سر بازار می رقصم

مجھے نہیں پتہ کہ میں کب سے وہاں کھڑا ہوں کہ اچانک ایک لمحہ آتا ہے اور اوپر سے ایک گھنگھرو میرے عین سامنے گرتا ہے۔

VIRGINIA WATER:
بہت عرصے سے ایک خواب ہے کہ خیال ہے جو بھی ہے وہ مجھے گھیر لیتا ہے۔ میں اسے خیال ہی کہوں گا۔ میں خیال میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک بہت ہی بڑے زمین کے حصے کے ایک کونے میں کھڑا ہوں، اور وہاں میرے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ بس میں اکیلا کھڑا ہوں اور اپنے سامنے دور بہت دور تک پھیلے ہوئے کرہ ارض کو دیکھ رہا ہوں۔

مجھے نہیں پتہ کہ میں کب سے وہاں کھڑا ہوں کہ اچانک ایک لمحہ آتا ہے اور اوپر سے ایک گھنگھرو میرے عین سامنے گرتا ہے۔ میں اس گھنگھرو کی اس بھری آواز کو سنتا ہوں اور پھر وہ گھنگھرو زمین سے ٹکرا کر اوپر اچھلتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے پھیلے ہوئے کرہ ارض پر ایک بل کھاتا رستہ سا بنتا چلا جاتا ہے۔ جس پر وہ گھنگھرو اچھلتا کودتا چلا جا رہا ہے اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ جہاں جہاں اس گھنگھرو کی جھنکار پہنچ رہی ہے اس رستے کے دونوں جانب دور دور تک زمین سے پانی کے بلبلے ابھر رہے ہیں اور کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ گھنگھرو دوڑتا چلا جا رہا ہے، بل کھاتا رستہ بنتا چلا جا رہا ہے اور گھنگھرو کی آواز سے بلبلے اور کونپلیں سلسلہ وار ابھر رہے ہیں۔

گھنگھرو بھاگا چلا جا رہا ہے اور اس کی ٹن ٹن کی آواز سے بے آب و گیاہ کرۂ ارض آباد ہوتا جا رہا ہے۔ دور دور تک سبزہ ہی سبزہ نظر آ رہا ہے۔ بھینی بھینی خوشبو چار سو پھیلی ہے۔ ہلکی ہلکی ہوا خوشبو کو لیے ناچتی گاتی پھر رہی ہے۔ ماحول پہلے ہی سے ابر آلود تھا اور اس ابتدا اس آغاز کے وقت میں اکیلا تھا اور پہلے سے موجود تھا۔ یہ سبزہ و گل، آب و ہوا، بعد میں نمودار ہوئے اور وہ بھی ایک گھنگھرو کے اوپر سے زمین پر گرنے سے پیدا ہونے والی سریلی ٹن ٹن کی آواز سے۔

یہ وہ خیال تھا آپ اسے خواب بھی کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ مجھے کبھی کبھی ضرور گھیر لیتا ہے۔ اپنے مرزا غالب بھی اسی پریشانی میں مبتلا رہے کہ :

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ' ہوا کیا ہے؟

اور مجھے قدرت نے یہ بتلا دیا کہ یہ کرہ ارض ویرانہ تھا اور پھر ایک گھنگھرو اوپر سے گرا، جس کی مدھر آواز سے کائنات میں رنگ بکھرتے گئے۔ انسان کا اور گھنگھرو کا ساتھ اتنا ہی پرانا ہے جتنی یہ کائنات پرانی ہے۔ گھنگھرو محبت کی علامت ہے اور خدا نے یہ دنیا صرف اور صرف محبت کے لیے بنائی ہے۔ اللہ کے بندوں نے عبادت الٰہی میں بھی گھنگھرو کو شامل رکھا اور یہ آج بھی انسان کی اپنے خالق کے حضور بندگی کا ذریعہ ہے۔ آج بھی عبادت گاہوں میں گھنگھرو سجا ہوا نظر آتا ہے، گرجا گھر، مندر، سمادھی، بدھ بھکشووں کے آشرم، گھنگھرو کی ٹن ٹن ہر جگہ موجود ہے۔ صوفیا ئے کرام کے ہاں بھی گھنگھرو کو خاص مقام حاصل ہے۔ صوفیا کے مزارات پر فقیر، ملنگ آج بھی گھنگھرو کو گلے کا ہار بنائے نظر آتے ہیں۔

دنیا و مافیہا سے بے خبری حاصل کرنے کے لیے، ملنگ، بابے پیروں میں گھنگھرو باندھے محو رقص نظر آتے ہیں۔ آج کل بھی میں اسی خیال میں گم تھا کہ شاعر صابر ظفر کی نئی کتاب آ گئی ''سر بازار می رقصم''۔ اب میرے خیالات کو ''سربازار می رقصم'' آگے لے کر چلے گی۔ اس کتاب کا نام حضرت شیخ سید عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر کی طرف منسوب فارسی غزل سے مستعار لیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پوری کتاب غزل مسلسل ہے اور بحر سے لے کر قافیہ ردیف بھی وہی رکھے گئے ہیں جو شیخ عثمان مروندی کی فارسی غزل کے ہیں۔ تیرہویں صدی کے ممتاز صوفی شاعر شیخ عثمان کی شخصیت کا ظہور سندھ کے کثیر الثقافتی معاشرے میں ہوا۔ ایرانی نژاد شیخ عثمان کی عوامی شہرت لال شہباز قلندر کے طور پر ہوئی۔ لال رنگ کا لباس پہننے کی وجہ سے انھیں لال کا نام ملا۔ صوفی لفظ کی نسبت موٹے اونی کھردرے کپڑے (صوف) سے ہے۔ انھی معروضات کی روشنی میں شیخ عثمان کی غزل دیکھیے:

نمی دانم کہ آخر چوں' دم دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیش یار می رقصم
تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیر خنجر خوں خوار می رقصم
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جاں بازاں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم
خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من باجبہ و دستار می رقصم
من عثمان مروندی کہ بارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بردار می رقصم

صابر ظفر نے بہت لکھا ہے اور مختلف موضوعات پر لکھا ہے۔ یہ تمام موضوعات ہمارے آج کے معاشرے کے ہی رچے بسے کردار ہیں۔ صابر ظفر کا یہ منفرد کام اور انداز اسے آنے والے زمانوں میں بھی زندہ رکھے گا۔ ''سربازار می رقصم'' صابر کا 32 واں مجموعہ ہے اور ابھی اس کا اچھوتا سفر جاری ہے۔ صابر ظفر کی تازہ کتاب شیخ عثمان مروندی کی متذکرہ بالا غزل ہی کا متن ہے۔ صابر نے اسی غزل کی کیفیات کو اپنی تازہ کتاب میں سمویا ہے۔ بحر، قافیہ ردیف کی یکسانیت نے فضا کو ایک خاص ماحول میں باندھ رکھا ہے۔ صابر ظفر کی کتاب سے میں نے چند اشعار کا انتخاب کیا ہے، پیش خدمت ہے:

جب اس سے انگ لاگا ہے' تو مجھ کو رنگ لاگا ہے

وہ میرے سنگ جاگا ہے' جو خوشبودار می رقصم
سر درگاہ نابینا مجاور کی طرح ہوں میں
نہیں ممکن کہ مرشد کا کروں دیار می رقسم
کوئی روکے اگر' تو رقص کرنے سے نہیں رکتا
کوئی ٹوکے اگر' تو میں بصد اصرار می رقصم
میری وحشت تو میرے پاؤں ٹکنے ہی نہیں دیتی
سر خانہ' سر محفل' سر بازار می رقصم
مجھے پرواہ نہیں کیا ہے فقیہہ شہر کا فتویٰ
مجھے پرواہ نہیں کیا ہیں مرے اطوار می رقصم
ازل سے تا ابد اک سلسلہ ہے رقص کا جاری
شہادت میری دیتے ہیں کئی ادوار می رقصم
کنارے پر سجا رکھی ہے اپنی جھونپڑی میں نے
جب آجاتا ہے وہ اس پار سے اس پار می رقصم
نچایا عشق میں بلھے کو جیسے تھیا تھیا کر
اسی دھج سے بوقت جستجو یار می رقصم
نچاتا ہے مجھے تو پاؤں دونوں باندھ کر میرے
مثال ماہی بے آب' موجمدار می رقصم
یہ درویشوں کا ڈیرہ ہے' یہاں مستی کا گھیرا ہے
پہن گھنگھرو' چڑھا گھٹنوں تلک شلوار می رقصم
مرے اطراف زنجیریں چھنکتی ہیں مصائب کی
ہزار اسباب محکومی' ہزار آزار می رقصم
نظر آتی ہے موہن جو دڑو میں ناچتی لڑکی
اساطیر جہاں کے دیکھ کر آثار می رقصم

شعروں کے انتخاب کو یہیں روکتا ہوں، کیونکہ انتخاب خاصا طویل ہے اور ایک سے ایک شہر صابر ظفر کو جو لوگ قریب سے جانتے ہیں، انھیں خوب معلوم ہے کہ وہ فقیر منش اور نہایت ملائم آدمی ہے۔ زندگی نے اسے بھی خوب رگیدا ہے، ہر طرح کی مشکلات کا عذاب اس نے جھیلا ہے، مگر زندگی کا میلہ اسے بھی گزارنا تھا۔ اس کی زندگی کا رنگ ڈھنگ ہی اس کے فن میں نکھار اور ندامت کا سبب ہے۔ حبیب جالبؔ کا یہ شعر صابر ظفر کی نذر کر رہا ہوں۔

غم اٹھانے میں ہے کمال ہمیں
کر گیا فن یہ لازوال ہمیں

صابر ظفر کی تازہ ترین کتاب ہر لحاظ سے پڑھنے کے لائق ہے۔
Load Next Story