا، اس قدر آتشی کیسے ہو گیا کہ وہ صرف بارود بنانے اور برسانے لگے۔ انسانی قدریں مسخ ہو گئیں۔ اسلامی تہذیب مٹ کر رہ گئی۔ کوئی انسان نہ رہا نہ کوئی مسلمان۔ شہر ایک خوفناک جنگل کی شکل اختیار کر گیا جنگل کا قانون نافذ ہو گیا۔

تعجب ہے کہ پچھلے تیس برسوں کے دوران ایسا کیا ہو گیا کہ ایک پر امن اور گلدستہ نما شہر جہاں ملک کے ہر حصے سے ہر قوم، قبیلے اور طبقۂ فکر کے افراد تلاش معاش کے لیے اس کا رخ کیا کرتے تھے، سیر و تفریح کے لیے کراچی کا انتخاب کیا کرتے تھے اور یہ شہر آغوش مادر کی طرح سبھی کو اپنے وجود میں سمو لیا کرتا تھا، سب مل جل کر رہتے تھے اور جو فضا تھی وہ باہمی پیار و محبت اور ایک دوسرے کا احترام پر استوار تھی۔ پھر کس نے پہلی گولی چلائی؟ پہلا قاتل کون تھا؟ پہلا بم کس نے بلاسٹ کیا؟ محبت اپنے وجود میں کہاں سے سمٹنے لگی؟ اور نفرت نے اپنی چادر سے کب پاؤں باہر نکالنے شروع کیے؟

اس معاملے پر بے شمار بحث ہو چکی ہے۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ان گنت مباحثے ہو چکے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد سے لے کر بہت سے سابقہ وزرائے داخلہ پریس بریفنگ میں اپنے بنائے گئے نت نئے منصوبوں کے بارے میں بتا چکے، آل پارٹیز کانفرنسوں سے لے کر ہر طرح کی گول میز، چوکور میز کانفرنسیں منعقد ہو چکیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قاتلوں کی کیا تاریخ لکھی جائے؟ مقتولین کو کس حوالے سے یا کیا نام دے کر موضوع بنایا جائے؟ کیا ظالم، ظلم اور مظلوم بھی فکر و دانش کے دائرہ ادراک میں آتے ہیں؟ گولی، گالی، لوٹ مار، بم بلاسٹ، ٹارگٹ کلنگ، جبری بھتے، کیا انھیں خانہ تدبیر میں درج کیا جائے یا تقدیر کا لکھا سمجھ کر مان لیں۔

کراچی... ہر دن جلتا ہوا کراچی، آخر کیسے اسے بارود کے دہانے سے اتارا جائے، کیسے اسے 1970 کی دہائی کا پرامن، خوبصورت کراچی بنایا جائے۔ روزانہ درجنوں قتل ہوتے ہوئے معصوم شہریوں کی زندگیاں کیونکر بچائی جا سکتی ہیں؟ حل کیا ہے؟ کہاں ہے اور کس کے پاس ہے؟ گویا کسی ممکنہ حل کے طور پر کراچی کو فوج کے حوالے کر دیا جائے کہ وہ آئے اور بلا تخصیص آپریشن کرے، یا سپریم کورٹ کے ججز پھر سے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے مستقل بنیاد پر کراچی کے حالات کے مدنظر سماعت کریں، پھر ایک فیصلہ دیں اور گزشتہ کی طرح اس فیصلے کی بازگشت بھی مہینوں تک ٹی وی چینلز اور اخبارات میں سنائی دیتی رہے، یا موجودہ پولیس اور رینجرز کو ہی دوبارہ آزمایا جائے، یا کراچی کو کسی ایسی سیاسی جماعت کے حوالے کر دیا جائے جس کی اس شہر میں اکثریت ہو اور وہ کراچی کے لوگوں کی منتخب جماعت ہو، یا صوبائی حکومت پر بھروسہ کر لیں۔ ورنہ ایک حل کے طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کی نئی منتخب ہونے والی مرکزی حکومت سے توقعات باندھ لی جائیں کہ وہ دیگر بگڑے ہوئے معاملات کی طرح آنے والے پانچ سال میں اس مسئلے کا بھی کوئی حل نکال ہی لیں گے۔ آخر قوم نے باقی مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی تو انھیں پانچ سال دے ہی دیے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے آئین پاکستان کی ایک شق کا حوالہ دیتے ہوئے مرکزی حکومت سے کراچی کو فی الفور فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نتیجہ کار پاکستان پیپلز پارٹی کے درجن بھر رہنماؤں نے اس مطالبے پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے، جب کہ کئی دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اس تجویز کو سنجیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ لیکن ایک ٹی وی چینل پر اس معاملے میں عوامی ردعمل یا عوام کی آراء پر مبنی ایک پروگرام میں عوام کی اکثریت نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کے مطالبے کی پر زور حمایت کی، بالخصوص کراچی کی تاجر برادری نے۔


لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کی آخری تدبیر کے بعد کیا ہو گا؟ کیا ملک کو درپیش موجودہ صورتحال میں ایسا کرنا مسئلے کا حل ثابت ہو گا؟ کیا ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی فوج کراچی کو اس کا امن لوٹا سکے گی؟ کامیابی کا پہلا اور آخری نام صرف کامیابی ہی ہے۔ لیکن ناکامی کے بہت سے نام ہوتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں بہت کچھ ٹوٹ جاتا ہے، بکھر جاتا ہے۔ لہٰذا جو فیصلہ بھی کیا جائے اسے ہر پہلو سے کھنگالنا ہو گا۔

ہر طبقہ فکر سے مشورت اور رائے لینا ہو گی، ہر قبیلے اور قوم کے سربراہ کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ کیونکہ اب کراچی کا مسئلہ صرف کراچی میں رہنے والے متحارب گروہوں کے درمیان کسی تنازعے کا نہیں رہا کہ آپ لیاری گینگ وار ختم کروا دیں یا مہاجر پٹھان جھگڑے کا تصفیہ کروا دیں یا لسانی، گروہی، مذہبی فرقہ واریت پر قابو پالیں، بلکہ اب کراچی میں نام نہاد طالبان بھی اپنا وجود رکھتے ہیں اور بتدریج وہ منظم ہو رہے ہیں حتیٰ کہ اپنی بستیاں تک قائم کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان کی بستیاں سر دست کراچی کے گرد و نواح مثلاً منگھو پیر، ماڑی پور یا سہراب گوٹھ جیسے علاقوں میں ہیں لیکن وہ اپنا مخصوص ایجنڈا لے کر شہر کے گنجان آباد علاقوں کی طرف بھی پیش قدمی کر رہے ہیں۔

ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ وہ کس کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ بزبان خود وہ ملک میں شریعت اور سنت نبویؐ کے نفاذ کے لیے جہاد فی سبیل اﷲ میں مصروف عمل ہیں۔ لیکن حقیقت کیا ہے اور حقیقت کہاں اپنا رخ ایک نامعلوم سمت کی جانب موڑ لیتی ہے۔ یہ صرف طالبان ہی جانتے ہیں۔ لہٰذا اگر آخری حل کے طور پر کراچی کو فوج کے حوالے بھی کر دیا جاتا ہے تو اس مرتبہ فوج کا مقابلہ اس طبقے (طالبان) سے بھی ہو گا جو پہلے ہی سے ٹرائبل ایریاز میں فوج سے ایک کامیاب چھاپہ مار جنگ لڑ رہا ہے اور با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ تا حال وزیرستان و دیگر علاقوں میں فوج کو مکمل کامیابی یا فتح نہیں مل سکی ہے، بلکہ جنگ نا صرف جاری ہے جب کہ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

چنانچہ مسئلہ وہیں پر رہا کہ جلتے اور راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے ہوئے کراچی کو جو ملک کی ''شہ رگ'' ہے اسے کیسے بچایا جائے؟ بہت سی تدابیر اس ضمن میں کی جا چکی ہیں جن میں سے ہر ایک ناکامی کی بند سرنگ میں جا کر کھو گئی جب کہ اب تک کسی معمولی سی بھی کامیابی کا ہر سرا بند دکھائی دیتا ہے۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کون ہے جو ان قاتلوں کی پشت پناہی کر رہا ہے؟ آخر لیاری میں راکٹ لانچرز سمیت جدید ترین ہتھیار کیسے پہنچ گئے؟ اب صرف توپوں اور ٹینکوں کے آنے کی کمی باقی رہ گئی ہے۔ باقی ہر طرح کے تباہ کن ہتھیار موجود ہیں۔ سندھ حکومت کہاں ہے؟ سندھ پولیس، رینجرز کا کردار کیا ہے؟ کیا یہاں بھی کوئی سیاسی چال درپیش ہے؟ کیا کراچی کوئی سیاسی بساط ہے؟ کہ کراچی میں اتنے ہنگامے کروائے جائیں کہ مرکزی حکومت ناکام دکھائی دے۔ یا مرکز یہ سوچ رہا ہے کہ جو ہوتا ہے ہونے دو۔ لوگ مریں گے، قتل ہوں گے، بد امنی ہو گی تو صوبہ سندھ کے عوام بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ وہ پنجاب کے امن و امان اور ترقی کو دیکھ کر آیندہ سندھ میں اسے ووٹ دیں گے اور اسے صوبے میں بھی اسے حکومت سازی کا موقع مل جائے گا، یا ہمیشہ سے اقتدار کی شوقین اسٹیبلشمنٹ یہ سوچ رہی ہے کہ شاید کراچی کی بے امنی آیندہ ان کے اقتدار کی راہ ہموار کر دے۔

ہم انڈیا، اسرائیل اور امریکا سمیت جسے بھی اپنی بربادی اور تباہی کا ذمے دار قرار دیتے ہیں، غلط دیتے ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے دشمن ہم خود ہیں۔ پاکستان کو توڑنے کی سازش کے محرک حقیقی ہم خود ہیں۔ پاکستان میں موجود ہر قسم کے مذہبی، لسانی، گروہی اور قبائلی تعصب کی ذمے داری بھی صرف ہم پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کی معاشی تباہی سے لے کر سماجی بربادی تک صرف اور صرف ہمارا ہاتھ ملوث رہا ہے۔ ہم اپنے ملک کو 65 سال میں کوئی ایک مربوط و مضبوط نظام دینے سے قاصر رہے ہیں۔ ہم اپنے شہروں کی تباہی پر سیاست کر رہے ہیں۔ بھوک، پیاس، غربت اور گولیوں سے مرتے ہوئے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی لاشوں کو اپنا اپنا ووٹر بتاتے ہیں۔ کیسے ''یہود'' اور کیسے ''ہنود''... قصوروار صرف ہم ہیں۔
Load Next Story