خبر اہم یا صحافی

موجودہ حکومت پریس کی ازادی پر یقین رکھتی ہے، شوکت یوسفزئی

موجودہ حکومت پریس کی ازادی پر یقین رکھتی ہے، شوکت یوسفزئی

مکرم خان اطف بھی ان صحافیوں میں سے ایک ہے جن کو اس بنیاد پر طالبان نے مارا کہ وہ ان کا موقف اپنے خبر میں نہیں دیتا۔ مکرم خان اطف جو کہ وائس اف امریکہ کے لیے مہمند ایجنسی سے رپورٹنگ کرتے تھے ان کو طالبان نے اس وقت نشانہ بنایا جب وہ شبقدر کے علاقے میں اپنے گھر کے نزدیک مسجد میں نماز کے لیے جارہے تھے۔ مکرم خان اطف کو 17 جنوری 2013 کو مارا گیا تھا ۔ مکرم خان اطف کے ایک قریبی رشتہ دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگرچہ مکرم خان اطف کو پہلے سے بھی دھمکیاں مل رہی تھی اور ان کے قریبی دوستوں کو معلوم تھا کہ ان کو دھمکیاں مل رہی ہیں جس پر ان کے قریبی دوستوں نے ان کو محفوظ مقام پر رہنے کا بھی مشورہ دیا تھا لیکن بقول مکرم خان اطف کے کہ موت کا ایک دن متعین ہے اور ایک دن سب کو جانا ہیں تو اس بنا پر وہ اپنا کام کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے کی طرف سے ان پر کام کے حوالے سے کوئی دباو نہیں تھا البتہ پاکستان کے قبائلی اضلاع میں جس طرح دہشت گردی کی لہر تھی جس میں کئی صحافی نشانہ بنے ان میں مکرم خان اطف بھی ایک ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موت والے دن وہ کافی پریشان لگ رہے تھے لیکن وہ چند دوستوں کے سوا کسی کو نہیں بتاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکرم خان اطف کے اگرچہ بچے نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنے ایک بھتیجے کو پالا پوسا ہیں جب کہ ادارے کی طرف سے ان کے ساتھ کافی مالی مدد کی گئی تھی اور ٹرائبل یونین اف جرنلسٹ نے بھی ان کی فیملی کو 2500000 روپوں کا امدادی چیک دیا تھا لیکن اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے ان کو کوئی مالی امداد نہیں کی گئی۔

خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع میں درجن ایسے صحافیوں کو دوران ڈیوٹی نشانہ بنادیا گیا جن کے قاتل اج تک نہیں پکڑے جاسکے جن میں مکرم خان اطف بھی ہیں جن کے قاتلوں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ پاکستان پریس فاونڈیشن کی 2017 کے رپورٹ کے مطابق 2002 سے اب تک پاکستان میں 73 صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں صرف 5 صحافیوں کے قاتلوں کو سزائے دی جاچکی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2013 بھی صحافیوں کے لیے اچھا سال ثابت نہیں ہوا اور اس دوران 6 صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا۔


اسلام گل افریدی جو کہ قبائلی اضلاع خیبر ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں نے ایکسپریس کو بتایا کہ دہشت گردی کی وجہ سے خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا وہاں پر اس جنگ میں ایک درجن صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ صحافی اسلام گل افریدی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی لہر میں قبائلی صحافی محفوظ نہیں تھے اور وہ خود اور بہت ایسے صحافی تھے جو کہ اپنے علاقے چھوڑ کر محفوظ مقامات کو منتقل ہوگئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک قبائلی صحافی کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج تھا کہ ایک ادارے کا مو قف پیش کیا جائے جبکہ دوسرے مصلہ تنظیم کی رائے یا بیان کو پیش نہیں کیا جائے جس کے موقف لینے پر پابندی عائد کی گئی ہوں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر قبائلی صحافیوں کو اس چیلنج سے گزرنا پڑتا تھا کیونکہ ان کا ادارہ ان سے خبر کی ڈیمانڈ کرتا جس کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنی زندگی ہار جاتے تھے۔

شبقدر پولیس اسٹیشن کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر ایکسپریس کو بتایا کہ مکرم خان اطف کے کیس میں نامعلوم لوگوں کے خلاف ایف ائی ار درج کی گئی تھی جبکہ تحریک طالبان نے اس واقعے کی زمہ داری قبول کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایف ائی ار درج کی گئی تھی لیکن اس کیس میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اس حوالے سے ایکسپریس نے رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے تحت ایف ائی اے سے معلومات لینے کی درخواست کی گئی لیکن ادارے نے ابھے تک کوئی جواب نہیں دیا۔ پشاور پریس کلب کے سیکٹری ظفر خان نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پشاور پریس کلب نے صحافیوں کی فلاح و بہبود اور ان کو پیشہ ورانہ ٹریننگ کے لیے کافی جدوجہد کی ہیں اور ابھی تک درجنوں صحافیوں کو ٹریننگ دی جاچکی ہیں جو کہ اپنا کام احسن طریقے سے کررہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو اخلاقیات ، خبر کو مثبت کرنا اور اپنے خبر کو تمام زاویوں سے کور کرنے کے لیے ٹریننگ دی جاچکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک خبر میں صحافی کی جان کو خطرہ ہوں اور وہ اپنے ادارے کو اس بارے میں اطلاع دیں تو ادارہ اپنے ورکر کو کبھی بھی اجازت نہیں دے گا کہ وہ ایسی خبر فائل کریں جس سے اسکی موت واقع ہوجائے ان کا کہنا تھا کہ خبر صحافی سے اہم نہیں ۔

دوسری جانب صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے رپورٹرز ود اوٹ بارڈر کے ڈاریکٹر اقبال خٹک نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے دہشت گردی کی جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر چہ ایک درجن صحافی اس جنگ میں مارے جاچکے ہیں لیکن بہت ساروں کو موت کے اغوش میں جانے سے پہلے بچایا بھی گیا ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع کے صحافیوں کو پیشہ ورانہ ٹریننگ دی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے خبر کو مثبت طریقے سے پیش کیا۔ خیبرپختونخواہ کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت پریس کی ازادی پر یقین رکھتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت نے صحافیوں کی پروٹیکشن جب کہ بے روزگار صحافیوں کے لیے دو مہینے کی تنخواہ اور 60 سال سے اوپر صحافیوں کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا ہے جسکی منطوری کابینہ نے دی ہیں۔ انکا کہنا تھا موجودہ حکومت لائن اینڈ ارڈ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور خیبر پختونخواہ سمیت قبائلی اضلاع کے صحافیوں کو بہتر ورکنگ ماحول فراہم کررہی ہیں۔
Load Next Story