
خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع میں درجن ایسے صحافیوں کو دوران ڈیوٹی نشانہ بنادیا گیا جن کے قاتل اج تک نہیں پکڑے جاسکے جن میں مکرم خان اطف بھی ہیں جن کے قاتلوں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ پاکستان پریس فاونڈیشن کی 2017 کے رپورٹ کے مطابق 2002 سے اب تک پاکستان میں 73 صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں صرف 5 صحافیوں کے قاتلوں کو سزائے دی جاچکی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2013 بھی صحافیوں کے لیے اچھا سال ثابت نہیں ہوا اور اس دوران 6 صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
اسلام گل افریدی جو کہ قبائلی اضلاع خیبر ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں نے ایکسپریس کو بتایا کہ دہشت گردی کی وجہ سے خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا وہاں پر اس جنگ میں ایک درجن صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ صحافی اسلام گل افریدی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی لہر میں قبائلی صحافی محفوظ نہیں تھے اور وہ خود اور بہت ایسے صحافی تھے جو کہ اپنے علاقے چھوڑ کر محفوظ مقامات کو منتقل ہوگئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک قبائلی صحافی کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج تھا کہ ایک ادارے کا مو قف پیش کیا جائے جبکہ دوسرے مصلہ تنظیم کی رائے یا بیان کو پیش نہیں کیا جائے جس کے موقف لینے پر پابندی عائد کی گئی ہوں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر قبائلی صحافیوں کو اس چیلنج سے گزرنا پڑتا تھا کیونکہ ان کا ادارہ ان سے خبر کی ڈیمانڈ کرتا جس کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنی زندگی ہار جاتے تھے۔
شبقدر پولیس اسٹیشن کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر ایکسپریس کو بتایا کہ مکرم خان اطف کے کیس میں نامعلوم لوگوں کے خلاف ایف ائی ار درج کی گئی تھی جبکہ تحریک طالبان نے اس واقعے کی زمہ داری قبول کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایف ائی ار درج کی گئی تھی لیکن اس کیس میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اس حوالے سے ایکسپریس نے رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے تحت ایف ائی اے سے معلومات لینے کی درخواست کی گئی لیکن ادارے نے ابھے تک کوئی جواب نہیں دیا۔ پشاور پریس کلب کے سیکٹری ظفر خان نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پشاور پریس کلب نے صحافیوں کی فلاح و بہبود اور ان کو پیشہ ورانہ ٹریننگ کے لیے کافی جدوجہد کی ہیں اور ابھی تک درجنوں صحافیوں کو ٹریننگ دی جاچکی ہیں جو کہ اپنا کام احسن طریقے سے کررہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو اخلاقیات ، خبر کو مثبت کرنا اور اپنے خبر کو تمام زاویوں سے کور کرنے کے لیے ٹریننگ دی جاچکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک خبر میں صحافی کی جان کو خطرہ ہوں اور وہ اپنے ادارے کو اس بارے میں اطلاع دیں تو ادارہ اپنے ورکر کو کبھی بھی اجازت نہیں دے گا کہ وہ ایسی خبر فائل کریں جس سے اسکی موت واقع ہوجائے ان کا کہنا تھا کہ خبر صحافی سے اہم نہیں ۔
دوسری جانب صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے رپورٹرز ود اوٹ بارڈر کے ڈاریکٹر اقبال خٹک نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے دہشت گردی کی جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر چہ ایک درجن صحافی اس جنگ میں مارے جاچکے ہیں لیکن بہت ساروں کو موت کے اغوش میں جانے سے پہلے بچایا بھی گیا ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع کے صحافیوں کو پیشہ ورانہ ٹریننگ دی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے خبر کو مثبت طریقے سے پیش کیا۔ خیبرپختونخواہ کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت پریس کی ازادی پر یقین رکھتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت نے صحافیوں کی پروٹیکشن جب کہ بے روزگار صحافیوں کے لیے دو مہینے کی تنخواہ اور 60 سال سے اوپر صحافیوں کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا ہے جسکی منطوری کابینہ نے دی ہیں۔ انکا کہنا تھا موجودہ حکومت لائن اینڈ ارڈ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور خیبر پختونخواہ سمیت قبائلی اضلاع کے صحافیوں کو بہتر ورکنگ ماحول فراہم کررہی ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔