پاکستانیوں کے دکھ

کوئی سروے کرنے والا نہیں کہ خاکروب کام کر بھی رہے ہیں یا نہیں اور اگر کام کر رہے ہیں

nasim.anjum27@gmail.com

اچھی صحت کے لیے صفائی کا ہونا ضروری ہے لیکن ہمارے شہر کراچی اور پاکستان کے بے شمار شہری نصف ایمان سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ اس بات سے ہر پڑھا لکھا انسان واقف ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب کراچی جیسا بڑا شہر جسے منی پاکستان کہا جاتا ہے اور امارت دبئی کے برابر سمجھا جاتا ہے، اس شہر کا حال صفائی کے اعتبار سے ابتر ہو چکا ہے، جگہ جگہ کچرا کنڈی، کچرے اور غلاظت سے بھری نظر آتی ہیں، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر قدم قدم پر موجود ہیں، بلدیہ اور کنٹونمنٹ کے ملازمین اپنے فرائض سے غافل ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں، وہ آزاد ہیں، وہ چاہیں تو شاہراہوں، سڑکوں اور گلیوں کی جھاڑو دیں یا نہ دیں، اگر اتفاق سے ہفتے میں ایک دو بار یہ فرض انجام دے ہی لیا تو محنت سے بچنے کے لیے کچرے کی ڈھیریاں مختلف مقامات پر لگا دیتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سرپھری ہوا اس کچرے کو لمحے بھر میں دوبارہ بکھیر دیتی ہے، اس طرح نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جھاڑو دینا یا نہ دینا برابر ہو جاتا ہے۔ ہر طرف نائیلون کی تھیلیاں، کاغذ، سڑکوں اور محلوں میں گشت کر رہے ہوتے ہیں۔

کوئی سروے کرنے والا نہیں کہ خاکروب کام کر بھی رہے ہیں یا نہیں اور اگر کام کر رہے ہیں تو کس طرح؟ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہر شخص اپنی ذمے داری بھول چکا ہے۔ انتظامیہ اور افسران بالا کو فکر ہی نہیں کہ جس منصب پر وہ موجود ہیں اس کی کچھ ذمے داریاں بھی ہوتی ہیں اور ان ذمے داریوں کی مد میں جو انھیں تنخواہیں ملتی ہیں انھیں حلال کرنا بھی ضروری ہوتا ہے، حرام مال تو ویسے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ ہر لحاظ سے خسارہ ہی خسارہ ہے۔ اس پہلو پر بھی غور و فکر کی ضرورت ہے۔

شہر کئی سال سے لاوارث بن چکا ہے۔ یہ صورت آج سے نہیں بلکہ گزشتہ پانچ چھ سال سے ہے۔ حکومت بدل گئی لیکن حالات نہیں بدلے۔ لے دے کر کسر برسات نے پوری کر دی ہے۔ حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور جس قدر تباہی بارشوں سے ہوئی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ جانی و مالی نقصان نے لوگوں کے اوسان خطا کر دیے اور وہ حیران رہ گئے کہ یہ سیلاب کہاں سے آ گیا۔ اگر حفاظتی اقدام بہتر انداز میں کیے جاتے تو کم ازکم اتنی اموات نہیں ہوتیں اور نہ ہی ساز و سامان اور املاک کی تباہی کا دکھ ہوتا۔

بارشیں تو ختم ہو گئی ہیں لیکن بہت ساری بیماریاں اور ذہنی تکلیف جیتے جی انسانوں کے لیے چھوڑ گئی ہیں کہ وہ بھگتیں۔ یہ حال کراچی کا ہی نہیں ہے اس سے بدتر حال اندرون سندھ کا ہے۔ کوئٹہ میں بھی غلاظت اور کوڑے کرکٹ نے شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔ شہر میں صفائی کی ناقص صورت حال کوئٹہ کے مکینوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔

میٹروپولیٹن کارپوریشن کی کارکردگی صفر سے بھی نیچے گر گئی ہے۔ صفائی کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن زبانی یا تحریری عمل بالکل نہیں ہوتا ہے۔ صفائی کرنے والے نہ گلی کوچوں کی نالیاں صاف کرتے ہیں، نہ کچرا اٹھاتے ہیں۔ نالیوں میں مٹی اور غلاظت بھرنے کے بعد پانی باہر سڑکوں اور راستوں پر بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ کوئٹہ شہر میں اسٹریٹ لائٹس کا بھی مسئلہ ہے، کوئٹہ کے شہریوں کو لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ اسٹریٹ لائٹس کی بندش کئی سال پر محیط ہے کوئی اس پر توجہ نہیں دیتا۔


ایسا ہی حال پاکستان کے دوسرے دیہاتوں اور شہروں کا ہے، جہاں اعلیٰ افسران، صوبائی وزراء اپنی ذمے داریوں سے چشم برآ نظر آتے ہیں۔ ان کی مسائل سے لاتعلقی کی بنا پر بہت خطرناک بیماریاں جنم لے چکی ہیں۔ چند ماہ قبل نیگلیریا کا چرچا تھا، یہ خراب پانی اور کلورین نہ ڈالنے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ مریض بہت جلد موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس بیماری میں مبتلا ہو کر کئی لوگ جان کی بازی ہار گئے۔ آلودہ پانی شہریوں کی صحت کا دشمن ہے۔ ماحولیاتی آلودگی نے بے شمار بیماریوں کو جنم دیا ہے۔

وہ شہری جن کے پاس کھانے پینے کے لیے رقم نہیں، وہ اپنے بچوں کا اور اپنا کس طرح علاج کریں؟ ان حالات میں یہ ہوا کہ ڈائیریا کی وبا پھیل گئی اور سندھ میں ایک اندازے کے مطابق 24 ہزار افراد متاثر ہوئے، سرکاری اسپتالوں میں 4 ہزار بچے، 8 ہزار خواتین زیر علاج ہیں، ڈائیریا، گیسٹرو اور ہیضے کی بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ یہ عذاب نما بیماریاں گندگی، مکھیوں اور مچھروں کی یلغار سے پیدا ہوتی ہیں۔ بات ادھر ہی ختم نہیں ہو جاتی ہے بلکہ حشرات الارض تک پہنچتی ہے۔ طرح طرح کے اڑنے والے کیڑے بھی لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اتنی تکلیف پہنچاتے ہیں کہ مریض کو ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔آج کل پھر ڈینگی وائرس نے سر اٹھایا ہے اور اچھے خاصے تندرست و توانا افراد کو موت کے چنگل میں اٹھا کر پھینک دیا ہے۔ تیزی سے یہ مرض پھیل رہا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں پلیٹ لیٹس فراہم نہیں کیے جا رہے ہیں اور نہ ہی جراثیم کش ادویات کی اسپرے مہم شروع کی گئی۔ افسوس کا مقام ہے کہ رواں سال میں 24 مریض اجل کا نشانہ بنے، بخار میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں ڈینگی وائرس کا سیزن اپنی شدت سے پھیل رہا ہے، کراچی میں ڈینگی وائرس دسمبر تک شدت اختیار کر لیتا ہے۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ مختلف طبی اداروں میں ادویات کی کمی اور خاتمے کے باعث مریضوں کی جان مشکل میں پڑ گئی ہے اور وہ آہستہ آہستہ موت کی راہ پر سفر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے دو مراکز ایسے ہیں جہاں ادویہ ختم ہو چکی ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے 30 ہزار مریضوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے، کراچی سمیت پورے سندھ کے مراکز میں انٹرفیرون انجکشن کا اسٹاک ختم ہو گیا ہے۔ ایک طرف دوائیں نہیں ہیں، ڈاکٹر ہڑتالوں پر چلے جاتے ہیں تو دوسری طرف جعلی ادویات بازار میں دھڑلے سے فروخت ہو رہی ہیں، جن کے استعمال سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ جرائم پیشہ افراد کبھی گرفت میں نہیں آتے ہیں اگر اتفاق سے گرفتار کر بھی لیے جائیں تو اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر جلد ہی چھوٹ جاتے ہیں۔

موجودہ حالات و واقعات کے بعد اس بات کا اندازہ ذرا مشکل ہی سے ہوتا ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟ اصلی کون سی چیز ہے اور نقلی کون سی؟ کھانے پینے کی اشیاء میں بھی ملاوٹ کرنا معمول کا کام بن گیا ہے۔ ان دنوں روسی آٹے کے نمونوں کو تاجروں نے غیر معیاری قرار دے دیا ہے چونکہ یہ آٹا صحت کے لیے ناقص ہے۔ اس سرخی مائل آٹے کی روٹی پکنے کے بعد سخت ہو جاتی ہے۔

پاکستان اور پاکستانیوں کو اپنے لوگ بھی نقصان پہنچا رہے ہیں اور ایرے غیر بھی ان کی صحت اور جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ گزشتہ برس کی بات ہے جب آسٹریلیا نے بیمار بھیڑیں پاکستان کو فروخت کر دی تھیں، بعد میں بے چارے پاکستانی انھیں تلف کرتے رہے۔ ڈرون و دستی بم اور خودکش حملوں نے الگ پاکستان کی فضا کو زہر آلود کر رکھا ہے۔ اس گھٹے ہوئے اور غمزدہ ماحول نے لوگوں کی خوشی چھین لی ہے۔ ساتھ میں کچرا کنڈیوں سے غلاظت اور اس کی بو نے سانس لینا مشکل کر دیا ہے۔ پہلے شہر کراچی خوشبوؤں سے بسا ہوا اور روشنیوں سے جگمگاتا تھا مگر آج ہر سڑک اور گلی میں خون کے دھبے اور تعفن پھیلی ہوئی ہے۔ وزیر بلدیات نے شہر میں صفائی کرنے کی ہدایت بھی کی ہے، لیکن شہر کا حال جوں کا توں ہے۔
Load Next Story